متنازعہ ٹیکنالوجی، جیسے آٹو میشن

بیماری کی حالت میں کالموں کا سلسلہ برقرار ر کھنا یقینی نہیں۔ کوشش ہو گی کہ مصنوعی ذہانت کے سلسلے کی تحریروں میں واضح تعطل نہ آئے ۔ اللہ کا نام لے کر آج ہی سے تسلسل برقرار رکھنے کی کوشش کروں گا۔ پہلی قسط پیش خدمت ہے اور دوسری انشا اللہ اگلے روز پیش کرنا شروع کر دوں گا۔

”متنازعہ ٹیکنالوجی جیسے آٹو میشن اور مصنوعی ذہانت‘ تیزی سے پھیلتی جا رہی ہیں اور تقریباً ہر جگہ پائی جاتی ہیں‘ جس کی وجہ سے ان کے استعمالات کے بارے میں‘ اخلاقیات کے حوالوں سے سوالات ابھر کر سامنے آ رہے ہیں۔ چاہے ‘وہ استعمالات نجی نوعیت کے ہوں یا ریاستی سطح کے۔ اقوام عالم میں ایسی ٹیکنالوجیز کی وسیع پیمانے پر موجودگی قواعد و ضوابط اور سماجی معیارات وضع کرنے کا باعث بنے گی‘ اور یہ معیارات رد عمل کے طور پر کسی ٹیکنالوجی کو قبول کرنے یا نہ کرنے کے معاملات پر اثر انداز ہوں گے۔ اس وقت مختلف ممالک اور کارپوریشنیں‘ ٹیکنالوجی کے حوالے سے دوسروں پر غلبہ حاصل کرنے کی دوڑ میں لگی ہوئی ہیں۔ وہ وقت دور نہیں‘ جب یہی ممالک اور ادارے مختلف اقدار کے درمیان کھینچا تانی میں مصروف ہوں گے اور اس وقت اخلاقی معیارات قائم کرنے کی ضرورت شدت کے ساتھ محسوس کر رہے ہوں گے۔

مغربی اقدار ایسے معیارات قائم کرنے کے حوالے سے پچھلے طویل عرصے سے نمایاں رہا ہے‘ جیسے امریکہ روایتی طور پر سب سے زیادہ مؤثر جدت پسند طاقت ہے اور اس نے ہر جدید روایت کو اپنایا ہے‘ لیکن چین بھی پیچھے نہیں ہے۔ اس نے گزشتہ چند دہائیوں میں نہایت کامیابی کے ساتھ معاشی فروغ کو اپنی ترجیحات میں شامل رکھا اور ٹیکنالوجی کی ترقی پر خصوصی توجہ دی؛ چنانچہ جب ٹیکنالوجی کے حوالے سے اخلاقیات کی بات چلے گی‘ تو ممکنہ طور پرچین اس سلسلے میں بھی ایک بڑا اور اہم کردار ادا کرے گا۔

مصنوعی ذہانت ان بہت سے شعبوں میں سے ایک ہو گی‘ جن میں ریگولیٹری حد قائم کرنے کیلئے اس شعبے کے مختلف کھلاڑی کام کر رہے ہوں گے اور مستقبل میں اخلاقیات کے حوالے سے سوالوں کے جواب دیں گے۔ سائنس فکشن رائٹر آئیزک آسیموف نے بیسویں صدی کے نصف اول میں روبوٹکس کے مؤثر قوانین تحریر کئے تھے اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ حقیقت اور فکشن میں بہت تھوڑا فرق باقی رہ گیا ہے‘ یعنی فکشن حقیقت کا روپ دھارتی جا رہی ہے۔ مصنوعی ذہانت کے حوالے سے اخلاقیات اور اس کے وسیع استعمالات کے بارے میں درجنوں ‘بلکہ سینکڑوں سوالات موجود ہیں۔

الوگرتھم میں تعصب کس نے پیدا کیا؟ اعداد و شمار کس کی ملکیت ہیں؟ پرائیویسی قائم رکھنے کیلئے کیا اقدامات کئے گئے ہیں؟ اور مصنوعی ذہانت کے ذریعے آٹومیشن کرانے کیلئے انسانی کنٹرول کس حد تک قائم رہنا چاہئے؟ اور کتنا قائم نہیں رہنا چاہئے؟ ان میں سے بہت سے سوالوں کے جوابات آسان نہیں ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ جب چین اور امریکہ کے مابین مقابلہ یا مسابقت بڑھے گی ‘تو اس کے نتیجے میں ایک نیا سوال جنم لے گا اور ابھر کر سامنے آئے گا کہ ان سوالوں کے جواب کون دے گا؟

کیا چیز غلط ہے اور کیا درست؟ ایسے سوالات کی بنیاد یہ ہے کہ کسی جگہ پر کون سی اور کیسی ثقافتی اقدار رائج ہیں؟ اور چلتی چلی آ رہی ہیں؟ معاشی تناظر میں بات کی جائے‘ تو مغربی آئیڈیل ہمیشہ عدم مداخلت والی معیشت ہی رہی ہے اور اگر اخلاقیات کی بات کی جائے‘ تو مغربی آداب پرائیویسی اور انسانی حقوق کی اہمیت کو ترجیح دیتے ہیں‘ لیکن چین ان آداب کو چیلنج کر رہا ہے‘ کیونکہ یہ معیشت کو چلانے کیلئے ریاست کے طاقتور ہاتھ کا استعمال کرتا ہے اور اکثر ترقی کے نام پر پرائیویسی کی قربانی دیتا نظر آتا ہے۔ ایک اور معاملے پر دنیاکا ٹیکنالوجی پر اعتماد مختلف ہو سکتا ہے ‘یعنی مصنوعی ذہانت کے فوجی اور کمرشل استعمال پر اثر انداز ہونا۔

ایک شعبہ‘ جس میں ان ممالک ‘جو ٹیکنالوجی کے مستقبل کیلئے اخلاقیات کے عالمی معیارات قائم کرنے کا عزم و ارادہ رکھتے ہیں‘ تاکہ مسائل میں اضافہ نہ ہو‘ نے اپنی توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔ یہ نجی اعداد و شمار اور اسے پیسہ بنانے کیلئے استعمال کرنے کا معاملہ ہے۔ سائنسی نکتہ نظر سے اس بات کو یوں واضح کیا جا سکتا ہے کہ جتنا زیادہ ڈیٹا دستیاب ہو گا ‘اتنی ہی بہتر مصنوعی ذہانت ایجاد کی جا سکے گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جنہیں ‘اس ڈیٹا تک رسائی حاصل ہے اور وہ اسے استعمال کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں‘ وہ مستقبل میں بھی اس ڈیٹا سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں؛ البتہ یہ معاملات کہ ڈیٹا کس کی ملکیت ہے؟اور افراد‘ حتیٰ کہ کارپوریشنوں تک کی پرائیویسی کے بارے میں اخلاقی تحفظات کیا ہیں؟ ڈیٹا کے پھیلائو اور استعمال کو محدود کر سکتے ہیں۔

کثیر تعداد میں ادارے اس سوال کو پیش نظر رکھے ہوئے ہیں کہ ڈیٹا پرائیویسی کو کیسے یقینی بنایا جا سکتا ہے ؟اور یہی مصنوعی ذہانت کے بارے میں ابتدائی پیمائش یا گنجائش ہے کہ اس کے پرائیویٹ اور کمرشل استعمال میں کس حد تک جایا جا سکتا ہے ؟اور کہاں محدود ہوا جانا چاہئے؟ یہ ایک ایسا سوال بھی ہے جو اقدار میں پھیلائو اور انتشار کو ظاہر کرتا ہے۔ جنرل ڈیٹا پروٹیکشن ریگولیشنز ‘ جو اسی سال نافذ کی جا رہی ہیں‘ کے ساتھ یورپی یونین افراد کے حقوق کے تحفظ کے معاملے پر عالمی سطح پر باقی خطوں اور ممالک پر سبقت لے رہی ہے۔

اس کے علاوہ بہت سی امریکی ریاستوں میں ایسی ہی قانون سازی کر لی گئی ہے یا اس سلسلے میں کام ہو رہا ہے‘ اور امریکی حکومت فی الوقت ایک مجموعی فیڈرل پالیسی پر غور کر رہی ہے‘ جو مجموعی طور پر افراد کے پرائیویسی کے حقوق کا تحفظ کر سکے۔ اس کے برعکس چین نے انفرادی پرائیویسی پر ریاست کی ترقی اور بہبود کو ترجیح دینے کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ چینی عوام عموماً ایسے اقدامات کے حامی رہے ہیں‘ جن کا مقصد ذاتی نوعیت کے اعداد و شمار استعمال کر کے‘ ان کے ذریعے جمع تفریق ہو اور نتائج اخذ کرنا ہو ۔ مثال کے طور پر چینی ریاست کی جانب سے شروع کئے گئے ”رویوں کو مانیٹر کرنے‘‘ کے اقدامات پر اس ملک میں داخلی سطح پر بہت کم اعتراضات اٹھائے گئے۔ رویوں کو مانیٹر کرنے کے اس عمل میں سب کچھ شامل ہے‘ جیسے کہ کسی فرد نے کہاں کہاں سے ؟ اور کیا کیا خریداری کی؟

اور سوشل میڈیا پر اس کی سرگرمیاں کیا ہیں؟ اور اس نے کس وقت کہاں کہاں کا سفر کیا؟ ان ساری چیزوں کے بارے میں معلومات اکٹھی کر کے مصنوعی ذہانت کو بروئے کار لا کر ”سوشل سکور‘‘ تیار کیا جاتا ہے۔ تیار کیا گیا یہ سکور بتائے گا کہ کسی فرد کے قابل اعتبار ہونے کی سطح کیا ہے؟ اس کے قابل اعتبار اور قابل بھروسہ ہونے سے ہی یہ نتیجہ اخذ کیا جائے گا کہ اسے مخصوص مراعات تک رسائی دی جانی چاہئے یا نہیں۔ چین میں یہ پروگرا م 2020ء تک مکمل طور پر کام کرنا شروع کر دے گا اور اس کے ذریعے شہریوں‘ سرکاری حکام اور کاروباروں کی ٹریکنگ کی جائے گی کہ کون کیا کر رہا ہے؟ کہاں آ جا رہا ہے؟ کون سے کاروبار میں کہاں؟ کیا سودے ہو رہے ہیں اور کتنے میں؟ اسی طرح چہروں کو شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی پہلے ہی سے استعمال کی جا رہی ہے؛ اگرچہ اس کا استعمال اس وقت بہت زیادہ وسیع پیمانے پر نہیں ہو رہا ہے‘ لیکن یہ ٹیکنالوجی موجود ہے اور نتائج دکھا رہی ہے۔

توقع کی جا رہی ہے کہ چینی قوانین کے نفاذ اور گورننس کو بہتر بنانے کے سلسلے میں‘ اس ٹیکنالوجی کا کردار تیزی سے بڑھتا جائے گا۔ چین کی جانب سے ایسے اعداد و شمار اور جمع تفریق پر بڑھتا ہوا انحصار ‘اسے ان پہلے ممالک میں شامل کر دے گا‘ جو کمپیوٹر کے فیصلہ کرنے کی صلاحیت یا استعداد پر بھروسہ کرنے جا رہے ہیں‘‘۔ (جاری)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے