ایک تصویر

صبح صبح ایسی تصویر دیکھی کہ طبیعت سنبھل نہیں رہی۔ اداسی کا گہرا احساس پورے وجود کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔

تصویر کیا ہے، وحشت ناچ رہی ہے۔ ایک انسان کے اعضا بکھرے ہوئے ہیں، کچھ دیر پہلے جو حسنِ تخلیق کا شاہکار تھا۔ اس کی خبر دنیا بھر کے میڈیا میں سب سے نمایاں ہے۔ کہانیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہولناک فلم چل رہی ہے۔ ماضی کا کوئی قصہ جب گستاخ انسانوں کو بھوکے درندوں کے سامنے پھینک دیا جاتا تھا۔ بادشاہ اپنے مخالفین کے ساتھ یہی سلوک کرتے تھے۔

سینما کی سکرین پر قدیم بادشاہوں کے قصے دیکھتا، بیسویں اور اکیسویں صدی کا انسان دل ہی دل میں شکر ادا کرتا ہے کہ وہ آزادیٔ اظہار کے عہد میں زندہ ہے۔ جب بادشاہت ختم ہو چکی۔ انسان کی تکریم کو بنیادی قدر کے طور پر مان لیا گیا۔ آج اس کے جان و مال کو قانون کا تحفظ حاصل ہے۔ حاکمِ وقت کا انتخاب اب اس کی رائے سے ہوتا ہے۔ حکمران کو اس پر کوئی فوقیت نہیں، الا یہ کہ قانون اسے کچھ اختیارات تفویض کر دے۔ قانون سازی بھی اس کے ہاتھ میں ہے کہ اس کے انتخاب کردہ افراد بالواسطہ یہ فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ فلم ختم ہوتی ہے تو اس اطمینان کے ساتھ سینما ہال سے نکلتا ہے کہ وہ انسانی آزادی کے دور میں زندہ ہے۔

یہ تصویر مگر کسی فلم کا پوسٹر نہیں۔ قاتل اور مقتول اداکار نہیں۔ یہ کسی بھولی بسری داستان کا کوئی باب نہیں۔ کوئی افسانہ نہیں جس نے سطحِ زمین کے بجائے، کسی تخلیق کار کے ذہن میں جنم لیا ہو۔ یہ شرلاک ہومز سیریز کے کسی ناول کا سرورق بھی نہیں، جس میں کسی اندھے قتل کو سلجھایا گیا ہو۔ یہ تو صفحۂ ہستی پہ برپا ہونے والا ایک المیہ ہے۔ اکیسویں صدی کا ایک واقعہ جس کے سب کردار جیتے جاگتے ہیں۔ وہ ہمارے ارد گرد چل پھر رہے ہیں۔ ہم انہیں جانتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ایسے ہو سکتے ہیں جن سے ہم نے ہاتھ ملایا ہو۔ ان کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیا ہو۔

تو کیا انسان آج بھی ویسا ہے جیسا صدیوں پہلے تھا؟ کیا تہذیبی ارتقا محض واہمہ ہے جو اہلِ دانش کے ذہنوں میں جنم لیتا اور وہیں مر جاتا ہے؟ ظلم، محبت، احساس، محض اسما ہیں جن کا کوئی مسمیٰ نہیں؟ یہ انسان کا سود و زیاں ہے جو اس کے رویے کا تعین کرتا ہے؟ نظامِ اخلاق انسانوں کو دھوکہ دینے کا ایک طریقہ ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں؟ ہر تصور موضوعی ہے، کچھ معروضی نہیں؟

ماضی اور حال، دونوں کی گواہی یہ کہ انسان مشرق کا ہو یا مغرب کا، کچھ جبلتوں کا غلام ہے۔ اس کی فطرت ایک جیسی ہے۔ آج بھی وہ اپنے جبلی اور فطری تقاضوں کا اسیر ہے۔ تہذیبی ارتقا نے اس کی فطرت کو نہیں، طریقۂ واردات کو بدلا ہے۔ اس کے اہداف اور عزائم، آج بھی وہی ہیں جو صدیوں پہلے تھے۔ وہ آج بھی غلبے کی نفسیات میں جیتا ہے۔ آج بھی وہ شہرت، اقتدار اور مال و اسباب کی محبت میں ہر قدم اٹھا سکتا ہے۔ اپنے ظلم کے لیے اس کے پاس کوئی نہ کوئی تاویل ہوتی ہے۔ علمِ کلام بدلتا ہے تو تاویل بدل جاتی ہے۔

برصغیر پر انگریزوں کا قبضہ انیسویں اور بیسویں صدی کا قصہ ہے جب تحریک تنویر (Enlightenment) کو برپا ہوئے ڈیڑھ دو سو سال ہو چکے تھے۔ وہ مقامات آج بھی موجود ہیں جہاں انسانی لاشوں کو عبرت کے لیے لٹکایا گیا تھا۔ ان کا قصور یہ تھا کہ وہ اپنی ہی سرزمین پر اپنی حکمرانی چاہتے تھے۔ یہ بھی ماضی قریب کا واقعہ ہے جب امریکہ کی مقامی آبادی پر ظلم ڈھائے گئے اور انہیں اپنے ہی ملک میں اجنبی بنا دیا گیا۔ اکیسویں صدی میں عراق اور افغانستان میں ظلم کی جو داستانیں لکھی گئیں، ان کے ‘داستان نگاروں‘ کا تعلق آج کی مہذب دنیا سے ہے۔

یہی نہیں، غلبے کی نفسیات نے مذہب کو بھی معاف نہیں کیا۔ مشرقِ وسطیٰ سے افغانستان تک، مذہب کے نام پر جس طرح انسانوں کا خون بہایا گیا، اس کا سلسلہ تو ختم ہونے کو نہیں آ رہا۔ معصوم بچوں کو بموں میں تبدیل کر کے بے گناہ انسانوں پر برسایا جاتا ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ اس سے اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے۔ آج مذہب سمیت، ہر اعلیٰ انسانی قدر انسان کے فطری مطالبات کی نذر کر دی گئی ہے۔

اگر انسان کی فطری ساخت یہی ہے تو اسے غیر متبدل تسلیم کرنا ہو گا۔ اقتدار کے لیے جس طرح کل انسانی جان کی حرمت پامال ہوتی تھی، آج بھی ہو رہی ہے۔ ظلم جس طرح کل طاقت ور کا ہتھیار تھا، آج بھی اس کا ہتھیار ہے۔ جبلت بھی وہی ہے، فطرت بھی وہی۔ کیا اس کا کوئی علاج ہے؟ کیا کوئی چیز ایسی ہے جو انسان کو ظلم سے روک سکے؟ کیا یہ کوئی خارجی قوت ہے جو اس کا ہاتھ پکڑتی ہے یا یہ کوئی داخلی احساس ہے جو اس کے فطری تقاضوں کے سامنے بند باندھ دیتا ہے، جنہیں بے مہار چھوڑ دیا جائے تو ظلم جنم لیتا ہے؟

مجھے تو اس باب میں مذہب کا جواب درست معلوم ہوتا ہے۔ مذہب کا مقدمہ یہ ہے کہ انسان کو خیر و شر کا شعور دینے کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے جواب دہی کا احساس بھی تعلیم کیا ہے۔ پیغمبر اس کو یاد دہانی کراتے ہیں کہ اس کا ایک وجود اخلاقی ہے جس کا تزکیہ مقصود ہے۔ اس زندگی میں اسے جس امتحان میں ڈالا گیا ہے وہ یہی جواب دہی کا احساس ہے۔ یہاں کی ہر کامیابی اور ہر ناکامی عارضی ہے۔ ہمیشہ باقی رہنے والی بادشاہی اللہ تعالیٰ کی ہے۔ جو دائمی بادشاہی چاہتا ہے، وہ اس شہنشاہ کا ہو کر جیے جس کا اقتدار ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہنے والا ہے۔

یہ داخلی احساس انسان کو ظلم سے روکتا ہے۔ وہ اسے انسان کی تکریم سکھاتا ہے۔ وہ اسے تعلیم دیتا ہے کہ انسانی جان اور آبرو کی حرمت بیت اللہ کی حرمت سے زیادہ ہے۔ وہ پکارتا ہے کہ ایک انسان کی جان لینے کی سزا دائمی جہنم ہے۔ جو انسان اس احساس کے ساتھ جیتا ہے، اقتدار توکیا، وہ دنیا کی ہر چیز کی قربانی دے سکتا ہے‘ مگر کسی انسان کی جان نہیں لے سکتا۔ اس کے لیے کامیابی یہ نہیں کہ اس نے ایک انسان کو مار کر اپنا اقتدار بچا لیا۔ اس کی کامیابی اس میں ہے کہ اس نے خود کو جہنم سے بچا لیا۔

مذہب کا مقدمہ یہ ہے کہ یہ داخلی احساس جس طرح پہلے انسان آدم کو ودیعت کیا گیا، اسی طرح آج کے انسان کو بھی دیا گیا۔ فطرت کے مطالبات جس طرح پہلے انسان کے لیے ایک آزمائش تھے، اسی طرح آج کے انسان کے لیے بھی آزمائش ہیں۔ پہلے دن بھی اس کا حل وہی تھا: اللہ کی طرف رجوع اور اس کا وعدہ کہ انسان پھر حد سے نہیں گزرے گا۔ آج بھی اس کا حل یہی ہے۔

قرآن مجید اللہ کی آخری کتاب ہے اور آدم پہلے انسان۔ پہلا انسان جب فطری مطالبات کی مزاحمت نہ کر سکا اور اس نے حد سے تجاوز کیا تو اللہ نے اسے واپسی کے لیے ایک جملہ سکھایا۔ واقعہ یہ ہے کہ فطرت سلیم ہو تو یہ جملہ آج بھی انسان کے اخلاقی وجود میں زلزلہ برپا کر دیتا ہے۔ ”اے ہمارے پروردگار! ہم نے اپنی جانوں پرظلم کیا۔ اگر آپ نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔‘‘

صبح صبح ایک تصویر دیکھی تو دل لہو سے بھر گیا۔ یہی عرفات کا میدان تھا اور عرفہ کا دن تھا جب اللہ کے آخری رسولﷺ نے فرمایا تھا: ”جس طرح یہ مہینہ، یہ دن اور یہ جگہ محترم ہے، اسی طرح تمہاری جان، مال اور آبرو بھی ایک دوسرے کے لیے محترم ہیں‘‘۔ واقعہ یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان ہی انسان کے داخل میں وہ احساس پیدا کرتا ہے جو فطرت کے مطالبات کے سامنے بند باندھ سکتا ہے۔ ایمان قلبی کیفیت کا نام ہے، محض اعلان یا دعوے کا نہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو تصویر کبھی وجود میں نہ آتی۔ تصویر کیسے بنتی جب واقعہ ہی نہ ہوتا؟ اللہ پر ایمان اور اس کے سامنے جواب دہی، وہ واحد احساس ہے جو ایسے واقعات کو روک سکتا ہے۔ ورنہ انسان ہے اور بے مہار فطر ی و جبلی تقاضے۔ جمال خاشقجی ہے اور اس کی منگیتر کے افسردہ کرنے دینے والی ٹویٹ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے