تشدد کی مصنوعات خریدنے والے

ہماری دلچسپی کی دو خبریں ہیں ایک خبر بتاتی ہے کہ مسلم لیگی دور حکومت میں کئی ٹاک شوز کا خرچ سرکاری خزانے سے پورا ہوتا تھا۔ کچھ پروگراموں کو حکومتی پروپیگنڈہ ٹول بننے پر چینل پر اشتہارات کی بارش ہوتی اور کئی جگہ عملے کے اخراجات میں مدد دی جاتی۔ حالیہ دنوں اس طرح کے اشتہارات کی سرکاری خزانے سے ادائیگی روکی گئی تو کچھ حلقے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ حکومتی اشتہارات میں کمی کے باعث میڈیا انڈسٹری میں بحران آیا ہے۔ کیسے کیسے نیک نام سمجھے جانے والے اینکروں کے بارے میں کیسی کیسی حیران کن خبریں آ رہی ہیں۔

سب مایا ہے۔ دوسری خبر امریکہ کے تجزیاتی اداروں کی ترتیب دی گئی اس رپورٹ کے متعلق ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ایک خاص قسم کے مذہبی جذبات کو ابال دے کر پاکستان کو داخلی انتشار کا شکار کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے بارے میں طرح طرح کی رپورٹس تیار کی جاتی رہی ہیں۔ امریکہ‘ اسرائیل اور بھارت کے تھنک ٹینکس مسلسل یہ کام کر رہے ہیں۔ ایک جرمن محقق ہیں۔

کئی سال قبل میری ان سے فیس بک پر شناسائی ہوئی۔ ان کے تحقیقاتی موضوعات کا تعلق جنوبی ایشیا ہوتا ہے۔ میں خود جنوبی ایشیا کے امور میں دلچسپی رکھتا ہوں اور اس کا طالب علم ہوں۔ پروفیسر نے اپنی تحریریں مجھ سے شیئر کرنا شروع کیں۔ آغاز میں مجھ پر ان کی اعلیٰ مغربی تعلیم اور سینکڑوں بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کا رعب تھا میں نے جیسے جیسے پڑھنا شروع کیا مجھے معلوم ہوا موصوف کسی مستند تحقیقی اصول کے تحت کام کرنے کی بجائے پاکستان کے خلاف موضوعات پر کام کرتے ہیں۔ ان اعتراضات کی تائید کرنے والے بیانات جمع کرتے ہیں۔ بھارتی موقف کا تڑکہ لگاتے ہیں اور پھر اس پروپیگنڈہ ریسرچ کو کسی بین الاقوامی کانفرنس میں پیش کر ڈالتے ہیں۔

انہوں نے بلوچستان کے لوگوں کے جمہوری حقوق‘ وہاں کی معدنیات پر غیر بلوچوں کے قبضہ‘ کشمیر کی صورت حال اور سی پیک کے حوالے سے جو کچھ لکھا وہ بھارت کا نکتہ نظر ہے مگر امریکی اداروں کی حالیہ رپورٹ سراسر ہماری اپنی کوتاہیوں اور غیر دانشمندانہ فکر کی نشاندہی کرتی ہے۔ مجھے ذاتی طور پر اس بات سے اتفاق رہا ہے کہ سابق عسکری و مسلکی تشدد پسندی میں مبتلا رہنے والے عناصر اگر تشدد کا راستہ ترک کر کے پرامن سیاسی عمل کا حصہ بننا چاہتے ہوں تو ان کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔ بلوچستان میں ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث افراد کے لیے بھی یہ رعائت ہونی چاہیے۔ کسی سماج میں اپنی بات ہتھیار اٹھا کر کرنے والے جتنے کم ہوں گے اس سماج کا سیاسی نظام اسی قدر مستحکم ہو گا۔ پاکستان میں عام شخص اجتماعات سے خوفزدہ رہنے لگا ہے۔

اس کے اندر یہ ڈر بیٹھا ہوا ہے کہ جانے کب یہ اجتماع اچھی اچھی باتیں کرتا ڈنڈے اٹھا لے۔ ایسے بے قابو اجتماعات نے سیاسی و سماجی رہنما پیدا نہیں کئے بلکہ ہجوم کے سرغنہ پیدا ہوتے رہے ہیں۔ منظم ‘ تربیت یافتہ اور اپنے شہری فرائض سے آگاہ اجتماع چند سال قبل جناب طاہر القادری نے اسلام آباد میں دھرنے کی شکل میں پیش کیا تھا۔ طاہر القادری صاحب کے ایجنڈے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر انہیں اس بات کی داد ضرور ملنی چاہیے کہ وہ جن خواتین اور نوجوانوں کو اپنے ساتھ ڈی چوک میں لے کر آئے انہیں تربیت دی۔

عدلیہ بحالی تحریک میں وکلاء کا عمومی کردار پرامن تھا‘ تشدد کے جو واقعتاً پیش آئے وہ حکومتی جبر کی علامت ہیں۔ ہمارے سماج میں جو تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں‘ ہم ان سے چاہے بے نیاز رہیں ہمارے دشمن ان کا جائزہ لیتے رہتے ہیں۔ ایسے گروہ دشمن کی دلچسپی کا باعث ہوتے ہیں جو اپنی افرادی قوت کو پرتشدد فکر پر منظم کرتے ہیں۔ ماضی میں بعض فرقہ پرست تنظیمیں جب اجتماع یا جلسے کرتی تھیں تو ان کے ہم خیال ہزاروں میں جمع ہوجایا کرتے تھے۔

پتہ چلا کہ ان کی فنڈنگ بیرونی طاقتیں کر رہی ہیں۔ مغرب میں سازش رچائی جا رہی ہے۔ وہاں کی ملٹی نیشنل کمپنیوں میں سے کئی کے ڈائریکٹر ایسے تشدد پسند مذہبی افراد ہیں جو مسلمانوں کو اشتعال دلا کر ان کے جذبات کو ایسے رخ پر موڑنا چاہتے ہیں جہاں یہ فیصلہ کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھیں۔ یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں کئی تھنک ٹینکس کی مالی معاونت کرتی ہیں۔ اربوں ڈالر کا بجٹ مختص کر کے سازشیں تیار کرنے کے لیے پاکستان میں منظم سیاسی جماعتوں کی بجائے جذباتی ہجوم کی ضرورت ہے۔ یہ ہجوم کو جلائو گھیرائو پر لمحوں میں تیار کرنے والے شعلہ نوا افراد کو مذہبی اختلاف کے باوجود اپنا اتحادی سمجھتے ہیں۔ ایسے ہی جیسے ہماری جڑیں کاٹنے والا امریکہ ریاست پاکستان کو اپنا اتحادی بھی کہتا رہا۔

پاکستان مشکل حالات سے مقابلہ کر رہا ہے۔ دشمن ہمارے بارڈر پر ایک گولہ داغتا ہے اور اس کے فکری اتحادی معاشرے کی شعوری عمارت کو دس بار آگ لگاتے ہیں۔ ہم نے اقوام متحدہ اور امریکہ کے کہنے پر عسکری تنظیموں کی عوامی فنڈنگ پر پابندی لگائی۔ اس کا نتیجہ خاطر خواہ برآمد ہوا۔ سماج کو ریگولیٹ کرنے کے لیے ہمیں اشتعال کی ہر شکل کو ہجوم بننے سے روکنا ہو گا۔ ریاست کا کام آنسو گیس اور ایک جالی والی ڈھال اٹھا کر ہجوم کو اہم عمارات کی طرف بڑھنے سے روکنا نہیں بلکہ جس کارخانے میں اشتعال کی مصنوعات تیارہو رہی ہیں اس کو ملیا میٹ کرنا ہے۔ اشتعال پھیلانے کے لیے مذہبی جذبات کا استعمال مغربی ایجنڈاہے ۔ پاکستان مسلم ممالک میں دفاعی اور سٹریٹجک لحاظ سے ایک اہم طاقت ہے۔

اس کی سٹریٹجک طاقت ہر بار اسے عالمی سطح پر تنہا ہونے سے بچا لیتی ہے۔ اس طاقت کو کمزوری میں بدلنے کا ایک نیا ٹول تلاش کر لیا گیا ہے۔ ریاست نجی طور پر مدارس اور مساجد کی تعمیر پر پابندی‘ لائوڈ سپیکر کے بے جا استعمال کو روک کر‘ چندہ اور عطیات کے امور کو شفاف بنا کر اور خطیب و آئمہ حضرات کو بین الاقوامی سازشوں سے آگاہی کے کورسزکروا کر اپنے مورچے مضبوط بنا سکتی ہے۔ توڑ پھوڑ کو وطیرہ بنانے والوں کے لیے ہمارے ولایتی دشمنوں نے اپنے ہاں بہت اچھاانتظام کیا ہے۔ وہاں پرتشدد اجتماعات اور توڑ پھوڑ میں ملوث افراد کا ڈیٹا تیار کیا جاتا ہے۔ ایسی سرگرمی میں ملوث فرد کو سرکاری اور حکومتی ملازمت کے لیے نااہل قرار دیا جاتا ہے۔ ایسا شخص کسی طرح کے سیاسی عہدے پر فائز نہیں رہ سکتا۔ ریاستی املاک کو نقصان پہنچانے والے سے کوئی بینک اور مالیاتی ادارہ لین دین نہیں کرتا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے