بیمار نسلیں

سائنس اور ٹیکنالوجی بہت ترقی یافتہ ہیں آج اور ساتھ کے ساتھ میڈیکل سائنس بھی۔ تعلیم عام ہوگئی ، رہن سہن ،ایڈوانس اورسہولیات و ضروریات فراواں ہوگئیں۔ تو کیا انسان پرسکون ہو گیا ؟ بلکہ تکلیفیں ، پریشانیاں اور بیماریاں بھی بڑھ گئیں۔

ہر دوسرا بچہ ڈاکٹر بن رہا ہے۔ چپے چپے پہ ڈاکٹرز ہیں ، کلینک ہیں۔ قدم قدم پہ فارمیسیز ہیں۔ ہر دوسرے گھر کا بجٹ آدھا معمول کی ضروریات پہ اور باقی آدھا علاج معالجے پہ اٹھ رہا ہے۔

میڈیکل کا شعبہ مریضوں کی شفا یا بی کے لئے تو لڑ رہا ہے لیکن صحت کو برقرار رکھنے اور صحت کی نشو و نما کے لئے کسی طرف کوئی کاوش نہیں۔علاج ومعالج اور دوائیاں تو عام ہیں لیکن صحت و تندرستی ناپید۔ کوئی ادارہ کوئی اینجیو کوئی علم ہے جو سکھائے کہ تندرست کیسے رہنا ہے۔ جو پرانا طرز زندگی تھا ، پہننے اوڑھنے ، کھانے پینے ، سونے جاگنے ، ماحولیات و اخلاقیات اور عبادات تک سب بدل لیا۔
زندگی نیچے کہیں منہ دیکھتی ہی رہ گئی
کتنا اونچا لے گیا جینے کا معیار آدمی
پتلے لب پتلے ابرو پتلی کمر
جتنا بیمار اتنا طرح دار آدمی

سپشلائیزیشن کے اس زمانے نے زندگی کی اکائیوں کو توڑ پھوڑ کے اور مروڑ کے رکھ دیا ہے۔

پہلے خاندانی نظام فنا ہوا ، اب جو سمال فیملی یونٹ ہے اس کا بھی طرح طرح سے حشر ہورہا ہے۔ میں ، میری ذات ، میری زندگی ، میری سوچ ، میری انفرادیت کے شاخسانے ، آنے والے زمانوں میں ، میاں بیوی بھی اپنے اپنے کیریئرزاور ذرائع معاش کے حامل ہونے کے باعث ایک دوسرے سے آزاد ہوں گے۔ بچوں کی ذمہ داریاں اور اخراجات کی مد بھی تقسیم ہو جائے گی۔
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا
نہیں
محو حیرت ہوں کے دنیا کیا سے کیا
ہو جائے گی

بات ہورہی تھی گھرانے کی صحت و نشو و نما اور پر داخت کی ، معاشرے کی صحت و صفائی کی۔ لگتا ہے کہ یہ ساری تعلیم و ترقی اور میڈیکل ڈاکٹرز کی بھرمار اور ساری کی ساری سویلائزیشن ہمارے اندرون خانہ کمیوں کوتاہیوں کی وجہ سے اکارت جا رہی ہے۔

آج کا مسئلہ یہ ہے کہ آج کی خواتین کی کوئی تعلیم و تربیت ہے ہی نہیں کہ اہل خانہ کی دیکھ بھال کس طرح کی جائے۔ بلکہ آج کی عورت اسے اپنی ذمہ داری سمجھتی ہی نہیں اور نا ہی اس ضمن میں کوئی کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔ یہ بھی ایک سائنس ہی ہے کہ انسان کا سونا جاگنا ، کھانا پینا ، پہننا اوڑھنا ، سوچ افکار ، اخلاق ق و کردار ، دین و مذہب اور معاملات ، سبھی کچھ اس کی ذہنی و جسمانی صحت وپرداخت سے جڑا ہوا ہے۔

جو علوم ہمارا لائف سٹائل ہی بگاڑ دیں وہ علوم ہیں کہ جہالت۔ ہماری مائیں ، نانیاں دادیاں ، حتی کہ کبھی کبھار گھروں میں آتی جاتی خالائیں پھوپھیاں ، چاچیاں مامیاں بھی افراد خانہ کی غذائی ضروریات پہ گہری نظر رکھتی تھیں۔ اور وہ سند یافتہ نا ہونے کے باوجود خوراک اور غذائیت کی اعلی معلومات کی حامل ہوتی تھیں۔ اب ہم آج کی مائیں ، ڈاکٹرز بھی ہیں ، گزٹڈ آفیسرز بھی اور ہزار ہا ورکنگ اور پاور فل وومنز ہیں لیکن گھر گھر ہستی سے نا بلد۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ بضد کہ کاروبار خانہ داری کی ذمہ دار میں ہی کیوں۔ نتیجہ یہ کہ کسی کو نہیں معلوم کہ ہم کہ ہم ترقی کر رہے ہیں کہ بر باد ہو رہے ہیں۔ اپنے بچوں سے ہم پیار کر ہے ہیں کہ دشمنی۔ ہماری اگلی نسلیں کتنی خوشحال اور شادمان و کامران ہوں گی۔؟

نا ہمارا تعلیمی نصاب ، نا ہماری حکومتیں ، نا ہمارا میڈیا ، اور نا ہی والدین سبھی صورت حال کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے