کیا حکومت کچھ اچھا بھی کر رہی ہے؟

تحریک انصاف نے خود ہی توقعات کا ہمالہ کھڑا کیا تھا ، جب عوام الناس نے حکومت کو انہی توقعات کے پیمانوں پر پرکھنا شروع کیا تو اس کا حاصل اضطراب کے سو اکچھ نہ تھا ۔ خلقِ خدا نے اہل اقتدار کو گویا کٹہرے میں کھڑا کر دیا اور سوالات کے دفتر کھل گئے۔ سوال اب یہ ہے کہ کیا روش روش ٹوٹے خوابوں کی کرچیاں ہی پڑی ہیں یا حکومت کہیں کچھ اچھا بھی کر رہی ہے؟

تازہ ہوا کا پہلا جھونکا وزارت قانون کی جانب سے آیا ہے جس نے 100 دن مکمل ہونے سے قبل ہی اپنا پورا پلان وضع کر کے وزیر اعظم کو بھجوا دیا ہے ۔ ہم میں سے کون ہے جو دیوانی مقدمات کی تکلیف دہ حد تک طوالت سے واقف نہ ہو ۔ قریبا نصف صدی چاہیے ہوتی ہے تب جا کر یہ مقدمات اپنے منطقی نتیجے پر پہنچتے ہیں ۔ فوک وزڈم (Folk Wisdom) کی اپنی ایک اہمیت ہوتی ہے اور ہمارے سماج کا فوک وزڈم کہتا ہے کہ آپ کو دیوانی مقدمات کو ان کے منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے عمرِ خضر اور صبرِ ایوب چاہیے۔ جس ضابطہ دیوانی کے تحت یہ مقدمات نبٹائے جاتے ہیں وہ ضابطہ ایک سو دس سال پرانا ہے۔

دنیا بدل گئی لیکن ہم نے 1908 میں بنائے گئے اس قانون کو سینے سے لگا رکھا ہے ۔ وزیر قانون جناب فروغ نسیم نے آغاز ہی اسی بھاری پتھر کو اٹھا کر کیا ہے اور وہ بجا طور پر تحسین کے مستحق ہیں ۔ اس میں ایسی ترامیم تجویز کر دی گئی ہیں کہ اب ضابطہ دیوانی کو پڑھتے ہوئے یہ احساس نہیں ہو گا کہ ہم قبل مسیح کے کسی قانونی مسودے کو کسی عجائب گھر سے نکال کر پڑھ رہے ہیں ۔ یہ دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ ایک قانون بن کر سامنے آئے گا اور اس کی بدولت دیوانی مقدمہ اب عشروں نہیں چلے گا بلکہ امید ہے کہ سول کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک محض تین سال کے عرصے میں مکمل ہو جائے گا۔

خواتین اور بچے ہمارے ہاں ظلم اور وحشت کا آسان ترین شکار ہیں ۔ وزارت قانون نے اس مسئلے کو بھی اپنا مخاطب بنایا ہے اور اب کسی عورت اور بچے کے ساتھ اگر ظلم ہوتا ہے تو اس فوجداری مقدمے کو دیکھنا اور اسے آگے بڑھانا ریاست کی ذمہ داری ہو گی اور ریاست ہی ان کی وکالت بھی کرے گی ۔ وہ کمزوری اور غربت کی وجہ سے انصاف کے حصول سے اب محروم نہیں رہیں گے۔ معاملے کو محض سرکاری وکیل کے ھوالے کر کے ایک رسم پوری نہیں کی جائے گی بلکہ متعلقہ شعبے کے ماہر قانون دان ان کی معاونت کے لیے ریاست کے خرچے پر موجود ہوں گے ۔ اس کے لیے الگ سے ایک لیگل ایند جسٹس اتھارٹی قائم کی جا رہی ہے۔ اسی طرح ہمارے ہاں خواتین کو وراثت میں سے حصہ نہیں ملتا ۔ عورت کے لیے مردانہ معاشرے نے خود ساختہ اخلاقیات طے کر رکھی ہیں ۔ بسا اوقات خواتین کی جائیداد پر ان ہی کے بھائی قابض ہو جاتے ہیں ۔ نئے مسودہ قانون کے تحت یہ واردات کسی بھی انداز سے ممکن نہیں رہے گی۔

کبھی جیلوں میں جائیں تو معلوم ہوتا ہے کتنے ہی قیدی محض اس لیے قید کاٹ رہے ہیں کہ ان کے پاس جرمانہ ادا کرنے کے لیے چند سو روپے نہیں ہیں ۔ ستم ظریفی دیکھیے ایک طرف ایک شخص کو اس لیے جیل میں رکھا جاتا ہے کہ وہ چند سو روپے جرمانہ ادا کرنے کے قابل نہیں اور دوسری جانب ریاست اسے سالوں جیل میں رکھ کر اس کی خوراک پر لاکھوں خرچ کر دیتی ہے ۔ کئی دفعہ زر ضمانت دینے کو کسی کے پاس کچھ نہیں ہوتا ۔ اس مسئلے کو بھی اس مجوزہ مسودہ قانون میں موضوع بنایا گیا ہے اور اس کے لیے فندز مختص کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ وزارت قانون نے تبدیلی کے نقش اول کے طور پر اپنا کام کر دیا ۔ زیادہ مناسب یہ ہو گا کہ وزیر اعظم اب اس مسودے کو پارلیمان کے سامنے بھی رکھیں اور عوام کے سامنے بھی۔ تاکہ اس پر سیر حاصل گفتگو ہو اور ضروری ترمیم و اضافے کے ساتھ اسے نافذ کر دیا جائے۔

دوسرا خوشگوار جھونکا تحریک انصاف کے متحرک سیکرٹری جنرل ارشد داد کی جانب سے آیا ہے۔ ایک چھوٹی سی خبر شائع ہوئی کہ تحریک انصاف نے پارٹی کے آئین کے لیے ایک ریویو کمیٹی بنا دی ہے ۔ لیکن جاننے والے جانتے ہیں یہ معمولی خبر نہیں ۔ عمران خان سے ایک کارکن نے کہا جمہوریت میں چیئر مین کو اختیارات کا مرکز نہیں ہونا چاہیے ۔ آپ کے پاس اختیارات کچھ زیادہ ہیں انہیں کم کیجیے اور انہیں نچلی سطح پر منتقل کیجیے ۔ ایسا نہیں کہ آپ جسے چاہیں ٹکٹ دے دیں ۔ مقامی تنظیم اور آپ کے اختیارات میں توازن ہونا چاہیے ۔عمران نے برہم ہونے کی بجائے کہا آپ کی پارٹی ہے ، آپ مل کر اپنے آئین پر نظر ثانی کر لیجیے ۔ چنانچہ حامد خان جیسے قانون دان ، مصدق گھمن جیسے صاحب دانش اور پارٹی کے نمایاں اہل سیاست پر مشتمل ایک کمیٹی بنا دی گئی ہے ۔

اقتدار میں آکر حکمران سیاسی جماعت کو بھول جاتے ہیں۔ نواز شریف صاحب کے دور میں پارٹی کے سیکرٹری جنرل کو کہنا پڑا کہ تین سالوں میں میاں صاحب سے ایک بھی میٹنگ نہیں ہو سکی۔ تحریک انصاف اب ایک نیا کلچر متعارف کرانے میں کامیاب ہو گئی تو یہ جمہوری کلچر کے فروغ کے لیے نیک شگون ہو گا ۔ علی اعوان جیسے دیرینہ کارکن کو اسلام آباد سے ضمنی انتخابات میں کامیابی کے ساتھ ہی وزیر اعظم کا مشیر بنا لینا بھی ایک خوش آئند اقدام ہے جو بتا رہا ہے کہ سیاسی ضروریات اور سیاست کے بے رحم تقاضے اپنی جگہ لیکن اقتدار اپنی جماعت اور کارکن سے بے نیاز نہیں ہوا اور پارٹی میں مخلص نوجوانوں کے لیے راستے کھلے ہیں۔

تیسری اچھی خبرکے پی کے سے ہے جہاں اجمل وزیر کو حکومت کا ترجمان بنا دیا گیا ہے ۔ اجمل وزیربرسوں سے شعوری طور پر تحریک انصاف کا حصہ ہیں ۔ جب مسلم لیگ ق کے مرکزی صدر تھے تو ق لیگ کا کم اور عمران کا دفاع زیادہ کرتے تھے۔ ہمارے درمیان گھنٹوں اس پر بات ہوتی کہ انہیں تحریک انصاف میں شامل ہو جانا چاہیے ۔

انتخابات سے قبل ایک شام کہنے لگے میں نے تحریک انصاف میں شمولیت کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ میں نے پوچھا کہاں سے الیکشن لڑ رہے ہیں؟ کہنے لگے میں شمولیت کا اعلان ٹکٹوں کی تقسیم کے بعد کروں گا ۔ یہ ان کا غلط فیصلہ تھااور اس کا شکوہ ان سے خود عمران خان نے بھی کیا کہ آپ پہلے آ جاتے تو قومی اسمبلی کی نشست پر ہمارے امیدوار ہوتے ۔ اجمل وزیر کی یہ تعیناتی میرے نزدیک خود احتسابی کی شروعات ہیں اور بین السطور اس بات کا اعتراف بھی کہ حکومت کی ترجمانی صرف شعلہ بیانی سے نہیں ہوتی ۔ اس کے لیے شائستگی ، استدلال اور دھیما پن بھی چاہیے ہوتا ہے ۔ یہ تعیناتی مجھے مزید کچھ تبدیلیوں کا پیش لفظ دکھائی دیتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے