غلام حسین اور ’میں‘!

(گزشتہ سے پیوستہ )

جس دن غلام حسین کے قل تھے اس دن مجھے ایک دوسرے شہر میں ایک مشاعرے میں شرکت کے لئے جانا پڑا۔ کمشنر صاحب نے مجھے خود فون کیا اور معذرت کی کہ اتنے شارٹ نوٹس پر آپ کو بلایا جارہا ہے، میں نے انہیں بتایا کہ میں نے قلوں میں شرکت کرنی ہے بلکہ میں نے انہیں مرحوم کی انسان دوستی کی صفات سے بھی آگاہ کیا اور اس کے لواحقین کی کسمپرسی کے بارے میں بھی بتایا جس پر کمشنر صاحب نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ لاہور کی انتظامیہ سے بات کر کے مرحوم کے لواحقین کی مالی مدد کا انتظام کردیں گے۔ اس پر میں نے سوچا کہ مرحوم کے قل میں شرکت سے بہتر اس کے لواحقین کی مالی امداد ہے چنانچہ میں مشاعرے میں چلا گیا ویسے بھی دل کو یہ اطمینان تھا کہ ابھی مرحوم کا چہلم ہونا ہے، میں اس میں شریک ہو کر ضمیر کی خلش رفع کرلوں گا۔

مگر ہوا یوں کہ اس دوران مجھے امریکہ میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں شرکت کے لئے یو ایس آئی ایس کی طرف سے دعوت نامہ موصول ہوا اور یوں مجھے چھ ہفتے کے لئے ملک سے باہر جانا پڑ گیا میں نے سوچا کہ کانفرنس کی بجائے غلام حسین کے چہلم میں شرکت کروں مگر پھر ملکی وقار کا مسئلہ سامنے آگیا اس کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی بہت ضروری تھی۔ چنانچہ بادل نخواستہ امریکہ کے لئے روانہ ہوگیا۔

دو دن پہلے اشفاق گوجر سے میری سرراہ ملاقات ہوگئی مجھے دیکھ کر اس نے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ وہ مجھے سے بے حد ناراض تھا کہ میں غلام حسین کی عیادت کے لئے نہیں گیا بلکہ اس کے جنازے، قلوں اور چہلم میں بھی شرکت نہیں کی، میں نے اسے بتایا کہ حالات نے مجھے بڑا آدمی بنا دیا ہے بے حد شرمندہ ہوں مگر ایسا سخت مجبوریوں کی وجہ سے ہوا تاہم اب میں اپنی اس کوتاہی کی تلافی کروں گا۔ اشفاق نے پوچھا وہ کیسے میں نے کہا وہ ایسے کہ میں غلام حسین پر ایک کالم لکھوں گا جو اخبار کے بارے ایڈیشنوں میں شائع ہوگا اور یوں مرحوم کی شہرت دور دور تک پھیل جائے گی۔ میرا خیال تھا کہ اشفاق میری اس بات سے خوش ہوگا مگر اس کی موٹی عقل میں کالم کی بات نہیں آئی کہ اسے اس کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں۔

چنانچہ اس نے مجھے خشمگیںنظروں سے دیکھا اور نوٹوں کی ایک ’’تھدی‘‘ میری جیب میں ٹھونستے ہوئے کہا تمہیں اس کالم کے جتنے پیسے ملنے ہیں وہ میں تمہیں دے رہا ہوں میری درخواست ہے کہ غلام حسین پر کالم نہ لکھنا، وہ بہت غیور شخص تھا اور پھر وہ دھوتی کو سنبھالتے ہوئے پیڈل پر پائوں رکھ کر سائیکل کی گدی پر بیٹھا اور میری نظروں سے اوجھل ہوگیا اور میں اس وقت سے لعنت ہے مجھ پر، کا ورد کرتا رہتا ہوں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے