پیغمبرِ اسلام کی گستاخی ’آزادیِ اظہار‘ نہیں ہے: یورپی یونین کی عدالت برائے انسانی حقوق

یورپی یونین کی عدالت برائے انسانی حقوق (ای ایچ سی آر) نے کہا ہے کہ پیغمبرِ اسلام کی توہین ‘آزادیِ اظہار کی جائز حدوں سے تجاوز کرتی ہے،’ اور ‘اس کی وجہ سے تعصب کو ہوا مل سکتی ہے اور اس سے مذہبی امن خطرے میں پڑ سکتا ہے۔’

یہ فیصلہ عدالت نے جمعرات کے دن پیغمبرِ اسلام کے بارے میں توہین آمیز کلمات کہنے والی آسٹریا سے تعلق رکھنے والی ای ایس نامی خاتون کے خلاف سزا کے فیصلے کی اپیل پر صادر کیا۔

عدالت نے کہا کہ ای ایس کے خلاف فیصلہ ان کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے۔

فرانس کے شہر سٹراسبرگ میں واقع ای ایچ سی آر نے فیصلہ دیا کہ آسٹریا کی عدالت نے خاتون کو سزا دیتے وقت ‘ان کی آزادیِ اظہار اور دوسروں کے مذہبی احساسات کے تحفظ کے حق کا بڑی احتیاط سے توازن برقرار رکھا ہے۔’

اس خاتون نے، جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا اور انھیں صرف ای ایس کہا جاتا ہے، 2008 اور 2009 میں ’اسلام کے بارے میں بنیادی معلومات‘ کے عنوان کے تحت مختلف تقاریر میں پیغمبرِ اسلام کے بارے میں چند کلمات ادا کیے تھے جن کی پاداش میں ان پر ویانا کی ایک عدالت میں مقدمہ چلا اور عدالت نے انھیں فروری 2011 میں مذہبی اصولوں کی تحقیر کا مجرم قرار دیتے ہوئے 480 یورو کا جرمانہ، بمع مقدمے کا خرچ، عائد کر دیا۔ اس فیصلے کو آسٹریا کی اپیل کورٹ نے بھی برقرار رکھا تھا۔

اس کے علاوہ 2013 میں سپریم کورٹ نے بھی اس مقدمے کو خارج کر دیا تھا۔

اب ای سی ایچ آر نے کہا ہے کہ آسٹریا کی عدالت کا فیصلہ ‘مذہبی امن و امان برقرار رکھنے کا جائز مقصد ادا کرتا ہے۔’

یہ فیصلہ ججوں کے سات رکنی پینل نے دیا۔

اپنے فیصلے میں ای سی ایچ آر نے کہا کہ ‘عدالت کو معلوم ہوا کہ مقامی عدالتوں نے سائل کے بیانات کا بھرپور جائزہ لیا اور انھوں نے ان کی آزادیِ اظہار اور دوسروں کے مذہبی احساسات کو حق کے درمیان بڑی احتیاط سے توازن برقرار رکھا ہے، اور آسٹریا میں مذہبی امن و امن برقرار رکھنے کے جائز حق کی پاسداری کی ہے۔’

اس کے بعد ای ایس نے یورپی یونین کے قانون کی انسانی حقوق کے بارے میں شق کا سہارا لیتے ہوئے یورپی عدالت میں اپیل کی تھی کہ مقامی عدالتیں ان کی آزادیِ اظہار کے حق کا تحفظ کرنے میں ناکام رہی ہیں۔

تاہم ای ایچ سی آر نے فیصلہ صادر کیا کہ ای ایس کے ‘بیانات معروضی بحث کی جائز حدود سے تجاوز کرتے ہیں اور انھیں پیغمبرِ اسلام پر حملہ قرار دیا جا سکتا ہے، جس سے تعصب کو ہوا مل سکتی ہے۔’

یورپی عدالت نے قرار دیا کہ شق 10 کے تحت اس خاتون کے حقوق کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔

[pullquote]یورپ میں مبینہ گستاخی کے واقعات اور ان کا ردِ عمل[/pullquote]

یورپ میں ایک عرصے سے آزادیِ اظہار کی آڑ میں مبینہ توہینِ رسالت کے واقعات پیش آتے رہے ہیں جن کا مسلم دنیا میں شدید ردِ عمل سامنے آیا ہے اور اس دوران کئی افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

اس کی ایک مشہور مثال سلمان رشدی کی متنازع کتاب تھی، جس کے بعد ایران کے آیت اللہ خمینی نے ان کے خلاف موت کا فتویٰ جاری کیا تھا، تاہم سلمان رشدی کا موقف تھا کہ انھوں نے بطور ادیب آزادیِ اظہار کا حق استعمال کیا ہے۔

نیدر لینڈز کے سیاست دان گیرٹ وائلڈر اسلام مخالف موقف کی وجہ سے دنیا بھر میں جانے جاتے ہیں۔ انھوں نے اس سال کے وسط میں پیغمبرِ اسلام کے خاکے بنوانے کے مقابلے کا اعلان کیا تھا تاہم بعد میں یہ فیصلہ واپس لے لیا۔ اس کے علاوہ وہ قرآن پر پابندی لگانے اور مسلمان تارکینِ وطن کو نیدرلینڈز سے نکالنے کی مہم چلانے جیسے متنازع کاموں میں ملوث رہ چکے ہیں۔

2008 میں انھوں نے ‘فتنہ’ کے نام سے ایک فلم بنائی جس میں اسلام کے خلاف کئی دعوے کیے گئے تھے۔ نیدرلینڈز میں کسی ٹیلی ویژن کمپنی نے یہ فلم چلانے سے انکار کر دیا، اور کچھ سیاست دانوں نے اس پر پابندی لگانے کی بھی کوشش کی، مگر وائلڈرز نے اسے انٹرنیٹ پر پوسٹ کر دیا، جس پر متعدد مسلمان ملکوں اور تنظیموں نے احتجاج کیا تھا جس کے دوران درجنوں افراد مارے گئے تھے۔

وائلڈرز 2004 کے بعد سے مسلسل مسلح محافظوں کے حصار میں رہتے ہیں کیوں کہ انھیں متعدد بار موت کی دھمکیاں مل چکی ہیں۔

2014 میں فرانس کے رسالے چارلی ایبدو نے پیغمبرِ اسلام کے خاکے شائع کیے تھے جس پر مسلم دنیا میں غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا اور کئی مسلمان ملکوں میں اس کے خلاف مظاہرے ہوئے تھے۔

2015 میں دو مسلمان بھائیوں نے رسالے کی عمارت میں فائرنگ کر کے 12 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔

[pullquote]یورپی عدالتِ انصاف برائے انسانی حقوق ہے کیا؟[/pullquote]

یہ عدالت یورپی یونین کے تحت کام کرتی ہے اور اس کا کام افراد اور ملکوں کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے بارے میں جاری کردہ مقدمات پر فیصلہ سنانا ہے۔ یہ عدالت خود کوئی کیس نہیں لے سکتی۔

یہ عدالت یورپین کنونشن برائے انسانی حقوق کے تحت فیصلے سناتی ہے جس پر 47 ملکوں نے دستخط کر رکھے ہیں۔ عدالت کے سامنے پیش کردہ مقدمات کے لیے ضروری ہو کہ ان میں کہا گیا کہ کسی ملک نے کنونشن کی خلاف ورزی کی ہے جس سے کسی فرد یا گروہ کو قابلِ ذکر نقصان پہنچا ہو۔

عدالت کل 47 ججوں پر مشتمل ہے جن کے نام یورپی یونین کے رکن ممالک تجویز کرتے ہیں جب کہ ان کا انتخاب کونسل آف یورپ کی پارلیمانی اسمبلی کرتی ہے۔

ای ایس نامی آسٹرین خاتون نے اسی سلسلے میں مقدمہ دائر کیا تھا کہ آسٹریا کی مقامی عدالتوں نے ان کے آزادیِ اظہار کے بنیادی حق کا تحفظ نہ کر کے یورپین کنونشن برائے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے۔ تاہم ان کی اپیل مسترد ہو گئی۔

[pullquote]انسانی حقوق کی شق 10 کیا کہتی ہے؟[/pullquote]

اس شق کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ یہ ضرور کہتا ہے کہ ہر کسی اور آزادیِ اظہار کا حق حاصل ہے جس میں حکومت کی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔

اسی اسی شق کے دوسرے حصے میں آزادیِ اظہار پر قدغنیں بھی لگائی گئی ہیں اور کہا گیا ہے کہ آزادیِ اظہار کے ساتھ فرائض اور حقوق بھی شامل ہیں، اور یہ آزادی کسی جمہوری معاشرے کے قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے رسومات، حالات، ضوابط کے ماتحت ہے اور اس کی آڑ میں کسی کے جذبات مجروح نہیں کیے جا سکتے۔

[pullquote]یورپ میں یہود دشمنی کے خلاف قوانین[/pullquote]

یہ تصور عام ہے کہ یورپ میں یہودیوں کے خلاف کچھ کہنا جرم ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔

اس کی بجائے یورپ کے اکثر ملکوں میں ہولوکاسٹ (دوسری جنگِ عظیم کے دوران نازیوں کے ہاتھوں یہودیوں کا قتلِ عام) سے انکار جرم کے زمرے میں آتا ہے۔

اس کے علاوہ بعض ملکوں میں نازی علامات کی نمائش (مثلاً سواستیکا یا نازی سیلیوٹ) بھی جرم قرار دیے جا سکتے ہیں۔

اکثر ملکوں نے اس قانون کو نفرت پھیلانے اور اقلیتوں کے خلاف تشدد کو ہوا دینے کے پہلے سے موجود قوانین کے ساتھ ملا دیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے