جمال خاشقجی کےقتل سے متعلق آڈیو ٹیپ امریکہ سمیت کئی ممالک کے حوالے

ترکی نے کہا ہے کہ اس نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کی موت سے متعلق آڈیو ریکارڈنگ امریکہ اور سعودی عرب سمیت کئی ممالک کو مہیا کی ہیں۔

ترک صدر رجب طیب اردوعان نے اپنے اس موقف کی ایک بار پھر دہرایا ہے کہ سعودی عرب کو معلوم ہے کہ جمال خاشقجی کو کس نے ہلاک کیا ہے۔

جمال خاشقجی کو دو اکتوبر کو استنبول میں سعودی قونصلیٹ میں قتل کر دیا گیا تھا۔

سعودی عرب نے تسلیم کیا ہے کہ صحافی جمال خاشقجی کو قونصلیٹ میں قتل کیا گیا ہے لیکن سعودی عرب یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ ان کے قتل میں شاہی خاندان کا کوئی فرد ملوث ہے۔

خاشقجی سعودی حکمرانوں کے بڑے ناقدین میں سے تھے جنھیں استنبول میں سعودی عرب کے سفارت خانے میں قتل کیا گیا۔

سعودی عرب نے ان خبروں کی بھی تردید کی ہے جن میں کہا گیا کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کسی امریکہ اہلکار کو بتایا تھا کہ جمال خاشقجی خطرناک اسلامی شدت پسند تھے۔

اس سے پہلے میڈیا اطلاعات کے مطابق سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے امریکہ کو بتایا تھا کہ ان کے نزدیک قتل کیے گئے صحافی جمال خاشقجی ایک خطرناک اسلامی شدت پسند ہیں۔

اطلاعات کے مطابق سعودی عرب کی جانب سے سعودی ولی عہد نے کی استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں ہلاکت کو تسلیم کرنے سے پہلے ولی عہد نے وائٹ ہاؤس فون کیا تھا۔

واشنگٹن پوسٹ کے مطابق صدر ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر اور نیشنل سکیورٹی کے مشیر جان بولٹن سے وائٹ ہاؤس میں ٹیلی فون پر ہونے والی بات چیت میں کہا تھا کہ جمال خاشقجی اسلامی شدت پسند تنظیم اخوان المسلمین کے رکن تھے۔

سعودی عرب نے ابتدائی طور پر یہ کہا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی قونصلیٹ سے بحفاظت چلےگئے تھے۔

ان کے مطابق اِس معاملے کا ’منطقی نتیجہ‘ یہی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جن لوگوں نے سعودی صحافی کو ہلاک کیا انھوں نے ان کے جسم کو ختم کر دیا تا کہ کوئی سراغ باقی نہ رہے۔

ترکی کے صدارتی مشیر کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا تھا جب جمال خاشقجی کی منگیتر خدیجہ جنگیز نے عالمی رہنماؤں سے اپیل کی ہے کہ ذمہ داروں کو انصاف کے کٹھرے میں لایا جائے۔

یاد رہے کہ اس سے قبل ایک نامعلوم سعودی اہلکار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا تھا کہ خاشقجی کی لاش قالین میں لپیٹ کر ایک ‘مقامی سہولت کار’ کو دے دی گئی تھی تاکہ وہ اس کو ٹھکانے لگا سکے۔

ترکی نے بتایا کہ بدھ کو سعودی حکام نے تحریری طور پر اپنا جواب جمع کرایا اور کہا کہ جوابات صرف مشترکہ تفتیش سے سامنے آ سکتے ہیں۔ساتھ ساتھ انھوں نے کہا کہ باضابطہ طور پر ‘مقامی سہولت کار’ کے بارے میں سعودیوں نے کوئی بیان نہیں دیا۔

ترکی نے عوامی طور پر سعودی عرب کو براہ راست مورد الزام نہیں ٹھہرایا لیکن دوسری جانب ایک حکومتی اہلکار نے کہا کہ یہ منصوبہ اعلیٰ سعودی قیادت کی اجازت اور حکم کے بغیر ممکن نہیں تھا۔

سعودی عرب نے مسلسل تردید کی ہے کہ شاہی خاندان اور بالخصوص ولی عہد محمد بن سلمان اس واقعے میں کسی طرح بھی ملوث ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے