محمد بن سلمان کا وائٹ ہاؤس کو فون: ’جمال خاشقجی خطرناک اسلامی شدت پسند تھے‘

میڈیا اطلاعات کے مطابق سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے امریکہ کو بتایا تھا کہ ان کے نزدیک قتل کیے گئے صحافی جمال خاشقجی ایک خطرناک اسلامی شدت پسند ہیں۔

اطلاعات کے مطابق سعودی عرب کی جانب سے سعودی ولی عہد نے کی استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں ہلاکت کو تسلیم کرنے سے پہلے ولی عہد نے وائٹ ہاؤس فون کیا تھا۔

واشنگٹن پوسٹ کے مطابق صدر ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر اور نیشنل سکیورٹی کے مشیر جان بولٹن سے وائٹ ہاؤس میں ٹیلی فون پر ہونے والی بات چیت میں کہا تھا کہ جمال خاشقجی اسلامی شدت پسند تنظیم اخوان المسلمین کے رکن تھے۔

واشنگٹن پوسٹ کے مطابق یہ ٹیلی فون جمال خاشقجی کے لاپتہ ہونے کے ایک ہفتے بعد 9 اکتوبر کو کی گئی تھی۔

سعودی ولی عہد نے اطلاعات کے مطابق وائٹ ہاؤس پر زور دیا تھا کہ وہ امریکہ سعودی اتحاد کو قائم رکھے۔

دوسری جانب جمال خاشقجی کے خاندان کی جانب سے واشنگٹن پوسٹ کو جاری کیے جانے والے بیان میں اس بات کی تردید کی ہے خاشقجی اخوان المسلمین کے رکن نہیں تھے اور انھوں نے خود حالیہ برسوں میں متعدد بار اس کی تردید کی تھی۔

اس سے پہلے جمعرات کو ترکی کی حکومت کی جانب سے سعودی صحافی جمال خاشقجی کی موت کے بعد باضابطہ طور پر پہلا پیغام جاری کیا گیا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ سعودی قونصل خانے میں داخل ہوتے ہی ان کا گلا گھونٹ دیا گیا تھا۔

سعودی صحافی کی دو اکتوبر کو استنبول کے سعودی قونصل خانے میں موت واقع ہوئی تھی۔ ترکی نے الزام لگایا ہے کہ سعودی حکومت اس کی ذمہ دار ہے لیکن انھوں نے ابھی تک اس سلسلے میں کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا۔

ترکی کی جانب سے مرکزی پراسیکیوٹر عرفان فدان نے کہا کہ ان کی سعودی حکام سے ملاقات میں کوئی واضح نتیجہ نہیں نکلا جبکہ سعودی عرب نے ان ملاقاتوں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

ترکی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’پہلے سے تیار منصوبے کے تحت صحافی جمال خاشقجی کو سعودی قونصل خانے میں داخلے کے ساتھ ہی گلا گھونٹ کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ انھی منصوبوں کے تحت جمال خاشقجی کے جسم کو آری کی مدد سے ٹکڑوں میں کاٹ دیا گیا۔’

سعودی حکومت کے ناقد جمال خاشقجی کی لاش ابھی تک نہیں ملی ہے لیکن دونوں ممالک کے حکام اس بات پر متفق ہیں کہ انھیں قونصل خانے میں ہی قتل کیا گیا۔

[pullquote]دونوں ممالک کے حکام کی ملاقاتوں میں کیا ہوا؟[/pullquote]

ترکی کے مطابق انھوں نے سعودی تفتیش کاروں کے سامنے تین مرکزی سوالات رکھے۔

یاد رہے کہ اس سے قبل ایک نامعلوم سعودی اہلکار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا تھا کہ خاشقجی کی لاش قالین میں لپیٹ کر ایک ‘مقامی سہولت کار’ کو دے دی گئی تھی تاکہ وہ اس کو ٹھکانے لگا سکے۔

ترکی نے بتایا کہ بدھ کو سعودی حکام نے تحریری طور پر اپنا جواب جمع کرایا اور کہا کہ جوابات صرف مشترکہ تفتیش سے سامنے آ سکتے ہیں۔ساتھ ساتھ انھوں نے کہا کہ باضابطہ طور پر ‘مقامی سہولت کار’ کے بارے میں سعودیوں نے کوئی بیان نہیں دیا۔

ترکی نے عوامی طور پر سعودی عرب کو براہ راست مورد الزام نہیں ٹھہرایا لیکن دوسری جانب ایک حکومتی اہلکار نے کہا کہ یہ منصوبہ اعلیٰ سعودی قیادت کی اجازت اور حکم کے بغیر ممکن نہیں تھا۔

سعودی عرب نے مسلسل تردید کی ہے کہ شاہی خاندان اور بالخصوص ولی عہد محمد بن سلمان اس واقعے میں کسی طرح بھی ملوث ہیں۔

ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے گذشتہ ہفتے سعودی عرب کے حکمران شاہ سلمان سے بات کی تھی جہاں دونوں رہنماؤں نے تفتیش میں تعاون پر آمادگی کا اظہار کیا تھا۔

دوسری جانب جمال خاشقجی کی ترک منگیتر خدیجہ چنگیز نے ترکی کے مقامی میڈیا کو ایک رقت انگیز انٹرویو دیا جس میں انھوں نے کہا کہ اگر انھیں اندازہ ہوتا کہ سعودی حکام جمال خاشقجی کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں تو وہ انھیں کبھی بھی قونصل خانے نہ جانے دیتیں۔

[pullquote]سعودی عرب کا جواب کیا ہے؟[/pullquote]

سعودی عرب کے اٹارنی جنرل شیخ سعود الموجب نے ترکی کے عرفان فدان سے دو بار ملاقاتیں کی ہیں اور ترکی کی خفیہ ایجنسی کے افسران سے بھی ملاقات کی ہے۔

سعودی عرب نے جمال خاشقجی کے قونصل خانے آمد کے بعد سے متعدد بار اپنے بیان میں تبدیلیاں کی ہیں۔

پہلے ان کا کہنا تھا کہ وہ قونصل خانے سے واپس چلے گئے ہیں، لیکن بعد میں انھوں نے تسلیم کیا کہ جمال خاشقجی کو قتل کر دیا گیا ہے اور اس بارے میں تفتیش جاری ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے