مسلم سماج کی کشمکش!

عہدِ قدیم میں انسان نے اپنی ضرورتوں کے پیشِ نظر عمرانی معاہدے کیے اور یوں اپنی بقا کی راہ ہموار کی ۔ انسانی ضرورتوں میں اہم ترین ضرورت حفاظت ومعیشت تھی اور یہ معاہدے انہی کی بُنیاد پر کیے گئے ۔اُن معاہدوں کی بُنیادی شرط صرف یہ تھی کہ حُکمران عوام کی حفاظت کریں گے اوربدلے میں عوام ان کی اطاعت ۔ یہ اختیار عوام نے اپنے پاس رکھا کہ اگر حُکمران اپنی ذمہ داری پوری نھیں کرے گا تو اُسے اس منصب سے ہٹادیاجائے گا۔یہ بُنیادی جمہوری قوانین تھے جن کی بُنیاد پر بعدازاں انسانی تہذیب نے عمومااورجدید جمہوری ریاستوں نے خصوصا ترقی کی ۔ بادشاہی نظم میں بھی عوام کو ابتدامیں یہ اختیار حاصل تھا کہ بہرحال بادشاہ بھی عوام کاانتخاب ہوتا ۔

وقت کے ساتھ ساتھ عوام وحکمرانوں کے مابین خلیج بڑھنے لگی اور شاہی خاندانوں میں پرورش پانے والے لوگ ہی عوا م کے سیاہ وسفید کے مالک بن گئے ۔ وہ تعلق جو ابتدامیں باہمی احترام کی بُنیاد پرتھاختم ہوااور دھونس ودھاندلی سے حکمران عوام پر حکومت کرنے لگے ۔ عوام نے جواختیار بادشاہ کے چُناؤ اور برطرفی کااپنے پاس رکھاتھا اُس پر گرفت نادانی میں کم کی اوراس اختیار کوکھو بیٹھے نتیجۃ ََ طبقاتی تفریق واستحصالی نظام ترقی کرنے لگا۔سماج کی تشکیل انسانی زندگی کے آغاز سے ہی ضروری تھی اور تعلیم و سماجی ماہرین کی معدومی بھی اس میں رُکاوٹ نہ بنی مگر جوں جو ں انسان ترقی وتہذیب کی جانب بڑھنے لگا توسماجی قدروں کی اہمیت کم ہونے لگی ۔ انسانی تاریخ میں مہذب سماج کا دورانیہ کم ہی ہے جبکہ قتل وغارت ،جبر وتشدد اور انتشار صدیوں پر محیط ۔

سماج کی بنیاد جن خطوط پر دورِ اول کے انسان نے کی وہ حفاظت و معیشت تھی کہ اُس دور کے مسائل محدود تھے اور وسائل بھی ۔ مگر انسانی آبادی میں اضافے نے ضروریات بھی بڑھا دیں جبکہ خاندان و قبائل اور رہائش کے مسائل بھی سامنے آئے ۔انسان نے انھی بڑھتی ہوئی ضرورتوں کے پیش نظر بقائے باہمی کے لیے پہلے سے موجود جمہوری قوانین کو ہی وسعت دی اور انھی بنیادوں پر سماج کی تشکیل کی ۔ عرب میں انھی بُنیادوں پر ہی مدینہ منورہ میں ایک معاہدہ یہودِ مدینہ سے کیاگیاجس میں بلاتفریق مذہب انسان کوعزت وحفاظت کا یقین دِ لایا گیا۔ اس طرح کہ اگر کوئی قبیلہ باہر سے اس ریاست پر حملہ آور ہو خواہ اس کا ہدف مدینہ کے مسلمان ہوں خواہ یہودی دونوں طبقات ایک دوسرے کی حفاظت کے پابند ہوں گے ۔

ریاستی اختیار پیغمبرِاسلام صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کوتفویض کیاگیا۔ اس سماج نے ہی "صلح حدیبیہ ” کے ذریعے دوسرے قبائل سے تعاون کامعاہد ہ کیا تاکہ یہ سماج ترقی ووسعت کے لیے قریبی دُشمن سے ایک حد تک بے فکر رہے ۔ یوں مدینہ منورہ سے آغاز وارتقا کے بعد قریبا 50،60 برس تک اپنے آپ کوانھی بُنیادوں پر کسی نہ کسی طرح قائم رکھا مگر بیرونی واندرونی سازشوں سے یہ سماج بھی زوال پذیر ہوا۔ جنگ وجدل،انتشار ومایوسی کا ایک عہد شروع ہوا ۔

پُرانا وفرسودہ نظام پھر سے طبقاتی تفریق کا پیش خیمہ بنا اور عوام کااستحصال ہونے لگا ۔یوں انسانی تاریخ پھر سے ایک نئے سماجی ڈھانچے کی منتظر رہی جسے جدید جمہوریت نے ایک حد تک عملی صورت میں پیش کیا ۔ بڑی بڑی سلطتنتیں ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہوئیں ، جنگِ عظیم اول ودوم کے بعد مغرب نے احترامِ باہمی کی بنیاد پر بقائے باہمی کی راہ ہموار کی ۔ مغربی ریاستوں کی متحدہ تنظیم قائم کی اور باہمی تعاون کی طرف قدم بڑھایا ۔مُسلم سماج جس انتشار و تفریق کا شکار ہے اس سے مغرب گزر چُکا ہے مگر اسلامی دنیا اس سے بھی پہلے اس سارے منظر کو تاریخ میں محفوظ کرچُکی ہے ۔

مُسلم سماج نے شاید یہ طے کررکھاہے کہ ہم نے کسی صورت اپنے زریں ماضی کی طرف نھیں پلٹنا جس کادورانیہ کم وبیش 50،60 برس ہے اِس کے انتشار کی وجہ یہی ہے کہ یہ ہرنظام کاہی منکر ہوابیٹھا ہے ۔ ایک وہ نظام جوقدیم عہد میں چند ایک اصولوں کی بنیاد پر سماجی تشکیل کاذریعہ بنا ،ایک وہ جسے پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے پیش کیا اورایک جوجدید مغرب نے اپنارکھا ہے ۔ اس سے بھی بڑھ کر ایک بُنیاد پرست ذہن اسلامی ومغربی نظاموں کے مرغوبے کابھی قائل نھیں اوروجہ یہ کہ اسلام ومغرب چوں کہ دومتضاد تصورِ حیات ہیں تومرغوبہ کیسا۔؟

مگر حقیقت میں مُسلم سماج اسلامی عہد کواپنانے کابھی روادار نھیں کہ وہ ایک مُشکل شکل
ہےاحتساب،احترام،انصاف اور آزادی کی ۔جس میں خلیفہِ وقت جواب دہ ہے ،عزت وتوقیر کاپیمانہ سبھی کے لیے ایک ہے،مُلزم اگر خلیفہ وقت بھی ہے تب بھی عدالتی کارروائی کاسامنا کرتا ہے اور اقلیتیں جزیہ دینے کے بعد ریاست کی ذمہ داری قراردی جاتی ہیں ۔مالی واخلاقی بدعنوانی پرسخت سزائیں و سرزنشیں ہیں اور باہمی احترام کی قدریں مُستحکم ۔ اب ایسے ماحول میں جہاں قریباہر شخص مالی واخلاقی بدعنوانی ، غاصبانہ مزاج اور اندھی طاقت کاطلبگار ہوتو وہ کیوں کر چاہے گاکہ ایک ایسا سماج متشکل ہوجس میں ان سارے "فوائد ” سے ہاتھ دھوناپڑیں ۔ مذہبی و نیم مذہبی گروہ جتنابھی راگ الاپیں کہ اسلامی نظام نافذ کیاجائے مگر سنجیدہ کوشش اس لیے نھیں کرتے کہ اس نظام نے ان کے گلوں میں بھی طوق اور پاؤں میں زنجیرڈال دینی ہے ۔

عہد ِقدیم میں قائم نظام پر مُسلم سماج اس لیے قانع نھیں کہ اس میں ” اللہ تعالیٰ کی حاکمیتِ اعلیٰ ” کا ذکر نھیں جبکہ جدید مغربی جمہوریت پر سب سے بڑااعتراض یہ کہ لادین نظام ہے سو ہمیں کسی صورت قبول نھیں ۔ یہی وجہ ہے کہ قریباہراسلامی مُلک میں ایسی تنظیمیں موجودہیں جو اس لادین نظام سے نجات کی خواہش مندہیں اور کُچھ اس نظام کو اسلامی لباس میں ملبوس کرکے مقدس ومطہر کرناچاہتے ہیں ۔ مُسلم سماج کوجن مسائل کا سامنا ہے اُن سے نجات کس طرح ممکن ہے ۔ اس کے لیے ہمیں آج کی دنیاکے عمومی مزاج کوسمجھنا ہوگا ۔ دُنیااس وقت خلافت جیسے کسی نظام کو قبول کرنے پرتیار نھیں بلکہ باہمی احترام وسرحدوں کوہی حفاظت و برابری کا منبع سمجھتی ہے ۔

ہمیں باہمی احترام پر مبنی سماج کی تشکیل کرناہوگی ۔اس کی بنیاد عہدِ قدیم کے انسان کی سوچ پر ہو،ریاستِ مدینہ کے الوہی فرامین پر یاجدید مغربی سوچ پر ۔مگر مسائل کاحل یہی ہے کہ ہم مذہبِ انسانیت پریقین لاتے ہوئے انصاف،احترام وآزادی کے اصولوں پر سماج تشکیل دیں جہاں ہر انسان اپنی زندگی اپنے عقائد و نظریات کے تابع رہ کر بسر کرسکے ۔ہمیں خُدائی فوجداری کافریضہ ترک کر کے انسانی تمدن کی ترقی کے لیے بِلا تفریق نسل،جنس ،مذہب اور خطے کے تعاون کی راہ ہموار کرناہوگی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے