متحدہ اپوزیشن: ایجنڈا کیا ہے؟

ایک بار پھر متحدہ اپوزیشن کی بات ہونے لگی ہے۔ اپوزیشن کو متحدہ ہونا چاہیے مگر کس لیے؟

کامیاب سیاسی نظام کے لیے اچھی اپوزیشن بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی اچھی حکومت۔ کیا نون لیگ کی قیادت کو اس کا احساس ہے؟ عوام نے تو کچھ اور چاہا تھا لیکن ‘وقت‘ کی چاہت کچھ اور تھی۔ ‘وقت‘ نے نون لیگ کو اپوزیشن کا کردار سونپا ہے۔ اسے اب یہ کردار ادا کرنا ہے۔ یہ کردار اگر وہی ہے جو کل کی اپوزیشن ادا کر رہی تھی تو اس میں خسارہ ہی خسارہ ہے۔ ملک کا بھی اور عوام کا بھی۔ نون لیگ کو دیکھنا ہے کہ اس نے تاریخ کو دھرانا ہے یا ایک نئی تاریخ رقم کرنی ہے۔

موجودہ حکومت پاکستانی تاریخ کی ایک منفرد حکومت ہے۔ اِسے قومی اتفاقِ رائے سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اس کا نعرہ ہے: ”میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا‘‘۔ یہ مستقبل سے زیادہ ماضی کی طرف دیکھ رہی ہے۔ پنجاب میں بھی چوہدری پرویز الٰہی جیسا منجھا ہوا سیاست دان، اسمبلی ارکان کے بائیکاٹ کے مسئلے کو جس طرح ‘حل‘ کر رہا ہے، وہ میرے لیے باعث حیرت ہے۔ چوہدری برادران کی تو شہرت ہی یہ تھی کہ وہ الجھے مسائل کو ‘مٹی پاؤ‘ فارمولے کے ساتھ حل کر لیتے ہیں۔ لگتا ہے اُن پر بھی صحبت کا اثر ہو گیا ہے۔ وہ بھی ہیجان میں مبتلا ہیں۔

ایسی حکومت کے ساتھ معاملہ کرنا اپوزیشن کے لیے یقیناً مشکل ہے‘ جو تصادم کی طرف مائل ہو۔ یہ الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ تاہم میرا احساس ہے کہ یہ طرزِ عمل زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔ حکومت کو اپنا رویہ بدلنا ہو گا۔ اگر معاملات اسی طرح چلتے رہے تو قومی اسمبلی میں کوئی قانون سازی ہو سکے گی نہ پنجاب اسمبلی میں۔ ظاہر ہے کہ اس سے حکومت کی کارکردگی پر حرف آئے گا۔ حکومت کو رجوع کر نا پڑے گا مگر بعد از خرابیٔ بسیار۔ اس پس منظر میں سوال یہ ہے کہ اپوزیشن کیا کرے؟

یہ اقتدار کا کھیل ہے۔ دونوں گروہ اقتدار کے کھلاڑی ہیں۔ دونوں سے یہ توقع نہیں رکھی جا سکتی کہ وہ گروہی مفادات سے بے نیاز ہو کر محض قومی اور اخلاقی سطح پر سوچیں گے؛ تاہم دونوں سے اس بات کی توقع تو ضرور ہونی چاہیے کہ جہاں گروہی اور قومی مفادات میں تصادم ہو‘ وہاں قومی مفاد کو ترجیح دیں گے۔ جمہوریت نام ہی دوسروں کے وجود کو تسلیم کرنے کا ہے۔ کوئی گروہ اپنا وجود بھی اسی وقت برقرار رکھ سکتا ہے جب دوسروں کے وجود کو مان لے۔ جمہوریت کی بقا کے لیے دونوں کو ایک دوسرے کی موجودگی کا عملاً اعتراف کرنا ہو گا۔

اپوزیشن کو کوئی ایسی حکمتِ عملی نہیں اپنانی چاہیے جس کا مقصد موجودہ حکومت کا خاتمہ ہو۔ سرِ دست تو اس کا کوئی جواز نہیں۔ میرے نزدیک اس حکومت کی اخلاقی حیثیت مشتبہ ہے‘ لیکن اس کے باوجود یہ ایک بالفعل حکومت ہے جسے سب نے تسلیم کر لیا ہے۔ اسے اب کام کا موقع ملنا چاہیے۔ کوئی ایسا اقدام، اس وقت ملک اور سیاسی نظام کے مفاد میں نہیں جس کا مقصد اس حکومت کا فوری خاتمہ یا اس کے کام میں رکاوٹ ڈالنا ہو۔

دوسرا یہ کہ اپوزیشن کو ان نکات کو اپنے اتحاد کا ہدف بنانا چاہیے‘ جن کا تعلق سیاسی و معاشی استحکام اور سماجی ترقی سے ہو۔ مثال کے طور پر دھاندلی کی تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیٹی کا قیام۔ اپوزیشن کا مطالبہ کمیشن کا تھا‘ لیکن حکومت نے کمیٹی بنائی جسے قبول کر لیا گیا۔ اب اگلا مرحلہ حکومت کو اس پر آمادہ کرنا ہے کہ وہ اس کے لیے شرائط و حدود طے کرے‘ اور اس میں کمیٹی کی مدت بھی شامل ہو۔ اس کے ساتھ وہ حکومت کی کارکردگی پر نظر رکھے اور اپنا نقطہ نظر مؤثر ابلاغ کے ساتھ عوام کے سامنے پیش کرے۔

تیسرا یہ کہ اپنی سرگرمیوں کا محور پارلیمان کو بنائے۔ اپوزیشن کے لوگ پارلیمنٹ میں اپنا موقف پیش کریں اور اس کو ایک طاقت ور ادارہ بنانے کی کوشش کریں۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ اہم قومی معاملات پارلیمنٹ میں زیر بحث آئیں‘ اور حکومتی فیصلوں کو عوامی نمائندوں کی تائید حاصل ہو۔ اس باب میں ماضی کی حکومت بالجملہ کسی قابلِ رشک کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکی۔ اسے اب بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

مثال کے طور پر سعودی عرب کے ساتھ نئے معاہدے ہیں۔ پچھلے دورِ حکومت میں جب یمن کے مسئلے پر سعودی عرب میں فوج بھیجنے کا معاملہ اٹھا‘ تو حکومت اسے پارلیمنٹ میں لے آئی۔ تحریکِ انصاف اس کی شدید مخالف تھی کہ وہاں فوج کو بھیجا جائے۔ نواز حکومت نے پارلیمنٹ کے فیصلے کا احترام کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں انہوں نے اس کی نا قابلِ تلافی قیمت بھی ادا کی۔

اس وقت بھی ضروری ہے کہ ان معاہدوں کی تفصیلات عوام کے سامنے پیش کی جائیں۔ اپوزیشن کو اس پر اصرار کرنا چاہیے کہ حکومت پارلیمنٹ میں اس کی وضاحت کرے۔ اسی طرح وزیر اعظم کو دورہ چین کے معاملے میں بھی پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا چاہیے۔ اس سے پارلیمان کے وقار میں اضافہ ہو گا اور شفافیت کا عمل آگے بڑھے گا۔ اس وقت عمران خان صاحب کا طرزِ عمل یہ ہے کہ وہ عوام سے براہ راست خطاب کرتے ہیں۔ گویا پارلیمنٹ کی کوئی اہمیت نہیں۔ یہ اپوزیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس اہمیت کو اجاگر کرے۔

ایک مسئلہ نیب کی کارکردگی ہے جس پر مسلسل سوالات اٹھ رہے ہیں۔ بارہا سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان بھی اس کی کارکردگی پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کر چکے۔ کسی کو لوگوں کی پگڑی اچھالنے کا لائسنس نہیں ملنا چاہیے۔ تحفظِ ناموس و شہرت، ایک شہری کا بنیادی آئینی حق ہے۔ بنیادی حقوق آئین کے اساسی اصولوں میں شامل ہیں۔ کوئی ادارہ آئین کی ان مبادیات سے ماورا نہیں ہو سکتا۔

نون لیگ اگر پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کرنا چاہتی ہے تو اس کا ایک علانیہ ایجنڈا ہونا چاہیے۔ یہ ایجنڈا کیا ہو سکتا ہے، میں نے چند ممکنہ باتوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ یہ تاثر کسی طرح پیدا نہیں ہونا چاہیے کہ اپوزیشن جماعتیں کسی احتسابی عمل سے بھاگنا چاہتی ہیں‘ یا ان کے پیشِ نظر حکومت کو گرانا ہے؛ تاہم اگر کہیں احتساب کے نام پر سیاسی انتقام یا جانب داری کا تاثر پیدا ہو تو اپوزیشن کو مل کر آواز اٹھانی چاہیے۔ رہے کسی فرد کے اعمال‘ تو اسے اپنا مقدمہ خود لڑنا چاہیے یا اس کی جماعت کو۔ متحدہ اپوزیشن کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے۔

پاکستان میں متحدہ اپوزیشن ہمیشہ حکومت کو گرانے کے لیے بنتی رہی ہے۔ اب اس روایت کو ختم ہونا چاہیے۔ ہمیں اپوزیشن کے کردار کی تشکیلِ نو کرنا ہو گی۔ اپوزیشن جماعتوں کو اپنے طرزِ عمل سے یہ بتانا ہو گا کہ وہ نظام کے استحکام میں معاون ہیں نہ کہ عدم استحکام کی نقیب۔ چند ماہ بعد ہی کسی حکومت پر کوئی حتمی حکم لگانا کسی طور پر مناسب نہیں۔ تنقید ضرور ہونی چاہیے اور اس کو سو دنوں یا چھ ماہ کے لیے مؤخر نہیں کیا جا سکتا؛ تاہم مقصد اصلاح ہو نہ کہ حکومت گرانا۔

2014 ء میں جس طرزِ اختلاف کو متعارف کرایا گیا، اس نے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ میرے نزدیک ملک اس وقت جس سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا شکار ہے، جو تلخی ہے، یہ بھی انہی واقعات کی دین ہیں‘ جو دھرنے کے پس منظر میں ہوئے۔ تحریکِ انصاف تو اس ورثے سے نجات پانے میں سنجیدہ نہیں۔ وزرا کے بیانات سے یہی لگتا ہے کہ وہ اس تلخی کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ اُن کا گمان ہے کہ اسی میں ان کا سیاسی فائدہ ہے۔ نفرت کی سیاست ماضی میں اگر کارگر رہی ہے تو آج بھی ہو سکتی ہے۔ ممکن ہے ایسا ہو مگر تصادم میں ملک کا نقصان ہے۔

جہاں حکومت اتفاق رائے کے لیے سنجیدہ نہ ہو وہاں اپوزیشن کو اس کی کوشش کرنی چاہیے۔ اپوزیشن کی سنجیدگی کا اظہار اس بات سے ہو گا کہ اس کا ایجنڈا‘ اور اس ایجنڈے کا نتیجہ کیا ہے۔ اپوزیشن کو آگے بڑھ کر قومی اتفاق رائے کا ایجنڈا پیش کرنا چاہیے۔ یہ اس کی سنجیدگی کا بھی امتحان ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے