پِیرُو اور چیف

یہ خوشگوار حیرتوں کا پورا جہان ہے۔ بڑے دل گردے کا کام۔ ساتھ ساتھ عمر بھر کی کمائی بھی۔

لیکن پہلے مجھے اپنی غفلت کا اعتراف کر لینے دیجیے کہ 4 عشروں کی وکالت‘ عشرے سے زیادہ پارلیمنٹ کا رکن رہنے کے باوجود بھی مجھے پتہ نہ چل سکا کہ میرے پنجاب میں پِیرُو کا خزانہ برسرِ عام رکھا ہے۔ صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے۔ اور 4 جنوں کیش بھائی اس نادر و نایاب خزانے کو خون پسینے کی کمائی سے سینچ رہے ہیں‘ جن کا پانچواں پیارا فیضان پیرزادہ اس جفا کیش سفر کے دوران داعیِ اجل کو لبیک کہہ گیا۔ دوسری حیرت کا در پنجاب ہی کے ایک چیف سے ملاقات کے دوران کھلا۔

کچھ دن پہلے وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف این اے 95 میانوالی سے جیتی ہوئی قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن پٹیشن کا مقدمہ زیرِ تجویز تھا‘ جس کے دفاع کے لیے مجھے 2 دن لاہور آنا پڑا۔ اس سے تقریباً 10 روز پہلے میں فیملی کے ہمراہ اسلام آباد میں کھانا کھانے کے لیے ایک ہوٹل کے ریسٹورنٹ میں گیا‘ جہاں مین گیٹ پر ایکٹنگ آئیکون عثمان پیرزادہ اور ان کے بھائی سادان پیرزادہ‘ جنہیں غریبوں اور بچوں کے کلچر کا آئیکون کہا جا سکتا ہے‘ سے ملاقات ہو گئی۔ چند منٹ کی ملاقات میں ملکی حالات پر ہلکا پھلکا تبصرہ بھی ہوا۔ واپس لاہور جاتے ہوئے پیرزادہ برادران نے کہا: لاہور آئیں تو ملئے گا۔

وزیر اعظم کا مقدمہ لڑنے لاہور کے لیے سفری بیگ پیک کرنا شروع کیا تو عبداللہ، عبدالرحمن نے پیرزادہ برادران کو وزٹ کرنے کا وعدہ پورا کرنے کو کہا۔ جس وقت اسلام آباد سے لاہور کے لیے نکلا تو خوب صورت اتفاق کے طور پر 2 پیر صاحبان میرے ساتھ ہو لئے۔ بابا فریدالدین گنج شکر ؒکی نسل سے پیر مسعود احمد چشتی اور رومیٔ کشمیر میاں محمد بخش ؒ کے خانوادے سے میاں عمر بخش شریکِ سفر تھے۔ میں نے راستے میں اپنے ایک جونیئر ایسوسی ایٹ وکیل سے کہا: پِیرُو کا خزانہ دیکھ آئو اور راستہ بھی۔

لاہور میں مال روڈ پر میرا لاء آفس 3 عشروں سے زیادہ پرانا ہے۔ اس کا آغاز قومی ایئر لائن پی آئی اے کے عروج کے زمانے میں ہوا۔ ان دنوں لاہور کے لیے صبح 7 بجے اسلام آباد ایئر پورٹ سے فلائٹ جاتی تھی‘ جبکہ 8 بجے لاہور کی فلائٹ اسلام آباد ایئر پورٹ پہنچا کرتی تھی۔ پی آئی اے والوں نے ان دونوں پروازوں کو وکیل فلائٹس کا نام دے رکھا تھا۔ اب کوئی مانے یا نہ مانے‘ لیکن یہ فلائٹس عین وقت پر اڑان بھرتیں۔ نارتھ کے وکلاء 35 منٹ میں بوئنگ 737 کی سواری کر کے لاہور ایئر پورٹ پہنچتے‘ پھر بر وقت عدالت میں‘ جبکہ دوسری جانب سے لاہور کے وکیل حضرات شاہراہِ دستور پر ایستادہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی مین سیٹ پر۔ ان دو فلائٹس میں بہت سے جج حضرات بھی سفر کیا کرتے۔ اس دور میں جج اور وکیل ایک دوسرے سے ڈرتے نہیں تھے۔ پھر پی آئی اے نے مسافروں کو وقت پر پہنچانے والی عادت بدل لی اور ہم جیسے وقت پہ پہنچنے کے عادی وکیلوں نے 35 منٹ کے ہوائی سفر کو 5 گھنٹے کے زمینی راستے سے ٹریڈ کر لیا۔ فی الحال تو یہی کہا جا سکتا ہے:
مرے ماضی کے اے سرسبز لمحو
پلٹ آئو کہ تنہا رہ گیا ہوں

رائے ونڈ روڈ پر واقع‘ پیرزادہ برادران کی تخلیقات کا پتلی بینک یا پُتلی میوزیم کا دروازہ ہی ثقافتی جادوگری کا نمونہ ہے۔ دیہاتی ڈیزائن میں تراشی ہوئی لکڑی پر ”ٹرک پینٹنگ‘‘ کے خوبصورتی سے سجائے گئے رنگ۔ کچھ پینٹ شدہ جستی تختیاں۔ اتنا کہنا قرینِ انصاف ہو گا کہ ایسا دروازہ پہلے کم از کم میں نے کہیں نہیں دیکھا‘ اس لیے اس کی سادگی اور ثقافتی چاشنی کو لفظوں میں قید کرنا ممکن نہیں۔

دروازے کے اندر پہلے احاطے میں برقی لائٹس ایسے پیوست کی گئی تھیں جیسے یہ قمقمے نہیں روشنی چھوڑنے والے پھل شاخوں سے پیوستہ ہیں۔

اوپن ایئر نشست گاہ میں لکڑی کے صاف ستھرے بینچوں والی ایک نشست پر عثمان پیرزادہ منتظر پائے۔ علیک سلیک کے بعد تھوڑی دیر بیٹھتے ہی میں نے پتلی میوزیم دیکھنے کی فرمائش کر دی۔ چند سیڑھیوں کے بعد اس میوزیم کا فرنٹ کسی پُرانے رومی بادشاہ کے طرزِ تعمیر کی یاد دلاتا ہے۔ سرخ اینٹ یہاں کثرت سے مگر سلیقے سے استعمال ہوئی۔ ہر فلور پر ہر دور کی پتلیاں بڑی محنت سے سجائی گئی ہیں۔ دو چار نہیں‘ درجنوں سے بھی زیادہ۔ ہر پتلی ریک دیکھنے والوں کو اپنی کہانی خود بتاتی ہے۔ 3 ہزار سال قدیم تہذیب کی کہانی ہو یا پھر تہذیبوں کے عروج و زوال کی داستان۔ 4 فلورز کے میوزیم کے عین درمیان جودھ پور کے ہوا محل جیسی بالکنی ہے‘ جس میں اسی فن کا 4 فلور تک شاہکار دعوتِ نظارہ دیتا ہے۔ ایک فلور پر دیہاتی علاقے کی ایک پوری بس اور اس کے مقابل ایک عدد سواریوں والا ٹرک چلتا ہوا محسوس ہوتا ہے‘ جس کی ہر سیٹ پر ہاتھ سے بنائی گئی پتلیاں مسافروں کی شکل میں براجمان ہیں۔

اس بس اور ٹرک پر بھی مصور کے قلم کی جادو نگری ہر طرف بکھری پڑی ہے۔ پتلی میوزیم میں ایشیا اور مغرب کی تہذیبوں کی نمائندہ پتلیاں‘ جن میں ہاتھ سے گفتگو کرنے والی پتلی‘ راڈ پر لگی ہوئی پتلی‘ دھاگے سے موومنٹ کرنے والی پتلی‘ پتلیوں کا شاہی دربار‘ پتلیوں کی رہتل اور اتنا کچھ ہے کہ جو ہر آنے والے کو اپنی گرفت میں رکھنے کے لیے کافی سے بھی کہیں زیادہ ہے۔

عثمان پیرزادہ صاحب کے ساتھ تیسرے فلور پر پہنچا تو وہاں قدِ آدم سے 3 گُنا بڑی پتلیاں موجود پائیں۔ اسی دوران سادان پیرزادہ بھی پہنچ گئے‘ جنہوں نے بتایا: یہ پُتلیاں ملک بھر کے بڑے بڑے ثقافتی شوز، دیہاتی میلوں اور روڈ شوز میں سامعین و ناظرین کے ذوق کی تسکین کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ سادان نے تازہ سفر کی ہلکی سی روداد بتائی‘ جو پنجاب سے شروع ہو کر سندھ اور بذریعہ لاڑکانہ بلوچستان سے ہوتا ہوا آخری مغربی سرحد تک روڈ شو کی صورت میں چلا۔

سادان کے پُر عزم اور پُر خطر سفر کی داستاں نے پہلے مجھے شاداں و فرحاں کر دیا‘ پھر اداس۔ فرحت و مسرت اس بات کی کہ ان کے عزم نے لوک کلچر اور نوٹنکی کا ایک اہم چراغ بجھنے نہیں دیا۔ اداسی اس حقیقت پر کہ اب صوبوں کے ہاتھ آ جانے کے بعد ثقافت اور کھیل چمچہ گیری کی نذر ہو چکے ہیں‘ اور عمومی ذہنیت ایسی کہ سرخ فیتہ کلچر کا ”کاف‘‘ اُڑا کر ہی راضی ہو سکتی ہے۔ اُٹھنے سے قبل سوپ اور پنجابی ڈشز کا آرڈر دے چھوڑا تھا۔ واپسی کھانے کی میز پر ہوئی‘ جہاں عمران پیرزادہ‘ جو ٹی وی ریکارڈنگ میں مصروف تھے‘ اور ان کے بڑے بھائی سلمان پیرزادہ بھی آ گئے۔ گفتگو پورے کالم کا تقاضا کرتی ہے۔

کوئی راضی بہ رضا یوں بھی ہو سکتا ہے۔ اس کا تجربہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس انوارالحق صاحب کی زبان سے اُن کی جہدِ مسلسل سن کر ہوا۔ جہلم کا پوٹھوہاریا وکیل لمبے عرصے سے دوست تھا۔ جج بنے‘ میں کبھی ملنے نہ گیا۔ چیف بنے تو چائے پہ اکٹھے ہوئے۔ پوچھا: ریٹائرمنٹ کے بعد پریکٹس کہاں کریں گے۔ جواب نے مجھے حیران کر دیا۔ کہا: اب میں وکالت نہیں کروں گا۔ ایک بیٹی ہے جو اپنے گھر آباد ہے۔ ایک بیٹے نے لاء کیا‘ دوسرے صاحبزادے نے بینکنگ لائن چن لی۔

مجھے معقول پنشن ملے گی۔ میں اسے تنخواہ سمجھوں گا۔ باقی زندگی دکھی انسانیت کے نام کرنا چاہتا ہوں عبدالستار ایدھی کی طرح۔ کہنے لگے: میں مڈل کلاسیا نہیں‘ سیلف میڈ آدمی ہوں۔ صفر سے کیریئر شروع کیا۔ میٹرک کے بعد الیکٹریشن کی نوکری کی۔ پھر ایک اردو ڈیلی اخبار میں ملازمت مل گئی۔ شام کی کلاس میں بیٹھ کر ایل ایل بی کیا۔ پھر مالک نے وہ کرم کیے جو میرے تصور میں بھی نہ تھے۔ اب میں اسی مالک کی مخلوق کے لیے بقیہ زندگی گزاروں گا۔
خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا

پِیرو سے چیف تک خدا کے بندوں سے پیار کرنے والے بندے اس قابل ہیں کہ ان سے پیار کیا جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے