ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے!

آخر کار سعودی حکومت نے جمال خشوقجی کے اپنے قونصل خانے میں کیے جانے والے قتل کا اعتراف کر ہی لیا۔ یہ قتل نہایت بھیانک طریقے سے کیا گیا۔ آوازوں کو قتل کرنے کے لیے ہمیشہ بھیانک طریقے ہی استعمال کیے جاتے ہیں۔ ایک کروفر اور جاہ و جلال والی حکومت کو ایک 60 سال کے صحافی سے کیا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے؟

جمال خوشقجی کا آخری کالم بھی آج ہی پڑھا۔ اس کالم کا لبِ لباب بھی یہ ہی تھا کہ مت قتل کرو آوازوں کو۔ مجھے کوشش کے باوجود اس میں کوئی بات ایسی نظر نہ آئی جس سے کسی عظیم الشان مملکت کو کسی بھی قسم کا خطرہ ہو۔ مبینہ طور پر 15 افراد سعودی عرب سے ترکی آئے، جن میں ایک فرانزک ڈاکٹر بھی تھا۔ ان کے پاس ایک آری یا چین سا بھی تھا۔

مبینہ طور پر جمال کو مار کے یا زندہ ہی اس کے ٹکڑے کیے گئے اور دو ہفتے تک لگا تار جھوٹ بولا گیا۔ جب سچ کسی بھی طرح نہ چھپ سکا تو اب اس حادثے کی ذمہ داری کسی پہ ڈالنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ آنے والے دنوں میں حقائق یا مبینہ حقائق سامنے آ ہی جائیں گے۔

عجیب اتفاق ہے کہ ملکِ عزیز میں بھی کچھ ایسا ہی زبان بندی کا موسم چل رہا ہے۔ صحافیوں، ادیبوں، شاعروں کی کھال اتارنے اور انھیں اذیتیں دے کر مارنے اور غائب کرنے کی روایت نہ تو نئی ہے اور نہ انوکھی۔ لفظوں سے ڈرتے ہیں، وہ سب لوگ جو جانتے ہیں کہ لفظ روشنی ہیں اور وہ اس روشنی سے خائف ہیں۔ کیوں خائف ہیں؟ کیونکہ اس روشنی میں ان کے خدو خال واضح ہو جائیں گے۔

بچپن میں اسلامیات پڑھتے ہوئے بار بار سوال ذہن میں آتا تھا کہ کفارِ مکہ صرف ایک لفظ ’احد‘ سے کیوں ڈرتے تھے؟ اللہ ایک ہے کہنے پہ اس قدر چراغ پا کیوں ہوتے تھے؟ اللہ تو ایک ہی ہے۔ تب کسی دل جلے استاد نے سمجھایا تھا کہ سٹیٹس کو، ہمیشہ ڈرپوک ہوتا ہے اسی لیے ظلم کا سہارا لیتا ہے۔ لیکن انقلاب آ کے رہتا ہے اور پھر اس انقلاب کے ثمرات سمیٹنے کو سب سے آگے سٹیٹس کو ہی کھڑا ہوتا ہے۔

یہ فارمولا تاریخ میں بار بار دہرایا گیا۔ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں تو اتنی بار دہرایا گیا کہ اب تو حیرت ہوتی ہے کہ ہمارا سٹیٹس کو اتنا بے وقوف کیوں ہے؟ سنہ 1971 کی جنگ کی رپورٹنگ میں جو جھوٹ بولے گئے تھے، سنہ 1997 کی درسی کتابوں میں ان کے بارے میں لکھا ہوا تھا۔ صرف 20 سال کے اندر اندر ہی سچ کتابوں میں درج ہو گیا۔

پچھلے دنوں دوستوں کی محفل میں ایک بزرگ صحافی نے بتایا کہ ان کے رسالے میں ایک خاکہ چھپا، جس میں ایک حسینہ وردی میں، کاندھے پہ زلفیں چھٹکائے، آ ئینے کے سامنے کھڑی پوچھ رہی ہے کہ کیا میری آنکھیں شمیم آرا سے ملتی ہیں؟ جواب ملا کہ تمہاری آنکھیں تو آپس میں ہی نہیں ملتیں، شمیم آرا سے کیا ملیں گی؟

اس خاکے کی اشاعت کی پاداش میں انھیں شاہی قلعے وغیرہ بلایا گیا اور انھیں اندازہ ہو گیا کہ انھیں ’غداری‘ کے الزام میں ’غائب‘ کیے جانے کے مشورے ہیں آسمانوں میں۔ اس کے آگے ایک لمبی داستان ہے کہ کس طرح وہ اور ایک اور شاعرہ یہاں سے ہندوستان پہنچے اور پھر وہاں ان کا جی نہ لگا تو وہ انگلینڈ چلے گئے۔

نہ وہ ٹیڑھی میڑھی آنکھوں والی حسینہ رہی، نہ وہ دور رہا۔ ہمارے بزرگ دوست آج بھی اسی طرح ہنستے کھیلتے ہمارے درمیان ایک معزز شخص کی طرح پھر رہے ہیں لیکن ان کا کیا ہوا جو ان پہ غداری کا مقدمہ چلا رہے تھے؟ فیض صاحب کے ساتھ راولپنڈی سازش کیس میں جو کچھ ہوا ان کے چاہنے والے کانوں کو ہاتھ لگا کر کہتے ہیں کہ قسمت والا تھا جو بچ گیا ورنہ پھانسی تو چند قدم پہ گڑی تھی۔

شنید ہے کہ فیض کے چند مصرعے دیوار پہ لکھ دینے سے پڑوسی ملک میں ایسا خوف پیدا ہوا کہ لکھنے والوں کی فوری پکڑ ہوئی۔ مسترد کالم، ممنوعہ خبریں، جلادیے جانے والے ناول، باغی قرار دی جانے والی نظمیں اور روک دیے جانے والے ڈرامے، یہ ہی تو وہ فطری اولادیں ہیں جو انسان کی سچ سے محبت کا ثبوت ہیں۔

انھیں معاشرے کی کوکھ سے نوچ کر پھینکنے کی ہر ہر کوشش ناکام رہتی ہے۔ یہ سچ، سینہ تانے ایک نہ ایک روز سامنے آ ہی جاتے ہیں۔ آج ہمارے اخبارات اور نشریاتی ادارے، جس سختی کا شکار ہیں اورصحافیوں کا جس طرح معاشی قتل کیا جارہا ہے وہ جمال کے قتل سے کیا ہی کم ہے۔ بے وقوف ہیں، بات بھلا کبھی چھپی ہے؟ بات نہیں چھپتی، بات تو پکھیرو ہے، پر کتر بھی دیں گے تو ایک دن اگ ہی آئیں گے۔ پر نہیں اگیں گے تو پھدک کر، پاؤں باندھ دیں گے تو رینگ کر، بات نے باہر نکلنا ہی ہے۔ بات کے راستے میں نہ آئیں۔ اپنے راستے پہ نظر جمائیں،دیکھنا کہیں پھسل ہی نہ جائیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے