مولانا سمیع الحق کی شہادت اور میڈیا کی غلط بیانی!

مولانا سمیع الحق صاحب معمول کے مطابق ہفتے میں ایک دو دن کیلئے اسلام جاتے ہیں ۔ ان کی یہ ترتیب گزشتہ پچاس سال سے زیادہ عرصے پر محیط ہے ، ستائیس اٹھائیس سال تو خود پارلیمنٹ کے ممبر رہے، اس کے بعد بحریہ ٹاون میں رہائش لی۔ ان دو دنوں کے درمیان تنہائی میں وہ اپنی تصنیفی کام پر فوکس کرتے تھے۔

ان کی شہادت کے حوالے سے بعض نیوز سائٹس مسلسل کنفیوژن پھیلا رہے ہیں جبکہ ہم سب مسلسل تجہیز وتکفین میں مصروف ہیں اس لئے تبصرے کا موقع نہیں ملا۔

مولانا صاحب مرحوم عموما سیکیورٹی گارڈ نہیں رکھتے تھے۔ دنیا جہاں کے اسفار میں وہ اور ان کے خادم و ڈرائیور احمد شاہ حقانی رفیق ہوتے۔ اسی طرح بحریہ ٹاون میں بھی وہ ساتھ ہوتے۔ اور گزشتہ پچیس سال سے مولانا مرحوم کیساتھ منسلک ہیں ۔

وہ عصر کے وقت مارکیٹ گئے اور باہر سے پینے کے صاف پانی بھی لانے کا ارادہ تھا وہ آدھے گھنٹے بعد پہنچے تو گیٹ کا دروازہ تھوڑا سا کھلا تھا۔ اندر جھانک کر مولانا کے کمرے گئے ان کا دروازہ بھی کھلا تھا۔ دیکھا تو مولانا زمین پر پڑے تھے۔ وہ سمجھے کہ شائد گر کر بے ہوش ہوئے ہیں ۔ فورا اٹھایا تو وہ خون میں لت پت تھے۔

احمد شاہ بے حال ہوئے اور پہلا فون مولانا کے بیٹے مولانا حامد الحق حقانی کو کیا۔ پھر بحریہ کی سیکیورٹی کو اطلاع دی۔

چونکہ وہ خود بھی مریض ہیں مگر فورا حامد بھائی نے قریب محلے میں ایک دوست کو فون کیا اور وہ مدد کیلئے پہنچ گئے۔

اس کے بعد بحریہ ٹاون کے ہسپتال لائے گئے۔ ڈاکٹر نے کہا کہ تقریباً تیس منٹ پہلے ان کی وفات ہوگئی ہے۔

کچھ لوگ خاندانی جھگڑے کوئی ذاتی رنجش کا نام لے رہا ہے۔ مگر خدا کی قسم ایسی کوئی بات نہیں ۔ مولانا صاحب کی نرمی اور حلم و درگزر کے تو اس کے دشمن معترف تھے۔ پورے خاندان کیا ادارے اور علاقے کو عالمی دنیا میں متعارف کرایا۔

نیز بعض حضرات زیب داستان کیلئے کہتے ہیں کہ دو آدمی تھے ایک سیکرٹری اور ایک ڈرائیور ،حالانکہ احمد شاہ سیکرٹری اور ڈرائیور دونوں تھے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ پہلے بھی مولانا صاحب سے ملنے آتے تھے۔ لیکن نہ احمد شاہ نے دیکھا ہے اور ان کے خاندان نے کہ مارنے والے کون اور کہاں سے آئے۔ اگر حکومت کوشش کرے تو سی سی ٹی وی کیمرہ سے سب کچھ نکال سکتے ہیں۔ اس کے بعد ہم سے تصدیق کرادیں کہ یہ کون ہیں؟

مولانا حامد الحق پر اساتذہ دارلعلوم کا اصرار تھا کہ ویسے ان سے کافی خون بہہ چکا ہے مزید ان کی لاش کی بے حرمتی برداشت نہیں ۔ انہوں نے کافی دلائل دئے۔ بہر حال انہوں نے میت کو اکوڑہ خٹک روانہ کیا۔
شائد پولیس اپنی ناکامی کو چھپانے کیلئے تنازعے کا نام دے رہی ہے۔ لیکن بحریہ ٹاون کے کیمروں میں سب کچھ پتہ چل جائیگا۔

جنازہ پھر بھی لیٹ ہوا کیونکہ مولانا مرحوم کی اہلیہ اور بیٹا سفر عمرہ پر تھے۔

نہ تو مولانا کو کسی سے دشمنی تھی اور نہ تنازعہ! پاکستان کی ساری سیاسی مذہبی ، جہادی، فرقہ وارانہ، معتدل اور روشن خیال جماعتوں کے قائدین ان کا احترام کرتے تھے۔ ریاستی اداروں سمیت کئی عالمی فیصلوں میں ان کی اہمیت نمایاں تھی۔ اس سے پیشگی تھریٹ وغیرہ بھی نہیں ملا تھا۔

جذباتیت میں ہم سے غلط بات نکالنے کے بجائے قومی ادارے متحد ہوکر تحقیق کریں۔ کیونکہ یہ پاکستان پر حملہ ہے۔

آخری بات! لاکھوں لوگوں کی اکوڑہ خٹک میں موجودگی کے باوجود نہ سرکاری املاک کو نقصان پہنچااور نہ کسی کو تکلیف! بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کیساتھ مکمل تعاون کیا گیا۔ نہ پاکستان مخالف نعرہ لگا اور نہ بغاوت کی صدا بلند ہوئی.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے