مجھے خواب میں جبرائیل علیہ السلام آتے ہیں …..

غالبا کوئی دس بارہ سال پرانی بات ہے کہ میں قرآن اکیڈمی، لاہور کے شعبہ تحقیق میں کام کرتا تھا اور عموما شرعی مسائل کے حوالے سے رہنمائی حاصل کرنے کی خواہش رکھنے والوں کو ریسیپشن سے میری طرف ریفر کر دیا جاتا تھا۔ ایک دن میں قرآن اکیڈمی کے فرسٹ فلور پر شعبہ تحقیق میں اپنے کمرے میں بیٹھا تھا اور غالبا لیپ ٹاپ پر کچھ لکھنے یا پڑھنے میں مصروف تھا۔ ایک خوبصورت نوجوان، کلین شیو، جینز کی پینٹ پہنے، ممی ڈیڈی بچہ، جیسے تازہ تازہ بیکن ہاؤس سے اے۔لیول کر کے نکلا ہو، میرے کمرے میں داخل ہوا اور وزیٹنگ چیئر پر بیٹھ گیا۔

میرا عموما معمول یہ ہوتا تھا کہ میں سائل کو کہہ دیتا کہ آپ بات جاری رکھیں اور خود بظاہر لیپ ٹاپ پر متوجہ رہتا تا کہ وہ بغیر ہچکچاہٹ کے اپنا پرسنل ایشو ڈسکس کر سکے کیونکہ میری توجہ سے شاید وہ غیر متوازن ہو سکتا تھا اور شاید پوری بات نہ کر پاتا۔ لڑکے نے بیٹھتے ہی کہا کہ میرے ساتھ ایک مسئلہ ہے؟ میں نے لیپ ٹاپ کی اسکرین دیکھتے ہوئے پوچھا، جی، کیا مسئلہ ہے؟ اس نے کہا: میرے پاس جبریل آتا ہے۔ میں ایک دم چونک گیا اور لڑکے کی طرف بغور دیکھنا شروع کر دیا۔ لڑکے میں کوئی مذہبی جراثیم نظر نہیں آ رہے تھے۔ وہ احمد شاہ ابدالی کی فیملی سے تعلق رکھتا تھا اور ایک ممی ڈیڈی بچہ تھا۔ جینز کی پینٹ کے ساتھ اس نے سر پر سرخ عربی رومال بے ڈھنگے طریقے سے باندھ رکھا تھا اور عجیب کمبینیشن تھی۔

میں نے کہا کہ جبریل آپ کو کیا کہتا ہے؟ اس نے کہا کہ میرے پاس وحی لے کر آتا ہے۔ میں نے کہا کہ اس وحی میں کیا ہے؟ اس نے کہا کہ اس میں یہ ہے کہ میں اللہ کا رسول عیسی ہوں۔ میں نے کہا اور جبریل کا کیا کہنا ہے؟ اس نے کہا کہ جبریل مجھ سے یہ بھی کہتا ہے کہ میں لوگوں کو جا کر بتلاؤں کہ میں اللہ کا رسول عیسی ہوں۔ میں نے کہا تو پھر تمہارے کیا ارادے ہیں؟ اس نے کہا کہ یہی مشورہ لینے آپ سے آیا ہوں۔ میں نے کہا کہ کیا گھر والوں سے مشورہ کیا ہے؟ اس نے کہا کہ ہاں۔ میں نے کہا کہ ان کا کیا جواب تھا؟ اس نے کہا کہ گھر والے تو یہی کہتے ہیں کہ خود بھی مرو گے اور ہمیں بھی مرواؤ گے۔ میں ںے کہا کہ تمہارے گھر والے تمہارے خیر خواہ ہیں اور وہ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ پھر تمہیں بات سمجھ کیوں نہیں آ رہی۔

اس نے کہا کہ پھر یہ کون ہے؟ میں نے کہا کہ میں تمہیں جھوٹا نہیں کہتا لہذا تمہاری بات کا اعتبار کرتا ہوں کہ تمہارے پاس کوئی آتا ہے لیکن تمہیں یہ خیال کیوں نہیں آتا کہ وہ شیطان ہے جو تمہیں گمراہ کرنا چاہتا ہے جیسا کہ پچھلی قوموں میں اور آج کل بھی ایسے واقعات بہت معروف ہیں کہ شیطان بہت سے لوگوں کو انسانی شکل میں نظر آتے ہیں۔ اس نے کہا کہ مجھے بھی یہی شک تھا کہ وہ شیطان ہے اور مجھے گمراہ کرنا چاہتا ہے لیکن پھر ایک واقعہ ہوا کہ جس سے میرا شک ختم ہو گیا۔ میں نے کہا کہ کیا؟ اس نے کہا کہ میں نے اسے چیک کرنے کے لیے کہا کہ مجھے موبائل لا دو اور اس نے مجھے فورا لا دیا۔ میں نے کہا یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔ البتہ اگر تم اسے امریکی صدر کا سر لانے کو کہتے اور وہ فورا لا دیتا تو میں بھی شاید اسے جبریل مان لیتا۔

میں نے کہا کہ اچھا، مجھے وہ وحی سناؤ جو تم پر نازل ہوتی ہے۔ اس نے مجھے عربی میں کچھ جملے سنائے جو کہ گرامر کے اعتبار سے غلط سلط تھے۔ میں نے کہا کہ جبریل کو عربی تو آنی چاہیے اور تمہاری وحی عربی زبان کے اصولوں پر پوری نہِں اترتی ہے۔ دوسرا اس نے جو وحی مجھے سنائی، اس کے مشمولات (contents) کتاب مقدس سے ملتے جلتے تھے جس کا نتیجہ یہی تھا کہ اس کے ساتھ کوئی اہل کتاب جن لگا ہوا ہے جو اسے غلط پٹیاں پڑھا رہا ہے۔ تو وجوہات دو ہو سکتی ہیں؛ ایک تو یہ کہ واقعی میں اس کے پاس شیطان آتا ہو جو اسے گمراہ کر رہا ہو اور مجھے یہی لگتا تھا۔ دوسرا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ نفسیاتی خلل (psychological disorder) ہو جسے نفسیات دان خطائے حس (hallucination) کہتے ہیں۔

خطائے حس یہ ہے کہ آپ کو لگے کہ آپ کے کان میں کوئی آواز آئی ہے لیکن حقیقت میں کوئی آواز موجود نہ ہو جسے ہم اپنی زبان میں کہتے ہیں کہ بھئی تمہارے کان بج رہے ہیں اور کچھ نہیں ہے۔ اسی طرح بعض اوقات ایک شیء حقیقت میں موجود نہیں ہوتی لیکن وہ آپ کو نظر آ رہی ہوتی ہے یا تو نظروں کا دھوکا ہوتا ہے جیسا کہ ہم سب کو دور سڑک پر پانی نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں ہوتا نہیں ہے یا پھر ہم میں کوئی ایک کسی شیء کو اتنا زیادہ سوچتا ہے کہ وہ اس کے لیے حقیقت بن جاتی ہے جسے ہم اپنی زبان میں یوں کہتے ہیں کہ اب تو وہ اسے خوابوں میں بھی نظر آتی ہے۔ اسی طرح خود کلامی کیا ہے، دراصل یہ آپ کی سوچ ہے کہ جب آپ پر خوب غالب آ جاتی ہے اور چھا جاتی ہے تو کلام کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔

شیطان انسان کو جو وسوسے ڈالتا ہے، ان میں سے ایک بڑا وسوسہ جو ٹین ایج میں بڑی تعداد میں مذہبی ذہن میں آتا ہے، وہ یہ ہے کہ وہ کچھ خاص ہے، مہدی یا مسیح، یا کچھ بھی۔ کچھ اس وسوے کو جھٹک دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور کچھ کے ذہن کے ساتھ یہ چپک جاتا ہے۔ تو جن کے ذہن کے ساتھ چپک جاتا ہے تو یہ ان کی اپنی کسی نفسیاتی کمزوری کے سبب ایسا ہوتا ہے جیسا کہ حب جاہ یا حب تفوق (urge to dominate) وغیرہ۔ بعد میں شیطان انسان کی اپنی نفسانی کمزوریوں کے سبب مسلسل وسوسہ اندازی سے اس وسوسے کو حقیقت کا روپ دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور وہ شخص مہدی اور مسیح ہونے کا دعوی کر دیتا ہے اور مذہب کے رستے لاشعور میں چھپی ہوئی خواہشات نفس کی تسکین کا سامان پیدا کرنا چاہتا ہے۔

حل کیا ہے؟ اس کا ایک حل تو کاؤنسلنگ ہے کہ اگر تو اس نے کچھ مذہبی لٹریچر مثلا نسیم حجازی کے ناولز پڑھ رکھے ہیں اور اپنے آپ کو ان کا ہیرو تصور کر لیا ہے اور اب اس تصویر کی عملی تشکیل اسے مہدی کا دعوی کرنے میں نظر آرہی ہے تو یہ اس کا نفسیاتی مسئلہ ہے لہذا کاؤنسلنگ سے فائدہ ہو گا کہ جس میں اسے اس کی تخیلاتی دنیا سے باہر نکالا جائے کہ اسے بتلایا جائے کہ وہ بھی ایک عام انسان ہے بلکہ ان سے بھی گیا گزرا کہ وہ کم از کم ایسی سوچ نہیں رکھتے جیسی کہ یہ رکھتا ہے۔

دوسری صورت سزا ہے کہ اگر ایسے دعوے کا سبب نفسانی (sensual) ہے اور شیطان کے وسوے کی بنیاد پر ہے تو سزا کے بغیر یہ مسئلہ حل نہ ہو گا۔ اس سسلسلے میں مذہبی طبقات کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ایسے شخص کے لیے قانون میں باقاعدہ سزا مقرر کروائی جائے جو مہدی یا مسیح ہونے کا دعوی کرے کیونکہ حقیقی مہدی ومسیح کو کبھی دعوے کی ضرورت نہیں پڑے گی کہ وہ اپنے عملی کردار اور رول سے اس مقام پر فائز ہو جائیں گے۔ بعض اوقات نری کاؤنسلنگ سے کام نہیں چلتا کہ اس بچے کو آخر میں، میں نے پوچھا تھا کہ کیا ارادے ہیں؟ تو کہنے لگا کہ اعلان کروں گا۔ میں نے کہا کہ بہت مار کھاؤ گے۔ تو مجھے کہنے لگا کہ جبریل نے یہی کہا تھا کہ نبیوں کو بہت مار پڑتی ہے۔ تو اس شیطان خبیث نے اس کو یہاں تک پکا کیا ہوا تھا۔ ابھی کچھ دن پہلے فیصل آباد کے ایک شخص نے مہدی ہونے کا دعوی کیا تو چند دن بعد ایک دوسرے شخص کے مسیح ہونے کی ویڈیو وائرل ہو گئی۔ اسی پس منظر میں یہ چند سطور رقم کر دی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے