قانون ، اخلاقیات اور وکالت

کیا آپ کو یاد ہے کبھی کسی بڑے وکیل نے کسی مجبور اور غریب آدمی کا کیس بھی لڑا ہو ؟ کیا قانون دان ہونے کا مطلب صرف یہ ہے کہ جو آپ کو زیادہ فیس تھما دے آپ اس کے دفاع میں خم ٹھونک کر میدان میں آ جائیں ؟ کیا یہ شعبہ محض پیسہ کمانے کا ایک ذریعہ ہے یا اس معتبر پیشے کی کچھ اخلاقیات بھی ہیں ؟ کیا اب پاکستان بار کونسل سے در خواست کی جائے کہ ایل ایل بی کے نصاب میں قانون کی بھاری بھرکم کتابوں کے ساتھ ساتھ ’ اخلاقیات‘ کا ایک مضمون بھی شامل کیا جائے؟

آپ بیس پچیس سال کے مقدمات اٹھا لیجیے ۔ ریاستی وسائل کی لوٹ کا معاملہ ہو ، کسی غریب پر کسی صاحب اقتدار کی رعونت قہر بن کر ٹوٹ پڑی ہو ، کسی وڈیرے کی بگڑی اولادکے ہاتھوں کسی بیٹی کی عزت پر ہاتھ ڈالا گیا ہو یا کسی گھر کا اکلوتا بیٹا سر بازار قتل کر دیا گیا ہو ، کوئی ماڈل منی لانڈرنگ کرتے پکڑی گئی ہو یا کوئی ایسا جرم سر زد ہو گیا ہو جس نے پورے سماج کو ایک صدمے اور نفسیاتی گرہ کا شکار کر دیا ہو ، ہمارے معروف قانون دانوں نے، الا ماشاء اللہ ، وارفتگی کے عالم میں اپنا وزن اسی پلڑے میں ڈالا جدھر انہیں بھاری بھرکم تجوری نظر آئی ۔ آئین کی بالادستی ، حقو ق انسانی ، دستور پاکستان میں دیے گئے بنیادی انسانی حقوق ، ذوق سلیم یہ سب پیچھے رہ جاتا ہے اور صبح عدالت میں معلوم ہوتا ہے ایک جید قانون دان صاحب ملزم کی وکالت کے لیے تشریف لا چکے ہیں ۔

یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ کسی پر کتنا ہی گھناؤنا الزام کیوں نہ ہو اسے اپنے دفاع کا حق موجود ہے ۔ فیئر ٹرائل ایک ایسا آفاقی تصور ہے جس کا ابطال انصاف کی نفی ہے ۔ دستور پاکستان کے آرٹیکل 10. A کا تعلق اسی فیئر ٹرائل سے ہے۔ فیئر ٹرائل ایک ہمہ جہت تصور ہے جس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ملزم اپنی مرضی سے اپنے وکیل کا انتخاب کر سکتا ہے۔

چنانچہ قانونی طور پر نہ کسی ملزم کو کسی وکیل کی خدمات لینے سے روکا جا سکتا ہے نہ کسی وکیل سے کوئی تعرض کیا جا سکتا ہے کہ اس نے فلاں کا کیس کیوں لیا ۔ اس معاملے میں اگر سختی کی جائے تو یہ انصاف کی نفی ہو گی اور آرٹیکل 10 A کی روح سے متصادم اقدام ہو گا ۔ لیکن فی الوقت جو سوال میرے پیش نظر ہے اس کا تعلق قانون سے نہیں اخلاقیات سے ہے ۔ یہ درست ہے کہ اخلاقی تقاضے قانون میں دی گئی کسی گنجائش کی تنسیخ نہیں کر سکتے لیکن یہ بھی غلط نہیں کہ ان تقاضوں سے یکسر بے نیازی سماج کے فکری اور اخلاقی ارتقاء کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے۔

ایک وکیل کی مالی ضروریات بھلے اس بات کا تقاضا کرتی ہوں کہ اسے جہاں سے بھاری فیس ملے اسے وہ کیس پکڑ لینا چاہیے لیکن سماج اس سے کچھ اخلاقی تقاضے بھی کرتا ہے ۔ یہی تقاضے بسا اوقات سوال کی صورت عدالت اٹھا دیتی ہے ۔ ایک سے زیادہ مواقع پر عدالت نے ان جید وکلاء پر ایسے ہی مقدمات میں وکیل بن کر آنے پرسوال اٹھایا ۔لیکن ظاہر ہے عدالت کے پیش نظر چونکہ قانون ہوتا ہے اور جس چیز کی قانون میں گنجائش ہو اس پر عدالت کوئی حکم نہیں سنا سکتی ۔ لیکن عدالت نے تذکیر کے طور پر یہ سوال اٹھایا اور اس شعبے میں اخلاقی وجود کے بارے میں حساسیت پیدا کرنے کی کوشش کی ۔ عدالت یہی کر سکتی ہے۔

اعظم سواتی صاحب کے کیس میں آج ہی برادرم علی ظفر پیش ہوئے تو عدالت نے یہی سوال اٹھاتے ہوئے پوچھا کہ کیوں نہ آپ کا لائسنس منسوخ کر دیا جائے ۔ لیکن عدالت نے ایسا کیا کچھ نہیں ۔ قانون اور اخلاقی تقاضے کو سمجھنا ہو تو اعظم سواتی صاحب کے کیس میں دیے گئے جو عدالتی ریمارکس میڈیا میں رپورٹ ہوئے ہیں انہیں ایک بار پڑھ لیجیے ۔ ایسے ہی ریمارکس کچھ اور کیسز میں بھی دیے جا چکے ہیں ۔ یہ فی الحقیقت ایک تنبیہ اور تذکیر ہوتی ہے کہ مالی امکانات بے شک تلاش کیے جائیں لیکن اپنے اخلاقی وجود سے بے نیاز ہو کر نہیں۔

معاملہ یہ ہے کہ سماج جب انحطاط کا شکار ہو تو کسی ایک طبقے سے یہ مطالبہ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ تقوے کا علم لہراتا رہے۔ سچ تو یہ ہے کہ سماج میں جزیرے نہیں بن سکتے۔ سماج کا جو بھی رنگ ہو گا عمومی ہو گا ۔ لیکن پھر بھی ایک سوچ دریچہ دل پر دستک دیتی ہے کہ خال ہی سہی کبھی تو اخلاقی برتری کے مظاہر بھی دیکھنے کو مل جائیں ۔ ’ریاست ہو گی ماں کے جیسی ‘ کا نعرہ کیا صرف ایک دھوکہ تھا ؟ یہ لڑائی اگر صرف وکلاء کی تھی تو انہیں اکیلے لڑنی چاہیے تھے اور اگر انہوں نے سماج کو مخاطب بنا کر ان سے کچھ وعدے کیے تھے تو ان کی کچھ لاج تو رکھیے ۔ اب اگر بار ایسوسی ایشنز کے انتخابات میں بھی عام انتخابات کی طرح بے پناہ اخراجات کیے جائیں گے تو سوال تو اٹھے گا کہ اتنے اخراجات کے بعد جو صاحب صدر محترم بننے جا رہے ہیں ان کا مقصد وکلاء کی بہبود ہے یا اپنی بہبود ہے؟

بہت سے جرائم ایسے ہوتے ہیں جو معاشرے کی چولیں ہلا دیتے ہیں ۔ انتہائی قبیح اور گھناؤنے جرائم۔ کبھی سماج کے خلاف ، کبھی فرد کے خلاف ۔ ایسے میں مجھے یاد نہیں کہ کبھی کوئی جید قانوون دان آگے بڑھا ہو کہ میں آئین کے باب دوم میں دیے گئے بنیادی انسانی حقوق کی خاطر مظلوم کا مقدمہ لڑوں گا ۔ بار ایسوسی ایشنز کی حد تک بھی ایسی کوئی سنجیدہ کوشش دیکھنے کو نہیں ملی ۔ ہاں بے زاری سے ایک رسم گاہے پوری کرنے کا اعلان ضرور فرما دیا جاتا ہے تو کہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔

اعظم سواتی صاحب کا قصہ تو بہت جلد فعل ماضی بن جائے گا۔ انتظار فرمائیے کہ کوئی ایسا ہی بلکہ اس سے بھی شدید اور سنگین معاملہ سامنے آئے ۔ جس کی تجوری کا سائز جتنا بڑا ہو گا اتنا ہی برا قانون دان اسے معصوم ثابت کرنے کے لیے کشتوں کے پشتے لگاتا ہوا دکھائی دے گا۔

سوال وہی ہے : کیا یہ شعبہ محض پیسہ کمانے کا ایک ذریعہ ہے یا اس معتبر پیشے کی کچھ اخلاقیات بھی ہیں؟ کیا اب پاکستان بار کونسل سے در خواست کی جائے کہ ایل ایل بی کے نصاب میں قانون کی بھاری بھرکم کتابوں کے ساتھ ساتھ ’ اخلاقیات‘ کا ایک مضمون بھی شامل کیا جائے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے