گُڈ بائے سردارخالد ابراہیم خان!

سردار خالد ابراہیم جیسے قدآور شخص کا یوں چلے جانا ریاست جموں کشمیرکے لیے حالیہ برسوں کا بہت بڑا صدمہ ہے۔

کسی کی وفات پر یہ کہنا کہ ’’اس کا خلا پورا نہیں ہو سکے گا‘‘ ایک پامال محاورہ ہے لیکن خالد ابراہیم کے باب میں یہ لفظ بہ لفظ صادق آتا ہے۔ خالد ابراہیم کے سیاسی فیصلوں سے متعلق پسند ناپسندکا پایا جانا فطری ہے لیکن ان کے کردار پر کوئی داغ نہیں ۔

اپنے عہد کے ایک سربرآوردہ سیاست کار اور ریاست جموں کشمیر کے پہلے صدر سردارابراہیم خان کے بیٹے ہونے کی حیثیت سے انہوں نے کبھی کوئی ناروا فائدہ نہیں اٹھایا۔

ان کے والد سردار ابراہیم کی شہرت یہ تھی کہ وہ سرکاری خزانے میں کنجوسی کی حد تک احتیاط کرتے تھے ۔ جب بھی وہ ایوان صدر میں رہے تواس وقت کی مہمانوں کی آؤ بھگت اور سرکاری گاڑیوں اور دیگر وسائل کے محتاط ترین استعمال کی لاتعداد کہانیاں لوگوں کو اب تک یاد ہیں۔ خالد ابراہیم بھی اس حوالے سے اپنے والد کی روش پربرابر قائم رہے ۔

اسمبلی کے رکن ہونے کے باوجود سرکاری مراعات سے اجتناب ، اپنے اصولوں کی تادم مرگ پاسداری ، اپنی سیاسی پوزیشن سے اولاد کو فائدہ نہ پہنچانا، یہ فی زمانہ ایسی خوبیاں ہیں جو کم ہی کسی اور سیاست کار میں نظرآتی ہیں۔

میں نے سردار خالدابراہیم خان کی جس خوبی کو سب سے برتر پایا وہ ان کی سوچ میں پائی جانی والی کلیرٹی(Clearity) تھی ۔ جن نظریات کو وہ دیانت داری کے ساتھ درست سمجھتے تھے ، ان کی زندگی اور طرز گفتار میں ان کی جھلک نمایاں نظرآتی تھی ۔ وہ نعرے کی حد تک نہیں بلکہ عملی طور پر روشن خیال ، باوقار اور بااعتماد شخص تھے ۔

آزادی اظہار رائے کا احترام کھلے دل سے کرتے تھے ۔ کئی بار جلسوں میں ان کی موجودگی میں مقررین ان کے والد کے سیاسی فیصلوں پر سخت تنقید کرتے لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ انہوں نے کسی کو محض تنقید کی بنا پر ’’شپ اَپ‘‘ کہہ دیا ہویا غدار کہہ کر پکارا ہو۔ وہ حُب الوطنی کی ’’سرکاری تعریفوں‘‘ کی پرچار کرتے نہیں پائے گئے۔ ان کے لباس ، گفتگو اور رویے سے ایک کھلے پن کا احساس ہوتا تھا۔

سچ تو یہ ہے کہ ریاست جموں کشمیر کی دستیاب سیاسی لاٹ میں کوئی بھی ایسا نہیں جس کا موازنہ خالد ابراہیم سے کیا جا سکے ۔ وہ منفرد تھے اور تاریخ میں بھی ممتاز رہیں گے بلکہ تاریخ کی کتاب میں خالد ابراہیم کا باب مستقل ہوگا اورالگ ہوگا۔

راولاکوٹ کے صابر شہید گراؤنڈ میں ان کو الواداع کہنے کے لیے آج انسانوں کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا ۔ تاحد نگاہ سر ہی سی دکھائی دیتے تھے۔یہ ہزاروں لوگوں کی جانب سے ایک ایسے شخص کو عقیدت کا آخری سلام تھا جس نے بھرپور سیاسی زندگی گزارنے کے باوجود اپنا دامن اِس دشت کی آلائشوں سے صاف بچا لیا اور اُسی بانکپن ، اعتماداور وقار کے ساتھ تاریخ کا جگمگاتا ستارہ بن گیا ۔

خالد ابراہیم سے ان کی سیاسی زندگی کے سوز زیاں کے بارے میں کوئی سوال پوچھتا توشاید وہ فیض احمد فیضؔ کی زبان میں یوں جواب دیتے:

چھوڑا نہیں غیروں نے کوئی ناوکِ دْشنام
چْھوٹی نہیں اپنوں سے کوئی طرزِ ملامت
اِس عِشق ، نہ اْس عِشق پہ نادِم ہے مگر دل
ہر داغ ہے اِس دل میں، بجْز داغِ ندامت

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے