آسیہ بی بی کیس: ’کیا ناانصافی کی بنیاد پر سولی چڑھانے سے ہمارے نبی واقعی ہم سے بہت خوش ہوں گے؟‘

پاکستان کے ہزاروں مرد اور بچے دو روز سے سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ایک غریب، نحیف، مسیحی خاتون کو سولی پر چڑھایا جائے جو تقریباً آٹھ برس سے جیل میں ہیں۔

بظاہر دیندار نظر آنے والے ان لوگوں کا خیال ہے کہ آسیہ بی بی نامی ان خاتون نے پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کی تھی اس لیے ان کا سر تن سے جدا ہونا چاہیے۔

دنیا بھر میں لیکن خاص طور پر پاکستان میں، مسلمان اپنے نبی کی شان کے معاملے میں بجا طور بہت حساس ہیں۔ لیکن عموماً ایسا ہوا ہے کہ کسی نے کوئی گستاخی کی ہو نہ کی ہو، بس اگر کسی نے کسی کے بارے میں کہہ دیا کہ اس نے گستاخی کی ہے تو ہم آگ بگولہ ہو جاتے ہیں۔

بچارا انسان جس پر الزام عائد کیا گیا وہ وضاحتیں دیتے دیتے مر جاتا ہے کہ بھائی میں کیسے اتنی بڑی ہستی کی شان میں گستاخی کر سکتا ہوں؟ لیکن ہم مانتے ہی نہیں اور بضد ہوتے ہیں کہ کہا ہے یا نہیں کہا بس الزام لگ گیا تو سر تو تن سے جدا ہو گا۔

پاکستان کی اقلیتیں جتنی طاقتور ہیں اور جس طرح کا ہم ان کے ساتھ رویہ رکھتے ہیں، اس کو دیکھتے ہوئے کیا کوئی سالم شعور انسان سمجھ سکتا ہے کہ ان کی ایسی ہمت ہو گی کہ وہ مسلمانوں کے نبی کی شان میں گستاخی کا سوچ بھی سکیں؟

اقلیتی لوگوں کی کھڑے کھڑے ہم بے عزتی کر دیتے ہیں، ان کی بچیوں کو اغوا کرنا ہمارے لیے باعث عزت و غیرت ہوتا ہے اور ان سے غلیظ ترین کام لینا ہمارے پیدائشی حقوق میں شامل ہے۔ ایسے میں کوئی اقلیتی شخص مکمل پاگل ہی ہو گا جو ہمارے نبی کی شان میں گستاخی کرے گا۔

یہ ہمارے بھائی جو سڑکوں پر لہلہاتے پھر رہے ہیں ان میں سے کتنوں کو ذاتی طور پر علم ہے کہ آسیہ بی بی نے گاؤں اٹاں والی میں اپنی پڑوسن سے کیا کہا تھا جس کی وجہ سے وہ گستاخ رسول قرار پائیں؟ کیا کسی کے الزام عائد کرنے سے کوئی شخص مجرم ہو جاتا ہے؟ کتنی ایف آئی آر جھوٹی لکھی جاتی ہیں، کتنے بیانات دھونس اور زبردستی لیے جاتے ہیں؟ کتنے سرکاری اہلکار خوف یا بدنیتی کی بنیاد پر معامات کی غلط تشریح کرتے ہی؟ بھائی وطن عزیز میں کیا کچھ نہیں ہوسکتا؟

اور سب سے اہم یہ کہ کون مجرم ہے اور کون نہیں ہے اس کا فیصلہ ناواقف لوگوں کا بے ہنگم ہجوم کرے گا یا ثبوت اور شہادتوں سے واقفیت رکھنے والے اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کریں گے؟ پاکستان کے چیف جسٹس نے بڑی زبردست بات کی کہ وہ صرف مسلمانوں کے جج نہیں سب کے ہیں اور وہ فیصلے ثبوت کی بنیاد پر کریں گے نہ کہ لوگوں کی مرضی کے مطابق۔

آسیہ بی بی کے معاملے پر مجھے برسوں پرانا ایک قصہ یاد آ گیا ہے۔ میں کراچی میں کچھ عرصے تک وائی ایم سی اے کے ہاسٹل میں رہتا تھا۔ ظاہر ہے وائی ایم سی اے مسیحی انتظامیہ چلاتی ہے اور اس کا بیشتر عملہ بھی مسیحی ہوتا ہے۔

ہمارے ایک جاننے والے نے کئی مہینوں تک ہاسٹل کا کرایہ ادا نہیں کیا تھا اور ان سے جب بھی انتظامیہ کا کوئی فرد کرائے کا مطالبہ کرتا تو وہ صاحب ان سے کہتے تھے کہ مجھ سے کرائے کا مطالبہ بند کرو ورنہ میں تمہیں توہینِ مذہب کے الزام میں بند کرا دوں گا۔ وہ بے چارے ڈر کے مارے ان صاحب سے کرایہ مانگنے سے بھی گھبراتے تھے۔ اب آپ اندازہ لگائیں کہ جب 20، 25 برس قبل یہ حالات تھے تو اب تو صورت حال اس زمانے سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔

آج کل صرف بند کرانا تو بہت ہی معمولی بات ہو گئی ہے۔۔ اب تو سیدھا سر تن سے جدا کی دھمکی مل سکتی ہے۔ ایک عالم دین کو میں نے یہ کہتے سنا کہ حضور کے زمانے میں اگر انھوں نے گستاخی کے کسی مرتکب کو معاف فرمایا تھا تو یہ ان کا اختیار تھا کہ وہ کسی کو معاف کر دیں لیکن ہم یہ اختیار نہیں رکھتے ہیں۔

بجا فرمایا ہم یہ اختیار نہیں رکھتے۔ لیکن عدالت عظمیٰ کے جج صاحبان تو یہ اختیار رکھتے ہیں نہ کہ وہ یہ فیصلہ کریں کہ کون مجرم ہے اور کون غلط مقدمے میں آٹھ برس تک جیل کی سزا کاٹ چکا ہے؟ کسی شخص کو ناانصافی کی بنیاد پر سولی چڑھانے سے ہمارے نبی کیا واقعی ہم سے بہت خوش ہوں گے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے