قحط الرّجاااااااااال

افلاس ہے افلاس۔ ایک قوم جس نے سر اٹھا کر جینے کا ابھی عزم ہی نہیں کیا۔ خود احتسابی کی آرزو ہی نہیں۔منزل کی جسے تمنا تو ہے‘ راستہ معلوم نہیں۔ قحط الرّجال‘ قحط الرّجاااااااااال!

عارف نے کہا تھا ”حکمران اپنے کردار میں صیقل ہوتا ہے کہ سماج کی شعوری اور اخلاقی سطح بلند کر دے یا کمزور کہ اسی کے رنگ میں رنگا جاتا ہے‘‘… عمران خان ہاتھ پائوں مار رہے ہیں کہ وہ خود کو مہاتیر محمد یا قائد اعظم ثابت کریں مگرنہیں‘ مگر نہیں۔ پہلا سمجھوتہ انہوں نے بدعنوان لوگوں کو پارٹی میں شامل کر کے کیا‘ دوسرا اسٹیبلشمنٹ سے ‘ جس کی مدد سے ٹکٹیں بانٹیں ۔تیسرا اب یہ کہ پنجاب میں افسر سفارش سے مقرر ہوں گے ۔ارکان اسمبلی کو دس کروڑ روپے فی کس ترقیاتی رقوم ملیں گی۔ کیاٹھیکیداروں کا انتخاب بھی وہی کریں گے ؟تب کھلے گا سمجھوتے کی سطح کیا ہے۔

2007ء میں لاہور میں پارٹی کے ایک اجتماع میں‘ کارکن جب کپتان پہ صدقے واری تھے تو‘ عرض کیا: سوچا تھا کہ پی ٹی آئی کبھی بڑی ہو جائے گی لیکن یہ تو وہی کمسن ہے‘ پروگرام کوئی نہیں بس لیڈر کی پوجا۔ مجیب الرحمن شامی سٹیج پہ آئے تو فرمایا:‘ اصل چیز لیڈر ہوتا ہے۔ پروگرام نہیں۔

استاد سے پوچھا گیا۔ پھر کہا :میں نہیں جانتا But keep on questioning. Some Questions are nobler than the answers. سوال پوچھتے رہیے ۔کچھ سوال جوابوں سے زیادہ مقدّس ہوتے ہیں۔

کچھ تعمیر ہے‘ کچھ تخریب ۔تعمیر انہیں دکھائی نہیں دیتی جو بغض و عناد سے بھرے ہیں۔ تخریب انہیں دکھائی نہیں دیتی‘ جنہیں دھڑے بندی ‘ مرعوبیت اور تعصّب نے اندھا کر دیا ۔ کچھ وہ ہیں ‘ جو سمجھتے ہیں سرکار کے سائے میں زندگی آسودہ ہوتی ہے۔” تیری زلفوں کی گھنی چھائوں میں‘ گزرنے پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی‘‘زلفوں کے نہیں‘ صداقت کے سائے میں حیات ثمر بار ہوتی ہے۔ زندگی امتحان ہے اور دائم امتحان رہے گی۔ فیصلہ حیات کے تمام ہونے پہ ہوتا ہے۔ خارجی ابنِ ملجم نے خنجر گھونپا تو سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ نے ارشاد کیا: ”فزت برب الکعبہ‘‘ ربِ کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا۔نوابزادہ نصر اللہ خان کہا کرتے تھے: خدا انجام بخیر کرے۔ خدا عمران خان کا انجام بخیر کرے۔

کل شام ڈاکٹر یاسمین راشد کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ چند وزیروں میں سے ایک ہیں ‘100 روزہ اہداف جو پورا کر لیں گی ‘ بیشتر نکمے‘ بیشتر نکھٹو۔ سنا تھا کہ پارٹی میں ان کی مخالفت ہے۔ ایک بڑے لیڈر بلڈوزر بنے ہوئے ہیں‘ ان سے خوف زدہ ہیں۔ ابھی سے ڈاکٹر صاحبہ کے حلقے میں آئندہ کا امیدوار ڈھونڈ رہے ہیں۔ ڈاکٹر یاسمین راشد میں ممتا کی ایک شان ہے۔ ڈانٹتی بہت ہیں۔ انہوں نے اس سے پوچھا: تو کیا کر رہا ہے۔ ”باجی!‘‘ اس نے کہا ”2023ء تک آپ بوڑھی ہو جائیںگی‘‘جواں ہمت معالج کا جواب ولولہ انگیز تھا ”93 سال کی عمر میں ڈاکٹر مہاتیر محمد سیاست کر سکتے ہیں تو میں کیوں نہیں؟ ‘‘پھر انہوں نے وہ قہقہہ لگایا‘ جو زندگی کو سر کے بالوں سے پکڑنے والی دادی اماں ہی لگا سکتی ہیں۔

اس ناچیز سمیت کئی ایک کا خیال تو یہ تھا کہ انہیں وزیراعلیٰ ہونا چاہئے۔ اللہ نے ان پہ کرم کیا۔ اس ماحول میں شاید کامیاب نہ ہوتیں۔ وزیرِ صحت کے طور پہ ان کی ناکامی کا کوئی اندیشہ نہیں۔ پبلک سروس کمیشن کے ذریعے دو ماہ میں آٹھ ہزار ڈاکٹر اور اڑھائی ہزار نرسیں مقرّر کر دی ہیں۔ دس ارب روپے کی دوائیں‘ اضلاع میں بھجوا دی ہیں۔ شیر شاہ سوری نے ذاتی گودام کرائے پر لے کر لاہور میں رکھ چھوڑی تھیں۔ سرکاری پیسہ برباد کرنے میں ‘ ذاتی پیسہ سنبھالنے میں شریف خاندان کا ثانی شاید کبھی پیدا نہ ہوگا۔ 260 ارب اورنج ٹرین پہ لٹا دیئے۔ پینے کا صاف پانی نہ ملنے سے لاکھوںہر سال مر جاتے ہیں۔ڈاکٹر صاحبہ سے امید وابستہ ہے ۔

وہ ایک ماں ہیں۔ عرض کیا: دو کام ہیں۔ ایک تو سول ہسپتال میں ”انجمن فلاح و بہبود انسانیت ‘‘ گوجرانوالہ کو دو کنال جگہ دے دیں کہ غربا کے لیے ڈائیلیسز کی سہولت بڑھا سکیں۔ دوسرے ملک کے سب سے بڑے ‘زیر تعمیر ہسپتال کے پی ایل آئی کے بارے میں‘ کسی روز تفصیل سے میری گزارشات سن لیں۔ از راہ کرم دونوں باتیں‘ مان لیں۔ پھر کہا: وزارتِ صحت میں جو کام دو ماہ میں ہوا‘ اس پہ بھی تو بات کرو۔ اس پہ انشاء اللہ جلد۔ فی الحال صرف یہ کہ دسمبر تک 99 لاکھ خاندانوں کو صحت کا رڈ جاری کر دیئے جائیں گے۔ ہر غریب بچے ‘ عورت اور مرد کا علاج مفت ہو سکے گا۔اگر ڈھنگ سے یہ کام ہو سکا تو یہ ایک تاریخ ساز کارنامہ ہوگا۔

ہمارے مقدر میں فی الحال شعبدہ باز لکھّے ہیں۔ کسی قومی پالیسی کے ضمن میں آئی ایس آئی کے ایک سابق سربراہ پہ اعتراض ہوا تو انہوں نے کہا تھا : ہماری محدودات ہیں‘ Limitations‘ خرابی کہیں اور ہے‘ قحط الرّجال ہے‘ قحط الرّجاااااااااال۔

عزم و ارادے میں نواز شریف اور زرداری عمران خان کے مقابل ہیچ ہیں۔ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ حکمرانی ‘بالخصوص مشیروں کے انتخاب میں استعداد کم ہے۔ دوسرا وہی قحط الرّجال۔ نتیجہ یہ ہے کہ اسد عمر سے بہتر وزیرِ خزانہ میسر نہیں۔ اسد عمر چابی کا کھلونا نہیں‘ دبئی میں ان کے ٹاور بھی نہیں لیکن وہی استعداد کا مسئلہ ۔
پنجاب میں ڈپٹی کمشنروں اور ضلعی پولیس افسروں کے تقرر میں اتنی ہی من مانی ہے‘ جتنی شریف مافیا کے عہد میں۔ جونیئر اور بدعنوان افسروں پہ اتنی ہی نوازشات ہوئیں‘ جتنی شریف خاندان کے عہد میں۔ کرپشن پہ شیر شاہ سوری کو کچھ زیادہ اعتراض نہ تھا‘ بعض اوقات تو حوصلہ افزائی بھی کرتے‘ جیسے کہ فواد حسن فواد اور احد چیمہ تا کہ شہزادوں کا خیال رکھیں۔

کرپشن پہ ہو سکتا ہے ‘نئی حکومت کو نالائقی پہ اعتراض نہیں۔ مثلاً بیچارہ بزدار جو کچھ جانتا ہی نہیں۔ آسانی سے سیکھ سکتا بھی نہیں۔ کھلم کھلا نہیں کہتے‘ جہاندیدہ اور ہنر مند چوہدری سرور‘ چوہدری پرویز الٰہی اور علیم خان کی رائے بھی یہی ہے۔ محتاط ترین اندازوں کے مطابق نئی تقرریوں میں 30 فیصد سے کم مناسب اور معقول ہیں۔ خان صاحب کو اعتراض ہو توایک ایک افسر کا کچّا چٹھا لکھ دوں؟ کچھ با خبر معلومات کے انبار اٹھائے پھرتے ہیں۔

برادرم اعظم سواتی کو فون کیا‘ ملے نہیں۔ ظاہر ہے کہ مصروف ہیں۔ ظاہر ہے پریشان بھی۔ سوشل میڈیابری بلا ہے‘ جس کے پیچھے پڑ جائے‘ زندگی عذاب۔ فرمایا ”گروہ در گروہ آدمی نکلیں گے کہ ان کے اعمال انہیں دکھا دیئے جائیں۔

ذرّہ برابر بھلائی‘ جس نے کی ہوگی‘ دیکھ لے گا۔ ذرہ برابر برائی جس نے کی ہوگی‘ دیکھ لے گا‘‘ یا رب‘ یومِ حشر کیا قریب آ پہنچا کہ علامتیں دکھائی دینے لگیں؟

عمران خان یکسو نہیں‘ جس طرح کہ کرکٹ‘ شوکت خانم اور نمل یونیورسٹی میں تھا۔ کنفیوژن کا شکار ہے‘ جس طرح شادیوں کے باب میں رہا۔

ایک قوم جس اخلاقی ‘علمی اور جذباتی سطح پہ زندہ ہو‘ ویسے ہی اس کے حکمران ۔ یہ اللہ کا قانون ہے اور اٹل ہے۔ مذمت اور تحقیر کی بجائے‘ عمران خان کی مدد کرنی چاہئے؛ اگرچہ کسی دانا کی مدد انہیں درکار نہیں۔ ہمیشہ نالائق ڈھونڈتے ہیں۔ پھر بھی ان کی مدد کرنی چاہئے۔ سوال ان کا نہیں ہے ملک کے مستقبل کا ۔

ژولیدہ فکری ہے اور خود شکنی۔ کوئی بھی شاہراہ پر نہیں‘ سارے کے سارے پگڈنڈیوں پر ۔ سول بھی‘ فوجی بھی‘ مذہبی بھی ‘ سیاسی بھی۔ سب کے سب۔

فارسی کے عظیم شاعر بیدلؔ اسد اللہ غالب غالبؔ ایسے عبقری کا رول ماڈل رہے۔ ان کا ایک شعر ہے۔
زشیخ مغزِ حقیقت مجو کہ ھمچو حباب
سری ندارد اگر وا کنند دستارش

شیخ سے پر مغز بات کی امید نہ رکھ۔ بلبلے کی مانند ہے۔ دستار کھل جائے تو سر بھی باقی ہی نہ رہے۔
افلاس ہے افلاس۔ ایک قوم جس نے سر اٹھا کر جینے کا ابھی عزم ہی نہیں کیا۔ خود احتسابی کی آرزو ہی نہیں۔منزل کی جسے تمنا تو ہے‘ راستہ معلوم

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے