مولانا ابوالکلام آزاد ایک بے مثال ادیب

مولانا آزاد فطری طور پر ایک باغی طبیعت کے آدمی تھے ۔ انہوں نے اپنے عہد کی ہر چیز سے بغاوت کی , مذہب ہو یا سیاست , ادب ہو یا صحافت جس کوچے سے بھی ان کا گزر ہوا انہوں نے اس میں ایک نئی راه پیدا کی . انہیں بھی اپنی انفرادیت اور اپنی ذات کے انوکھے پن کا بڑی شدت سے احساس تھا . غبار خاطر کا ایک ایک لفظ چیخ چیخ کر کہتا ہے کہ میں ویسا نہیں ہوں جیسے دوسرے لوگ ہوتے ہیں .

باوجود یہ کہ وه جس نقطۂ نظر کے حامی تھے اسے مقبول بنانا دشوار تھا لیکن انہوں نے کبھی بھی نا موافق حالات سے ہار نہیں مانی ‘ وه لوگوں کی لعنت و ملامت کے باوجود اپنے عقائد و نظریات منوانے کے لیے ساری عمر سرگرم عمل رھے . کون سی گالی تھی جو انہیں نہیں دی گئی لیکن دشنام طرازی و انگشت نمائی کبھی بھی ان کے پاؤں کی بیڑی نہ بن سکی ۔ شاید مخالفوں کے ہجوم میں تنہا کھڑے رہنا ان کی انا کو کچھ زیاده ہی تسکین پہنچاتا تھا . انہوں نے اپنی کتاب غبار خاطر میں اپنے آپ کو ایک رومانوی ہیرو کے طور پر پیش کیا ہے ، جو ناکامیوں ، محرومیوں اور نا شناسوں کے ہجوم میں لعنت و ملامت کا نشانہ بنے رہنے کے باوجود ان ہی سے مخاطب ہے . وه تنہا ہے مگر یہ تنہائی ہجوم ہی میں چمکتی ہے ۔

وه خاموش ہوتے ہیں اس لیے کہ آوازوں کے محشر میں ان کی خاموشی ہی الگ دکھائی دے اور سب کچھ کہہ جائے اور یہی ان کی نثر کی وه خصوصیت ہے جو انہیں اپنے ہم عصروں سے ممتاز کرتی ہے . دوسرے انشاء پردازوں کی تحریروں میں جوڑ توڑ کر کے شاید آپ بہت کچھ خوبی اور زور پیدا کر لیں لیکن ابولکلام وه واحد شخص ھے جس کی تحریر اتنی زور دار ، لاجواب اور بلند ہوتی ہے کہ اس میں مزید کسی بلندی کی گنجائش نہیں رہتی . وه الفاظ اور جملوں کو ایسی ترتیب سے لاتے ہیں کہ اس سے ایک ترنم کی سی کیفیت پیدا ہوتی ہے ۔ پڑھنے والا اپنے اندر وجد کی سی کیفیات محسوس کرتا ھے. شورش کاشمیری اور غلام رسول مہر وه دو شخصیات ہیں جنہوں نے آزاد کے طرز تحریر کی نقل کرنا چاہی لیکن دونوں ناکام رہے ۔

شورش الفاظ تو ابوالکلام جیسے لاتے ہیں لیکن ان کی تحریر میں وه روانی و سلاست نہیں ھے جو آزاد کا خاصہ بے ، دوسری طرف غلام رسول مہر کی تحریر میں غضب کی سلاست و روانی ہے لیکن وه الفاظ نہیں ہیں جو آزاد کی نثر میں نظر آتے ہیں ۔ ان دونوں کی نثر کی خوبیوں کو اگر ملا بھی لیا جائے تو پھر بھی آزاد ان سے بہت بلند نظر آتے ہیں ……. یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ سیاسی مخالفت کی وجه سے ہ م نے اپنے عہد کہ عظیم شخصیت کی تمام خوبیوں کو یکسر انکار کر کے کچھ بھی سیکھنے سے انکار کر دیا ھے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے