سینسر شپ؟ لگ پتہ جائے گا!

آج بھی اتنی آزادی ضرور ہے کہ صحافت کو پہنائی جانے والی دیدہ و نادیدہ زنجیروں پہ تھوڑی بہت بات ہو سکے
یقیناً آج کے پاکستان میں کچھ موضوعات شجرِ ممنوعہ ہیں۔ آپ ان معاملات پر ریاستی بیانئے سے ہٹ کے ہاتھ ڈالنے کی کوشش کریں گے تو ہر طرح کی بھڑیں کاٹ کاٹ کے پنڈا سجا دیں گی اور سوشل میڈیائی مکھیوں کا جھنڈ چہار سمت سے پل پڑے گا اور جسم پر جگہ جگہ پاکستان و اسلام دشمنی، غداری، غیرملکی ایجنٹی اور ملکی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کی سازش کے الزامیہ ددوڑے ڈال دے گا۔ آپ کی سوچ، شجرے، ماضی و حال کو ہر طرح کے دشنامی ایمونیشن سے چھید دیا جائے گا۔

یہ درست ہے کہ بلوچستان، دہشت گردی کے خلاف جنگ، بنیادی حقوق، غائب افراد کا معاملہ، حساس اداروں کی بالائے آئین سرگرمیاں، کاروباری مفادات، عدلیہ کے فیصلے اور سی پیک پر سطحی تنقید بھی علاقہِ ممنوعہ کی حدود میں شمار ہے۔25 جولائی کے انتخابی نتائج پر عدم اطمینان تو ظاہر کیا جا سکتا ہے مگر اس عدم اطمینان کی وجوہات میں نہ گھسنا ہی بہتر ہے۔

لیکن جو موضوعات بظاہر ریاستی ممنوعات کی فہرست میں نہیں آتے ان کے بارے میں کوئی سوال اٹھاتے ہوئے لب کیوں کانپتے ہیں، زبان کیوں ساتھ نہیں دیتی، دلیل کو زنگ کیوں لگ جاتا ہے، بات خودبخود کیوں بدل جاتی ہے؟ مثلاً ہر نشریاتی و اخباری ادارہ نیب یا اعلیٰ عدالتوں میں زیرِ سماعت ہر ہائی پروفائل کیس پر بلا ہچکچاہٹ تبصرہ کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔

لیکن ایک آدھ انگریزی اخبار و چینل کے شاید ہی کوئی صحافتی ادارہ ہو جو ملک کے ایک معروف لینڈ ڈویلپر بحریہ ٹاؤن کے بارے میں سپریم کورٹ کی سماعت کی خبر بھی شائع یا نشر کرنے کا حوصلہ رکھے۔ اس بابت کسی ریاستی ادارے نے نہیں بلکہ کاروباری و اشتہاری مفادات نے زباں بندی کر رکھی ہے۔

کیا کسی ریاستی ادارے نے ایسی کوئی ایڈوائس جاری کی کہ ملٹی نیشنل فارماسوٹیکل، منرل واٹر، سیلولر فون کمپنیوں، آئل اور پاور سیکٹر یا مواصلاتی ادارے پی ٹی سی ایل کے بارے میں رپورٹنگ کرتے ہوئے احتیاط برتی جائے۔ تو پھر وہ کیا خوف اور مفاد ہے جو مذکورہ کمپنیوں کے بارے میں بس اچھی اور مثبت خبریں اور پروموشنل سپلیمینٹس شائع کرنے کی ہی اجازت دیتا ہے۔ حالانکہ ان تمام شعبوں اور کمپنیوں کا تعلق براہِ راست مفادِ عامہ سے ہے۔ واویلا تو بہت ہے کہ صحافت کا گلا گھونٹا جا رہا ہے اور کچھ میڈیا اداروں کو باقاعدہ ٹارگٹ بنا کر ان کا معاشی محاصرہ روز بروز تنگ ہو رہا ہے تاکہ وہ اپنی موت آپ مر جائیں۔ مگر جب مالکان اور ایڈیٹروں کی تنظیم سی پی این ای اور اے پی این ایس کا وفد وزیرِ اعظم عمران خان سے ملاقات کرتا ہے تو شکایت یہ نہیں ہوتی کہ میڈیا پر سے غیر اعلانیہ دباؤ، سینسر شپ اور خوف کا سایہ کم کیا جائے۔

بلکہ یہ شکوہ کیا جاتا ہے کہ حکومت سرکاری اشتہارات کیوں روک رہی ہے، ہمیں بہت مالی نقصان ہو رہا ہے۔ اگر کوئی ناپسندیدہ ٹاک شو بند کرنے یا کسی اینکر یا رپورٹر کو ادھر ادھر کرنے سے معاملہ سلٹ سکتا ہے تو حکم کیجیے۔ تعمیل ہو گی۔ اس طرزِ عمل کے بعد وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری کے اس تبصرے کو کیسے چیلنج کیا جا سکتا ہے کہ کیسی پابندی؟ کون سی سینسر شپ؟ مجھ سے تو کسی صحافی یا ادارے نے شکایت نہیں کی ۔۔۔

یہ ٹھیک ہے کہ صحافیوں کی جو تنظیمیں آزادیِ صحافت کی وکیل ہیں ان کے دھرنے، احتجاج یا ریلیوں کی خبریں ان کے اپنے ہی نیوز چینلز سے نشر نہیں ہو سکتیں یا اپنے ہی اخبار میں شائع نہیں ہو سکتیں۔ مگر وہ کیا خوف ہے جس کے سبب یہ صحافی تنظیمیں میڈیا اداروں میں چھانٹی، تنخواہوں اور واجبات کی عدم ادائیگی جیسے غیر سیاسی مطالبات کے حق میں احتجاجی بینرز بھی پریس کلب کے باہر نہیں اندر لٹکانے پر مجبور ہیں۔ کہیں کوئی غیر صحافی یا میڈیا مالک دیکھ ہی نہ لے۔

کس نے اوپر سے حکم جاری کیا کہ 19 روز گزر جانے کے بعد بھی سعودی صحافی جمال خشوگی کے قتل کی مذمت میں کوئی پاکستانی صحافتی تنظیم ایک علامتی بیان تک جاری نہ کرے۔ پھر بھی توقع ہم یہ رکھتے ہیں کہ تمام عالمی حقوق تنظیمیں پاکستانی میڈیا پر کسے جانے والے شکنجے کا نوٹس برابر لیتی رہیں۔

کیسی پاگل تھی اخباری مالکان و ایڈیٹرز کی وہ نسل جو اپنے رپورٹروں کو سختی سے مسلسل سمجھاتی تھی کہ طاقتوروں اور اہلِ سرمایہ سے بس خبر کی حد تک دعا سلام رکھنا۔ اگر ان کے دسترخوان کے قیدی ہو گئے تو صحافت کو آلودہ کرنے کے بجائے یہ پیشہ چھوڑ دینا۔ آج سب سے ناکارہ صحافی وہ ہے جس کی اہلِ اختیار و سرمایہ سے قربت نہ ہو۔ ایسا صحافی نہ مالک کے کام کا نہ اپنی اور ادارے کی معیشت کے لیے فائدہ مند۔یہ ٹھیک ہے کہ پاکستان میں صحافت اور آزادیِ اظہار کا مستقبل روز بروز دھندلا رہا ہے۔ پر آج بھی اتنی آزادی ضرور ہے کہ صحافت کو پہنائی جانے والی دیدہ و نادیدہ زنجیروں پہ تھوڑی بہت بات ہو سکے۔ گلا گھونٹنے کا مطلب ہوتا کیا ہے؟ اگر واقعی جاننا ہو تو آج کسی بنگلہ دیشی، بھارتی، ایرانی، وسطی ایشیائی، چینی، روسی، عرب یا ترک صحافی سے پوچھ لیں۔ لگ پتہ جائے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے