آزادکشمیر کے قیام کی قرارداد پوشیدہ کیوں؟

ہر سال 24 اکتوبر کو انتہائی کرو فر، شان و شوکت اور سرکاری سطح پر آزاد کشمیر کا یوم تاسیس منایا جاتا ہے، لیکن اس کے قیام کی تا ریخی قرار داد کبھی منظر عام پر نہیں لائی جاتی نہ ہی اس پر کوئی تبصرہ یا بحث ہوتی ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس قرار داد کے تحت آزاد کشمیر ایک آزاد ، خود مختار ، سیکولر اور پوری ریاست کی نمائندہ حکومت کے طور عمل میں لائی گئی تھی- گوکہ یہ بھی ایک جھانسہ تھا کیونکہ اس کا کنٹرول حکومت پاکستان کے پاس ہی تھا، بہ این ہمہ ایک واہمہ تھا.

یہ حکومت اور سیاسی ڈھانچہ کیوں اور کس طرح تحلیل ہوا، یہ کیوں ختم ہوا ، اس کے متبادل بتدریج کیا نیا سسٹم آیا اور اس کے فوائد نقصان کیا ہیں، اس میں کسی تبدیلی ، ترمیم ، اضافہ کمی کی ضرورت ہے یا نہیں، اس کے بارے میں نئی نسل کو کوئی علم ہے نہ ہی اس کو اس طرف جانے دیا جاتا ہے .

اس اخفا کی وجہ سے نئی نسل تحریک آزادی ، اس کے مضمرات سے لا علم اور اس حوالے سے ریاست جموں کشمیر کے بین الاقوامی پہلؤوں، ہندوستانی اور پاکستانی موقف ، ریاست کی مختلف اکائیوں ، وہاں کے لوگوں کی ترجیحات اور زمینی حقائق سے بے بہرہ ایک رٹی رٹائی کہانی طوطے کی طرح بیان کرتے ہیں اور مخالفون کے دلائل کے سامنے بے بس ہو جاتے ہیں –

وکالت کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ مخالف کے کیس اور موقف کا پورا ادراک کرکے اپنے دلائل کو مضبوط کیا جانا چاھیے لیکن ہمیں اپنے کیس کے واقعات اور واقعات کی development کا کوئی ادراک نہیں ہوتا، جو ہمارے اداروں ، لیڈروں اور حکمرانوں کی ذاتی ترجیحات کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں-

24 اکتوبر 1947 کی قرار داد

میں ذاتی طور ریاست کو پاکستان کا حصہ بنانے کے حق میں ہوں اور اسی میں ریاست کی غالب اکثریت کی عافیت اور مفاد بھی سمجھتا ہوں ، لیکن بر صغیر میں امن کی بقا اور لوگوں کی ترقی اور خوشحالی اس کے آزاد اور خود مختار ملک بننے، اس کی تقسیم یا کسی اور حل میں مضمر ہے تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ۔

ہندوستانی مقبوضہ حصے میں قتل وغارت، نسل کشی ، عصمت دری ، املاک کا نقصان اور خوف کا عالم دیکھا نہیں جا سکتا نہ ہی پاکستانی حصوں میں democratic and constitutional deficit اور ہندوستان اور پاکستان کے وسائل جنگی جنون میں ضائع کرنا کسی کے مفاد میں ہے –

ان پہلؤوں پر غور کرنے اور ان کا ادراک کرنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن اس کے لئے ریاست کے دونوں حصوں میں political, economic, strategic, diplomatic ,regional , historical developments لوگوں کی aspirations ہندوستان ، پاکستان اور اس خطے کے آس پاس کے ملکوں اور بین الاقوامی حالات کا ادراک حاصل ہونا اور کرنا ناگزیر ہے- اپنے حق میں اور خلاف واقعات کی غیر جانبدارانہ علمیت نئی نسل تک پہنچانی ہماری ، ریاست اور اس کے اداروں کی ذمہ داری ہے – ایک فارسی شاعر نے درست کہا ہے کہ :
بے علم نتوان خدا را شناخت

ضروری نہیں کہ میرے دوست مجھ سے اتفاق کریں، لیکن ان باتوں پر غور کرنے میں کوئی حرج بھی نہیں ہے- دلیل ، تفکر ، تعقل اور تدبر انسان کا خاصہ ہے ، اس کوہاتھ سے نہ جانے دیں-

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے