اسرائیلی طیارہ اور پاک اسرائیل تعلقات

بین الاقوامی سیاست میں ایسا بہت کچھ ہوتا رہتا ہے جس کی وضاحت فوری طور پر نہیں کی جا سکتی۔ ضروری نہیں کہ اسرائیلی طیارے میں کوئی قابل ذکر اسرائیلی شخصیت بھی پاکستان آئی ہو۔ ہو سکتا ہے کہ اسرائیلی طیارے کی آمد فقط عوامی ردعمل دیکھنے اور ابتدائی طور پر ایک مخصوص بیانیہ تشکیل دینے کی خاطر ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بڑی تصویر میں ایران کے خلاف ممکنہ عرب اسرائیل اتحاد میں پاکستان نے کسی ایک جانب یعنی عرب اسرائیل پلڑے میں اپنا وزن ڈالنے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہو اور طیارے کی آمد "جذبہ خیر سگالی” کا مظاہرہ ہو۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ امکان بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ طیارے کی آمد بس ایک افواہ سے زیادہ کچھ نہ ہو۔

حقیقت حال کچھ بھی ہو مگر چند زمینی حقیقتیں ہمیں تسلیم کر لینی چاہئیں۔ جن میں سے ایک اور شاید سب سے اہم یہ ہے کہ پاکستان کا اپنا انفرادی وجود ایک واہمہ ہے۔ پاکستان اس خطے میں ایک ہی صورت باقی رہ سکتا ہے کہ کسی نہ کسی سپر پاور کی کٹھ پتلی بن کر رہے۔ یہی حال اسرائیل کا ہے۔ اسرائیل تاریخی طور پر بھارتی اتحادی رہا ہے جبکہ بھارت امریکہ و روس کے درمیان کبھی ادھر تو کبھی ادھر، مگر زیادہ تر روسی و ایرانی بلاک کا اہم حصہ رہا ہے۔ اس وقت جب بین الاقوامی سیاسی محاذ کی ڈائنامکس تبدیل ہو رہی ہیں، امریکہ جارحانہ یعنی قائدانہ حیثیت چھوڑ کر دفاعی پوزیشن اختیار کرتا جا رہا ہے، چین کی قیادت میں روس لیڈرشپ کے لیے ہاتھ پیر مار رہا ہے تو پاکستان اور اسرائیل کو سمیت خلیجی ریاستوں کے، اس کوشش میں ہونا چاہیے کہ وہ مستقبل کے منظرنامے میں اپنا مقام طے کریں۔

خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان، اسرائیل اور خلیجی ریاستیں ماضی کی طرح "جس کا جدھر کو منہ” چل پڑنے اور باہمی تنازعات کا شکار رہنے کی بجائے آپس میں ایکا کرنا چاہتی ہیں۔ اگر ایسا ہو جائے، جو کہ ہونا چاہیے، تو اور کچھ ہو نہ ہو کم از کم ان ممالک کے عوام کو قدرے سکون کا سانس لینے کا موقع مل جائے گا، عوام جو مسلسل دشمنی کا بیانیہ چاٹ رہے ہیں، دوستی اور امن آستی کا سبق پڑھ سکیں گے۔ فلسطین، جو بظاہر اس نئے اتحاد میں کہیں زیر بحث نظر نہیں آتا، کی بچت بھی اسی میں ہے کہ خلیجی ریاستیں اور پاکستان و اسرائیل باہم متحد ہو جائیں۔ یوں عربوں کے لیے فلسطین میں امدادی سرگرمیاں جاری رکھنا ممکن ہو گا اور فلسطینیوں کو امن و امان کی زندگی میسر آئے گی۔ پاکستان کو بھی ہزاروں میل کے فاصلے پر مار کرنے والے میزائل بنانے کی حاجت نہیں رہے گی اور اسرائیل کو بھی اسلحہ سازی کی بجائے دیگر شعبہ ہائے زندگی میں تعمیری تحقیق آگے بڑھانے کا موقع ملے گا۔ عربوں کو بھی مسلسل دشمنی اور حالت جنگ کی کیفیت سے نکل کر عوامی بہبود کے منصوبوں پر فوکس کرنا آسان ہو گا جس کی وجہ سے عوام کی زندگی بہتر ہوتی جائے گی اور آئندہ جمال خاشقجی قتل کیس جیسے سانحے بھی نہیں ہوں گے۔

سوال یہ ہے کہ ایران کیا کرے گا؟ کیا ایران پاک اسرائیل اتحاد کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر جائے گا؟ شاید نہیں۔ سعودی عرب اور نہ ہی اسرائیل ایران کے زمینی پڑوسی ہیں۔ ایران کا پڑوسی ملک پاکستان ہے اور ایرانی بیانیے سے براہ راست اور سب سے زیادہ متاثر بھی پاکستان اور پاکستانی عوام ہوں گے۔ خاص طور پر پاکستان میں بسنے والی شیعہ کمیونٹی کے لیے حالات ناساز ہو جائیں گے۔ شیعہ کمیونٹی میں اس سب کے خلاف ردعمل پیدا ہونا بھی فطری ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں "اینٹی شیعہ لابی” از سر نو میدان میں ہے۔ کالعدم جماعتوں کو نئے ناموں سے جلسے جلوس اور مظاہرے کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ ان کے وہ لوگ جو فورتھ شیڈول میں شامل تھے، آزاد گھوم رہے ہیں۔ یقینا یہ تبدیلیاں اس ایرانی بیانیے کو کاونٹر کرنے کے لیے لائی گئی ہیں جو مستقبل میں پاک اسرائیل تعلقات کے خلاف سامنے آئے گا۔

مقتدرہ سے ہماری درخواست ہے کہ اگر آپ اسرائیل کے ساتھ تعلقات مستحکم کرنا چاہتے ہیں، اگر آپ کسی بڑے عرب اسرائیل اتحاد کا حصہ بننا چاہتے ہیں تو بے شک بن جائیے مگر ان تعلقات کو اور اس اتحاد کو ملکی سطح پر بنا کسی کنفیوژن تسلیم کیجیے۔ اپنا بیانیہ خود تشکیل دیجیے۔ عوام کو کالعدم جماعتوں کے تعصب پر مبنی خیالات کے ذمے نہ ڈالیے کہ پاکستان کے عوام پہلے ہی نفرت، فرقہ واریت اور شدت پسندی کے دیے زخموں سے چور چور ہیں۔ پاکستان اب مزید ان زخموں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

یہاں میں پاکستان میں موجود شیعہ کمیونٹی سے بھی گزارش کرنا چاہوں گا کہ آپ کا مفاد پاکستان کے مفاد کے ساتھ وابستہ ہے۔ اس لیے اگر مستقبل میں ایران اور پاکستان کسی بین الاقوامی محاذ پر آمنے سامنے آتے ہیں تو آپ کی بقا پاکستان کی بقا پر مبنی ہو گی۔ ایران اگرچہ مذہبی پس منظر کی وجہ سے آپ کی ہمدردی کا مستحق ہو سکتا ہے لیکن یاد رکھیے کہ ریاستوں کی مجبوریاں مذہبی ہمدردیوں سے بالاتر ہوتی ہیں۔ چنانچہ آپ کا کوئی بھی غیر معقول بیانیہ مقتدرہ کو یہ اجازت دینے کے مترادف ہو گا کہ وہ آپ کے خلاف شدت پسندی کے جذبات کو بڑھاوا دیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے