مہاراجہ کا کشمیر الحاق معتبر یا مشکوک ؟

27اکتوبرہی کے دن 1947میں بھارتی افواج کشمیر میں داخل ہوئی تھیں اور قبائلی جنگجووں کے ساتھ نبرد آزما ہوکر انہیں شکست سے دوچار کردیا تھا۔بھارتی افواج کی کشمیر پر چڑھائی کیلئے اس آزاد ریاست کے مہاراجہ ہری سنگھ کی جانب سے26اکتوبر1947کو بھارت کے ساتھ مشروط الحاق کو جواز کے طور پیش کیاجارہا ہے اور یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ مہاراجہ کی گزارش پر ہی دستاویز الحاق پر دستخط ہوئے اور ان کے کہنے پر ان کی مدد کیلئے فوج سرینگر کے ہوائی پٹی پر27اکتوبر1947کو اتاری گئی ۔مرکزی حکومت دستاویز الحاق کی حقانیت منوانے کیلئے بہت آگے نکل چکی ہے تاہم بیشتر محققین دستاویز ِ الحاق پر سوال اٹھارہے ہیںاور حقائق پیش کرکے یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں کہ 26اکتوبرکو الحاق نامہ پر دستخط ہوئے ہی نہیں تاہم27اکتوبر کوجب بھارتی فوج کشمیر میں داخل ہوچکی تھی ،تو اس روز دستاویز الحاق پر دستخط کے امکانات بنتے ہیں۔

معروف مصنفہ السٹر لیمب اپنی کتاب کشمیرایک سانحہ کا جنم کے صفحہ نمبر82پر رقمطرازہیں کہ مہاراجہ کے نائب وزیراعظم رام لال باترا 24 اکتوبر کو مہاراجہ ہری سنگھ اوروزیر اعظم مہر چند مہاجن کے خطوط کے ساتھ بذریعہ ہوائی جہاز دہلی روانہ ہوگئے تھے۔اِن خطوط میں بھارت سرکار سے فوجی امداد طلب کی گئی تھی تاہم بقول لیمب باترا کو دہلی میں سرد مہری کا سامنا کرنا پڑاکیونکہ ان خطوط میں شیخ محمدعبداللہ کے بارے میں کوئی ذکر نہیں تھا جب کہ پنڈت نہروشیخ محمد عبداللہ کے رول پر تکیہ کئے ہوئے تھے ۔ان کے نزدیک الحاق کی معنوی تصدیق شیخ محمد عبداللہ کی تائید ہی ہو سکتی تھی ۔نہرو نے سردارپٹیل کو مجبور کیا کہ وہ اپنے اثر و رسوخ کو بروئے کار لاکر شیخ محمدعبداللہ کی رہائی کی کوشش کریں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوااور 29ستمبر 1947شیخ عبداللہ کی رہائی عمل میں آئی۔

طارف ناز کی کتابSheikh Abdullah, A victim of betrayalمیں موصوف رقمطراز ہیں کہ نئی دہلی میں رام لال باترا نے بھارتی امداد کی درخواست کی، جو قبول نہ ہوئی اور اس کے بعد وی پی مینن اور مہر چند مہاجن طیارے میں سرینگر سے دہلی کی طرف روانہ ہوتے ہیںاور وہاں مدد کے طلبگار ہوتے ہیں، بعد دوپہر تک بھارتی دفاعی کمیٹی ،جس کی سربراہی لارڈ ماونٹ بیٹن کررہے تھے،میںکوئی اتفاق رائے پیدا نہ ہوا کیونکہ مورخین کے مطابق بیٹن اس فوجی امداد کو آزاد ریاست میں فوجی مداخلت سے تعبیر کررہے تھے اور انہیں ڈر تھا کہ اس کا بین الاقوامی سطح پر شدید نوٹس لیاجائے گا تاہم مہاجن نے کہا کہ انہیں حکم ملا ہے کہ بھارت سے امداد نہ ملنے کی صورت میں وہ پاکستان کا رخ کریں جس پر نہرو بپھر گئے۔ شیخ محمد عبداللہ ،جو ایک دوسرے کمرے میں یہ گفتگو سن رہے تھے ،نے ایک پرچی نہرو کو بھیج دی اور ان سے گزارش کی کہ وہ مہاراجہ کی گزارش قبول کرلیں تاکہ قبائلیوں کو واپس دھکیلا جاسکے ،نہرو آمادہ ہوئے۔ امداد کا فیصلہ کر لیاگیا جس کی توثیق بھارتی کابینہ نے کرلی جس کے بعد نہرو نے 25اکتوبر کو مینن کو کرنل سام مانک شاہ اور ایک ائر فورس آفیسر کے ہمراہ کشمیر بھیج دیاتاکہ مہاراجہ کا موڈ دیکھا جاسکے اور جب26 اکتوبر 1947کی صبح کو ہی وی پی مینن اور مہر چند مہاجن طیارے میں سرینگر سے دہلی کی طرف روانہ ہوتے ہیںتو وہاں مینن نے نہرو کو بتایا کہ مہاراجہ پریشانی کی حالت میں ہیں تو انہوں نے مینن کو بتایاکہ وہ شیخ محمد عبداللہ کے ساتھ مشاورت کے بعد تیار کئے گئے دستاویز الحاق پر دستخط کیلئے مہاراجہ کو تیار کریں۔گوکہ مینن اس مشن میں 27اکتوبر کو کامیاب ہوگئے تاہم اسی دن لارڈ ماونٹ بیٹن نے مہاراجہ کے نام ایک خط لکھ کر انہیں بتایا کہ الحاق عارضی ہے اور اس کی توثیق رائے شماری کے ذریعے کرانی باقی ہے۔

ایک اورمعروف کشمیری مورخ اور کئی کتابوں کے مصنف ڈاکٹر عبدالاحد نے دستاویز الحاق کو فراڈ قرار دیا ہے ۔وہ اپنی کتاب Kashmir-Triumphs & Tragediesکے23ویں باب میں آرکائیوز مواد ،تاریخوں میں قلم زنی اور دستخطوں میں سیاہی کے استعمال سمیت کئی ثبوتوں کے ساتھ یہ واضح کردیتے ہیں کہ الحاق دستاویز کی اعتباریت مشکوک ہے ۔

معروف مغربی مصنفہ السٹر لیمب نے بھی اپنی کتابkashmir-Birth of a Tragedyکے چھٹے باب میں اس دستاویز پر سوالات اٹھائے ہیں ،شاید یہی وجہ ہے کہ بھارت آج تک دستاویز الحاق کی اصل کاپی عالمی برادری کے سامنے پیش کرنے سے قاصر ہے۔اب جہاں تک اس دعوے کا تعلق ہے کہ دستاویز الحاق پر26اکتوبر1947کو ہی مہاراجہ نے دستخط کئے تھے تویہ دعوی بھی مشکوک نظر آرہا ہے ۔

وی پی مینن ،جو بھارت سرکار کے ریاستوں سے متعلق امور کے محکمے کے سربرا ہ تھے اورجن کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ انہوں نے دستاویز الحاق پر مہاراجہ کے دستخط حاصل کئے ،اپنی کتابIntegration of Statesمیں رقمطراز ہیںکہ وہ اس دن یعنی26اکتوبر کو دلی سے بذریعہ ہوائی جہاز جموں آئے اور جموں میں دستاویز الحاق پر مہاراجہ کے دستخط لئے اور واپس دلی چلے گئے تاہم ان کا یہ دعوی کسی بھی صحیح قرار نہیں دیا جاسکتا ہے کیونکہ 26اکتوبر کی صبح ہی مہاراجہ اپنے خاندان کے ساتھ کشمیر چھوڑ کر جموں کی جانب روانہ ہوئے اور جموں سرینگر شاہراہ ،جسے ان دنوں بانہال کارٹ روڈ کہاجاتا تھا ،کی حالت دیکھتے ہوئے اور ان عینی شاہدین ،جنہوں نے مہاراجہ کے کاررواں کو راستے میں جاتے ہوئے دیکھا ،کے بیانات کو مدنظر رکھتے ہوئے مہاراجہ کیلئے شام7بجے سے قبل جموں پہنچنا ناممکن تھااور چونکہ ان دنوں جموں طیران گاہ پر شبانہ پرواز بھرنے اور اترنے کی سہولیت میسر نہ تھی تو اس کو دیکھتے ہوئے یہ ناممکنات میں سے ہے کہ کوئی شخص دلی سے جموں آئے اور شام کو جموں میں مہاراجہ کے دستخط لیکر رات کو ہی واپس دلی چلاجائے ۔اس سے مینن کے دعوے کی ہوا ہی نکل جاتی ہے ۔

اتنا ہی نہیں،برطانوی ہائی کمیشن کے ریکارڈLP&S/13/1845b,ff 283-95-India office recordsکے مطابق اس وقت کے بر طانوی ڈپٹی ہائی کمشنربرائے بھارت ،الیگزنڈرا سائمن 26اکتوبرکو دلی میں مینن سے ملے اور انہیں بتایا گیا کہ وہ27اکتوبر کو جموں جارہے ہیں۔وکٹوریہ سکو فیلڈنے اپنی کتابKashmir in the Crossfireکے صفحہ نمبر149پر سائمن کی نجی ڈائری سے نقل کیا ہے کہ 26 اکتوبر کے روز وی پی مینن کیساتھ ان کی ملاقات شام کو ہوئی ، سائمن دن کے3:30بجے دہلی کے ولنگٹن ائر پورٹ پر وی پی مینن سے ملاقات کی غرض سے جاتے ہیں، وہاں انہیں یہ بتا یا جا تا ہے کہ جہاز پالم سے روانہ ہونے والا ہے ۔پالم ہوائی اڈے پر وہ وی پی مینن کو دہلی شہر کی جانب واپسی کیلئے تیار پاتے ہیں۔ وجہ یہ بتائی جاتی ہے ہے کہ دیر ہونے کے سبب ہوائی پرواز معطل کر لی گئی ہے۔ دونوں 5 بجے ملنے کے وعدے کو ساتھ رخصت ہوتے ہیں اور جب دونوں وقت مقررہ پہ ملتے ہیں تو مینن انہیں یہ بتاتے ہیں کہ وہ اب صبح جموں جائیں گے اوردوپہرتک ان کی واپسی ہو گی ۔ سکوفیلڈکے مطابق سائمن کی ڈائری میں جومنعکس ہوا ہے وہ ا یک ٹاپ سیکرٹ خط میں لندن دولت مشترکہ کے سر براہ آ رچی بالڈ کارٹر کے نام اس اطلاع کے ساتھ روانہ ہوتا ہے کہ جب ا نہوں نے 27 اکتوبر کو دن کے 4بجے مینن کے دفترفون کیا تو انہیں بتایا گیا کہ ابھی وہ جموں سے واپس نہیں آئے ہیں ۔اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ الحاق پر دستخط26اکتوبر کو نہیں ہوئے ہیں۔

اتنا ہی نہیں ،اس وقت کے کشمیر کے وزیراعظم مہر چند مہاجن اپنی سوانح حیات Looking backکے صفحہ نمبر154پر لکھتے ہیں کہ27اکتوبر کی صبح 9بجے کے قریب سرینگر کے ائر ڈروم آفیسر کی جانب سے یہ اطلاع پانے ،کہ بھارتی افواج سرینگر ائر پورٹ پر لینڈ کرچکی ہیں ،کے بعد وہ اور مینن 27اکتوبر کو جموں چلے گئے جہاں مہاراجہ کے شاہی محل پر کچھ تبالہ خیال کے بعد دستاویزات پرمہاراجہ نے دستخط کئے جو مینن اپنے ساتھ دلی واپس لے گئے ۔

اس کے بعد اگر کوئی شک و شبہ رہتا ہے تو وہ 27اکتوبر کو پنڈت جواہر لعل نہرو کی جانب سے مہاراجہ کو لکھے گئے خط سے دورہوجاتا ہے جس میں وہ لکھتے ہیںشری وی پی مینن جموں سے آج کی شام واپس لوٹے اور مجھے وہاں ہوئی بات چیت سے آگاہ کیا ،انہوں نے مجھے دستاویز الحاق بھی دی جس پر آپ کے دستخط ہیں (وکٹوریہ سکو فیلڈKashmir in the Crossfire صفحہ نمبر149)۔

اے جی نورانی نے 24مارچ1995کے فرنٹ لائن رسالہ کے شمارے میں کشمیر الحاق کے تعلق سے سردار پٹیل کی سیکریٹری اور بیٹی منیبن پٹیل کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان کے والد نے 27اکتوبر کو دلی ائرپورٹ پر وی پی مینن کا استقبال کیا نہ کہ26اکتوبر کو ،جیسا کہ کہاجارہا ہے ۔ان شواہد سے ثابت ہوجاتا ہے کہ دستاویز الحاق پر 26اکتوبر کودستخط ہوئے ہی نہیں ہیں اور اگر کبھی ہوئے بھی ہیں تو وہ27اکتوبر کو کشمیر میں بھارتی افواج کے داخلہ کے بعد ہوئے ہیں۔

این سٹیفنس اپنی کتاب پاکستان صفحہ:203میں لارڈماونٹ بیٹن کے ساتھ ایک میٹنگ کے حوالے سے لکھتے ہیںکہ26 اکتوبر کی شام وہ مجھ سے ملے اور بتایا کہ الحاق کے کاغذات کو حتمی شکل دی جا رہی ہے جس کا مطلب سٹیفنس یہ لیتے ہیں کہ ابھی دستخط ہوئے ہی نہیں۔اس کے علاوہ لندن سے شائع ہونے والے انگریزی اخبار لنڈن ٹائمزمیں28اکتوبرکویہ رپورٹ شائع ہوئی کہ مہر چند مہاجن اور وی پی مینن جموں کیلئے روانہ ہوئے جہاں کشمیر دربار لگا ہوا ہے تاکہ وہ الحاق کی تصدیق کروا سکیں ۔اس کا یہ مطلب یہ ہے کہ روانگی 27 اکتوبر کی تھی البتہ تصدیق کا یہ مطلب بھی لیا جاسکتا ہے کہ پہلے ہی اِس بارے میں کاروائی ہو چکی تھی یعنی بات وہی پہ آجاتی ہے کہ 24 اکتوبر کے مراسلات جو کشمیر دربار کی جانب سے بھارت سرکار کو بھیجے گئے تھے، ان پر تصدیق کی ضرورت تھی لیکن یہ عیاں ہے کہ رام لال باترا کے پاس ایسی کوئی دستاویز نہیں تھی جس پر ہند کشمیر الحاق پہ مہاراجہ ہری سنگھ کے دستخط کی تعبیر دی جائی۔

الحاق کے حوالے سے ہی ایک اوردلیل یہ پیش کی جارہی ہے کہ بھارتی افواج 22اکتوبر کو کشمیر پر قبائلی حملہ کے بعد مدد کیلئے طلب کی گئی تھیں تاہم یہ بھی حقیقت سے بعید نظر آتا ہے بلکہ تاریخی حقائق کہتے ہیں کہ بچاو آپریشن کے تحت بھارتی حکومت نے پہلے ہی 12سے17اکتوبر1947کے درمیان آرمی کی 50ویں پیرا شو ٹ بریگیڈ کے 4کمانڈو پلاٹون اور پٹیالہ پولیس کے دستے کشمیر بھیج دئے تھے۔اتنا ہی نہیں ،سرینگر ہوائی اڈے کو بھی پہلے ہی ان فورسز نے گھیرے میںلے رکھا تھا ۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ گورنر جنرل لارڈ ماونٹ بیٹن نے پہلے ہی مہاراجہ ہری سنگھ کو ایسے فوجی امداد کی یقین دہائی کرائی تھی ۔
معروف امریکی و فرانسیسی مصنفین لیری کولنز اور ڈومنیک لیپائرنے اپنی تصنیف آزادی بوقت نصف شب (Freedom at Midnight) کے صفحہ نمبر205میں بیٹن کے جون1947میں دورہ کشمیر کے دوران مہاراجہ کو اس یقین دہانی کے بارے میں تفصیل کے ساتھ لکھا ہے ۔اس کے علاوہ سردار پٹیل کی وزیر دفاع بلدیو سنگھ کے ساتھ مراسلت میں بھی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ فوجی امداد کا منصوبہ بہت پہلے بنایا گیا تھا اور یوں یہ دعوی بھی بے بنیادلگ رہا ہے کہ بھارتی افواج قبائلی حملہ کے ردعمل میں کشمیر میں داخل ہوئیں۔

یہ بھی استدلال پیش کیاجارہا ہے کہ بھارت کے ساتھ کشمیر کا الحاق یقینی بنانے کیلئے صورتحال ایسی بنائی گئی کہ قبائلی حملہ کرایاگیاکیونکہ اس وقت دونوں ممالک کے فوجی سربراہ برطانوی آفیسران تھے جو ماونٹ بیٹن کے معتمد خاص تھے اور ایسا لگ رہا ہے کہ دونوں فوجی سربراہان کے درمیان کوئی مفاہمت تھی ۔دیوی داس نے اپنی کتاب Kashmir in search of futureمیں لکھا ہے کہ بھارتی فوجی سربراہ کو تین روز قبل قبائلی حملہ کے بارے میں خبر تھی ،پاکستان کے قبائلی علاقہ میں خورشید انور ،ایک سابق فوجی آفیسر نے وزیر اعلی NWFOخان عبدالقیوم خان کی رضامندی سے اس حملہ کا منصوبہ تیار کیا،20اکتوبر کو قبائلی حملہ آور کشمیر کی جانب پیش قدمی کرنے لگے ،NWFPے گورنر اس حملہ سے لاعلم تھے اور جونہی انہیں اس کی خبر ہوئی تو انہوں نے فوری طور لیاقت علی خان کو مطلع کیاجو حیران رہ گئے کیونکہ وہ اس کے حق میں نہیں تھے۔

الحاق کے حوالے سے ایک اور مفروضہ یہ گڑھا ہے کہ تقسیم کے بعد مہاراجہ کو ہندوپاک میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کااختیار تھا۔یہ مفروضہ اس لئے غلط نظر آرہاہے کیونکہ 3جون 1947کے اصل پارٹیشن پلان کے مطابق بھارت کو کشمیر تک کوئی رسائی نہیں تھی اور اس حقیقت کو دھیان میں رکھتے ہوئے نہرو کے دست راس اور ماونٹ بیٹن کے آئینی مشیر نے اصل تقسیم سے تین ہفتہ قبل ایک نوٹ لکھ کر بھیجا جس میں لکھاگیا تھا کہ کشمیر پاکستان کے ساتھ نہیں ملتا ہے اور اگر گرداسپور ضلع کاایک حصہ بھارت کو ملتا ہے تو کشمیر تک رسائی مل سکتی ہے (بحوالہ Vol XII of The Transfer of Power series of documents )۔

پنڈت نہرو نے بھی ماونٹ بیٹن کی اہلیہ ایڈوینا ماونٹ بیٹن کے ساتھ انتہائی قربت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں اصل پارٹیشن پلان میں تبدیلی کرکے شوہر ماونٹ بیٹن کو مسلم اکثریتی گرداسپور ضلع بھارت کو دینے پر قائل کردیاجس کے نتیجہ میں بھارت کو کشمیر تک رسائی مل جاتی ۔چونکہ ماونٹ بیٹن قائد اعظم محمد علی جناح کی جانب سے انہیں گورنر جنرل آف پاکستان بنائے جانے کی خواہش ٹھکرانے سے ناراض تھے،تو انہوں نے بدلے کی آگ میں یہ تجویز قبول کرلی اور یوں گرداسپور ضلع بھارت کو مل گیا ۔اس کی تصدیق باونڈری کمیشن کے سربراہ ریڈ کلف کے سیکریٹری کرسٹو فر بیوماونٹ نے1992میں لندن میں بھی کی جن کا کہنا تھا کہ ماونٹ بیٹن کے دباو میں آکر ریڈ کلف نے باونڈری لائنوں میں تبدیلی کرکے گرداسپور ضلع بھارت کے حصے میں ڈالاتاکہ بھارت کو کشمیر تک براہ راست رسائی مل سکے ۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ریاست کے آخری جاگیردارانہ حکمران کو اس نوعیت کے انتظام کے کسی بھی معاہدے پر دستخط کرنے کا حق تھا جب مہاراجہ کے خلاف نہ صرف کشمیر چھوڑ دو کی تحریک شروع کی گئی تھی اور بیعنامہ امرتسر کو چیلنج کیاگیا تھا جس کی رو سے ہری سنگھ اوراس کے آباواجدادریاست پر حکومت کرتے تھے بلکہ برطانوی پارلیمنٹ کے جولائی 1947کے انڈین انڈپنڈنس ایکٹ کی دفعہ(b)(1)7 کی رو سے 15اگست 1947کے روز تمام معاہدے ختم ہوجاتے تھے جو برطانیہ نے ریاستوں کے ساتھ کئے تھے اور یوں یہ ساری ریاستیں بشمول جموں و کشمیر قانونی اعتبار سے آزاد ہوجاتی تھیں۔ اسلئے 15اگست1947کے بعدکوئی بھی معاہدہ بشمول معاہدہ امرتسر 1846ختم ہوجاتا تھا۔ یہ بات نئی دلی میں وائسرائے ہند نے ریاستوں کے تمام والیوں کو بھی اچھی طرح سے سمجھائی تھی اور اس طرح 15اگست کے بعد مہاراجہ کا قانونی اور اخلاقی کردار ختم ہوچکا تھا اور وہ 7(1)(b)کے تحت کوئی بھی معاہدہ نہیں کرسکتا تھا اور نہ کوئی الحاق۔

مسئلہ کشمیر کے بارے وکٹوریہ شفلیڈکی2010کی کتاب میں الحاق کی کہانی میں کئی حقائق سے پردہ اٹھایا گیا ہے جن پر اب تک کسی او رمورخ نے تفصیل سے روشنی نہیں ڈالی تھی۔ ایسا لگتاہے کہ وہ سٹینلی والپرٹ سے متفق ہیں کہ ہندوستان نے پاکستان کوکمزورکرنے کے لئے کشمیر کو ہڑپ کرنا چاہا۔ انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ گاندھی جی اور نہرو نے 15اگست کے فورا بعد کشمیرکادورہ کرنے پر کیوںاصرار کیا اور پٹیالہ ،کپورتھلہ اور فرید کوٹ کے شہزادوں اور کانگریسی رہنما جے بی کرپلائی کی کشمیر میںموجودگی کے کیا معنی تھے جبکہ کسی بھی مسلمان رہنما نے حیدرآباد اور جونا گڑھ اور نہ ہی کشمیر کا دورہ کیا۔
وکٹوریہ رقمطراز ہے اتنی بڑی تعداد میں مہمانوں کی موجودگی کا کیا مطلب۔ان سب کا اس مشورے میں کوئی نہ کوئی مقصد تھا۔ پریم نا تھ بزاز نے وکٹوریہ کے اعتراضات کی تصدیق کی۔1950میں Truth About Kashmirنامی شدہ ایک چھوٹے سے کتابچہ میں بزاز نے لکھا ہے کہ سوشلسٹ پارٹی ، جموں وکشمیر کسان مزدور کانفرنس اور جموں وکشمیر مسلم کانفرنس نے مہاراجہ کو ہندوستان میں شامل ہونے کے خلاف خبردار کیا تھا اور انہیں مشورہ دیاکہ اگر وہ آزاد نہیں رہ سکتے ہیں او رایک یا دوسرے ملک میں شامل ہونا اس کے لئے بہترین راستہ ہے اور اگر اس کو کشمیریوں کی خواہش کے بارے میں شک ہو تو اس کواعلان سے قبل بالغ حق رائے دہندگی کی بنیاد پر رائے شماری کرانی چاہئے۔وکٹوریہ اور بزاز دونوں دستاویز الحاق کی بنیادوں،چاہے وہ مشروط تھیں یا کبھی ان پر دستخط ہی ثبت نہ ہوئے تھے،کو تسلیم کرنے سے پس وپیش کرتے رہے۔ یہ وکٹوریہ ہی نہیں بلکہ بہت سارے دوسرے مبصرین ، مصنفین اور مورخین اس بارے میں اپنا شک وریب ظاہر کرتے ہیں کہ آیا 27اکتوبر کو مہاراجہ ہری سنگھ نے سرینگر سے راہِ فرار اختیار کرکے دستاویز الحاق پر واقعی اپنے دستخط کئے تھے اور وہ بھی اس حال میں جب اسی فیصد آبادی ان کے خلاف مسلم بغاوت بلند کئے ہوئی تھی۔اس طرح 71سال بعد بھی مہاراجہ کا الحاق بھلے ہی دلی کی نظروں میں معتبر ہو لیکن یہ متنازعہ ضرور ہے اور اس کی اعتباریت پر مسلسل سوال اٹھ رہے ہیں اور شاید اس وقت تک اٹھتے رہیں گے جب تک مسئلہ کشمیر کا کوئی دائمی حل نکل نہیں آتا ہے۔

بشکریہ : نوائے جہلم سری نگر

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے