تخت لاہور کی جنگ

آخر وہی ہوا جس کا سب کو ڈر تھا۔ ساجھے کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹ گئی ہے۔ ٹی وی چینلز پر چلنے والی خبروں اور ویڈیو فوٹیج سے صاف نظر آ رہا ہے کہ پنجاب میں سیاسی پنڈ بس گیا ہے اور سیاسی شکرے پہنچ گئے ہیں اونٹ ذبح کرکے اپنا اپنا ایک پائو گوشت وصول کرنے۔ جہانگیر ترین، پرویز الٰہی اور طارق بشیر چیمہ کے درمیان ہونے والی گفتگو سے صاف ظاہر ہے کہ پنجاب ایک ایسا صوبہ ہے جسے خیبر پختونخوا کی طرح نہیں چلایا جا سکے گا ۔خیبر پختونخوا کی آبادی ڈیڑھ کروڑ بتائی جاتی ہے جبکہ پنجاب بارہ کروڑ کا صوبہ ہے‘ جہاں مختلف نسلوں، رنگ، زبانوں اور کلچر کے لوگ ہیں‘ جن کے آپس میں سیاسی مفادات نہیں ملتے‘ سنٹرل پنجاب ، ساؤتھ اور نارتھ کی لڑائی چلتی رہتی ہے۔

اگرچہ درمیان میں کچھ عرصہ کے لیے جب شہباز شریف وزیراعلیٰ بنے تھے تو یہ رک گئی تھی‘ کیونکہ ایک خاندان کا راج تھا۔ پاکستان ‘ہندوستان صدیوں سے خاندانی غلامی کے عادی ہیں‘ لہٰذا آج بھی ایک مہاراجہ انہیں پسند ہے۔

اسی نفسیات سے شریف خاندان نے فائدہ اٹھایا اور تیس برس تک سختی سے حکومت اور دبا کر عیاشی کی۔ اگر آپ کو یاد ہو تو شریفوں نے بھی عثمان بزدارجیسے بندے کچھ عرصے کے لیے وزیراعلیٰ بنائے‘ جیسے غلام حیدر وائیں۔ اس کے بعد ہم نے منظور وٹو اورنکئی جیسے وزیراعلیٰ بھی دیکھے مگر یہ کرتب زیادہ دیر تک نہ چل سکا۔ ریموٹ کنٹرول وزیر اعلیٰ کبھی پنجاب میں نتائج نہیں دے سکتا ۔

جہانگیر ترین اور پرویز الٰہی کی اس فوٹیج سے صاف پتہ چل رہا ہے کہ پنجاب کو چلانا آسان نہیں۔ مجھے عمران خان صاحب پر ترس آرہا ہے‘ جنہوں نے صحافیوں سے ہونے والی ملاقات میں کہا تھا کہ وہ تین ماہ چپ رہیں‘ پھر سب بزدار کی تعریف کریں گے۔ ان کے لہجے میں یقین محسوس کر کے سب چپ ہو گئے کہ ہو سکتا ہے عثمان بزدار کرشمہ دکھا دیں۔ اب اسی ماہ بزدار کو تین ماہ پورے ہورہے ہیں جب یہ ویڈیو سامنے آئی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ کیسے سیاسی شکرے اپنا اپنا حصہ لینے کے لیے تخت لاہور پر حملہ آور ہیں اور بزدار ایک کٹھ پتلی سے زیادہ کچھ نہیں۔ ایک ڈوری ایک طرف کھنچتا ہے تو دوسرا دوسری طرف۔

عثمان بزدار کبھی ادھر گرتا ہے کبھی اُدھر۔ ان سب سیاسی شکروں کو پائو پائو بھر گوشت چاہیے‘ بے شک اس کے لیے پنجاب کا پورا اونٹ ہی کیوں نہ ذبح کرنا پڑے۔ ویسے داد دیں گورنر چوہدری سرور کو‘ وہ جب تک لندن میں تھے تو لندن کے اصولوں پر سیاست کرتے رہے۔ وہاں یہ جرأت نہیں کرتے تھے جو اب پنجاب میں کررہے ہیں۔ اسی لیے لندن چھوڑ کر پاکستان آگئے کہ کہا جاتا ہے‘ جوسُکھ چھجو کے چوبارے نہ بلخ نہ بخارے۔

ایک اہم بندے نے بتایا کہ گورنر صاحب نے فیصل آباد میں بھی مداخلت شروع کی تو وہاں کے ایم این اے عثمان بزدار سے ملے تو انہوں نے کہا: بہتر ہوگا آپ خود ہی گورنر سے بات کر لیں‘ میں کیا کرسکتا ہوں ‘ میں تو کینڈی کرش گیم کھیل رہا ہوں۔ دوسری طرف پرویز الٰہی صاحب نے ٹرانسفر پوسٹنگ سنبھالی ہوئی ہے‘ کیونکہ انہیں علم ہے کہ وفادار بابوز اور پولیس افسرہی ان کا کل سرمایہ ہیں۔ اسی لیے سہیل تاجک جیسے اچھے اور نیک نام پولیس افسر کو بہاولپور تعینات کر کے راتوں رات تبدیل کرا دیا گیا‘کیونکہ ہمارے دوست طارق بشیر چیمہ کی فرمائش کچھ اور تھی۔

پرویز الٰہی صاحب اپنے بیٹے مونس الٰہی کی بات ٹال سکتے ہیں‘ طارق چیمہ کی نہیں اور اس کھیل میں عثمان بزدار کی کیا جرأت کہ وہ پرویز الٰہی کو ‘ناں‘ کرسکیں۔ دوسری طرف پرویز الٰہی اس صورتحال سے ماضی میں گزرچکے ہیں‘ جس سے عثمان بزدار اب گزر رہے ہیں۔ جب دو ہزار دومیں پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنایا گیا تو ان پر بھی یہی دبائو تھا۔ کوئی پرویز الٰہی صاحب کو سنجیدہ نہ لیتا تھا۔ ان کا چیف سیکرٹری حفیظ رندھاوا اور ہوم سیکرٹری بریگیڈئیر اعجاز شاہ ہی انہیں چلاتے تھے‘ جیسے بچہ جمہورا ہوتا ہے۔پرویز الٰہی گھاگ تھے‘ وہ ایسے اداکاری کرتے رہے کہ انہیں کچھ پتہ نہیں‘ آخری دو تین سالوں میں انہوںنے پر پرزے نکال لیے ۔

تو کیا ہم عثمان بزدار سے بھی یہی توقع رکھیں کہ وہ پرویز الٰہی ماڈل پر چل رہے ہیں؟ پرویز الٰہی کو جنرل مشرف کی حمایت حاصل تھی تو بزدار کو عمران خان کی ہے۔ لیکن بزدار اور پرویز الٰہی میں بڑا فرق ہے۔پرویز الٰہی اور ان کا خاندان دہائیوں سے سیاست اور پاور میں تھا۔

انہیں کھیل کے سب راز معلوم تھے کہ ایم پی ایز، وزرا، بابوز اور پولیس افسران کو کیسے اپنا وفادار بنانا اور کس کو کتنی قیمت ادا کرنی ہے۔ وہ سیاست میں لین دین کے پرانے کھلاڑی تھے۔ جب موقع ملا مخالفوں پر بازی پلٹ دی۔ دو ہزار آٹھ کے الیکشن میں تو وہ وزیراعظم تک کے امیدوار تھے۔ برا ہو امریکیوں کا جنہوں نے بینظیر بھٹو اور مشرف کی ڈیل کرادی اور پرویز الٰہی صاحب کا خواب پورا نہ ہوسکا ۔ عثمان بزدار کے پاس وہ سیاسی طاقت نہیں ہے جو پرویز الٰہی کے پاس تھی۔ بزدار کو پتہ ہے انہیں صرف عمران خان کی حمایت حاصل ہے‘ ورنہ ان کے اپنے ایم پی ایز بھی ان کو پسند نہیں کرتے۔

ان کی تحریک انصاف میں مقبولیت نہیں ہے ‘لہٰذا عمران خان کو ایک ہی بات دہرانی پڑتی ہے کہ بزدار اس علاقے سے ہے جہاں بجلی تک نہیں۔ مگر بزدار خود کچھ نہیں کر کے دکھاتے تو عمران خان کب تک انہیں سہارا دیتے رہیں گے؟ عمران خان کھلاڑی کو ٹیم میں کھلا سکتے ہیں لیکن اس کی جگہ ، باؤلنگ، فیلڈنگ یا بیٹنگ تو کرنے سے رہے۔ بزدار کے کیس میں عمران خان کو یہی تینوں کام کرنے پڑ رہے ہیں۔ بزدار صاحب آرام سے پویلین میں بیٹھے میچ دیکھ رہے ہیں‘ جبکہ عمران خان ان کی جگہ فیلڈنگ، بیٹنگ اور پھر باؤلنگ بھی کرارہے ہیں۔ انہیں ہر پندرہ دن بعد لاہور جا کر پنجاب کابینہ کو بتانا پڑتا ہے کہ ان کا وزیراعلیٰ عثمان بزدار ہے ، پرویز الٰہی، جہانگیر ترین، گورنر سروریا علیم خان نہیں ۔

علیم خان کا شروع میں اثر بڑھ رہا تھا۔ انہیں اوپر سے کہلوایا گیا تو وہ سین سے غائب ہوگئے۔اب عمران خان صاحب کے لیے نیا چیلنج ہے‘ جہانگیر ترین اور پرویز الٰہی کا خفیہ الائنس اور ان کے مدمقابل ہیں گورنر سرور۔ جہانگیر ترین نے پہلے کہا تھا کہ انہوں نے عمران خان کو وزیراعظم بنا دیا ‘لہٰذا وہ اب سیاست سے دور رہیں گے‘ جو وہ سپریم کورٹ سے نااہل ہونے کے بعد ویسے بھی نہیں کرسکتے تھے‘ لیکن ترین صاحب بے چارے کیا کریں‘ ان کے سب منصوبے خاک میں مل گئے۔

برسوں کی مالی سرمایہ کاری ضائع گئی‘ جہاز، چندے، اخراجات بھاگ دوڑ سب کچھ اکارت گیا‘ جب سپریم کورٹ نے نااہل قرار دے دیا۔ اگرچہ ترین خوش قسمت رہے کہ سپریم کورٹ نے وہ پرانا کیس نہیں کھول دیا جس میں انہوںنے اعتراف کیا تھا کہ اپنے گھر کے مالی اور کک کے نام پر کروڑوں روپے کا فراڈ کیا تھا‘ اور جس کی سزا چودہ برس جیل تھی۔ اب ترین صاحب کوسمجھ نہیں آتی کہ اپنی سرمایہ کاری کیسے وصول کریں۔

سب کچھ خرچ کیا اور جب ریکوری کا وقت آیا تو الٹا سیاست ہی سے آئوٹ۔ جہانگیر ترین سے سمجھدار تو شاہ محمود قریشی نکلے‘ جنہوں نے تحریک انصاف پر ایک ٹکا تک خرچ نہیں کیا؛ اگرچہ گوشواروں کے مطابق ان کے بینک اکاؤنٹس میں بیس کروڑ روپے کیش پڑا ہے‘ لیکن کبھی کسی نے سنا کہ قریشی صاحب نے ایک روپیہ بھی پارٹی یا پارٹی چیئر مین پر خرچ کیا؟ قریشی صاحب کو علم تھا کہ سیاست میں جیب سے خرچ نہیں کیا جاتا۔ انہوں نے پنجاب کی وزارت اعلیٰ نہ ملنے کا کچھ دن غم کیا لیکن پھر وزارت خارجہ لے لی۔ قومی اسمبلی میں بھی وہ لمبی لمبی تقریریں کرکے اور خود کو نمایاں رکھ کر اپوزیشن سے مذاکرات اور پارلیمنٹ کے اندر گڈ کاپ کا بھی رول ادا کرتے رہتے ہیں‘ جبکہ جہانگیر ترین بے چارہ کروڑوں روپے لگا کر بھی مستقل سیاست سے آئوٹ۔ حیران ہوتا ہوں ترین صاحب کو نیند کیسے آتی ہوگی۔

اپنے مہربان دوست جہانگیر ترین سے مجھے پوری ہمدردی ہے۔ سب کچھ خرچ ترین صاحب نے کیا ، آزاد امیدواروں کو جہاز میں بنی گالہ ڈھونے کا کام ترین نے کیا‘ جبکہ وزیراعلیٰ بزدار بن گئے ۔ اب جبکہ جہانگیر ترین سپیکر پرویز الٰہی کے ساتھ مل کر عثمان بزدار کے کندھے پر توپ رکھ کر پنجاب کو ریموٹ سے چلانے کی پلاننگ کررہے تھے کہ کیسے وہ لندن پلٹ سیاسی کھلاڑی محمد سرور کا پتہ کاٹیں اور پنجاب کی گلیاں سنجیاں کر کے مزرا یار کی طرح اکیلے اتراتے پھریں، تو اسی وقت ہی ویڈیو ٹی وی چینلز پر چلنا شروع ہوگئی۔ اپنے مہربان دوست جہانگیر ترین کی مسلسل بدقسمتی پر سرائیکی زبان کا محاورہ یاد آگیا : بُرے دن ہوں تو اونٹ پر بیٹھے بندے کو بھی کتا کاٹ لیتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے