سعودیہ، چین دورہ: کوئی ایسی چیز نہیں ہوئی جس سے ملک کو نقصان کا اندیشہ ہو: وزیرخارجہ

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ سعودی عرب سے تعلقات میں سرد مہری تھی جسے دور کرنے کی کوشش کی جب کہ چین کا دورہ بھی کامیاب رہا۔

سینیٹ کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ممبران نے سعودی عرب اور چین کے دورے کا ذکر کیا، اطمینان رکھیں، ان دوروں میں کوئی ایسی چیز نہیں ہوئی جس سے پاکستان کو نقصان پہچنے کا اندیشہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں کچھ غلط فہمیوں نے جنم لیا تھا جنہیں دور کرنے کی کوشش کی، سعودی عرب نے جو پیکج کا وعدہ کیا ہے اس سے معیشت میں ٹھہراؤ آیا، سعودی عرب نے بہت بڑی رعایت دی ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا سوال کیا گیا کہ آپ سے سعودی عرب نے لیا کیا اور کیا وعدہ کرکے آئے؟ ہمیں سعودی عرب سے غیر مشروط پیکج ملا ہے اور کوئی شرائط عائد نہیں کی گئی۔

چین کے دورے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ چین سے ابھی ہم لوٹے ہیں، چین کا بہت مفید دورہ تھا، ایک دورے میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ٹاپ لیڈرز سے علیحدہ علیحدہ نشست ہوئی ہو لیکن ایک نشست چینی صدر ، ایک وزیر اعظم سے اور ایک نسشت اینٹی کرپشن مہم کو لیڈ کرنے والے نائب صدر سے ہوئی۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ چین سے تعلق میں مزید گہرائی پیدا کی گئی ہے، دیکھنا تھا اسٹریٹجک تعلق برقرار اور معاشی تعلق کو وسعت کیسے دینا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ دورہ سعودی عرب میں کوئی ایسی بات نہیں کی کہ ہم یمن تنازع کا حصہ بنیں، یمن کی صورت حال کے حوالے سے پارلیمنٹ نے جو پوزیشن لی تھی وہ درست تھی۔

انہوں نے بتایا کہ ہمارے مشرق اور مغرب میں بھارت کی طرف پیغام جانا لازمی تھا، ہم نے دو فیصلے کیے، دسمبر میں کابل میں تین ملکی مذاکرات ہوں گے، کابل مذاکرات میں چین پاکستان اور افغانستان ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج جو تصادم ایران اور سعودی عرب میں ہے اس کی نظیر نہیں ملتی، یمن اور شام کے تنازعات پورے خطے اور پاکستان کو کیسے متاثر کر سکتے ہیں یہ بھی آپ جانتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ریاض سمٹ کے ایجنڈے سے ایران مخالف پہلو اجاگر ہوتا ہے، روس بھی اپنے آپ کو دوبارہ لا رہا ہے اور شام میں اس کی موجودگی پوشیدہ نہیں ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکا ایران سے معاہدے سے دستبردار ہوا جس کا ایران کے استحکام پر اثر پڑے گا اور ایران پاکستان گیس پائپ لائن پر ہم پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یمن کی صورتحال میں پاکستان کا کیا کردار ہونا چاہیے؟ یمن تنازع کے حل کے لیے ثالثی کی طرف اشارہ دیا گیا، یمن کی صورت حال پر پاکستان کا کردار ہونا چاہیے یا نہیں؟ خارجہ پالیسی میں جہاں تک ممکن ہو قومی اتفاق رائے ہونا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ یمن میں بدقسمتی سے جنگ کی کیفیت ہے، ملک تقسیم ہو چکا ہے، ایک طرف حوثیوں کا کنٹرول ہے تو دوسری طرف سعودی اتحاد کا، ایک طرف سعودی عرب سے تعلقات ہیں، دوسری طرف ایران ہمسایہ ہے اور ہم ایران سے پُرامن سرحد چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان نے کہا میں چاہتا ہوں کہ یمن کے معاملے میں ثالث کا کردار ادا کروں، نواز شریف نے بھی ثالثی کی کوشش کی تھی لیکن انھیں کامیابی نہیں ملی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے