مسکین مداری

لو وی سجنو کھلن لگی اے پٹاری
آگیا جے "مسکین مداری”

مداری سے یاد آیا قصہ کچھ یوں ہے کہ کسی گاوں میں ایک مسکین نام کا لکڑ ہارا ہوا کرتا تھا غربت و آلام کے باعث اسکا گزر بسر تو مشکل تھا ہی اسے جینا بھی ناگوار گزرنے لگا اور تو اور گاوں میں بھی لوگ صرف اسے اس بات سے جانتے تھے کہ گاؤں کے میلے میں کھانا پکانے کے لئے اسکی ایک خدمت تھی وی یہ کہ پورے گاوں کا کھانا پکانے کے لئے ایندھن کی لکڑی لانے کا ذمہ اس نے لیا

اور نکل پڑا دنیا کا سب سے بڑا درخت کاٹنے میلے کے نزدیکی دنوں میں مختلف جنگلوں کے چکر لگا کر واپس گاوں کی راہ لی تو سوچنے لگا کہ گاؤں والوں کو کیا جواب دے گا

اسے ایک ترکیب سوجھی زندگی سے تنگ تو وہ تھا ہی اس نے گاوں پہنچ کر سب کو جمع کیا اور کہنے لگا میں جنگلوں میں گھومتے گھماتے ایک جنگل میں گیا تھا وہاں ایک بزرگ نے اسے مشورہ دیا ہے کہ درخت کاٹنے کی بجائے اگر گاوں کے لوگ میلے کے لئے اپنے اپنے گھر کھانا پکائیں تو گاوں میں خوشحالی آئے گی

گاؤں کے سیدھے سادھے لوگ اسکی بات پہ یقین کئے بنا نہ رہ سکے اور میلے کے لئے اجتماعی کھانے کی بجائے اپنا اپنا کھانا خود پکا کر میلے کو یادگار بنانے لگے

کچھ عرصے بعد گاوں کے چوپال میں بیٹھے اس سے غلطی ہو گئی اور اپنا جھوٹ گاوں کے لوگوں کے سامنے بیان کر بیٹھا جس پر گاوں کے لوگوں نے خوب لعن طعن کی اور لکڑہارا بے دلی کے ساتھ دل میں بدلہ لینے کی چاہ گاوں چھوڑ گیا

اب گذر اوقات کے لئے مسکین کے پاس کچھ تھا نہیں سو اس نے کیا یوں کہ خود کو ایک زندہ رکھنے کے لئے چند کرتب بے حد کوشش کے بعد سیکھ لئے اور مداریوں کا روپ اپنا کر گاوں گاوں گھومنے لگا

چند ہی دنوں میں مسکین لکڑہارا مسکین مداری کے نام سے مشہور ہو گیا اور اسکی شہرت دور گاوں میں پھیلتی اپنے گاوں تک بھی پہنچ گئی

حالات کچھ آسودہ و خوشحال ہونے لگے تو مسکین کو لالچ نے آ لیا اور اس نے سوچا ایک ایسی مداری کا اعلان کروائے جس سے سب اسکے گرویدہ ہو جائیں

چنانچہ مسکین نے آس پاس کے سبھی گاوں بشمول اپنے گاوں میں اعلان کروا دیا کہ بڑے جنگل کے پاس والے میدان میں "میں” اپنے فن سے گھاس پھونس کو کیسر بنا کر دکھاوں گا اور یہ کیسر اتنی مقدار میں ہو گا کہ سبھی اسے حسب طمع اپنے ساتھ لے جا سکیں گے

منادی ہو گئی اور لوگوں نے اسکی مداری کے چکر میں گھاس پھونس قریب جنگل کے میدان میں پھینکنا شروع کر دیا

گھاس پھونس اس مقدار میں جمع ہو گیا کہ جنگل کی جانب جانے والا راستہ بند ہو گیا

خیر مداری کا دن قریب آگیا اور سبھی مسکین پر نگاہیں مرکوز کئے ہوئے تھے کہ یکایک کسی نے آواز دی ارے بھائی کیسر بہت مہنگا ہو گیا ہے جلد ہمیں بنا کر دو تاکہ اسے بیچ کر ہم مال و زر کما سکیں مسکیں مداریوں کے مخصوص انداز میں کرتب دکھانے لگا لوگ اس قدر محو ہوئے کہ کسی کو کیسر کا خیال نہ رہا

خیر!! یہاں آپکو بتاتا چلوں کہ سر زمین پاکستان نے معرض وجود میں آنے کے بعد بہت سے پیچ و خم دیکھے لیکن حالت بدستور وہیں کی وہیں ہے موجودہ حکومت دعووں کہ انبار لگانے کے ساتھ موقع ملتے ہی وقت لگنے پر کچھ دعووں سے کھسکتی جا رہی ہے ایس پی طاہر خان داوڑ کا ذکر کرنا ضروری سمجھوں گا جنہیں اسلام آباد سے اغوا کیا گیا اور دیار غیر میں کاٹ کر پھینک دیا گیا کسی کو خبر تک نہ ہوئی

افسوس یہ کہ وزیر مملکت برائے داخلہ لاش کے ساتھ خط ملنے کہ معاملے پر کہتے رہ گئے کہ حساس معاملہ ہے بات نہیں کر سکتا اگلے ہی دن غلطی اور معاملے کی حساسیت کا احساس ہو جانےپر شہید کے بھائی کے ساتھ پریس کانفرنس میں لمبی چوڑی گول مول سی گفتگو کر کے بری الذمہ ہو گئے

فواد چوہدری کو چرب زبانی پر سینیٹ میں داخلے پر پابندی کا پروانہ تھمایا گیا تو موصوف اپنے ہی لائے چئیرمین سینیٹ کو پریس کانفرنس میں دھیمی آنچ پر دھمکیاں دینے پر تل آئے

حساس معاملہ یعنی آسیہ کیس میں حقہ پانی بند کرنے اور اداروں کو گالیوں سے نوازنے والے ایک صاحب پر اختیار ہوتے ہوئے بھی بے اختیار ہو گئے

ستم ظریفی یہ کہ آسماں کی طرف دیکھ کر اشاروں کنایوں میں کہنے لگے کہ یہ کام بیرونی قوتوں کا ہے جو مسکین کا کیسر بننے نہیں دے رہیں

تو اس طرح ہوا کہ گالیاں سننے والے اندر ہو گئے اور مقدمے کے باوجود گالیاں فرمانے والے مستثنی قرار دے دئے گئے

پھر میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لئے مختلف پینترے کھیلے سینکڑوں غریبوں کا روزگار چھین لینے کے بعد کہہ دیا کہ ہاں دے رہے ہیں اشتہار میڈیا میں بہتری آئے گی اب

روزگار چھن جانے والے منہ تکتے رہ گئے اور کچھ وزرا بشمول وزیر اعظم عمران خان ڈھکے چھپے انداز میں صحافیوں سے کہنے لگے کہ تنقید نہیں کرو ابھی گھاس پھونس اکٹھا کر رہے ہیں جنگل کا راستہ بند کر دیا ہے کیسر جلد ہی بنے گا

کیسر کے بننے کی معیاد سو دن مقرر تھی وہ بھی گذر گئے اور کہہ دیا گیا کہ ہمیں بڑا درخت کاٹنے کا بولا تھا نا اب بھگتو

گاوں کے لوگ مسکین مداری کی بات پر منہ تکتے رہ گئے کہ میلے کے بعد ہونے والی عزت افزائی کا بدلہ مداری نے کیسر کا لالچ دے کر اتارا واہ بھئی صحیح کھیل گیا

تحریر پڑھنے کا شکریہ اصل میں ایسا کوئی واقع معرض وجود میں آیا ہی نہیں اور نہ ہی کوئی "مسکین مداری” تھا اور نہ ہی اس تحریر کا تعلق موجودہ سیاسی صورتحال سے ہے

کیونکہ تبدیلی آ نہیں رہی آگئی ہے
شکریہ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے