دربار

دربار آباد ہوتا ہے اور آخر کو برباد بھی۔ ازل سے یہی ہوتا آیا ہے ‘ابد تک یہی ہوتا رہے گا۔

عمران خان کے ایما پر جہانگیر ترین چوہدریوں کے گھر سینیٹ کے الیکشن کی تیاری کی خاطر گئے۔ پچھلی بار سینیٹ کی واحد سیٹ پہ الیکشن ہوا تو چار ووٹ کم ملے تھے۔ فطری طور پر اس بار اندیشہ ہے کہ وہی گھپلا پھر سے برپا نہ ہو۔

یہ بھی نا ممکن نہیں کہ چار کی بجائے چھ ووٹ کم ہو جائیں۔ تجزیہ کار عدنان عادل کہتے ہیں پی ٹی آئی کے امیدوار ہاریں گے نہیں ۔ ہاں‘ مگر ووٹ کم ہوئے تو بھد اڑے گی۔ غلبہ کم ہے۔ کچھ ووٹر پھسل جائیں تو صوبے میں عمران خان کی حکومت ڈھے سکتی ہے۔ نہیں‘ زمین بوس نہیں ہوگی۔ فیصلہ کن طاقتیں خان کے ساتھ ہیں۔ مزید برآں چوہدری برادران اور آزاد امیدوار‘ پی ٹی آئی کے ساتھ رہیں گے۔ معتوب شریف برادران کے ساتھ وہ کیوں جائیں گے۔ اپنے حلیفوں کے باب میں عمران خان شریفوں کے مقابلے میں زیادہ شریف ہیں۔

جی ہاں‘ دوست نہیں حلیف۔ نپولین کا وہی قول There are enemies and allies in politics, no friends. سیاست میں دشمن ہوتے ہیں یا حلیف‘ دوست کوئی نہیںہوتا۔

عثمان بزدار نہیں‘ یہ چوہدری ہیں۔ سینیٹ کے الیکشن میں چکمہ دینے والوں کی راہ جو روک سکتے ہیں۔ چوہدری صاحبان ایک اور وزارت وفاق میں طلب کر رہے ہیں۔ خواہش تو پرویز الٰہی کی یہ ہو گی کہ وزیراعلیٰ بنا دیئے جائیں۔ منظور وٹو بن سکتے ہیں تو وہ کیوں نہیں؟ خوش قسمتی سے چوہدری صاحبان منظور وٹو سے کم حریص ہیں یا کہیے کہ زیادہ عملیت پسند۔ آخر کو وٹو کی وزارت جاتی رہی تھی۔ یوں بھی ایک وزارت کا تقاضا کچھ زیادہ تو نہیں۔

تاثر یہ ہے کہ یہ وڈیو انہوں نے خود جاری کی۔ لاہور کے رپورٹروں کا کہنا ہے کہ یہ خود ان کے خاندانی کیمرہ مین اقبال نے ان کے حوالے کی۔ آخری نتیجہ ناچیز اخذ نہیں کر سکتا۔ جو کچھ معلوم ہو سکا‘ وہ شبہ پیدا کرتا ہے‘ یقین نہیں۔

اقبال کو پتہ چلا تو وہ منت سماجت کرتا رہا: مجھ سے غلطی ہو گئی ‘ خدا کے لیے آواز نہ چلائو۔ کیا وہ اداکاری کر رہا تھا؟ کوئی اس سے ملے اور پوچھ گچھ کرے تو ممکن ہے کہ حتمی نتیجہ اخذ کرسکے۔ جس قدر یہ ناچیز چوہدریوں کو جانتا ہے‘ گمان اس کا یہ ہے کہ دبائو وہ ڈال سکتے ہیں‘ بلیک میل نہیں کر سکتے۔ ان کا یہ مزاج نہیں۔ چوہدری شجاعت میں تو مہم جوئی کا عنصر بھی نہیں پایا جاتا۔ وہ نبھانے والے ہیں‘ پرویز الٰہی بھی۔

آواز کے دو انداز و اسلوب (Track) فلم میں ہوتے ہیں۔ ایک کو Natural یعنی فطری کہا جاتا ہے‘ آس پاس کی آوازیں جو جذب کرتا ہے۔ ایک مائیک والا‘ جو صرف مطلوب آوازیں ریکارڈ کرتا ہے۔

فلم جنہوں نے دیکھی ہے‘ ان کا کہنا ہے کہ ریکارڈ ہونے والی بات چیت مائیک کی نہیں۔ بلکہ اس ٹریک کی آس پاس کے جو ہارن یا شور ایسی کمزور آوازیں قبول کرتا ہے۔ چلانے والوں نے اسے بلند (Amplify)کر کے سنا اور سنا دیا۔ کیوں نہ سناتے؟ ایسی سنسنی خیز‘ خبر وہ کیوں چھپاتے؟ قانونی تو کیا‘ یہ ان کی اخلاقی ذمہ داری بھی نہیں۔رہی مہربانی تو اس کاروبار میں مہربانی کوئی کسی پہ نہیں کیا کرتا۔ ”عینک والے‘‘ زکوٹا جن کی طرح میڈیا بھی یہ کہتا ہے: اب میں کیا کروں‘ اب میں کس کو کھائوں؟اب کیا ہوگا؟

ناچیز کی رائے میں کچھ بھی نہیں‘ بس تھوڑی سی لیپا پوتی۔ عمران خان‘ چوہدری سرور ‘چوہدری پرویز الٰہی اور طارق بشیر چیمہ سب کے سب ایک کشتی میں سوار ہیں۔ فیض نے کہا تھا ؎
مجبوری و دعویٰ گرفتاریٔ الفت
دست تہ سنگ آمدہ پیمان وفا ہے

طارق بشیر چیمہ کی شکایت کا سبب آشکار ہے۔ یہ کہ چوہدری سرور ان کے حلقے میں‘ پی ٹی آئی کی صوبائی امیدوار محترمہ فرزانہ رئوف کی سرپرستی کرتے ہیں۔ اخبار نویس کہتے ہیں کہ چوہدری سرور آرائیں کارڈ استعمال کرتے ہیں۔ یہ ان کی اساس ہے۔ ان کے مقابلے میں چوہدری صاحبان جاٹ پتا برتا کرتے ہیں۔ رئوف کلاسرا نے ٹھیک کہا: مونس الٰہی کی بات‘ چوہدری پرویز ٹال سکتے ہیں‘ چیمہ کی نہیں۔ ان کے وہ قابلِ اعتماد حلیف ہیں۔ سب موسموں کے ساتھی۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ سیاسی پارٹی اکائی نہیں ہوتی‘ مختلف گروپوں کا مجموعہ ہوا کرتی ہے۔ کانگرس میں بایاں بازو تھا اور دایاں بھی۔ سوشلسٹ تھے اور مذہبی انتہا پسند بھی۔ گاندھی جی باپو تھے مگر ولبھ بھائی پٹیل کبھی زیادہ کار فرما ہوتے۔

اختلاف پورے اخلاص سے بھی ممکن ہے۔ قائداعظم ؒاور اقبالؔ کا تعلق مثالی تھا۔ پنڈت جواہر لعل نہرو‘ ان کے قدموں میں جا بیٹھے اور کہا کہ جناح متنازع ہیں‘ اور آپ مسلمانوں کے متفقہ لیڈر۔ اس پر انہوں نے کہا: ”میں تو جناح کا ایک سپاہی ہوں‘‘ عمر بھر کبھی ریاکاری کا مظاہرہ نہ کرنے والے قائداعظمؒ نے کہا تھا: پاکستان کی گورنر جنرل شپ اور اقبال میں سے ‘کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو تو میں اقبالؔ کا انتخاب کروں گا۔

ایک تاریخ ساز مشن میں قلبی شراکت کے باوجود ‘ جس پر مسلم برّ صغیر کے مستقبل کا انحصار تھا۔ ان میں اختلاف ہوا۔ اس وقت جب پنجاب کے جاگیردار مسلم لیگ پہ چھا گئے۔ ڈاکٹر عاشق بٹالوی کی کتاب: ”اقبال کے آخری دو سال‘‘ میں تفصیل دیکھی جا سکتی ہے۔ بلند مرتبہ، بے تعصب اور دردمند لیڈروں نے اختلاف کو اختلاف رکھا، دشمنی کیا، ایسی ناراضی میں بھی ڈھلنے نہ دیا، جس میں شکایت بڑھ کر عناد ہو جایا کرتی ہے۔یہ تو آج کے لوگ ہیں۔
یہ ہیں نئے لوگوں کے گھر‘ ان کو اس کی کیا خبر
غم بھی کسی کی ذات تھی‘ دل بھی کسی کا نام تھا

مدّبر وہ شخص ہوتا ہے، جو معاشرے کی تقسیم اور تعصبات سے اوپر اٹھ جائے۔ چوہدری سرور اور پرویز الٰہی، سیاسی لیڈر ہیں، مدّبر نہیں۔ مزید برآں یہ گھر کی گفتگو ہے، بازار کی نہیں کہ بہت اہمیت اسے دی جائے۔ انگریزی میں کہتے ہیں کہ‘ اس میں سے بہت زیادہ پڑھنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔

انگریزی کا ایک اور محاورہ یہ ہے‘ Camel is a horse designed by the committee ”اونٹ ایک گھوڑا ہے، جو ایک کمیٹی نے بنایا تھا‘‘ اقتدار کی نفسیات یہ ہے کہ وہ کم از کم اور بالآخر ایک ہاتھ میں مرتکز ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی وجہ غلبے کی بنیادی جبلت ہے۔ معاشرے میں شعور کے فروغ سے، اقتدار کو اداروں میں ڈھالا جاتا ہے، وگرنہ ساری دنیا کے سیاستدان ایک ہی جیسے خود غرض ہوتے ہیں۔ اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی۔ کئی کتابوں کی مصنف ممتاز برطانوی اخبار نویس کیتھی نے برطانوی لیڈروں کے بارے مجھ سے کہا: "Disgusting”۔مایوس کن!

سیاستدانوں سے، جس درد مندی کی ہم امید رکھتے ہیں، وہ ہماری تمنا، آرزو اور آخری تجزیے میں خوش فہمی کی پیداوار ہوتی ہے۔ مولانا محمد علی جوہر نے موہن داس کرم چند گاندھی سے کہا تھا: آخر کو سیاست مادی مفادات ہی کا نام ہے، آپ یہ فرمائیے کہ مسلمانوں کو آپ دیں گے کیا ؟

چوہدری سرور اور چوہدری پرویز ، عمران خاں سے یہ کہتے ہیں کہ گورنری اور سپیکری بجا، آپ یہ فرمائیے کہ آپ ہمیں مزید کیا دیں گے؟ یہی بات ایم کیو ایم کہتی ہے۔ فی الحال وہ داخلی جھگڑوں میں الجھی ہے۔ کوئی دن جاتا ہے کہ ایک آدھ مزید وزارت کا وہ مطالبہ کرے گی۔ دھمکی بھی دے گی۔ دھمکی نہ دے سکی تو نخرہ ضرور کرے گی، تیور دکھائے گی۔
(باقی صفحہ 11 پر)
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں؟
غمزہ وعشوہ و ادا کیا ہے؟

اقتدار کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ ترک سلطان سلیمان عالی شان نے اپنے بیٹے مصطفیٰ کو قتل کرا دیا تھا کہ اندیشہ اس سے تھا۔ جہانگیر نے اپنے باپ اکبر، شاہجہاں نے جہانگیر اور یا للعجب پابندِ شرع اورنگزیب عالمگیر نے شاہجہاں کے خلاف بغاوت کی تھی۔ رنجیت سنگھ نے، جس پہ نام نہاد بائیں بازو کے بعض احمق پنجابیوں کا دودھ اترتا ہے، اپنی ماں کو قتل کرا دیا تھا۔

گورنر چوہدری اور سپیکر چوہدری غنیمت ہیں کہ شکوہ ہی پالتے ہیں، ایسی کسی سازش میں ملوث نہیں ہوتے، جس سے پنجاب تہہ و بالا ہوجائے۔ یہ انسانی فطرت ہے ۔فطرت سے فرار ممکن نہیںہوتا۔ اپنے لوگوں کو عمران خاں سمجھائیں گے اور وہ ”سمجھ ‘‘جائیں گے۔

دربار آباد ہوتا ہے اور آخر کو برباد بھی۔ ازل سے یہی ہوتا آیا ہے ‘ابد تک یہی ہوتا رہے گا۔
پس تحریر: گورنر صاحب کا تازہ ٹوئٹ ”عثمان بزدار مکمل طور پر بااختیار ہیں۔ عمران خان کے وژن پر عمل پیرا ہیں۔ ہم ان کے ساتھ ہیں۔ عثمان بزدار صوبے میں تبدیلی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔‘‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے