اب رول ماڈل بھی بدل دیں

محکمہ تعلیم کے دفتر میں اجلاس جاری ہے، تمام افسران اپنی اپنی نشستوں پر براجمان ہیں، آج کی میٹنگ میں نصاب تعلیم میں تبدیلی کا ایجنڈا زیر غور ہے، تمام لوگ اِس بات پر متفق ہیں کہ موجودہ نصاب حد درجے فرسودہ ہو چکا ہے اور جدید تہذیب اور معاشرے کے بدلتے ہوئے رنگ ڈھنگ سے ہم آہنگ نہیں ہے سو اسے تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہر افسر اور ماہر تعلیم اپنی فائل میں نئے نصاب کی تجاویز تیار کرکے لایا ہے تاکہ اسے اجلاس میں پیش کرکے سب کی متفقہ رائے سے منظور کروایا جا سکے، میٹنگ کی صدارت ایک بیوروکریٹ فرما رہے ہیں جو گزشتہ کئی برس سے ہر حکومت میں اِس قسم کے اجلاسوں کی صدارت کرنے کے ماہر ہو چکے ہیں۔ اجلاس شروع ہے۔

پہلی تجویز ایک چھوٹے صوبے سے تعلق رکھنے والے افسر کی طرف سے ہے، یہ صاحب فرما رہے ہیں کہ قومی سطح کے نصاب میں اُن کے صوبے سے تعلق رکھنے والے ہیروز کے متعلق اردو یا معاشرتی علوم میں کوئی مضمون نہیں، بیکار شاعروں کا ذکر ہے مگر اصل ہیروز کا تذکرہ ہی نہیں، مثلاً ہمارا ایک ہیرو پولیس مقابلوں کا ماہر ہے، اُس نے کئی بدمعاشوں کو پولیس مقابلوں میں پار کیا، لوگ اس کے خوف سے تھر تھر کانپتے تھے، وہ جہاں جاتا تھا اپنی جوانمردی اور بہادری کے جھنڈے گاڑ دیتا، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اُس نے کسی گرفتار ملزم کو حراست میں لے کر مارا ہو، ہمیشہ وہ اُس کے ہاتھ پیر کھول کر بھاگنے کا موقع دیتا اور پھر ہنستے مسکراتے اُس کی پیٹھ پر گولیاں چلا دیتا، ایسے ہیرو کا ہمارے بچوں کو علم ہونا چاہئے تاکہ وہ اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی زندگی میں اتنے طاقتور بن جائیں کہ کوئی ان کا بال بھی بیکا نہ کر سکے،

لوگ بھلے ان کی عزت کریں نہ کریں مگر ان سے خوف ضرور کھائیں، سو اپنے بچوں کو کامیاب بنانے کے لئے لازمی ہے کہ ہم طلبا کو اُن طریقوں سے روشناس کروائیں جو ہمارے اِس شیر پولیس افسر نے اپنائے اور کامیاب ٹھہرا، لہٰذا میری تجویز ہے کہ پولیس مقابلوں کے اِس اسپیشلسٹ افسر کی زندگی سے متعلق ایک مفصل مضمون معاشرتی علوم کی میٹرک کی کتاب میں شامل کیا جائے تاکہ جو طلبا مستقبل میں پولیس افسر بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں وہ اِس افسر کو اپنا رول ماڈل بنائیں اور خوابوں کی تعبیر پائیں۔ میٹنگ کی صدارت کرنے والے بیوروکریٹ یہ تجویز سن کر تبسم فرما رہے ہیں، یوں لگتا ہے جیسے انہیں یہ تجویز پسند آئی ہے ’’کیا کسی کو اس تجویز پر کوئی اعتراض ہے؟‘‘ بیوروکریٹ صاحب پوچھتے ہیں۔

’’میں کچھ کہنا چاہتا ہوں!‘‘ ایک کونے سے آواز آتی ہے، یہ ایک بھاری بھرکم افسر ہیں، شاید انہیں اس تجویز پر اعتراض ہے مگر نہیں یہ تو کچھ اور ہی کہہ رہے ہیں، کیا کہہ رہے ہیں، ذرا سنتے ہیں ’’جناب والا، میرا خیال ہے کہ اس پولیس افسر سے متعلق مضمون یقیناً معاشرتی علوم کے نصاب کا حصہ ہونا چاہیے اس سے ہمارے طلبا کو موٹیویشن ملے گی، میری رائے میں ہمیں ایسے مزید ہیروز کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے، سو میری تجویز ہے کہ ہمارے صوبے سے تعلق رکھنے والے ایک ارب پتی کی کہانی بھی اردو کے نصاب میں شامل ہونی چاہئے، ہمیں اپنے بچوں کو بتانا چاہئے کہ اگر وہ غریب گھرانے میں پیدا ہوئے ہیں تو کوئی بات نہیں ایک دن وہ بھی اِس ارب پتی کی طرح امیر ہو سکتے ہیں،

ہمیں طلبا کو اُن طریقوں سے روشناس کروانا چاہئے جن کی مدد سے اِس ارب پتی کی زندگی تبدیل ہوئی، ہمیں بچوں کو بتانا چاہئے کہ اب ہمارے معاشرے میں گھسے پٹے اخلاقی معیارات سے چمٹ کر کامیاب نہیں ہوا جا سکتا، ہمارے ملک میں اخلاقیات کا نیا معیار قائم ہوا ہے، اس میں سچائی، ایمانداری، کردار اور ضمیر نامی کسی شے کی کوئی گنجائش نہیں، اگر ہمارے بچے اس ارب پتی کی طرح کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو انہیں بھی نئے گُر سیکھنا ہوں گے لہٰذا ضروری ہے کہ اس رول ماڈل کا مضمون اردو کے نصاب میں شامل کیا جائے۔‘‘ میٹنگ میں موجود شرکا یہ باتیں سُن کر زور زور سے سر ہلارہے ہیں، یوں لگ رہا ہے جیسے تمام لوگ آپس میں متفق ہوں۔

ایک مختصر وقفے کے بعد میٹنگ کی کارروائی دوبارہ شروع ہوئی ہے، شرکا کی دلچسپی سے یوں لگتا ہے جیسے آج وہ پورا قومی نصاب چھانٹ کر ہی اٹھیں گے۔ بیوروکریٹ اب تک کی کارروائی سے کافی مطمئن نظر آرہا ہے، اُس نے اب تاریخ کے نصاب میں تبدیلی کی سفارشات مانگی ہیں، یہ سفارشات ایک ذیلی کمیٹی نے مرتب کی ہیں، انہیں پیش کرنے کے لئے دھان پان سے ایک شخص نے اپنا مائیک آن کیا ہے، ذرا سنئے موصوف کہتے ہیں :’’سر، میرا خیال ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں تاریخ کے نصاب کو بھی درست کرنا ہوگا، کب تک ہم اپنے بچوں کو غلط تاریخ پڑھاتے رہیں گے، ہمیں بچوں کو وہ تاریخ پڑھانی چاہئے جو سچائی پر مبنی ہو، مثال کے طور پر سر ہم اپنے مسیحاؤں کا ذکر نصاب میں کرتے ہوئے شرماتے ہیں،

اول تو نصاب میں اُن کا ذکر ہی نہیں ملے گا اور اگر کہیں ہے بھی تو یوں سرسری انداز میں جیسے وہ کوئی قومی مجرم ہوں، جبکہ تاریخ کا سچ یہ ہے سر کہ جو بھی مسیحا ہماری حالت سدھارنے کے لئے آیا اُس نے تن من دھن سے پوری کوشش کی کہ ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا کر سکے، اس مقصد کے لئے اُس نے دس برس تک جان ماری ،جمہوریت اور آئین جیسے خوبصورت ڈھکوسلے بھی اُس کے قدم نہ ڈگمگا سکے، کسی فوق البشر کی طرح اُس نے ہمارے لئے کام کیا لیکن ہم اس کا تاریخ کے نصاب میں ذکر ہی نہیں کرتے، حالانکہ ہمیں اپنے بچوں کو بتانا چاہئے کہ اگر تم بھی ایسے ہی کسی مسیحا کے ساتھ نتھی ہو جاؤ گے تو ہمیشہ کے لئے محب وطن کہلاؤ گے، اس ملک میں ٹھاٹ سے رہو گے، کوئی تمہاری طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھے گا، ہر حکومت تمہیں سر آنکھوں پر بٹھائے گی۔۔۔۔

سر ہمارا فرض ہے کہ اپنے بچوں کو ہم تاریخ کی یہ حقیقت سمجھائیں تاکہ وہ اپنی زندگی میں درست فیصلے کرنے کے قابل ہوں نہ کہ نام نہاد آدرشوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے اپنی زندگی اجیرن کر لیں۔‘‘ دھان پان سے شخص نے اپنی بات یہاں ختم کردی ہے، دیکھتے ہیں اجلاس کے باقی شرکا اس پر کیا ردعمل دیتے ہیں ، سب بیوروکریٹ کی طر ف دیکھ رہے ہیں، جیسے اُس کی رائے کے منتظر ہوں، بیوروکریٹ اطمینان سے اپنا مائیک آن کرتا ہے ’’میرا خیال ہے کہ تاریخ کے نصاب سے متعلق سفارشات بہت مدلل ہیں ،اگر آپ سب لوگ متفق ہوں تو انہیں نصاب کا حصہ بنا لیا جائے؟‘‘ سب شرکا تائید میں سر ہلاتے ہیں، کہیں سے ایک آواز آتی ہے ’’سر میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔‘‘

یہ ایک پروفیسر صاحب ہیں جنہیں بطور ماہر تعلیم اس اجلاس میں مدعو کیا گیا ہے۔ ’’سر، میرا خیال ہے کہ آج کا اجلاس بہت مفید رہا اور آج ہم نے نصاب میں تبدیلی کے جو فیصلے کئے وہ یقیناً ہماری آنے والی نسلوں کے لئے سود مند ثابت ہوں گے، کیونکہ آج کے بعد ہمارا نصاب زمینی حقائق سے ہم آہنگ ہو جائے، آج سے پہلے ہم اپنے بچوں کو حقیقت سے دور کسی تصوراتی دنیا کی باتیں بتاتے تھے جہاں سچائی، ایمانداری، دیانت، بلند اخلاق اور ضمیر کی آواز کے مطابق زندگی گزارنے کی صورت میں کامیابی کی نوید ملتی ہوگی لیکن شکر ہے کہ اب ہم نے حقیقت پا لی ہے ،لہٰذا بہتر ہو گا کہ ہمار ے نصاب میں جو شعر و شاعری اور ادیبوں کے فن پارے یا ایسی کہانیاں شامل ہیں جو ایسی اخلاقیات کے گرد گھومتی ہیں جن کا عملی زندگی میں سرے سے کوئی وجود ہی نہیں، انہیں بھی نصاب سے نکال دیا جائے تاکہ طلبا کے دماغ میں کسی قسم کا ابہام باقی نہ رہے۔‘‘ سب نے سر ہلا کر یہ تجویز بھی منظور کر لی ہے۔

اجلاس برخاست کر دیا گیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے