حق بہ حقدار رسید

وہ پنجاب کے ضلع سرگودھا کے ایک چھوٹے سے گائوں چاوہ میں پیدا ہوا۔ 9بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا لہٰذا ذمہ داریاں بھی بہت تھیں۔ والد فوج میں جونیئر کمیشنڈ آفیسر تھے اور والدہ چار جماعت پاس ایسی منفرد گھریلو خاتون جس نے اپنے بیٹے کو محلے کے مدرسے میں یہ کہہ کر ڈالنے سے انکار کردیا کہ وہ اسے ایم اے انگلش کروائے گی۔

ویسے تو اسے بچپن سے ہی بینائی کا مسئلہ تھا مگر امورزندگی چل رہے تھے لیکن جب وہ آنکھوں میں سہانے مستقبل کے خواب سجائے زینہ بہ زینہ قدم اٹھاتے گریجویشن تک پہنچا تو ڈاکٹر نے اسے خبردی کہ جلد ہی اس کی بینائی مکمل طور پر ختم ہوجائے گی۔ خبر کسی کہرام سے کم نہ تھی۔ مگر اس نے ہمت نہ ہاری اور تعلیم جاری رکھتے ہوئے1992میں انتہاِئی محدود بینائی کے ساتھ ایم اے انگلش کرکے ماں کا خواب پورا کردیا۔ مگر ہرگزرتے دن آنکھوں کی تاریکی میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔

وہ اچھے مستقبل کے خواب کی تکمیل کے لئے 1996میں سرگودھا سے اسلام آباد منتقل ہوگیا جہاں اس نے پاکستان فاونڈیشن فار فائٹنگ بلائنڈنیس کی آڈیو لائبریری میں کام شروع کردیا۔ بوجوہ اسکی نوکری زیادہ دیر نہ چل سکی تاہم لائبریری کی انچارج صائمہ عمارنے جو خود بھی بینائی سے محروم تھیں اس نوجوان کی مزید ہمت افزائی کی۔ اس دوران نوجوان نے کمپیوٹر بھی سیکھ لیا اورٹیوشنز کیساتھ ساتھ مختلف نجی یونیورسٹیوں میں درس و تدریس سے وابستہ بھی ہوگیا۔ زندگی کے انہی جھمیلوں میں اسکی ملاقات ایک متحرک شخص مدثر رضوی سے ہوئی جس نے اس نوجوان کی ایک غیر سرکاری تنظیم میں پہلی باضابطہ نوکری کرادی۔

اسلام آباد میں اس کا تعارف ڈویلپمنٹ سیکٹر کے معروف نام مختار احمد علی سے بھی ہوا۔ جنہوں نے اس نوجوان کو معلومات تک رسائی کے عوامی حق اور اس بارے میں چلنے والی عالمی تحریکوں سے آگہی دی۔ مختار احمد علی نے اس نوجوان کو اپنی تنظیم میں موقع دیا جہاں سے اس نے پوری دنیا میں معلومات تک رسائی کے کارکن کے طورپر نام پیدا کیا۔

2002 میں اس کی بینائی مکمل طور پر ختم ہوگئی۔ کسی نا بینا شخص کے لئے بینائی سے محرومی اتنا بڑا دھچکا نہیں ہوتا جتنا بڑا دھچکا ایک آنکھوں والے شخص کے لئے اسکا چھنا جانا ہوتا ہے۔ کسی نعمت کی اہمیت اسکے چھن جانے کے بعد اور بھی زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ اس دھچکے کے باوجود اس نوجوان نے ہمت ہارنے کی بجائے اپنی سماعت کو اپنا نیا ہتھیار بنایا اور گبھرانے کی بجائے آگے بڑھتے رہنے کی ٹھان لی۔ اس باہمت شخص کانام زاہد عبداللہ ہے۔

میری زاہد عبداللہ سے پہلی ملاقات آج سے ٹھیک سات سال پہلے نومبر2011میں اسلام آباد ائیرپورٹ پر ہوئی۔ ان دنوںانڈونیشیا میں معلومات تک رسائی کے بارے میں ایک عالمی کانفرنس منعقد ہورہی تھی۔ کانفرنس میں زاہد عبداللہ کو خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ زاہد سے شناسائی نہ تھی۔ فون پر رابطے تو ہوئے مگر ملاقات پھر بھی نہ ہوئی۔ہم ائیرپورٹ پر اکٹھے ہوئے، میں نے مصافحے کے لئےہاتھ بڑھایا تو یہ جان کر دھچکا لگا کہ زاہد عبداللہ بینائی سے محروم ہے۔ حیرت اس بات کی تھی کہ فون پر رابطے کے باوجود کبھی اس نے بتایا ہی نہیں تھا کہ وہ کس محرومی کا شکار ہے۔

اگلا دھچکا اس وقت لگا کہ جب ہم امیگریشن کے انچارج کے ساتھ بیٹھے تھے۔ اس کی میز پر پاولو کوہیلو کی معروف کتاب الکیمسٹ دیکھ کر میں نے بات کا آغاز کیا تو معلوم ہوا کہ زاہد عبداللہ نے کوہیلو کی کم و بیش تمام کتب حفظ کررکھی ہیں۔ ایف آئی اے کا آفیسر بھی حیران تھا اور میں بھی۔

2011میں انڈونیشیا اور پھر2014 میں ایسی ہی ایک کانفرنس میں مالدیپ گئے تو پتہ چلا کہ میں ہی نہیں ایک زمانہ زاہد عبداللہ کی معلومات تک رسائی کی تحریک کے بارے مہارت اور معلومات کا معترف ہے۔ زاہد عبداللہ کے ساتھ سفر گہری قربت اور دوستی میں بدل گئے۔ زاہد کی تین پیاری بیٹیاں ہیں۔ شیزا بھابھی، زاہد کی ایسی رفیق ہیں کہ اسے کبھی کسی چیز کی کمی اور محرومی کا احساس نہیں ہونے دیتیں۔

یہ زاہد کی بہادری بھی ہے اور بھابھی کی ہمت افزائی بھی کہ زاہد نے ڈویلپمنٹ اسٹڈیز میں دوسرا ماسٹرز بھی کیا اور گھر اور بچوں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ دو کتابیں

[pullquote]Disabled by Society[/pullquote]

اور

[pullquote]The Wise Man[/pullquote]

بھی لکھ ڈالیں۔

عوام ٹیکس دیتے ہیں جن سے کاروبار حکومت و ریاست چلتا ہے۔ اس لئے عوام کو حکومت اور سرکاری اداروں سے معلومات کا حق حاصل ہے۔ جس کو سب سے پہلے پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت نے آئین میں آرٹیکل 191اے شامل کرکے تسلیم کیا۔ میں معلومات کی رسائی کے قانون کے تحت مختلف سرکاری اداروں سے معلومات کے حصول کے لئے خطوط لکھتا رہتا ہوں اس لئے مجھے زاہد عبداللہ سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے جاتے جاتے تمام جماعتوں کی مدد سے عوام کی معلومات تک رسائی کا ایکٹ مجریہ 2017 پاس کیا مگر اس ایکٹ کے تحت کمیشن قائم نہ کرسکی۔

قانون کے مطابق کمیشن تین انفارمیشن کمشنرز پر مشتمل ہے جن میں سے ایک سول سوسائٹی، دوسرا، بیورو کریسی اور تیسرا عدلیہ کی نمائندگی کرتا ہے۔ انفارمیشن کمشنرکا اختیار ایک جج کے برابر ہوتا ہے جو سرکاری اداروں کی طرف سے عوام کو معلومات فراہم نہ کرنے پر انکی سزا تجویز کرنے کے ساتھ ساتھ معلومات تک رسائی کو یقینی بناتے ہیں۔

چونکہ میں معلومات تک رسائی کے لئے سرکاری دفاتر میں خطوط لکھتا رہتا ہوں اور بعض حکام معلومات کی فراہمی میں لیت و لعل کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں اس لئے میں اس کمیشن کے قیام کا منتظر تھا ،معاملے نے طول پکڑا تو میں نے کمیشن کے قیام کے لئے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا۔ جس پر معززجج جناب جسٹس اطہر من اللہ نے نگراں دور حکومت میں اس وقت کی نگراں حکومت کو واضع ہدایات دیں۔ مگر حکومت کے خاتمے کے باعث معاملہ مزید طوالت اختیار کر گیا۔

کچھ روز قبل وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری سے بات چیت ہورہی تھی تو میں نے کمیشن کا ذکرچھیڑدیا۔ خیال یہ تھا کہ فواد چوہدری صاحب کو کمیشن کے قیام کے بارے میں ترغیب دوں لیکن حیران کن طور پرفواد چوہدری کمیشن کی اہمیت سے بخوبی آگہی رکھتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم کمیشن کے لئے نام فائنل کرلئے ہیں۔ میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ بطور انفارمیشن کمشنر کس کس کا نام فائنل کیا ہے جس سے پتہ چلا کہ کمیشن میں سابق سیکرٹری اطلاعات محمد اعظم ، ایک سینئر وکیل جواد ملک کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی کے شعبے سے انفارمیشن کمشنر کے طورپر زاہد عبداللہ کا نام فائنل کیا گیا ہے۔

سچ یہ ہے کہ کمیشن کے رکن محمد اعظم ایک اچھی شہرت کے حامل افسررہے ہیں جبکہ جواد ملک کے بارے میں بھی کوئی ایسی منفی بات سامنے نہیں آئی مگر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ فوادچوہدری نے بینائی سے محروم زاہد عبداللہ کو انفارمیشن کمشنر مقررکیا ہے جو قابل تحسین ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے معاشرے میں ایک منفردبات بھی ہے۔ انفارمیشن کمشنر کے طور پر زاہد عبداللہ کا چنائو اس کمیشن کے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں۔ اس حوالے سے وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری کو کریڈٹ نہ دینا زیادتی ہوگی جنہوں نے اس شخصیت کا انتخاب کیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے