تو کیا ہم نے طے کر لیا ہے کہ اونٹ نگل لینے ہیں اور مچھروں کو چھاننے بیٹھ جانا ہے؟
جس بچے کی ریڑھی سے کیلے لوٹ لیے گئے فواد چودھری اس بچے کو ساتھ لے کر میڈیا پر آئے تو اچھا لگا ۔ چند سو روپے کے یہ کیلے ہمارے لیے تفنن طبع کا سامان ہو سکتے ہیں ، اس معصوم کی یہ کائنات تھے ۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ دریا کنارے بیٹھے لوگ اس شخص کی پیاس کا اندازہ نہیں کر پاتے جسے ہر سہہ پہر پیاس بجھانے کے لیے کنواں کھودنا پڑے ۔ ہمیں کیا معلوم کیلوں کی اس ریڑھی پر اس بچے کے کتنے خواب لدے تھے جو لوٹ لیے گئے ۔ کس بے بسی سے اس نے اپنی ریڑھی کو بھگایا کہ کچھ تو بچ جائے ، آدمی بے حس نہ ہو چکا ہو تو وہ منظر لہو رلا دیتا ہے ۔
اس معصوم کا نقصان تو اب پورا ہو چکا لیکن میڈیا پر اسے بات کرتے دیکھا تو معلوم ہوا اس کی آنکھوں سے نمی ابھی رخصت نہیں ہوئی تھی ۔ ریاست کا رویہ اپنے شہریوں کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے جیسا فواد چودھری کا اس بچے کے ساتھ تھا ۔ ہمدردانہ اور مشفقانہ ۔ اس بچے کے کندھوں پر پیار سے ہاتھ رکھ کر کھڑے فواد چودھری پہلی بار مجھے بہت اچھے لگے ۔ ایک شہری کے طور پر مجھے فواد چودھری کا شکریہ ادا کرنا ہے ۔ لیکن ایک سوال بھی اس شکریے کے ہمراہ ہو گا۔
سوال یہ ہے کہ کیا صرف کیلوں کی یہ ریڑھی تھی جو لوٹی گئی اور یہ واحد نقصان تھا جو بے بس شہریوں کو برداشت کرنا پڑا ؟ اگر تو صرف یہ ریڑھی اس رویے کا نشانہ بنی تب تو ٹھیک ہے لیکن اگر یہ خبریں درست ہیں کہ لوگوں کی گاڑیاں ، کاریں ، بسیں اور ٹرک جلا کر راکھ کر دیے گئے تو پھر سوال یہ ہے کہ ان متاثرین کے آنسو کون پونچھے گا ؟
انہیں کون اپنے پاس بلائے گا ؟ وزیر اطلاعات انہیں کب بلا کر میڈیا کے سامنے لائیں گے اور میڈیا سے کہا جائے گا ان سے پوچھیے ان کے نقصان کا ازالہ ہو گیا کہ نہیں ؟ حکمرانی مزاج یار کا نام نہیں کہ برہم ہو جائے تو طوفان اٹھ کھڑا ہو اور مائل ہو جائے تو لطف و کرم کی آبشار بن جائے ۔ حکومت اصول اور ضابطے کے تحت امور ریاست نبٹانے کا نام ہے ۔سوال اب یہ ہے کہ کیلوں کی ایک ریڑھی پر جس حساسیت کا مظاہرہ کیا گیا اسی حساسیت کا مظاہرہ ان لوگوں کے بارے میں کیوں نہیں کیا گیا جو اپنے گھروں سے یہ اطمینان لے کر نکلے کہ حکومت ان کے تحفظ کے لیے موجود ہے لیکن شاہراہوں پر ان کی گاڑیاں جلا دی گئیں؟
کیا یہ کہہ دینا کافی ہے کہ املاک اور گاڑیوں کو نقصان پہنچا نے والوں کی شناخت کی جا رہی ہے اور انہیں گرفتار کر لیا جائے گا ؟ ہر گز نہیں ۔ ان کو گرفتار کرنا اور ان کے ساتھ قانون کے مطابق معاملہ کرنا ، یہ اس قصے کا فوجداری پہلو ہے ۔لیکن یہ سارا معاملہ محض فوجداری نہیں ۔ اس میں ریاست اور اس کے شہریوں کے درمیان وہ تعلق بھی زیر بحث ہے جو آئین پاکستان کے باب دوم میں طے کر دیا گیا ہے ۔ جب شہری ریاست کے حق میں اپنی بہت سی آزادیوں سے دست بردار ہو تے ہیں ، جب شہری محنت سے کمائی گئی دولت میں سے قدم قدم پر ریاست کو ڈائریکٹ اور ان ڈائرکٹ ٹیکسز دیتے ہیں تو جواب میں ریاست ان کی جان اور مال کے تحفظ کی ذمہ دار ہوتی ہے۔
وزیر اعظم نے رات خطاب کیا اور پھر چین چلے گئے۔ حکومت یا تو لوگوں کو بتا دیتی کہ موٹر وے اور جی ٹی روڈ پر بھی ہم امن قائم نہیں کر پا رہے اس لیے آپ گھروں میں رہیے۔ لیکن اگر اس نے یہ نہیں بتایا ، لوگ موٹر وے پر آئے ، ٹال پلازے پر انہیں کارڈ ایشو کر دیا گیا اور داخلے کی اجازت دے دی گئی تو اب اس نقصان کا ازالہ کون کرے گا ؟ ہمارے ہاں یہ رسم ابھی شروع نہیں ہو سکی لیکن آئینی سکیم کی روح یہ ہے کہ حکومت اس نقصان کا ازالہ کرنے کی پابند ہے۔ کیلوں کی ریڑھی والے بچے کے نقصان کا ازالہ کر کے خود وزیر اطلاعات نے عملا یہ ذمہ داری تسلیم بھی کر لی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس ذمہ داری کی ادائیگی صرف کیلوں کی ریڑھی تک کیوں محدود رہے؟
اگر اس کا جواب یہ ہے کیلوں کا معاملہ چونکہ ایک معصوم بچے کے ساتھ پیش آیا اس لیے اس کی دلجوئی ضروری تھی اور اسے علامتی طور پر لیا جائے تو پھر ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے ۔ چار سال کا وہ بچہ بھی تو بہت معصوم تھا جس کے ماتھے پر اعظم سواتی کے لوگ ذخم کا نشان چھوڑ گئے؟ بجا کہ کیلوں کی وہ ریڑھی بھی غریب کی کل متاع تھی لیکن وہ گائے بھی تو کسی غریب کا کل اثاثہ تھی جسے ایک وفاقی وزیر نے قبضے میں لے لیا ؟ میں نے پہلے عرض کی کہ حکومت مزاج یار کا نام نہیں کبھی برہم ہو جائے اور کبھی لطف و عطا پر مائل ہو جائے۔ حکمرانی کسی ضابطے کے تحت کی جاتی ہے۔ تو کیا ہم توقع رکھیں ایک شام اعظم سواتی کے عتاب کا شکار ہونے والے خاندان کے معصوم بچے کو بھی کوئی وزیر اسی طرح بلا کر پوچھے کہ تمہیں تمہاری گائے واپس مل گئی اور اب تمہیں کوئی خوف تو نہیں؟
حکومت کے اقدامات جب تک کسی اصول اور قاعدے کے ماتحت نہ ہوں ان کی شان نزول پر سوالات اٹھتے رہتے ہیں ۔ مقصود اگر عوام الناس کی خیر خواہی ہو تو حکومت تمام شہریوں سے ایک جیسا معاملہ کرتی ہے اور ہر نقصان کا ازالہ کرتی ہے لیکن پیش نظر اگر صرف پوائنٹ سکورنگ ہو تو حکومت معاملے پر حساس ہو جاتا ہے اور کسی سے یکسر لاتعلق ۔ اس رویے کو پھر خیر خواہی اور گڈ گورننس کے باب میں نہیں لکھا جا سکتا ۔ اسے صرف سیاسی ضرورت کے تحٹ اختیار کی گئی ایک حکمت عملی تصور کیا جاتا ہے۔
اونٹ نگلتے جائیے ، مچھر چھانتے جائیے ۔شاید اسی کا نام Realpolitik ہے۔