سماج ، قانون اور عمران خان

قانون کی حکمرانی کا مطلب کیا ہے؟ کیا قانون کو ہر حال میں نافذ ہونا چاہیے چاہے آسمان ہی کیوں نہ گر پڑے یا اس کے نفاذ میں سماجیات کو بھی پیش نظر رکھا جانا چاہیے تا کہ قانون کی حکمرانی بھی قائم ہو جائے اور آسمان بھی نہ گرے؟

کراچی میں ایک ہزار دکانوں کا ملبہ بکھرا پرا ہے ۔ قانون کی روشنی میں دیکھیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ یہ تجاوزات تھیں اور ریاست کی زمین پر قائم تھیں ۔انہیں زمیں بوس ہی ہو نا تھا ۔ قانون کے سینے میں بھی دل نہیں ہوتا ۔ وہ اگر بروئے کار آتے وقت جذبات کا شکار ہو جائے تو انصاف کے تقاضے پورے کرنا مشکل ہو جائے ۔ معاشرے میں قانون نافذ ہو رہا ہو تو خوشی ہونی چاہیے ۔ لیکن قانون کا ایک طالب علم ہونے اور قانون کی حکمرانی کا خوب پلکوں میں لیے پھرنے کے باوجود ایک ہزار دکانوں کے اس ملبے کو دیکھ کر مجھے خوشی نہیں ہو رہی ، دکھ اور افسوس ہو رہا ہے ۔ ایسا کیوں ہے؟ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ میرے پیش نظر میرا سماج اور اس کی حالت اضطرار بھی ہے۔

قانون اور سماج کا آپس میں کیا تعلق ہے ، مدینہ کی ریاست میں اسے صدیوں قبل واضح کر کے سمجھا دیا گیا ۔ چور کی سزا ہاتھ کاٹ دینا تھی ۔ ایک موقع پر جب کسی نے سفارش کی تو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا خدا کی قسم میری بیٹی فاطمہ (رضی اللہ عنہا) بھی چوری کرتیں تو ہاتھ کاٹ دیا جاتا ۔ یہ قانون کی حکمرانی کا سبق تھا ۔ بتا دیا گیا کہ پہلے کی قومیں اس لیے تباہ ہو گئیں کہ جب ان میں سے کوئی کمزور جرم کرتا تو اسے سزا دی جاتی لیکن جب کوئی طاقتور جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا ۔ گویا قانون کے نفاذ میں دوہرا رویہ قوموں کے زوال اور تباہی کا باعث بنتا ہے ۔ مدینہ کی ریاست نے گویا یہ بتا دیا کہ قومیں اگر ترقی کرنا چاہتی ہیں تو قانون کا نفاذ لازم ہے۔

لیکن قانون کے نفاذ میں سماجیات کا کتنا کردار ہو گا، اس کا جواب بھی مدینہ کی ریاست میں دے دیا گیا ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں جب قحط پڑا تو چوری کے جرم پر ہاتھ کاٹنے کی سزا ساقط کر دی گئی ۔ ہاتھ کاٹنے کی سزا کا تعلق قانون سے ہے جو کسی سے کوئی رعایت نہیں کرتا اور اس کا نفاذ قوموں کی بقاء کے لیے ضروری ہے اور سزا ساقط کر دینے کا تعلق سماجیات سے ہے ۔ جب سماج ایک اضطراری حالت سے گزر رہا ہو اور ریاست سماج کی بنیادی ضروریات پوری کرنے میں مسائل کا شکار ہو تو پھر سزا ساقط ہو جاتی ہے۔ قانون اور سماج کا یہ حسین امتزاج ہمیں مدینہ کی ریاست نے سکھایا ہے ۔ عمران خان کے پیش نظر اگر مدینہ ہی کی ریاست ہے تو انہیں مدینہ کی ریاست کی جورسپروڈنس کو سمجھنا ہو گا۔

پاکستان کے معاشی حالات آپ کے سامنے ہیں۔ مہنگائی کا ایک طوفان ہے۔ بے روزگاری کی لہر نے سماج کی بنیادیں ہلا دی ہیں۔ ملک میں معاشی بحران ہے۔آئین کے باب دوم میں روزگار سے لے کر صحت اور تعلیم تک کی سہولیات کی فراہمی اگر چہ ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن ناگفتہ حالات کی وجہ سے ریاست اس ذمہ داری کو ادا کرنے سے قاصر ہے۔لوگوں کو روز گار ملے نہ ملے ، انہیں تمام بالواسطہ ٹیکس ادا کرنے ہیں، بچوں کی تعلیم کے اخراجات بھی خود دینا ہیں اور گھر میں کوئی بیمار پڑا ہے تو اس کی ادویات کے اخراجات بھی خود برداشت کرنا ہیں۔یہ ایک اضطراری صورت حال ہے۔اور اضطراری صورت حال میں ریاست صرف لٹھ لے کر قانون نافذ کرنے نہیں نکلتی وہ ایک مہربان ماں کی طرح گاہے صرف نظر بھی کر لیتی ہے۔

کراچی میں ایک ہزار دکانیں گرا دی گئی ہیں۔ہر دکان کے ساتھ اگر چار آدمی بھی مختلف شکلوں میں وابستہ ہوں تو گویا چار ہزار لوگوں سے روزگار چھین لیا گیا۔یہ چار ہزار لوگ نہیںیہ چار ہزار خاندان ہیں۔ریاست کا کام محض کوتوال شہر کا کردار ادا کرنا نہیں ۔ ریاست کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ جن چار ہزار خاندانوں کا روزگار چھینا جا رہا ہے وہ کیا کریں گے؟ یہ لوگ عافیت کے ساتھ کاروبار کر رہے تھے اور ساٹھ سالوں سے کر رہے تھے تو کیا تھوڑا عرصہ مزید انتظار نہیں کیا جا سکتا تھا کہ معاشی حالات تھوڑے بہتر ہو جائیں، ملکی معیشت کا پہیہ چل پڑے تو انہیں یہاں سے ہٹا دیا جائے؟یہ لوگ اب کیا کریں گے؟ ان کے بچے ہیں، ان کے سکولوں کی فیس ہو گی ، ان کے گھر بیمار والدین ہوں گے ان کی ادویات کے خرچے ہوں گے۔معاشی بحران کے شکار ملک میں کھڑے کھڑے ہزاروں گھرانوں کو بے روزگاری کے عذاب میں دھکیل دینا کون سی حکمت ہے؟

ہاں ریاست اگر اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہی ہوتی، ریاست اگر روزگار کے متبادل مواقع دے سکتی، ریاست اگر ان کے بچوں کو تعلیم دے سکتی ، ریاست کے پاس اگر ان کے لیے طبی سہولیات موجود ہوتیں پھر وہ ان کی کمر پر تعزیر کا کوڑا برساتی تو اور بات تھی لیکن موجودہ حالات میں تو حکومت کو غنیمت سمجھنا چاہیے تھا کہ اس کے ہزاروں شہری کسی نہ کسی طور روزگار کما رہے ہیں۔دنیا بھر میں معیشت کا پہیہ رواں رکھنے کے لیے قانون سے صرف نظر کیا جاتا ہے۔خود پاکستان میں ایمنسٹی سکیم دی گئی تا کہ کچھ رقم واپس آ سکے۔ یہ سکیم ایک جرم کو نظر انداز کر کے دی گئی تا کہ معیشت رواں رہ سکے۔

معیشت کی بقاء کی خاطر قانون بدل دیا گیا اور جرم جرم نہ رہا۔اب سوال یہ ہے کہ اگر ادھر یہ حکمت بروئے کار آ سکتی ہے تو یہاں ہزاروں لوگوں کو بے روزگار کرتے وقت اس حکمت کو پس پشت کیوں ڈال دیا جاتا ہے؟ متبادل معاشی امکانات دیے بغیر ہزاروں گھرانوں کو بے روزگاری کے عذاب سے دوچار کر دینا قانون کی نظر میں معتبر ہو سکتا ہے سماجیات کے باب میں اس رویے کا کوئی اعتبار نہیں۔یاد رکھیے قانون سماج کے لیے بنایا جاتا ہے سماج قانون کے لیے نہیں ہوتا۔

عمران خان کی نیت پر شک نہیں ہے۔لیکن ان سے درخواست ہے وہ ریاست مدینہ کی جورسپروڈنس کی مبادیات کو سمجھیں۔ ریاست مدینہ صرف قانون کے نفاذ کا نام نہیں ہے۔ وہ سراپا خیر بھی ہوتی ہے جہاں اضطراری صورت حال میں چوری کی سزا ساقط ہو جاتی ہے۔ یہ بات تو عمران خود بتا چکے کہ مناسب خوراک نہ ملنے سے یہاں بچوں کی دماغی نشوونما نہیں ہو پا رہی۔ ایسے حالات کے شکار سماج کو جو محدود معاشی امکانات دستیاب ہیں ان سے بھی محروم کر دینا خیر خواہی نہیں ہے۔یہ ریاست مدینہ کی جورسپروڈنس نہیں ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے