صرف نیب قوانین ؟

ترمیم کا فیصلہ کر ہی لیا گیا ہے تو یہ کار خیرصرف نیب قوانین تک محدود کیوں ؟ ہمارا توپورا ڈھانچہ ہی نظر ثانی کا محتاج ہے ۔

فوجداری معاملات میں تعزیرات پاکستان کو بنیادی حیثیت حاصل ہے ۔ کیا آپ کو معلوم ہے تعزیرات پاکستان کے نام پر جو مجموعہ قانون وطن عزیز میں رائج ہے وہ کتنے سال پرانا ہے ؟ آپ کو حیرت ہو گی کہ یہ ایک سو اٹھاون سال پرانا ہے ۔ جی ہاں صرف ایک سو اٹھاون سال پرانا ۔ یہ قانون 6 ستمبر 1860 کو لاگو ہوا اور ابھی تک ہمارے گلے میں غلامی کے طوق کی طرح لٹکا ہوا ہے۔ اس میں کچھ ترامیم واضافہ تو ہوا لیکن انتہائی معمولی ۔ ہم صدیوں پرانے اس قانون سے آج کے دور مین لوگوں کی دہلیز تک انصاف پہنچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

فوجداری قانون ہی کا ایک پروسیجر ہے۔ اسے مجموعہ ضابطہ فوجداری یعنی سی آر پی سی کہتے ہیں ۔ فوجداری مقدمات اس کی روشنی میں آگے بڑھتے ہیں اور اس کے تحت معاملات کو دیکھا جاتا ہے۔ کیس کیسے چلے گا ، ملزم کے ساتھ کیسے معاملہ ہو گا ، فیصلہ کن کن مراحل سے گزر کر آئے گا ، اپیل وغیرہ کب اور کیسے ہو گی ، اس طرح کے جتنے بھی پروسیجر کے معاملات ہیں وہ اسی قانون کی روشنی میں طے پاتے ہیں ۔ کیا آپ کو معلوم ہے اتنے اہم قانون کو نافذ ہوئے کتنا عرصہ بیت چکا ہے۔پڑھیے اور سر پیٹ لیجیے ، صرف ایک سو بیس سال ۔ جی ہاں صرف ایک سو بیس سال ۔ یہ قانون 1898 میں نافذ ہوا اور وطن عزیز میں آج تک رائج ہے ۔ ایک سو بیس سال مین دنیا ادھر کی ادھر ہو گئی اور سماج کے تصورات تک بدل گئے لیکن ہم ابھی تک اس قانون کے تحت معاملات چلا رہے ہیں۔

دیوانی مقدمات کے معاملات جس قانون کے تحت چلائے جاتے ہیں اسے ضابطہ دیوانی کہتے ہیں ۔ کیا آپ کو معلوم ہے یہ کتنے سال پرانا ہے؟ صرف ایک سو دس سال ۔ جی ہاں صرف ایک سو دس سال ۔ یہ اکیس مارچ1908 کو نافذ ہوا اور آج تک دیوانی مقدمات کی گتھیاں ہم صدی پرانے اس قانون کے تحت سلجھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ، معاملات کی نوعیت اور شکلیں تک بدل گئیں لیکن ہم ایک سو دس سالہ پرانے قانون نے دیوانی مقدمات کے فیصلے کرانے پر تلے بیٹھے ہیں۔

شیخ رشید نے ابھی پریس کانفرنس کی ہے۔ وہ وزیر ریلوے ہیں ۔ کیا آپ کو معلوم ہے یہ ریلوے وطن عزیز میں کس قانون کے تحت چل رہی ہے اور وہ کتنا پرانا ہے؟ اس قانون کا نام ہے ریلویز ایکٹ اور یہ صرف ایک سو اٹھائیس سال پرانا ہے۔ یہ قانون 1890 میں بنایا گیا اور ہم نے پارلیمان میں بیٹھ کر چونکہ دنیا کا ہر کام کرنا ہے ، لڑنا ہے جھگڑنا ہے ، گالیاں دینی ہیں ، جعلی حاضریاں لگانی ہیں لیکن قانون سازی نہیں کرنی اس لیے آج بھی ہم ریلوے کو اسی سو اٹھائیس سال پرانے قانون کے تحت چلا رہے ہیں۔

شیخ رشید نے اسی پریس کانفرنس میں کہا کہ بچوں کے خلاف تو ہم کارروائی نہیں کریں گے کیونکہ میڈیا شور مچائے گا لیکن اب اگر کوئی بچہ ریلوے ٹریک کے آس پاس کھیلتا پایا گیا تو اس کے والدین کے خلاف کارروائی ہو گی ۔ اس سے مجھے اپنے ایک جج دوست یاد آگئے۔ ان کی عدالت میں چھوٹے چھوٹے بچے پیش کیے گئے جن پر الزام تھا کہ جب ان بچوں کو ریلوے ٹریک کے پاس کھیلنے سے منع کیا گیا تو انہوں نے جواب میں ٹریک پر پڑی کنکریاں اٹھا کر گارڈز کی طرف پھینکیں جو گارڈ کو لگنے کی بجائے وہاں کھڑی ریل گاڑی سے ٹکرائیں ۔

میرا دوست بتاتا ہے کہ جب میں نے ریلویز ایکٹ کھولا تو میں ششدر رہ گیا ۔ اس کی دفعہ 127 کے تحت ان بچوں کی سزا اب یا موت تھی یا عمر قید ۔ انگریز ایک قانون بنا گیا تھا۔اس وقت مخصوص حالات تھے۔ اس نے قانون بنا دیا کہ جو ریل پر پتھر پھینکے گا سزائے موت یا عمر قید کی سزا پائے گا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کیں میں ضروری نہیں کہ پتھر یا کنکر اچھالنے والے کی نیت بھی کسی کو نقصان پہنچانے کی ہو بس اگر وہ جانتا ہے کہ اس سے نقصان ہو گا تو وہ سزائے موت یا عمر قید کا مستحق ہے۔

اب بچوں نے کنکریاں بھلے زرارت سے پھینکی ہوں اور ان کا مقصد کسی کو نقصان پہنچانا نہ ہو لیکن یہ تو انہیں معلوم ہی نہ تھا کہ ان سے نقصان ہو سکتا ہے۔جج صاحب خدا ترس انسان تھے ، انہوں نے پولیس کو بلایا ، سمجھایا اور انہیں کہا ان بچوں کو بیگناہ قرار دے کر ان کی جان چھوڑ دو ۔غلامی کے دور میں آقا غلاموں کے لیے ایسے ہی قانون بناتے ہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ریلویز ایکٹ اور اس کی دفعہ 127 آج بھی موجود ہے۔

دنیا ترقی کر گئی ، جدید ٹیکنالوجی آ گئی لیکن ہم نے صدیوں پرانے قوانین کے ذریعے چلنا ہے۔ اس سے معاملات کیسے مضحکہ خیز ہو جاتے ہیں اس کی ایک مثال آپ کو ذاتی حوالے سے دیتا ہوں ۔ میرے ایک کالم پر میرے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ قائم ہو گیا ۔ ڈسٹرکٹ جج کی عدالت سے میں یہ مقدمہ جیت گیا ۔ دوسرا فریق میرے خلاف اور اخبار کے مدیر کے خلاف ہائی کورٹ چلا گیا ۔ اب مقدمے کی ترتیب یوں ہوتی ہے جب وہ عدالت کے سامنے پیش ہوتا ہے تو دوسرے فریق کو سمن کیا جاتا ہے یعنی طلب کیا جاتا ہے کہ آپ کے خلاف یہ مقدمہ ہے پیش ہو کر اس کا دفاع کیجیے ۔ یہ پہلا قدم ہوتا ہے۔

آپ کو یہ سن کر حیرانی ہو گی کہ سات سال گزر گئے لیکن میرے ساتھ جو مدیر تھے انہیں با ضابطہ طریقے سے سمن تک ’ سرو‘ نہ ہو سکے یعنی سات سالوں میں انہیں یہ تک نہ بتایا جا سکا کہ عدالت آئیے تا کہ مقدمے کی کارروائی شروع ہو۔ نوٹس جاتے اور واپس آ جاتے کہ صاحب وہاں موجود نہیں ۔ نوٹس چونکہ صدیوں پرانے قانون کے تحت ہی جانے تھے، وہ فون یا واٹس ایپ کے ذریعے نہیں جاتے ، اس لیے وہ سات سالوں میں منزل مقصود تک نہ پہنچ سکے۔

آج جناب فواد چودھری نے کہا حکومت نیب کے قوانین میں ترمیم کرنا چاہتی ہے تو خوشی ہوئی ۔ نیب کے قوانین اتنے فرسودہ ہیں کہ خود سپریم کورٹ نے اپنے فیصلوں میں رہنمائی کر رکھی ہے کہ انہیں تبدیل کیجیے ۔ اسفند یار ولی کیس تو اس معاملے میں رہنما اصول وضع کرتا ہے ۔ چیئر مین نیب کی تعیناتی کے طریق کار پر بھی سپریم کورٹ نے تین فیصلوں میں نقد کیا اور ایک متبادل طریقہ تجویز کیا ۔ نیب کے ملزم کو نیب قانون کے تحت ضمانت کا حق حاصل نہیں ۔ سہریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود کسی نے اس قانون کو تبدیل کرنے کی زحمت نہیں کی اور اعلی عدالتوں نے درخواست ضمانت کی بجائے رٹ پیٹیشن کی شکل میں یہ ریلیف دے کر اس خامی کو دور کیا ۔

لیکن حکومتوں کو کوئی پرواہ نہیں ۔ پلی بارگین بذات خود ایک متنازعہ تصور ہے ۔ چیئر میں نیب کے صوابدیدی اختیارات پر بھی بات ہونی چاہیے ۔ کسی پر مقدمہ قائم ہوتے ہی نیب اسے گرفتار کر لیتی ہے تو کسی کو سزا ہونے کے بعد گرفتار کیا جاتا ہے اور وہ دوران مقدمہ آزاد رہتا ہے۔ جسے نیب چاہتی ہے پکڑ لیتی ہے جسے چاہتی ہے نہیں پکڑتی ۔ یہ تمام چیزیں صوابدید کی ہیں ۔ یہ صوابدید کم سے کم ہونی چاہیے اور قانون بہت واضح ہونا چاہیے تا کہ کسی کو امتیازی سلوک کی شکایت نہ ہو۔

نظر ثانی کا نیک کام کر ہی رہے ہیں تو صرف نیب تک محدود نہ رہیے ، تمام قوانین آپ کی توجہ چاہتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے