پاکستان کی نیک نامی کے لئے تین طریقے

دنیا کی نظروں میں ہمارا ملک ایسے ہی مشکوک ہے جیسے ہم سب ایک دوسرے کی نظروں میں مشکوک ہیں، کوئی اچھی خبر دنیا کو ہم سے نہیں ملتی، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم جتنی بھی کامیابیاں حاصل کر لیں دنیا یہی سمجھتی ہے کہ یہ آگ ہماری لگائی ہوئی تھی سو بجھانا بھی ہمارا کام ہے، اسی طرح دنیا والے اس بات پر بھی حیران ہوتے ہیں کہ آخر ہم اپنے ہی شہریوں کو ملنے والے نوبیل انعام پر تبرّا کیوں بھیجتے رہتے ہیںاِن کی پذیرائی کیوں نہیں کرتے اور اقلیتوں سے جس قسم کا سلوک ہمارے ملک میں ہوتا ہے وہ تو خیر غیر ملکی میڈیا کو بہت ہی کھلتا ہے جس کی وجہ سے ہم اکثر اُن کی شہ سُرخیوں میں بھی رہتے ہیں ۔

اس کے برعکس بھارت کی شہرت ہم سے بہتر ہے، دنیا کے کسی کونے میں نکل جائیں آپ کو وہاں بھارتی اداکاروں کے پرستار مل جائیں گے، ضروری نہیں کہ یہ ہندی بولنے والے ہی ہوں، یہ وسط ایشیائی ریاستوں سے بھی ہو سکتے ہیں اور ملائیشیا میں بھی، کوئی بھی کشمیر میں برپا کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں نہیں جانتا البتہ شاہ رُخ خان اور Quanticoکی پرینکا چوپڑا کو سب جانتے ہیں، اُن کی نظروں میں بھارت وہی ہے جو بولی ووڈ کی فلموں میں نظر آتا ہے جس میں لڑکے لڑکیاں نیکر پہن کر ممبئی کے کالجوں میں مستیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔

خیر ہمیں بھارت سے کیا لینا، خود ہم نے گزشتہ تین چاردہائیوں میں جو حرکتیں کی ہیں اُس کے بعد دنیا کی نظروں میں اپنی ساکھ بہتر بنانا ایسے ہی ہے جیسے کوئی جعل ساز خود کو پارسا ظاہر کرنے کے لئے داڑھی رکھ لے۔ لیکن کافی عرصے سے ہم چونکہ تائب ہو چکے ہیں اور اس بات کا اعاد ہ بھی کر چکے ہیں کہ آئندہ ہم وہ حرکتیں نہیں کریں گے سو اب ہم اپنی شہرت کے حوالے سے کم از کم تین ایسے کام ضرور کرسکتے ہیں جس کے بعد دنیا کی نظرو ں میں ہماری ریپوٹیشن بہتر ہو سکتی ہے۔

وسطی یورپ کا ایک ملک ہے، نام ہے کروشیا، کُل رقبہ چھپن ہزار مربع کلومیٹر اور آبادی اکتالیس لاکھ، امسال فٹ بال کے فائنل میں فرانس کے مد مقابل تھا، پوری دنیا میں اس بالشت بھر کے ملک کی شہرت فقط فٹ بال کی وجہ سے ایسی ہے کہ کئی دیوقامت ملک اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ فٹ بال دو سو ممالک میں کھیلا جاتا ہے، پچیس کروڑ لوگ کھیلتے ہیں، تین چوتھائی سے زیادہ دنیا اس کھیل کی دیوانی ہے۔ ہماری آبادی بائیس کروڑ ہے، رقبہ آٹھ لاکھ مربع کلومیٹر سے اوپر اور حال یہ ہے کہ اکتوبر 2017میں فیفا نے پاکستان کی رکنیت معطل کر دی تھی جو مارچ 2018میں بحال کی گئی،گزشتہ ماہ پاکستان نے سیف گیمز میں شرکت کی، بمشکل سیمی فائنل میں پہنچا جہاں ہمیں بھارت سے تین کے مقابلے میں ایک گول سے شکست ہوئی ۔ جی ہاں اب وہی رونا رویا جائے گا کہ ہمار ے ہاں میدان نہیں ہیں، کھلاڑیوں کو پیسے نہیں دئیے جاتے، فٹ بال فیڈریشن میں کرپشن ہے، اقربا پروری ہے، ورنہ ٹیلنٹ تو اتنا ہے کہ اُبل کر باہر آ جاتا ہے ۔….

ناکامی کا جواز کچھ نہیں ہوتا، جن ممالک نے فٹ بال کے عالمی کپ کے لئے کوالیفائی کیا اُن میں سے کئی ہم جیسے بلکہ ہم سے بھی گئے گزرے تھے، ایک دو میں تو خانہ جنگی ہو رہی ہے، باقیوں کا حال بھی کرپشن میں ہم جیسا ہے، کھیل کے میدان بھی خال خال ہیں، مگر اُن ممالک نے نہ صرف ورلڈ کپ کے لئے کوالیفائی کیا بلکہ ایک دو میچ بھی جیتے، ادھر ہمارا حال یہ ہے کہ ساری توجہ، پیسہ اور سہولیات کرکٹ کے لئے ہیں جو ڈیڑھ دو درجن ملکوں میں کھیلی جاتی ہے، فٹ بال جو پوری دنیا میں کھیلا جاتا ہے اسے ہمارے ملک میں کوئی نہیں پوچھتا، کسی اسکول کالج میں فٹ بال کی ٹیمیں ہیں اور نہ ہی کوئی مقابلے ہوتے ہیں (شاید کسی بھی کھیل کے مقابلے نہیں ہوتے)، اگر کسی کو فٹ بال کا شوق ہے تو اسے کچھ پتہ نہیں کہ اسے کہاں جانا ہے، کہاں کھیلنا ہے، کس سے رابطہ کرنا، جبکہ دنیا اِس کی دیوانی ہے،یہ وہ کھیل ہے جو دنیا کی نظروں میں ہماری شہرت بہتر کر سکتا ہے۔

بھارت میں ہر سال مختلف زبانوں میں سولہ سو سے زائد فلمیں بنتی ہیں، ان فلموں کی فروخت ہونے والی ٹکٹوں کی سالانہ تعداد قریباً ساڑھے تین ارب ہے جو ہالی ووڈ سے بھی زیادہ ہے،2015میں باکس آفس پر بھارتی فلموں نے دو ارب ڈالر سے زائد کا کاروبار کیا جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ اس کے مقابلے میں ہماری فلم انڈسٹری کی اوقات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، ہم سال بھر میں اتنی فلمیں بناتے ہیں جتنی کسی زمانے میںہم دو عیدوں پر ریلیز کیا کرتے تھے، ہمارے اسٹوڈیوز میں الّو بول رہے ہیں، وہاں گودام بن چکے ہیں اور لاہور اور کراچی کے تاریخی سینما گھر کھنڈر میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ جی اب وقت ہوا چاہتا ہے ہماری فلم انڈسٹری کے احیا کا راگ الاپنے کا۔ درست ہے کہ ہم نے کچھ اسکرینیں بڑے شہروں میں لگا لی ہیں جہاں پوش علاقوں کے بچے چھچھوروں کے غل غپاڑے سے محفوظ رہ کر فلمیں دیکھ سکتے ہیں اور حال میں چند فلمیں بھی ایسی آئی ہیں جن کی وجہ سے ہمیں کچھ حوصلہ پیدا ہوا ہے مگر ہنوز دلّی دور است۔

بالی ووڈ نے دنیا کو بھارت کا ایسا چہرہ دکھایا ہے کہ دنیا اب بھارت کو اس کی فلموں جیسا ہی سمجھتی ہے، سولہ سو فلموں میں سے دیکھنے والی فلمیں بمشکل دس بارہ ہی ہوتی ہیں مگر ان فلموں کا پھیلاؤ اب پوری دنیا میں ایسا ہے کہ جو کام بھارت کا محکمہ خارجہ نہیں کر سکتا وہ عامر خان کی ’’دنگل‘‘، ٹوئنکل کھنہ کی ’’پیڈ مین‘‘ اور نواز الدین صدیقی کی ’’مانجی‘‘ کر دکھاتی ہے۔سو، فٹ بال کے بعد یہ دوسرا کام ہے جو ہمیں کرنا، لیکن مجھے یقین کامل ہے کہ اس کام پر کسی کی توجہ تھی، نہ ہے اور نہ آئندہ ہوگی! شعیب منصور، سرمد کھوسٹ اور احسن رحیم وغیرہ اپنی سی کاوش کرتے رہیں گے کیونکہ بقول غلام محمد قاصر

کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام

مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا

اپنی شہرت بہتر بنانے کے لئے تیسرا کام بھی ایسا ہے جس کے ہونے کے دور دور تک کوئی امکانات نظر نہیں آتے مگر بتانے میں کیا حرج ہے! ہر سال ادب کا نوبیل انعام دیا جاتا ہے، گزشتہ چند برسوں میں جن غیر ملکی ادیبوں کو یہ انعام دیا گیا اُن کی تحریروں کا ترجمہ میں نے پڑھا (بلکہ پڑھنے کی کوشش کی )، خدا جانتا ہے کہ اُن میں سے کوئی ایک بھی ادیب قرۃالعین حیدر، منٹو، غلام عباس، مشتاق یوسفی اور ہمارے کئی دوسرے ادیبوں کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتا، مگر بد قسمتی سے دنیا ہمار ے اِن ادیبوں کو نہیں جانتی، وجوہات بے شمار ہیں، ایک سیدھی وجہ تو ان ادبا کے کام کا انگریزی اور دیگر زبانوں میں تراجم کا نہ ہونا ہے، حال ہی میں منٹو کے چند افسانوں کا ترجمہ عامر رضوی نے کیا جو میری نظر سے گزرا، عمدہ کاوش ہے

مگر یہ کافی نہیں، جب دنیا کو یہ علم ہی نہیں ہوگا کہ اردو میں ہمارے ہاں کیا کام ہوا تو کیسے کوئی ادب کے نوبیل انعام کا اہل ٹھہرے گا! دنیا میں ڈنکا ادب کے نوبل انعام کا بجتا ہے، اس ایک انعام سے ملک کی ایسی شہرت چار دانگ عالم پھیلتی ہے کہ ہماری کالک دھُل سکتی ہے، مگر مجھے یقین ہے کہ ہمارے ادیب ایسے ہی ٹکے ٹوکری ہوتے رہیں گے اور ادب کا نوبیل انعام تو کیا کوئی بھی ڈھنگ کا انعام ہمارے حصے میں اُس وقت تک نہیں آئے گا جب تک ہم یہ بات تسلیم نہیں کریں گے کہ ہمیں اپنی ریپوٹیشن بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ باقی رہے نام اللہ کا، زندگی تو گزر ہی جائے گی!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے