جون ایلیا کی یاد میں

رہِ انکار پر ،جمالیاتی تعلّیات کے بانکپن کے ساتھ، طنزو ہجو کے جلو میں شعری سفر کرسکنے والے کو جون ایلیا کہا جاتا ہے۔

گو کہ جون ، میر و غالب کی طرح ، "معنی آفرینی” کی راہ پر شعری سفر تو نہ کر سکے مگر وہ احساسات کواک منفرد شان کے ساتھ،نئے دروبست سے روشناس کر نے کی بے مثال خلاقی حس جمالیاتی منتہیٰ تک پہنچا گئے ہیں،اس کے بعد
انھیں یہ حق ہے کہ وہ یوں بھی للکار سکیں کہ

؎ میر و غالب کو ٹوکتا ہوں میں
سن رکھو !جون ایلیا ہوں میں

برسوں پہلے جون نے ، جو جس خوبی سے کہا تھا، یقیناً وہ اسی خوبی سے کہے جانے کے لائق تھا، سو اب و ہ اس لائق ہیں کہ ان پر بھی صدیوں بہر طور، کہا جاتا رہے۔زبان کو برتنے میں جون ، جو خلّاقی دکھا گئے ہیں ، سچ یہ ہے کہ یہ کارنامہ کسی اُن جیسے پر ہی سج سکتا تھا۔

جون نے، اردو غزل کو جن نئے ذائقوں سے مالا مال کرنے میں اپنی عمر لٹائی ہے، یہی کارِ خیر اُن کے لیے کسی صدقہِ جاریہ سے کم نہیں۔ اپنے حصے کا حسنِ عمل جس حسن کے ساتھ وہ کر گزرے ، خداوند، انھیں اس کا بہترین صلہ بخشے۔ہمارے پاس انھیں دینے کو دعا کے سوا کچھ نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے