انسان، بندر اور ڈارون

انسانوں اور بندروں میں کوئی خاص فرق نہیں، بندروں پر بھی وہی دوائیں اثر کرتی ہیں جو انسانوں پر کرتی ہیں، انسانوں کو چائے پسند ہے بندر بھی چائے پی لیتے ہیں، انسانوں کو کافی کی عادت ہے بندر بھی کافی چکھ لیتے ہیں، انسان شراب پیتے ہیں بندر بھی ڈرنک کر لیتے ہیں۔ بعض افریقی قبائل جنگلی بندروں کو قابو کرنے کے لئے بڑے بڑے کنستروں میں تیز قسم کی بیئر ڈال دیتے ہیں جنہیں پی کر وہ مدہوش ہو جاتے ہیں، اس حال میں اگر ان کی حرکات اور رویوں کا مشاہدہ کیا جائے تو نہایت دلچسپ اور عجیب باتیں پتہ چلتی ہیں۔

مثلاً، اگلی صبح جب ان بندروں کا نشہ اترتا ہے تو وہ نہایت افسردہ دکھائی دیتے ہیں، دونوں ہاتھوں سے اپنا دکھتا ہوا سر دباتے ہیں اور چہرے سے سخت بیزار لگتے ہیں، ایسے میں اگر انہیں دوبارہ شراب پیش کی جائے تو نفرت سے پرے کر دیتے ہیں اور اگر لیموں کا رس دیا جائے تو فوراً منہ میں انڈیل لیتے ہیں، ان بندروں کی نسل ایسی بھی ہے جسے ایک مرتبہ اگر برینڈی دے کر نشہ کروا دیا جائے تو دوبارہ وہ اسے ہاتھ نہیں لگاتے، گویا کئی انسانوں کے مقابلے میں بندر کی یہ نسل زیادہ سمجھدار ہے۔ انسان اور بندر میں ایک مماثلت اور ہے کہ بندر بھی اسی طرح بے یارو مددگار حالت میں پیدا ہوتا ہے جیسے کہ انسان، پیدائش کے فوراً بعد اسے مکمل نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔ انسان کا تعلق میملز سے ہے، انسان کے جسم کی ساخت بھی اسی طرح ہے جیسے دیگر میملز کی،

انسانی جسم میں ہڈیاں کم و بیش اسی ترتیب سے ہیں جیسے دیگر میملز کے جسموں میں ہیں جیسے کہ بندر اور چمگادڑ، حتیٰ کہ دماغ، جوکہ جسم کا سب سے اہم حصہ ہے، بھی ایک ہی قانون کے تحت کام کرتا ہے، انسان اور بندر کے دماغ کی بناوٹ بھی ایک جیسی ہے مگر ظاہر ہے کہ انسان اور بندر کے دماغ کی نشوونما ایک جیسی نہیں ورنہ ان کی ذہنی صلاحیتیں بھی یکساں ہوتیں البتہ حقیقی معنوں میں ذہین چمپینزی اور گاؤدی انسان کے دماغ میں فرق بہت کم ہے۔ انگریزی ماہر حیاتیات تھامس ہکسلے سے کسی نے پوچھا کہ کیا انسان کا جنم پرندے، کتے، مچھلی یا مینڈک سے مختلف طریقے سے ہوا ہے؟ ہکسلے نے جواب دیا کہ اس بات میں ذرا بھی شک نہیں کہ انسانی زندگی کی شروعات اور اس کی ابتدائی نشوونما بالکل اُن جانوروں کی طرح تھی جو حیاتیاتی طور انسان سے ایک درجے نچلی سطح پر تھے، سو بغیر کسی شک کے یہ کہا جا سکتا ہے کہ انسان اور بن مانس اپنی ذہنی اور جسمانی بناوٹ میں ایک دوسرے کے زیادہ قریب ہیں ۔

یہ افکار عالیہ میرے نہیں، چارلس ڈارون کے ہیں، ڈارون نے یہ باتیں اپنی کتاب ’’The Descent of Man‘‘ میں لکھی ہیں، یہ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے، اس کتاب کے ابتدائیے میں ڈارون نے ایسی کسر نفسی سے کام لیا ہے کہ بندہ عش عش کر اٹھتا ہے۔

ڈارون لکھتا ہے کہ میری اس کتاب میں کوئی نئی بات نہیں، میں نے ایسے کوئی حقائق بیان نہیں کئے جو اس سے پہلے معلوم نہیں تھے، مگر پہلا مسودہ لکھنے کے بعد مجھے لگا کہ میں نے کچھ دلچسپ نتائج اخذ کئے ہیں سو ممکن ہے کہ اوروں کو بھی یہ دلچسپ لگیں، لوگ بہت تیقن اور تسلسل کے ساتھ یہ بات کہتے ہیں کہ انسان کا مآخذ کبھی پتہ نہیں چل سکتا، مگر لاعلمی اکثر (حماقت آمیز) اعتماد کو جنم دیتی ہے نہ کہ آگاہی کو، وہ لوگ جو کم جانتے ہیں اُن لوگوں کے مقابلے میں جو زیادہ جانتے ہیں، ہمیشہ ایسے ہی پُراعتماد لہجے میں رائے دیتے ہیں کہ سائنس کبھی یہ گتھی نہیں سلجھا سکتی، یہ بات کہ انسان کا ارتقا کسی نچلے درجے کی ایسی نسل سے ہوا ہے جو زمانہ قدیم میں تھی اور اب شاید ختم ہو چکی ہے،

کوئی نئی دریافت نہیں، بہت سے سائنس دان اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں اور سچی بات تو یہ ہے کہ اگر میرے اِن مضامین سے پہلے ارنسٹ ہیکل کی کتاب آجاتی جس میں اس نے انسانی جینیات کا احاطہ کیا ہے تو شاید میں اپنا یہ کام مکمل ہی نہ کرتا کیونکہ قریباً وہ تمام نتائج جو میں نے اپنی اِس تحقیق کے نتیجے میں اخذ کئے وہ سب کے سب پہلے ہی یہ سائنس دان ثابت کر چکا ہے جو کئی پہلوؤں سے علم و دانش میں مجھ سے آگے ہے۔ یہ باتیں چارلس ڈارون ایسے شخص نے لکھیں جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انسان کے بارے میں اُس کی تحقیق نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا، تاریخ میں دو شخص ایسے گزرے ہیں تن تنہا جن کے انکشافات نے انسان کو اُس کی اصل اوقات بتا دی، ایک چارلس ڈارون اور دوسرے کوپر نیکس (جس کا ذکر کسی دوسرے کالم میں ہوگا)۔

ڈارون کی تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ بڑا آدمی عاجز ہوتا ہے، وہ عاجزی کی اداکاری نہیں کرتا، غرور اور تکبر سے دور رہتا ہے، دوسروں کے کام کی کھل کے تعریف کرتا ہے، اپنی ہی توصیف اور بڑائی ہی بیان نہیں کئے جاتا، اس کے علاوہ وہ اپنی رائے فرعون کے لہجے میں بیان نہیں کرتا بلکہ کم علمی کا اعتراف کرتے ہوئے گفتگو کرتا ہے۔ دنیا کے بڑے آدمیوں کا یہی وطیرہ ہے ماسوائے اپنے ملک کے جہاں ہم ایسے دانشور گھسی پٹی بات بھی ایسے بیان کرتے ہیں جیسے سقراط اپنے شاگردوں سے خطاب کر رہا ہو۔

انسان کہاں سے آیا، کیوں آیا اور کہاں جائے گا؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب مذہب تو دیتا ہے مگر سائنس ان جوابات کو تسلیم نہیں کرتی۔ سائنس کہتی ہے کہ مچھلی کے دماغ کا وزن اس کے جسم کا 1/5668واں حصہ ہوتا ہے، رینگنے والے جانوروں کے دماغ کا وزن 1/1321، پرندوں کا 1/212، دودھ دینے والے جانوروں کا 1/186، دو سال کے چمپینزی کا 1/25اور انسان کے دو برس کے بچے کے دماغ کا وزن اُس کے جسم کا 1/18واں حصہ ہوتا ہے۔

گویاچمپینزی اور انسان کے بچے میں مماثلت مچھلی اور رینگنے والے جانداروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ اسی طرح ایک طویل عرصے تک انسان کا یہ ماننا تھا کہ زندگی صرف زندگی سے ہی جنم لے سکتی ہے، کوئی نامیاتی چیز غیرنامیاتی چیز سے پیدا نہیں ہو سکتی جبکہ آج کیمیا گری سے قریباً ایک لاکھ تیس ہزار نامیاتی کاربن مرکبات بنائے جاتے ہیں۔ اسی بات کو ثابت کرنے کی غرض سے ایک فلسفی نے دلچسپ مفروضہ پیش کیا، اُس نے کہا کہ فرض کریں کہ آج کسی ناگہانی آفت کے نتیجے میں زمین سے ہر قسم کی زندگی بالکل ختم ہو جائے، انسانوں، جانوروں اور درختوں کی ہر نسل ناپید ہو جائے، ہر جرثومہ، آبی مخلوق، امیبا، خلیہ، زندگی کی رمق لئے ہوئے ہر شے مٹ جائے تو کیا یہ ممکن نہیں ہوگا کہ ایک خاص طویل عرصے کے بعد زمین کی فضا دوبارہ اس قابل ہو جائے گی کہ مٹی میں سے پھول بوٹے اُگنے لگیں گے اور بیکٹیریا جنم لے لیں گے؟ سائنس کہتی ہے کہ ایسا ہی ہوگا۔ اگر سائنس یہ کہتی ہے تو پھر مذہب کیا کہتا ہے؟ اس کا خوبصورت جواب آئن سٹائن نے دیا تھا۔

آئن سٹائن ذاتی خدا کے تصور سے نا آشنا تھا، اس کے برعکس وہ یہ کہتا تھا کہ انسان کو چاہئے کہ اپنے محدود وسائل کی مدد سے کارخانہ قدرت کا راز جاننے کی کوشش کرے، پھر اُسے پتہ چلے گا کہ اس تمام سلجھی ہوئی ڈور کے پیچھے نہایت لطیف انداز میں ایک غیر مادی اور نہ سمجھ میں آنے والی قوت کارفرما ہے، اس قوت کی ستائش اور تکریم، جو ہمارے فہم سے ماورا ہے، ہی میرا مذہب ہے!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے