پوچھنے والے نہیں رہے- براڈ کاسٹر حمید اصغر مرحوم کی یادیں

دو سال پہلے کی بات ہے ۔ انگریزی کے چند الفاظ اور ان کے اردو ترجمے کے حوالے سے الجھن میں تھا۔ میں نے فون اٹھایا اور پشاور کا ایک نمبر ڈائل کیا۔ کال کی اس طرف مراد صاحب تھے ۔ جو حمید اصغر صاحب کے فرزند ہیں۔ ان سے سلام دعا ہوئی۔ اور کہا کہ بابا سے بات کروا دیں۔ کہنے لگے ۔ کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں۔ لیکن اگلے ہی لمحے آواز بدل گئی۔ ہمیشہ کی طرح وہی زندگی سے بھرپور آواز۔ میں نے ہیلو کیا تو جواب ملا .جی امجد میاں کیا حال ہے۔ زندگی کیسی گزر رہی ہے۔ اب عمر رفتہ ہے۔ بوڑھا ہو گیا ہوں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا شکر ہے ۔ چلتا پھرتا ہوں ۔ میں نے بھی اپنا حال سنانے کے بعد کہا کہ سر جی کچھ پوچھنے کے لئے فون کیا تھا۔ جواب میں بڑے تاسف سے کہا ۔ ”کہ تم ابھی تک پوچھنے والے ہو ۔ اب تو پوچھنے والے ختم ہو گئے ہیں۔ اب تو سب بتانے والے ہیں۔” ہم نے ہلکا سا قہقہہ لگایا۔

بہرحال میرے سوالات کا تفصیل سے جواب دیا ۔ جب بھی ان سے اردو یا انگریزی کا کوئی بھی لفظ پوچھتا وہ اس کی "کھال ادھیڑ "کر رکھ دیتے اس کے مختلف معانی ، ان کا استعمال اور مختلف لہجوں اور علاقوں میں وہ کیسے بولا اور استعمال کیا جاتا ہے ۔ سب سمجھانے کی کوشش کرتے۔

اس گفتگو کے بعد ایبٹ آباد شہر پر بات چل نکلی۔ کہتے ہیں کہ آہ ہاہ ، ایک زمانہ تھا کہ گرمیوں میں ایبٹ آباد کی طرف جانا ہوتا ۔ وہاں گھنٹوں چہل قدمی کرتے ۔ موسم اور نظارے دونوں ہی خوبصورت ہوتے۔ میں نے کہا کہ سر آپ کو لینے آؤں گا اور ایبٹ آباد لے کر جاؤں گا۔ اگرچہ ایبٹ آباد ویسا نہیں رہا۔ کہنے لگے کہ نہیں اب کہاں ہمت ہے ۔ اب تو چل سو چل ہے۔ فون پر ہمیشہ پیمرا والے جاوید وسیر صاحب (ڈائریکٹر جنرل لائسنسز) کا ضرور پوچھا کرتے اور گفتگو کے آخر میں ہمیشہ دعا دیتے ۔ اللہ تعالیٰ آپ کے لئے آسانیاں پیدا فرمائے۔

یہ میری حمید اصغر صاحب سے آخری گفتگو تھی۔ گزشتہ ہفتے ان کا انتقال ہوگیا ۔ اللہ تعالیٰ غریق رحمت کرے۔

محترم حمید اصغر صاحب سے میرا تعارف 2003 میں ڈیپارٹمنٹ آف جرنلزم آف ماس کمیونیکیشن میں تب ہوا جب ڈیپارٹمنٹ پہلی دفعہ ساؤتھ ایشیا کے پہلے کیمپس ریڈیو کی بنیاد رکھنے کا منصوبہ بنا رہا تھا۔ اساتذہ کے ساتھ ساتھ اب اسسٹنٹ پروفیسر نعمان خان مشہور صحافی سبوح سید ، وائس آف امریکہ کے براڈ کاسٹر شعیب زادہ ، اسسٹنٹ ڈائریکٹر اسلامک یونیورسٹی اسٌلام آباد ناصر فرید ، اظہار احمد (کچھ اور لوگ جو یاد نہیں) اس وقت طلباء کی حیثیت سے میٹنگ میں شریک تھے۔ اس میٹنگ میں محترم حمید اصغر صاحب نے کیمپس ریڈیو کے پروگراموں کے بارے میں مختصر اور جامع گفتگو کی۔ بس اس دن سے آپ سے تعلق بنا ۔ جو ہمیشہ کسی نہ کسی صورت قائم رہا۔

بہاولپور میں پٹھانے خان کو ریڈیو پر متعارف کروانے والےمرحوم حمید اصغر صاحب انگریزی و اردو کی زبان و بیان پر عبور رکھنے والے انتہا ئی محنتی اور تجربہ کار شخصیت تھے. ریڈیو پاکستان پشاور کے سٹیشن ڈائریکٹر رہے اور اس کے علاوہ پاکستان اور مغربی پاکستان میں بھی مختلف ریڈیو سٹیشنز پر تعینات رہے. بہت زیرک پروگرامر سکرپٹ رائٹر اور سٹوری ٹیلر تھے. پشاور کے بعد بہاولپور سے ذیادہ محبت تھی. شادی بھی وہیں سے کی. آپ کی گفتگو میں ہمیشہ بہاولپور کا ذکر ضرور ہوتا.

طلباء ان کے پاس بیٹھنے سے کتراتے تھے ۔ کیونکہ وہ پروگرام کے آدمی تھے اور بات کو طوالت سے بیان کرنے کے عادی تھے۔ میری یہ خوش قسمتی رہی کہ میں اس طوالت کو ہمیشہ انجوائے کرتا ۔ جس کا فائدہ یہ ہوا کہ ایک تو میری اردو بہتر ہوئی۔ دوسرا مجھے پشاور کی آنکھوں دیکھی تاریخ آپ سے سننے کا موقع ملا۔ پشاور کے کچھ پرانے کاروباری اور سیاسی لوگوں نے زندگی کا آغاز کیسے کیا ۔ اور آج کیسے کروڑوں کمائے ۔ یہ سارے راز وہ جانتے تھے۔ ریڈیو پاکستان پشاور سے لے کر دہلی مسلم ہوٹل ، اشفاق احمد ، بانو قدسیہ اور احمد فراز کے جوانی کے قصوں سمیت پشاور شہر کی پرانی روایات اور ثقافت کا علم مجھے ان سے ملا۔

مجھے کہا کرتے کہ امجد میاں ۔ اگر تم نے ریڈیو میں سٹیشن ڈائریکٹر بننا ہے یا کہیں بھی اچھا مینیجر بننا ہے تو تمہیں ایک بہترین کلرک بننا ہو گا۔ کلیریکل جاب زندگی کے ہر شعبے میں کام آئے گی۔ مجھے انہوں نے سرکاری چٹھیاں ڈرافٹ کرنا ، ان کی کاپیاں بنانا ، منظوری کروانے کے بعد ان کو فائلوں میں لگانا اور پھر فائلوں کو ترتیب لگانا سکھایا۔

نعمان خان جو آج کل ڈیپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ تب رضاکارانہ طور پر ہمیں آئی ٹی کے کاموں میں مدد دیا کرتے تھے ۔ ریڈیو چھوڑنے کے بعد میں نے انہیں کہا تھا کہ سر کے ڈرافٹ کئے ہوئے خطوط کسی ایک فولڈر میں سنبھال کر رکھنا ۔ یہ ہمیشہ کام آئیں گے۔ ان کے انتقال کے بعد نعمان نے بتایا کہ آپ نے کہا تھا اور میں نے وہ سب اپنے پاس محفوظ کر لئے تھے۔ یہ ان کا صدقہ جاریہ ہے جو آج سولہ سال گزرنے کے بعد بھی کام آ رہا ہے۔

شعیب زادہ دیر کے پشتون تھے اور اردو میں ریڈیو شو کرتے ۔ ایک دن ان سے کہنے لگے کہ آپ اپنی زبان میں شو کیوں نہیں کرتے۔ شعیب زادہ نے کہا کہ سر مشکل لگتا ہے ۔ کہنے لگے کہ تمہیں معلوم نہیں 1960 سے لے کر 1990 تک انگریزی جرنلزم کا دور تھا ۔ پھر سن 2000 تک اردو جرنلزم کا دور تھا ۔ اور اب سے18 ۔2015 تک پشتو جرنلزم اور 2030 تک عربی جرنلزم کا دور ہو گا۔ اسلئے پشتو پر توجہ دیں۔ شعیب زادہ نے ان کی کہی ہوئی بات پر عمل کیا اور اگلے دن پشتو میں ریڈیو شو سٹارٹ کیا اور آج وہ ریڈیو وائس آف امریکہ کی پشتو سروس میں کامیاب براڈکاسٹر ہیں۔

ان کے پاس چمڑے کا ایک ہینڈ بیگ ہوا کرتا ۔ گفتگو کے دوران وہ اس میں سے ایک پیکٹ نکالتے ۔جس میں دو ٹوسٹ ہوتے۔ ٹوسٹ نکالتے ہوئے کہتے کہ بیگم نے دو دئیے تھے۔ لیکن میں صرف ایک کھا سکتا ہوں ۔ ایک آپ کھا لو۔ کیونکہ آج واپس لے گیا تو کل پھر ایک ہی ملے گا۔
دو نصیحتیں ہمیشہ کرتے
1: تقسیم کیا کرو ۔
2: اسپغول کا استعمال کرو. اسپغول گاڑی کے کاربوریٹر کو بھی صاف کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے
اللہ کریم آپ کی بخشش و مغفرت فرمائے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے