یعنی ایسے ہی چلے گا؟

پچھلے تہتر برس میں بلوچستان، سندھ اور خیبر پحتون خوا میں جتنی بھی علیحدگی پسند تحریکیں چلیں ان میں سے کچھ تو بدلے سیاسی حقائق کے بوجھ تلے دب گئیں یا بزور دبا دی گئیں۔

ان میں سے بیشتر تحریکوں نے ریاست کو استحصال پسند یا غاصب قرار دیا اور ریاست نے ان تحریکوں کو غیر ملکی ایجنٹ۔ مگر کسی کو یاد پڑتا ہے کہ ان میں سے کسی تحریک کے کسی رہنما نے کبھی جنرلوں سے بغاوت کی اپیل کی ہو یا اپنے پیروکاروں کو حکم دیا کہ ریاستی اداروں کے اعلیٰ ترین عہدیداروں کو قتل کر دو۔

الطاف حسین نے جوش میں آ کر پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگایا۔ کیا ہوا پھر ایم کیو ایم کے ساتھ؟ آج تک ایم کیو ایم کے ہر دھڑے کی طرف سے معذرت خواہانہ وضاحتیں پیش کی جاتی ہیں کہ بھائی کا یہ مطلب نہیں تھا، بھائی نے بہت فاش غلطی کی اور اس کے بعد جو ایکشن لیا گیا وہ ٹھیک تھا۔

نائن الیون کے بعد سے ہزاروں لوگ غائب ہوئے۔ اب بھی ہو رہے ہیں۔ کیا کسی خاندان نے سوائے بازیابی کی اپیل کے کسی ادارے کے خلاف بغاوت کی اپیل بھی کی؟

جس پشتون تحفظ موومنٹ کو سرحد پار سے فنڈنگ لینے والی تحریک بتایا جا رہا ہے اس کے جلسوں میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کئی باتیں ہوتی ہیں مگر کسی مقرر کے منہ سے کبھی نکلا کہ جو بھی نقیب اللہ محسود سمیت پشتونوں کے کسی قاتل کا سر اتارے گا وہ قومی شہید ہے؟

اکبر بگٹی نے مرتے دم تک پاکستان، فوج، عدالت حتی کہ پرویز مشرف کے بارے میں زیادہ سے زیادہ کیا کہا ہوگا؟

یہاں تو قانون کی اتنی پاسداری ہے کہ نہال ہاشمی اور فیصل رضا عابدی کی بھی گنجائش نہیں اور ایک قانون و آئین پسندی کی دعویدار ریاست میں ہونا بھی یہی چاہیے۔

مگر تہتر برس سے میرے پاس وہ کیا گیدڑ سنگھی ہے جو اگر میرے پاس ہو تو میں قائدِ اعظم کو کافرِ اعظم کہہ کر بھی بچ نکلوں، اگر ریاستی رٹ قائم کرنے والے اہل کاروں کے سر بھی قلم کر دوں تب بھی قاتلوں کے ہمنوا اور ریاستی عہدیدار میرے بارے میں یہی کہتے رہیں کہ گمراہ ہو گیا ہے، ہے تو اپنا بھائی، ہے تو پاکستانی، ہے تو مسلمان، کوشش کر رہے ہیں کہ بات چیت سے مسئلہ حل ہو جائے، طاقت کے استعمال کی نوبت نہ آئے۔

میرے پاس وہ کون سا آسمانی لائسنس ہے جس کے ہوتے کوئی میرا گریبان نہیں پکڑ سکتا اگر میں یہ بھی کہہ دوں کہ کتا بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے لڑتے ہوئے مارا جائے تو شہید ہے ( جس وقت یہ کلمات کہے گئے اس وقت کون کون امریکی اتحادی تھا؟)۔

میں اگر عین دارالحکومت کے بیچوں بیچ بیٹھ کر ببانگ ِ دہل کہہ سکوں کہ اسلامیانِ پاکستان ابوبکر البغداری کا خیر مقدم کرتے ہیں اور انہیں یہاں آنے کی دعوت دیتے ہیں تو کیا ریاست میرے معاملے میں بھی بہری ہو جائے گی؟

تو کیا یہ معجزے سے کم ہے کہ جو شخص ہجوم کے سامنے فوج کو اپنی ہی قیادت کے خلاف بغاوت پر اکسائے، اعلیٰ ججوں کے قتل کا فتوی دے۔ وہی تین روز بعد ریاست سے ہونے والے تحریری معاہدے پر بطور مساوی فریق دستخط بھی کرے اور ریاست میں اتنی ہمت بھی نہ ہو کہ معاہدے میں یہ شق ہی شامل کروا سکے کہ ہم قتل اور بغاوت کے فتوی کو واپس لیتے ہیں اور جذبات میں منہ سے نکل جانے والے شدید کلمات پر شرمسار ہیں۔

کیا یہ کرشمہ نہیں کہ ریاست میں یہ منمنانے کی بھی جرات نہ ہو کہ معاہدے کے مسودے میں آسیہ مسیح کا نام عاصیہ مسیح نہ لکھا جائے۔ اس کا پیدائشی نام عاصیہ ( گنہگار عورت ) نہیں آسیہ ہے۔

پانچویں شق ہے کہ ’اگر اس واقعے کے دوران کسی کی دل آزاری یا تکلیف ہوئی ہو تو تحریکِ لبیک معذرت خواہ ہے‘۔

’تو کیا یہ معجزے سے کم ہے کہ جو شخص ہجوم کے سامنے فوج کو اپنی ہی قیادت کے خلاف بغاوت پر اکسائے، اعلی ججوں کے قتل کا فتوی دے۔‘
(یعنی کسی کی کار اور موٹر سائیکل جلی ہو، کوئی ٹھیلہ لٹ گیا ہو تو اس کا مالک، کوئی مریض ایمبولینس میں مرگیا ہو تو اس کے لواحقین، کوئی خاندان سولہ سولہ گھنٹے موٹر وے پر پھنس گیا ہو تو اس سے معذرت۔ مگر جن عناصر کو یہ سب کرتے ہوئے حراست میں لیا گیا انہیں معاہدے کے مطابق بلا مقدمہ رہا کر دیا جائے)۔

اب جج جانیں، استغاثہ جانے، آسیہ جانے، حکومت فیصلے کے خلاف اپیل کی مساعت میں فریق نہیں بنے گی۔ وکیل سیف الملوک تو ریاست پر بھروسہ کرنے کے بجائے خاندان سمیت بیرونِ ملک روانہ ہو گئے۔

وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے بہت خوب کہا کہ یہ معاہدہ فوری آگ بجھانے کے لیے ہے، مسئلے کا مستقل حل نہیں۔ لیکن مسئلے کا مستقل حل کیا ہے؟ فریقِ ثانی نے تو ببانگِ دہل بتا دیا مگر فواد چوہدری کب بتائیں گے؟

کیا کسی نے سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ پڑھا؟ کیا ایک بھی ایسا عالم نہیں جو حجرے سے باہر نکل کے بتا سکے کہ غیر مسلموں پر ایک مسلمان ریاست میں کس کس جرم پر کون سی حد جاری ہو سکتی ہے اور کون سی صرف مسلمانوں پر جاری ہو سکتی ہے۔

کیوں ڈھونڈ رہے ہو کسی دیوار کا سایہ

یہ دھوپ تو ہر رخ سے پریشان کرے گی

رہی وزیرِ اعظم کی ریاست سے نہ ٹکرانے کے انتباہ والی تقریر اور اس کے بعد کا ریاستی رویہ تو ایک قصہ سن لیں۔

ایک سوٹڈ بوٹڈ بابو گلی سے گذر رہا تھا کہ اوپر سے دال بھری دیگچی آن گری۔ بابو للکارا اوئے کون گنوار ہے، سامنے آ تجھے دیکھ لوں۔ اوپر سے ایک تنو مند مسٹنڈا نیچے اترا۔ بابو نے اس کا ڈیل ڈول دیکھ کر کہا ’جناب دال بہت لذیذ ہے۔ تھوڑی سی اور پھینک دیں گے کیا‘۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے