مولانا فضل الرحمن کا ملین مارچ

مولانا فضل الرحمٰن کا غصہ قابو میں نہیں آ رہا۔ وہ زبان جس سے حکمت کے پھول جھڑتے تھے، اب شعلے اگلتی ہے۔ یہ اشتعال انہیں ایک خطرناک دنیا میں لے گیا ہے۔ انہوں نے ایک ایسے میدان میں قدم رکھ دیا ہے، جس میں کسی کے لیے خیر نہیں ہے۔ نہ ان کے لیے، نہ قوم کے لیے۔

میں شاید ان اکا دکا لکھنے والوں میں شامل ہوں جو آخری درجے میں، مولانا کے بارے میں حسنِ ظن رکھتے ہیں۔ ‘اکا دکا‘ تو میں نے محاورتاً کہہ دیا۔ کوئی ‘اکا‘ کہنا چاہے تو شاید اُس کی بات کو رد نہ کیا جا سکے۔ انہوں نے ایسے مرحلے پہ بھی اعتدال اور توازن کا دامن تھامے رکھا جب ان کے حلقے کے جذبات بے قابو ہو رہے تھے۔ انہوں نے اپنے ہم مسلکوں کے طعنے سنے مگر فرقہ وارانہ تصادم کے سامنے بند باندھا۔ یہی نہیں اہلِ دیوبند کو فی الجملہ اُس آگ کا خس و خاشاک بننے سے روکا جس نے شرق و غرب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔

انتخابات کے بعد مگر میں ایک مختلف مولانا فضل الرحمن کو دیکھ رہا ہوں۔ الیکشن کے نتائج انہی کے لیے نہیں، اس قوم کے کروڑوں لوگوں کے لیے بھی غیر متوقع تھے۔ میں بھی ان نتائج کو مشتبہ سمجھتا اور اس باب میں مولانا کے موقف کو سو فی صد درست مانتا ہوں۔ اب تو اس کی شہادتیں اُن کی طرف سے بھی آ رہی ہیں جنہیں محرمِ راز درونِ میخانہ کہنا چاہیے۔ مولانا بھی متاثرینِ نتائج میں سے ہیں۔ خیال یہ تھا کہ وہ سنبھل جائیں گے اور ان کے ذہنِ رسا سے حکمت کی وہ شعائیں پھوٹیں گی‘ جو سیاست کے اندھیرے راستوں کو روشن کر دیں۔ دیگر متاثرین بھی ان سے اپنی تاریک راہوں میں اجالا کریں گے۔ مولانا نے مگر اپنا ہاتھ جذبات کے ہاتھ میں دے دیا۔ یہ جذبات انہیں انتہا پسندی کی وادی میں لے گئے۔ انہوں نے آگے بڑھ کر خادم رضوی صاحب کا پرچم تھام لیا۔

کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ ان کا اپنا پرچم ہے جو پہلے ہی ان کے ہاتھ میں تھا۔ جب ممتاز قادری کو سزا ہوئی تب بھی وہ اسی جوش و خروش سے میدان میں تھے۔ یہ بات واقعاتی طور پر درست ہے لیکن اتنی ہی درست بات یہ بھی ہے کہ اُن کا پرچم ایک آدھ مظاہرے میں لہرایا مگر پھر انہوں نے اسے لپیٹ کر رکھ دیا۔ اس میدان کے شاہ سوار رضوی صاحب ہی قرار پائے۔ رضوی صاحب جب پیر افضل قادری صاحب کے ارشادات کی زد میں آئے اور انہیں پسپائی اختیار کرنا پڑی تو ان کا پرچم مولانا فضل الرحمٰن نے تھام لیا۔ کراچی کا ملین مارچ اور اب لاہور کا ملین مارچ۔

مولانا فضل الرحمٰن اسے ایک سیاسی تحریک بنا دینا چاہتے ہیں جس کا ہدف حکومت ہے۔ مقدمہ یہ ہے کہ عالمی دباؤ کے تحت فیصلے ہو رہے ہیں۔ یہ عالمی قوتوں کی مداخلت فی الدین ہے جس میں ہماری حکومت (ریاست) بھی شریک ہے۔ میں ادب سے کہنا چاہتا ہوں کہ یہ مذہب کا سیاسی استحصال ہے۔ مولانا جانتے ہیں کہ اس طرح کی باتوں نے مذہب اور پاکستان دونوں کو نقصان پہنچایا ہے۔

پاکستان میں مذہب کے سیاسی استحصال کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی پاکستان کی بلکہ تحریکِ پاکستان کی۔ پاکستان کا تو سکیورٹی پیراڈائم ہی مذہب کی اساس پر قائم ہے۔ یحییٰ خان نے اسے اپنی تائید میں استعمال کیا۔ بھٹو صاحب کے خلاف اٹھنے والی تحریک میں سیکولر جماعتیں بھی نظامِ مصطفیٰ کا علم اٹھائے ہوئے تھیں۔ پھر نواز شریف صاحب اور ان کے اتحادیوں نے عورت کی حکمرانی کے مسئلے پر مذہب کو بے نظیر صاحبہ کے خلاف استعمال کیا۔ عمران خان نے اسی کو نواز شریف کے خلاف کامیابی سے آزمایا اور اب مولانا فضل الرحمٰن اسے عمران خان کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مجھے افسوس ہو گا اگر ان جیسا جہاں دیدہ آدمی یہ جھنڈا اٹھائے گا۔

مولانا کا کہنا ہے کہ وہ علمائے دیوبند کے وارث ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ دیوبند ایک مذہبی نہیں، ایک سیاسی تحریک تھی۔ جمعیت علمائے ہند کی حد تک تو یہ بات درست ہے۔ جمعیت نے کبھی مذہبی سیاست نہیں کی۔ ایسا ہوتا تو وہ کانگرس کے بجائے مسلم لیگ کے ساتھ ہوتی جو قائم ہی مسلم مفادات کے تحفظ کے لیے ہوئی تھی۔ جمعیت نے آزادیٔ وطن کی تحریک کا ساتھ دیا اور وہ بھی سیکولر بنیادوں پر۔ اگر ماضی میں مذہبی حوالہ موجود تھا تو تحریکِ ریشمی رومال کی ناکامی کے بعد، اس سے رجوع کر لیا گیا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے آغاز مذہبی سیاست سے کیا۔ پھر اس سے رجوع کرتے ہوئے ‘قومی‘ سیاست کی۔ یہاں قوم سے مراد ہندوستانی قوم ہے جس کی بنیاد وطن ہے۔ آخری دور میں وہ اس قومی ریاست میں مسلم مفادات کے تحفظ کی بات کر رہے تھے۔

مولانا فضل الرحمٰن اگر اِس سیاست کے وارث ہیں تو اس میں مذہب سیاست کی اساس نہیں ہے۔ مولانا عملاً جو سیاست کرتے رہے ہیں اس کی بنیاد بھی سیاسی حرکیات پر ہے، مذہب پر نہیں۔ وہ سیاسی حرکیات کے تحت فیصلہ کرتے ہیں کہ کس کا ساتھ دینا چاہیے اور کس کا نہیں۔ اس میں کوئی بات قابلِ اعتراض نہیں۔ اس لیے آج مجھے حیرت کے ساتھ تشویش بھی ہے کہ مولانا علمائے دیوبند کا وارث ہوتے ہوئے بھی، مذہب کے نام پر سیاست کر رہے ہیں۔

یہ نواز شریف ہوں یا عمران خان‘ بلاول ہوں یا اسفند یار، ان کے سیاسی نظریات میں فرق ہو سکتا ہے لیکن بطور مسلمان سب کے جذبات ایک جیسے ہیں۔ ہمیں حسنِ ظن رکھنا چاہیے کہ ان میں کوئی ایسا نہیں رسول اللہﷺ کے ساتھ محبت کے معاملے میں کسی مداہنت کا شکار ہو گا۔

جہاں تک عالمی یا خارجی دباؤ کا تعلق ہے تو یہ امرِ واقعہ ہے۔ اس سے کسی حکومت کو مفر نہیں۔ قوموں پر ایسا وقت آتا ہے جب وسیع تر قومی مفاد کے لیے مفاہمت کرنا پڑتی ہے۔ اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ کے اسوہ حسنہ میں اگر صلح حدیبیہ کا ذکر ہے تو اس کی ایک حکمت ہے۔ حکمت یہ ہے کہ اجتماعی مفاد بعض اوقات متقاضی ہوتا ہے کہ کوئی ایسا فیصلہ کیا جائے جو بظاہر یا وقتی طور پر کمزوری کا اظہار ہو لیکن اس کے پس منظر میں کوئی بڑا خیر پوشیدہ ہو یا کسی بڑی مصیبت سے نجات مل رہی ہو۔

ریاست نے اس سے پہلے ریمنڈ ڈیوس کے بارے میں ایسا ہی ایک فیصلہ کیا۔ اس میں پیپلز پارٹی کی مرکزی حکومت، مسلم لیگ کی صوبائی حکومت اور ریاستی ادارے، سب شامل تھے۔ مشرف عہد میں بھی اس طرح کے کئی فیصلے ہوئے۔ ہم ان فیصلوں سے اختلاف کر سکتے ہیں یا بتا سکتے ہیں کہ ہمارے نزدیک قومی مفاد کے تقاضے کسی اور طرح بھی نبھائے جا سکتے تھے؛ تاہم حتمی فیصلہ نظمِ اجتماعی ہی کو کرنا ہے کہ درپیش مسئلے میں قومی مفاد کا تقاضا کیا ہے۔ اس نوعیت کے فیصلے سیاسی ہوتے ہیں۔ ان کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

توہینِ مذہب کے باب میں تمام سیاسی جماعتوں کا وہی موقف ہے جو مذہبی جماعتوں کا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں حوالہ دیا ہے کہ پیپلز پارٹی کے دور میں، پاکستان نے یہ مسئلہ اقوامِ متحدہ میں اٹھایا کہ اس کو عالمی سطح پر قابلِ تعزیر قرار دیا جائے۔ مسلم لیگ کی حکومت بھی عالمی فورمز پر اس کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔ تحریکِ انصاف کی حکومت بھی اسے ہر محاذ پر اٹھا رہی ہے۔ یہ ایک غیر متنازعہ معاملہ ہے۔ مجھے افسوس ہو گا اگر مو لانا فضل الرحمٰن ان عناصر کے ہم نوا ہو جائیں گے جو اسے متنازعہ بنا کر قومی شخصیات کے بارے میں شکوک پیدا کر رہے ہیں۔

مولانا کا غصہ قابلِ فہم ہے۔ میں اس کے اصل سبب سے واقف ہوں اور مولانا کے موقف کو سو فی صد درست سمجھتا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ وہ شفاف الیکشن کے لیے تحریک اٹھائیں۔ عوام میں بیداری پیدا کریں۔ سیاسی جماعتیں مجبور ہوں گی کہ ان کا ساتھ دیں۔ اگر وہ اپنے غصے پر قابو پا سکیں اور اپنے دماغ کو موقع دیں کہ وہ بروئے کار آئے تو پوری قوم ان کی بصیرت سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ مذہب کا سیاسی استحصال ایک خطرناک راستہ ہے۔ اس کا نقصان عوام کو ہو گا اور ملک کو بھی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے