پاکستان کے سماجی اور معاشی ٹائم بم

پاکستان کے سماجی اور معاشی ٹائم بم (رحمان ملک)کافی عرصے سےملکی تنہائی اور لڑکھڑاتی ہوئی معیشت کے باعث پاکستان کافی مشکل دور سے گزر رہا ہےاور ہم ابھی تک اپنی معیشت کو درست ٹریک پر لانے کے قابل نہیں ہوئے ہیں۔ میں اس کی ذمہ داری حکومتوں کی ناکامی پرڈالوں گا جو اپنی خراب معاشی پالیسیوں کے باعث معیشت کی تباہی پر نظرنہیں رکھ سکیں۔ اِسے قومی ناکامی کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہونی چاہئے۔ ہماری سب سے بڑی مشکل ملک کو آگے چلانے کیلئےضروری سیاسی بصیرت کی کمی ہے۔ ملک خودساختہ مشکلات کاشکار بن چکاہے کیونکہ حکمرانوں نےملک کو میرٹ پرچلانے کی بجائےاندرونی اور بیرونی سیاسی مجبوریوں کےباعث اپنی حکمرانی کو بچانے کی زیادہ کوشش کی ہے اور معیشت ان کی آخری ترجیح رہی ہے۔ درحقیقت کمزور معیشت نے حکمرانوں کو امریکا، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے بھیک مانگنے پر مجبور کیا۔ ان تمام عالمی امدادی اداروں کا اپنا جیوپولیٹکل ایجنڈا ہے اور ہم ان کےجال میں پھنستے چلے جارہے ہیں۔ اب ہم نہ ختم ہونے والے قرضوں کے جال کی شکل میں آکٹوپس کی مضبوط گرفت میں ہیں۔

کمزور آمریت اور لاچارحکومت ہمیشہ دبائو کا شکار ہوتی ہے اور وسیع تر قومی مفاد میں کردار ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتی۔ ایک ایسی قوم کی تقدیر کیا ہوسکتی ہے جس کا صدارتی ایوان سی آئی اے ڈائریکٹر ولیم جےکیسی کو جنگی منصوبے بنانے کیلئے پیش کردیاجائے اور قومی مفاد کی قیمت پر عالمی طاقتوں کیلئے اسے میدانِ جنگ بنادیاجائے۔ مجھے اعتراف کرنے دیں کہ پاکستان میں دہشتگردی مغرب کی ایک تخلیق کردہ جنگ ہےتاکہ مندرجہ ذیل مقاصد حاصل کیے جاسکیں۔ 1-افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنے کیلئےاور یہ یقینی بنانے کیلئےکہ جب تک امریکا چاہیے وہاں امریکی پالیسیاں نافذ رہیں۔ 25دسمبر 1991کو کبھی طاقت ور رہنےوالا سویت یونین تقسیم ہوگیا اس کی اہم وجہ یہ تھی کہ سویت صدرمیخائل گورباچوف بطوریو ایس ایس آر کے لیڈر اپنےچھ سالہ دور میں کافی زیادہ انقلابی ریفارمز متعارف کرائے۔

گورباچوف اپنی نوکری سے اس لیے مستعفی ہوگئے تھے کیونکہ وہ مایوس تھے اور ان کےبعدبورس یلٹن نئی آزاد روسی ریاست کےصدر بنے۔ 2-1979میں افغانستان پر سوویت قبضے کے بعدمیخائل گورباچوف نے غیرموثر افغان صدر کرملس کو محمد نجیب اللہ سے تبدیل کردیا لیکن ایک دہائی تک جنگ کےبعد سوویت فورسز فروری 1989میں افغانستان سے نکل گئیں۔ افغان جنگ کے اختتام تک افغانستان میں پُرتشدد خانہ جنگی پھوٹ پڑی جو 1996تک جاری رہی اور سوویت افغان جنگ سے بھی زیادہ پُرتشدد تھی۔ جیسے جیسے افغان خانہ جنگی شدید ہوتی گئی اور سوویت امداد بند ہوتی گئی نجیب اللہ کی پوزیشن بھی کمزور ہوگئی کیونکہ سوویت حمایت بھی ختم کردی گئی تھی۔

26ستمبر1996کو کابل میں اقوام متحدہ کےکمپائونڈ میں نجیب اللہ اور ان کےبھائی شاہپور احمدزئی پرتشدد کیاگیا اور افغان عوام کے سامنے انھیں قتل کردیاگیا۔ وہ کابل سے فرارہوناچاہتے تھے اور انھوں نے اقوام متحدہ کی ڈویژن برائے انسانی حقوق کےسربراہ بینن سیون کے ساتھ ایک پرواز میں بھارت جانے کا ایک خفیہ منصوبہ بھی بنایا۔ کابل ایئرپورٹ ان کے ازبل نسل کے افغان دوست عبدالرشید دوستم کے پاس تھااور نہ صرف دوستم بلکہ ان کے بہت سے قریبی ساتھی بھی نجیب اللہ کو ان کے اس منصوبے میں چھوڑ چکے تھے۔ وزیرخارجہ عبدالوکیل اور آرمی چیف جنرل محمد نبی اعظمی اپنے سیاسی اور جسمانی بقاء میں مصروف تھے وہ مجاہدین کی فورسز کو نجیب اللہ بطورقیدی پیش کرناچاہتے تھے۔ وہ نجیب اللہ کے فرار کی خبر سن کر ایئرپورٹ کی طرف بھاگے اور سیون سے طیارے سے نکلنے کاکہاتاکہ مزید رسوائی اور تشدد سے بچاجائے کیونکہ وہ سیون کوان کے اقوام متحدہ کے تعلق کے باعث زندہ رکھنا چاہتے تھے۔

نجیب سے انھیں نفرت تھی کیونکہ سوویت سے ان کے تعلقات تھے لیکن وہ ایک سچے امن کے پیامبر تھے اور ملک کومتحد رکھنے کیلئے انھوں نے اپنی جان دے دی۔ نجیب اللہ کی موت پاکستان اور افغانستان کے درمیان تنازع کی کئی وجوہات میں سے ایک ہے کیونکہ جنرل ضیاء کےدور میں گلبدین حکمت یار اور ایسے دیگر وارلارڈز کو ٹریننگ دی گئی تھی جنھوں نے افغانستان کو غیر مستحکم کیا۔ 3-افغان سوویت جنگ کے دوران پاکستان افغانستان کے کافی قریب ہوگیاتھا کیونکہ امریکا پاکستان کے ذریعے سب کچھ چلا رہاتھا۔ افغانستان میں طالبان دور کے دوران افغانستان اور پاکستان کے تعلقات بہت اچھے تھے۔

یہ سب 2001 میں 9/11کےبعد تبدیل ہوا اور پاکستان سمیت سب نے طالبان کی مذمت کی۔ پاکستان نے بنیادی طورپر امریکا کی لائن کو آگے بڑھایا کیونکہ جارج بش نے کہا،’’ تم یا تو ہمارے ساتھ ہویا ان کے ساتھ۔۔‘‘ ان ہی جھٹکے میں پاکستان اپنے بہترین اتحادی افغانستان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ طالبان کےپاس اسامہ بن لادن بطور ریاستی مہمان تھا کیونکہ وہ عالمی دہشتگردی میں شامل ہوئے۔ دونوں حملوں کے باعث پاکستان میں معاشی بحران آیا اور منشیات اور بندوق کلچر میں اضافہ ہوا۔

اب دیکھتے ہیں کہ کس طرح ان جنگوں سے ہماری معیشت متاثرہوئی اور پاکستان میں امن تباہ ہوا۔ ہم نے اپنی ترقی کھودی مندرجہ ذیل اعدادوشمار سے پتہ لگتا ہےکہ ہماری معیشت خراب ہوتی چلی گئی۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ کس طرح ہمارے روپے کی قدرمیں کمی ہوئی:ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر۔ 1972ذوالفقار علی بھٹو 7.9-7.4، 1983ضیاءالحق 7.17-1.13، 1990بینظیربھٹو 0.24،1991نوازشریف 0.25،1994بینظیربھٹو 3.40-6.30،1997-99نوازشریف 53، 1999-2008پرویز مشرف62، 2008-2013آصف زرداری 3.98-67، 2013 نوازشریف 50.128-75, 100 ، 2018 عمران خان 134۔ اگر آپ ان ادوار کا معائنہ کریں تو پتہ لگے گا کہ ہماری تباہی افغان جنگ کے دوران آنے والی غیرمستحکم حکومتوں کی جانب سے شروع ہوئی۔ بتدریج زوال سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارا معاشی اکانومک اسٹرکچر افغانستان میں انجینئرڈدہشتگردی کے ساتھ تباہ ہوا جس نے ہمارے ملک کی امن اور لاءاینڈ آرڈر کی صورتحال کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس صورتحال نے سرمایہ کاروں کو خوفزدہ کردیا جس کے نتیجےمیں سرمایہ پاکستان سے متبادل جگہوں پر چلاگیا۔

ہم پاکستان کے خلاف بڑھتی ہوئی جنگ سے کوئی سبق نہ سیکھ سکے اور نہ اسے سمجھ سکے۔ مغرب نے القاعدہ، طالبان اور اب داعش جیسی قوتیں پیدا کیں تاکہ ہر وقت پاکستان میں امن کو خطرہ رہے۔ داعش مشرقِ وسطیٰ میں اپنے آقائوں کی زبان بول رہی ہے اور اب محسوس کیا جا رہا ہے کہ داعش کا اگلانشانہ سعودی عرب، ایران، پاکستان اور چین ہوگا اور یہ لکھا جا چکا ہے کہ داعش القاعدہ سے زیادہ خطرناک طریقے سے کام کرے گی۔ مندرجہ بالا اعدادوشمار سے ظاہر ہوتاہے کہ ہمارے روپے کی قدرمیں کمی پراکسی وار /افغان جنگ کے باعث ہوئی۔ اسی طرح ہمارے پاس سرمایہ کاری بھی کم ہوتی گئی کیونکہ سرمایہ کار عدم تحفظ کاشکار ہوگئے۔ امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان کیلئے بہت نقصان دہ رہی اور یہ ختم نہیں ہورہی اور روزانہ کی بنیاد پر جاری ہے۔ ہماری معیشت پر افغان پناہ گزینوں کا اثر بہت زیادہ ہے۔

ہماری معاشرت پر بھی اس کا منفی اثر پڑا ہے اور ملک دہشتگردوں کے ہاتھوں یرغمال بنا ہواہے اور پناہ گزین کیمپ دہشتگرد سرگرمیوں کا مرکز ہیں کیونکہ وہ دہشتگردوں کی نرسریوں کاکام کرتے ہیں۔ ہمیں اپنے قومی ادارے بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارا معاشرتی اور معاشی سیکٹر بہتر ہوسکےاور کرپشن کو کنٹرول کرنے والا احتساب کاعمل بھی بہتر ہو۔ منفی پراپیگنڈ اب ختم ہونا چاہیئےاور معاشی بحران اور دیگر بڑی مشکلات سے نمٹنے کیلئے اجتماعی قومی سوچ ہونی چاہیئے۔ بگڑتی ہوئی معیشت کے باعث ہم ایک ٹائم بم پر بیٹھے ہوئی ہیں جس کے باعث ہم عالمی طورپر دیوالیہ ہوسکتے ہیں اور سنجیدہ اندرونی بحرانات کاشکار بن سکتے ہیں کیونکہ روپے کی قدرمیں بہت زیادہ کمی ہوئی ہے۔

اس حقیقت کو ماننے میں ہمیں ایمانداربنناپڑے گا کہ اس حکومت کے پاس آئی ایم ایف سے ان کی شرائط پرمزید قرضے لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے، اس کا اثر مہنگائی کی صورت میں نظر آرہاہے اور یہ مزید نظرآئےگا۔ حکومت کو اپنی معاشی پالیسیوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ بڑھتے ہوئے بحرانوں پر قابو پایاجاسکے اور ان چھوٹے اور بڑے بموں کے پھٹنے سے بچاجائے۔ عمران خان اور ان کی ٹیم کیلئے بہترہوگا کہ وہ اس بڑھتے ہوئے معاشی بحران پر بروقت قابوپالیں۔ اب وقت ہے کہ حکومت بہت زیادہ حد تک درآمدات کو کم کردے اور فائدہ مند برآمدات کی اجازت دی جائے۔ بزنس کمیونٹی کی جانب سے اربوں ڈالر کی وصولی نہیں ہوئی اورا سٹیٹ بینک اسے وصول کرنے کے قابل نہیں۔

اس سے ہمارے بیرونی قرضوں کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ بزنس کمیونٹی کے خلاف حکومت کو بلاامتیاز کام کرنے کی ضرورت ہے جو پاکستان سے کھربوں ڈالر کینیڈا، ملائیشیااور سری لنکا لے گئے ہیں لیکن بدقسمتی سے انتظامیہ نے پاکستان سے سرمائے کی غیرقانونی منتقلی پر چپ سادھ رکھی ہے۔ پاکستان کو اس بدعنوان بزنس کمیونٹی اور ان کے حمایتوں کے باعث نقصان ہوا۔ یہ اہم ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر معیشت کو نقصان پہنچانے والے ان ٹائم بموں سے نجات حاصل کی جائے۔ میں ہر شخص سے اپیل کرتاہوں پاکستان میں ثبوتوں کے خلا ف کرپشن کا پروپیگنڈاکرنا بند کیاجائے کیونکہ اس سے ہمارا تشخص اور پاکستانی معیشت کی عالمی درجہ بندی کو نقصان پہنچ رہاہے اور سرمایہ کاری کم ہورہی ہے۔

میں یہ نتیجہ اخذ کرتاہو ں اور حکمران جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ یہ وقت پار لیمنٹ میں منفی ماحول بنانے کانہیں ہے بلکہ دونوں ایوانوں کو اعتماد میں لینے کاہے اور حکومتی ویژن، پالیسیاں اور معیشت پر تجاویز، بیرونی اور اندرونی سیکیورٹی پالیسز کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے سامنے رکھاجائےتاکہ طویل المدتی حکمت عملی کیلئے اجتماعی سوچ تیار ہو اور مجموعی سوچ کے ساتھ ملک کو بحرانوں سے نکالاجائے۔ مصنف ’’گلوبل آئی‘‘ تھنک ٹینک کےچیئرمین اور پاکستان کے سابق وزیرِ داخلہ ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے