میلادا لنبی ﷺ کی شرعی حیثیت …(قسط اوّل تا آخر)

”میلاد ‘‘کے معنی ہیں:”پیدائش کا وقت‘‘ اور ”مَولِد‘‘ کے معنی ہیں: ”پیدائش کی جگہ یا وقت‘‘ ‘ دراصل یہ ظرف کا صیغہ ہے اور ظرف زمانی بھی ہوتاہے اور مکانی بھی‘ یعنی کسی واقعے کے رونما ہونے کا زمان و مکان‘سومیلاد کے معنی ہیں: زمانۂ ولادت یا مُقامِ ولادت ۔ میلادالنبیﷺ کے معنی ہیں: ”نبیِ کریمﷺکی ولادتِ باسعادت کے احوال بیان کرنایا آپ کی ولادتِ باسعادت پر مسرّت کا اظہار کرنا‘‘۔ حدیثِ پاک کی مستند کتاب ”سننِ ترمذی ‘‘ میں ہے: ”بَابُ مَاجَائَ فِیْ مِیْلَادِالنَّبِیِّ ﷺ ‘‘‘ ”یعنی میلادالنبی ﷺکا بیان ‘‘۔

اس باب کے تحت امام ابو عیسیٰ ترمذی اپنی سند کے ساتھ قیس بن مَخرمہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:میں اور رسول اللہﷺ ”عامُ الفیل‘‘ میں پیدا ہوئے اورحضرت عثمان نے قُباث بن اَشیَم سے پوچھا: عمر میں آپ بڑے ہیں یا رسول اللہﷺ؟‘توانہوںنے کہا:(مرتبے میں تویقینا) رسول اللہﷺمجھ سے بڑے ہیں‘البتہ میری ولادت اُن سے پہلے ہوئی۔رسول اللہﷺعام الفیل میں پیدا ہوئے‘(سنن ترمذی:3619)‘‘۔ اس حدیث میں رسول اللہﷺکے زمانۂ ولادت بیان کرنے کو ”میلادالنبیﷺ‘‘کا عنوان دیا گیا۔

اﷲتعالیٰ کاارشادہے:”(حضرت یحییٰ علیہ السلام کے بارے میںفرمایا:)اوران پر سلام ہوجس دن وہ پیدا ہوئے اور جس دن ان کی وفات ہوگی اور جس دن وہ زندہ اٹھائے جائیں گے ‘ (مریم:15)‘‘۔ ”(حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں ) اور مجھ پر سلام ہوجس دن میں پیدا کیا گیا اور جس دن میری وفات ہوگی اور جس دن میں (دوبارہ) زندہ اٹھایا جاؤں گا‘(مریم:33)‘‘۔ان آیاتِ مبارَکہ سے معلوم ہوا کہ انبیائے کرام کی ولادت ‘ وفات اور حشرکے دن اُن پر سلام بھیجنا سنتِ الٰہیہ ہے اور خود سُنّتِ انبیاء بھی ہے اور یہ مسلَّمہ اصول ہے کہ سابق انبیائے کرام کے حوالے سے جو امور قرآن مجید میں بطورِفضیلت بیان فرمائے گئے ہیں اوراُن کی ممانعت نہیں فرمائی گئی ‘ وہ ہماری شریعت میں بھی جائزہیں ۔

مسلمانوں کے میلادالنبیﷺمنانے کا مقصد اس کائنات میں رسول اللہﷺکی تشریف آوری پر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تشکُّر کا اظہار کرنا‘ رسول اللہﷺکے ولادتِ باسعادت کے احوال‘ آپ کے نسبِ پاک اور فضائل کا بیان کرنا ہے اور یہ خود رسول اللہﷺسے ثابت ہے: ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:”رسول اللہ ﷺ سے پیر کے روزے کی بابت پوچھاگیا‘ آپﷺنے فرمایا: اس دن میری ولادت ہوئی اور اسی دن میری بعثت(اعلانِ نبوت) ہوئی یا مجھ پر (پہلی بار)وحی نازل ہوئی‘(صحیح مسلم:1162)‘‘۔ اس حدیثِ پاک سے معلوم ہوا کہ رسول اللہﷺاپنی ولادتِ باسعادت کے شکرانے کے طور پر ہر پیر کے دن نفلی روزہ رکھا کرتے تھے ‘سو ولادتِ مصطفیﷺکا تشکُّر خود سنتِ مصطفی ہے۔

اس حدیث کی شرح میں ملاّ علی قاری لکھتے ہیں:”اس حدیث میں اس بات پر دلالت ہے کہ جس مقام پر اور زمانے کے جس حصے میں کوئی مبارک ومسعود واقعہ رونما ہوا ہو‘ تو اس کی وجہ سے اس زمان ومکان کو شرَف وبرکت مل جاتی ہے‘(مرقاۃ المفاتیح ‘ جلد:4ص:475)‘‘۔سنن ترمذی ـ : 746اور سننِ ابوداؤد:2452اور سننِ نسائی: 2419میں بھی نبیِ کریم ﷺ کے ہر پیرکے دن نفلی روزہ رکھنے کا بیان ہے ۔اسی طرح رسول اللہ ﷺ سے اپنے نسبِ پاک کا بیان بھی ثابت ہے:

”واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ نے اولادِاسماعیل میں سے کِنانہ کو چن لیا اورکنانہ کی اولادسے قریش کو چن لیا اور قریش میں سے بنو ہاشم کو چن لیا اور بنو ہاشم میں سے مجھے چن لیا‘(صحیح مسلم:2276)‘‘۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: میںمُحَمَّد بِنْ عَبْدُ اللہِ بِنْ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ بِنْ ہَاشِمْ بِنْ عَبْدِ مُنَاف بِنْ قُصَیِّ بِنْ کِلَاب بِنْ مُرَّۃَ بِنْ کَعْبِ بِنْ لُؤَیِّ بِنْ غَالِب بِنْ فِہْر بِنْ مَالِک بِنْ نَضْر بِنْ کِنَانَۃْ بِنْ خُزَیْمَۃْ بِنْ مُدْرِکَۃْ بِنْ إِلْیَاس بِنْ مُضَرَ بِنْ نِزَارٍبِنْ مَعَدّ بِنْ عَدْنَان ہوںاور(از آدم وحوا علیہما السلام تاحضرت عبداللہ وآمنہ رضی اللہ عنہمانسبِ بنی آدم میں )جب بھی دو گروہ بنے‘ اللہ نے مجھے اُن میں سے بہترین میں رکھا ‘میں اپنے نسب کی ہر پشت میں ایسے ماں باپ سے پیدا ہوا( جن کا رشتہ نکاحِ صحیح سے قائم ہوا تھا) ‘ سو عہدِ جاہلیت کی کوئی خرابی مجھے نہیں پہنچی اور(میرے تمام آباء واجداد)نکاحِ صحیح سے پیدا ہوئے ‘آدم علیہ السلام سے میرے سلسلۂ نسب میں کوئی ایسی کڑی نہیں ہے کہ جن کا تعلق حرام طریقے سے قائم ہوا ہو‘ یہاں تک کہ (نسب کی پاکیزگی )میرے ماں باپ تک قائم رہی ‘سو میں تم سب سے بہترین انسان ہوں ‘ (دلائل النبوۃ ‘ جلد:1ص:174-175)‘‘۔

آپﷺسے روایت کردہ احادیث کا مفہوم یہ ہے کہ آپ کا نورِ نبوت اور نسب حضرت آدم وحوا علیہما السلام سے لے کر حضرت عبداللہ وآمنہ تک مسلسل پاک پشتوں سے پاک رحموں میں منتقل ہوتا رہا اور آپ کے تمام آباء اور اُمَّہات میں معروف طریقے سے نکاح کارشتہ قائم ہوا‘ لہٰذا آپ کا پورا سلسلۂ نسب طیب وطاہر اور کائنات میں سب سے اعلیٰ ہے‘ بیہقی کی” دلائل النبوۃ ‘‘اور محمد بن یوسف صالحی کی ”سُبُلُ الْھُدیٰ وَالرَّشادِ فِیْ سِیْرَۃِ خَیْرِ الْعِبَادِ‘‘اور دیگر کتبِ سیرت میں یہ احادیث موجود ہیں ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ ﷺ اس کائنات میں اﷲتعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہیں اور اس کی بے شمارنعمتوں میں سے یہ واحد نعمت ہے کہ جس کا اس نے خاص طور پراہلِ ایمان پر احسان بھی جتلایا ہے‘ ارشادہوا:”یقینا اﷲ تعالیٰ نے اہلِ ایمان پر احسان فرمایا کہ ان کے درمیان انہی میں سے رسولِ عظیم کو مبعوث فرمایا ‘ جوان پر آیاتِ الٰہی کی تلاوت کرتے ہیں اور ان کے (قلوب واذہان) کا تزکیہ کرتے ہیں اور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں ‘ اگر چہ وہ اس سے پہلی کھلی گمراہی میں تھے‘(آلِ عمران:164)‘‘اور اللہ تعالیٰ کا یہ بھی حکم ہے:” اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو‘(الضحیٰ :11)‘‘۔

قرآنِ مجید میں عید کا ذکرہے‘ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:”عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام نے دعا کی: اے ہمارے رب ! ہم پر آسمان سے خوانِ طعام نازل فرما ‘ (تاکہ) وہ دن ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لیے عید ہوجائے اور تیری (قدرت کی) طرف سے نشانی ہوجائے اور ہمیں رزق عطا فرما اور تو سب سے بہتر رزق عطا فرمانے والا ہے‘ (المائدہ:114)‘‘۔

اس آیتِ مبارَکہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ”خوانِ طعام‘‘ کے نزول کو عید قرار دیا اوراللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں اُن کی اس دعاکاذکرفرمایا‘ پس معلوم ہوا کہ نزولِ نعمت یا حصولِ نعمت کے موقع کو عید سے تعبیر کرسکتے ہیں۔

چنانچہ سعودی عرب میں ملک عبدالعزیز کی بادشاہت کے قیام کے دن کو ”عیدُالوَطَنی‘‘ کہا جاتاہے اور سعودی عرب کے علماء سمیت کسی نے بھی اسے بدعت سے تعبیر نہیں کیا ۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ وہ تو دنیاوی معاملہ ہے ‘ جبکہ میلادالنبی ﷺ کو دین کا شِعار سمجھ کر کیا جاتاہے‘ اس لیے اس کی مخالفت کی جاتی ہے۔ ہم شروع میں بیان کرآئے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنی ولادتِ مبارَکہ اور بعثت کے دن کا تشکر روزہ رکھ کر مناتے تھے اور رسول اﷲ ﷺ کا فعلِ مبارک دین کا شعار ہی قرار پائے گا ‘ کیونکہ نعمتِ بعثت کا تعلق دین ہی سے ہے۔

اسی طرح حدیثِ پاک میں ہے:” جب نبیﷺمدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہود یومِ عاشور کا روزہ رکھتے ہیں ‘آپ ﷺ نے اس کی وجہ پوچھی؟‘ صحابہ نے عرض کیا: یہ نیک دن ہے ‘ اس دن اللہ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمنوںسے نجات عطا فرمائی تھی‘ تو موسیٰ علیہ السلام نے (اس کے شکرانے کے طور پر ) روزہ رکھا۔ (نبی ِ کریمﷺ نے) فرمایا :میرا موسیٰ سے تعلق تمہاری بہ نسبت زیادہ ہے ‘ پس آپ نے خود بھی روزہ رکھا اور (صحابۂ کرام کو بھی) روزہ رکھنے کا حکم فرمایا‘(صحیح بخاری:2004)‘‘۔

دوسری احادیثِ مبارَکہ میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہود کی مشابہت سے بچنے کے لیے صحابۂ کرام کو دس محرم کے ساتھ ایک دن پہلے (یعنی نو محرم ) یا ایک دن بعد (یعنی گیارہ محرم) کو ملا کر دو دن کا نفلی روزہ رکھنے کاحکم فرمایا۔ اس سے نبی کریم ﷺ کا یہ شعار بھی معلوم ہوا کہ اگر کوئی کام اپنی ذات میں شریعت کی نظر میں پسندیدہ ہے اور کسی جہت سے اُس میں اہلِ کتاب یا کسی دوسری شریعت سے مشابہت کا عنصر پایا جاتاہے‘ تو محض مشابہت کی وجہ سے اس پسندیدہ کام کو ترک نہیں کیا جائے گا ‘ بلکہ مشابَہتِ صُوری سے بچنے کے لیے کوئی بہتر حکمتِ عملی اختیار کی جائے گی۔ اگراس شعارِ نبوت کوایک مسلّمہ اصول کے طور پر اختیار کرلیا جائے تو سنت وبدعت کے بہت سے امور احسن طریقے سے طے ہوسکتے ہیں ‘ چنانچہ جب رسول اللہ ﷺ سے صحابۂ کرام نے قربانی کے بارے میں دریافت کیا‘ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ تمہارے باپ ابراہیم کی سنت ہے ‘(سنن ابن ماجہ:3127)‘‘۔

لوگ اپنے اپنے مزاج اور رائج شعار کے مطابق میلاد النبی ﷺ مناتے ہیں ‘اگر اس میں منکَرات اور ممنوعات کی آمیزش نہ ہو ‘ تو اس کے جواز میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔ لیکن دین کی ترجیحات کو پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے ‘ مثلاً: میلاد النبی ﷺ کا جلسہ منعقد ہو یا جلوس نکالا جائے ‘ اس میں درود وسلام اور نعت خوانی ہورہی ہو ‘لیکن وقت پر فرض نماز نہ پڑھی جائے یا نماز قضا ہوجائے یا سرے سے چھوڑ دی جائے ‘ تو یہ طریقہ کسی بھی طور پر پسندیدہ قرار نہیں دیا جاسکتااورجو علماء ومشایخ ایسی مجالس اور جلوسوں کی قیادت کرتے ہیں ‘ان پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ لوگوں کو فرائض کے بارے میں متنبہ کرتے رہیں اور خود بھی اس کی پاسداری کریں‘ ورنہ بے عملی اور قول وفعل میں عدم مطابقت علماء ومشایخ کے بارے میں بدگمانی کا سبب بنتی ہے‘ اس کے بارے میں مزید گفتگو آئندہ کالم میں کی جائے گی۔

[pullquote]میلادا لنبی ﷺ کی شرعی حیثیت …(آخری قسط)[/pullquote]

شیخ الحدیث علامہ غلام رسول سعیدی نے شرح صحیح مسلم ‘ جلد :3‘ ص:169تا190میں میلادالنبیﷺکے موضوع پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔انہوںنے احناف کے مسلَّمہ اکابر علامہ ابن عابدین شامی کی ”شَرحُ الْمَوْلِد لِابْنِ حَجربحوالہ: جواہر البحار‘ جلد:3‘ص:340‘‘ اورملاّ علی قاری کی ”اَلْمَوْلِدُالرَّوِی فیِ الْمَوْلدِالنَّبَوِی‘ص:7-8‘‘ کے حوالے سے ثابت کیا کہ یہ اکابرِ اُمّت بھی میلادالنبی ﷺ کے جواز کے قائل تھے۔

نیٹ پر ایک سعودی عالم نے عید میلاد النبی ﷺ کی نفی کے لیے یہ موقف اختیار کیا کہ احادیثِ مبارکہ میں صرف عیدین ‘یعنی عید الفطر اور عید الاضحی کا ذکر ہے ‘ کسی اور عید کا ذکر نہیں ہے ‘ ان کی خدمت میں دو احادیثِ مبارکہ پیش کی جارہی ہیں:

(1)”حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اکرمؐ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: یومِ جمعہ عید ہے ‘سو اپنی عید کے دن روزہ نہ رکھو ‘ سوائے اس کے کہ اُس سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد کو ملا کر رکھو‘‘ (المستدرک للحاکم:1595‘ مسند احمد:8025)۔

(2)”حضرت نعمان بن بشیر بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ عیدین اور جمعہ میں (پہلی رکعت میں )سورۃ الاعلیٰ اور(دوسری رکعت میں) سورۃ الغاشیہ پڑھتے تھے اور کبھی جمعے کے دن عید واقع ہوجاتی تو آپ ﷺ جمعہ اور عید دونوں کے خطبات میں یہ دو سورتیں پڑھتے تھے‘ ابو عوانہ کے الفاظ یہ ہیں:کبھی ایک دن میں دو عیدیں جمع ہوجاتیں (یعنی ایک یومِ عید اور دوسرا یومِ جمعہ )‘‘ (مسند احمد:18409)۔

ان دونوں احادیث میں رسول اکرمؐ نے یومِ جمعہ کو یومِ عید قرار دیا ہے ‘لہٰذا یہ کہنا کہ عیدین کے علاوہ کسی اور دن کے لیے عید کا کوئی تصور نہیں ہے ‘درست نہیں ہے؛ چنانچہ گزشتہ کالم میں ہم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے نزولِ مائدہ کو عید قرار دیے جانے کا ثبوت سورۂ مائدہ کے حوالے سے درج کیا ۔

برصغیر کی مسلّمہ دینی وعلمی شخصیت شاہ ولی اﷲ محدّث دہلوی ”اَلدُّ رُالثَّمِیْن فِیْ مُبَشَّرَاۃِ النَّبِیِ الْاَمِیْن‘‘میں لکھتے ہیں:
”میلاد کا اہتمام میرے والد گرامی(شاہ عبدالرحیم ) فرماتے تھے کہ میں یومِ میلاد کے موقعہ پر کھاناپکوایاکرتاتھا۔اتفاق سے ایک سال کوئی چیز میسر نہ آسکی کہ کھاناپکواؤں ‘ صرف بھنے ہوئے چنے موجود تھے؛چنانچہ یہی چنے میں نے لوگوں میں تقسیم کیے۔خواب میں دیکھاکہ آنحضرتﷺتشریف فرماہیں‘یہی چنے آپ کے سامنے رکھے ہیں اورآپ نہایت خوش اور مسرور دکھائی دے رہے ہیں‘‘ (رسائل ِ شاہ ولی اﷲ دہلوی: 254) یعنی میلاد کایہ اہتمام رسول اکرم ﷺکی نظرمیں محبوب تھا۔

شیخ عبداللہ بن محمد بن عبدالوہاب نجدی” مختصر سیرۃ الرسول ‘‘ میں لکھتے ہیں: ”ثُوَیبہ ابولہب کی باندی تھی ‘ جب نبی کریم ﷺ کی ولادت ہوئی‘تواس نے اپنے آقا کو بھتیجے کی ولادت کی خوشخبری سنائی‘اس خوشی میں ابولہب نے انگلی کے اشارے سے اُسے آزادکردیا‘ بعدمیں ثُوَیبہ نے آپ ﷺکو دودھ بھی پلایا۔ابولہب کی وفات کے بعد کسی نے اسے خواب میں دیکھا اور پوچھاکہ تمہارے ساتھ کیاسلوک ہوا؟اس نے بتایا: تم سے جدا ہونے کے بعد عذاب میں مبتلاہوں‘ مگرہرپیرکے دن انگلی سے ٹھنڈک ملتی ہے۔پس مقامِ غور ہے کہ جب ابولہب جیسے دشمن ِ رسول کافرکو ولادتِ محمد بن عبداللہ کی خوشی منانے پر جہنم میں راحت مل سکتی ہے‘ تو ایک مسلمان کومحمد رّسول اللہﷺکی ولادت کی خوشی منانے پر بے پایاں اجرکیوں نہیں ملے گا؟‘‘یہ عبارت کاخلاصہ ہے۔ امام محمد بن اسماعیل بخاری نے بھی قدرِاختصار کے ساتھ اسی واقعہ کو بیان کیا ہے‘‘(صحیح بخاری:5101)۔

علامہ سعیدی نے علمائے دیوبند کے شیخِ طریقت حاجی امداداللہ مہاجر مکی کا یہ قول نقل کیا: ”اور مَشرَب فقیر کا یہ ہے کہ محفلِ مَولِد میں شریک ہوتاہوں‘بلکہ ذریعۂ برکات سمجھ کرہرسال منعقد کرتاہے اورقیام میں لطف ولذت پاتاہوں‘‘(فیصلہ ہفت مسئلہ:05)… وہ مزید لکھتے ہیں: ”ہمارے علماء مَولِد شریف میں بہت تنازعہ کرتے ہیں‘تاہم علماء جواز کی طرف بھی گئے ہیں‘جب صورت جواز کی موجود ہے‘پھر کیوں ایسا تشدد کرتے ہیں اور ہمارے واسطے اِتَّباعِ حرمین کافی ہے‘البتہ وقت قیام کے اعتقاد تولُّد کا نہ کرنا چاہیے‘اگر احتمالِ تشریف آوری کیا جاوے ‘ مُضائقہ(حرج)نہیں‘کیونکہ عالم خَلق مقید بہ زمان ومکان ہے ‘لیکن عالَم اَمر دونوں سے پاک ہے ‘ پس قدم رنجا فرمانا ذاتِ بابرکات کا بعید نہیں ‘‘…وہ مزید لکھتے ہیں: ”مولِد شریف تمام اہلِ حرمین کرتے ہیں‘ اسی قدر ہمارے واسطے حجت کافی ہے اور حضرتِ رسالت پناہ کا ذکر کیسے مذموم ہوسکتاہے؟

البتہ جو زیادتیاں لوگوں نے اختراع کی ہیں ‘ نہ چاہئیں اور قیام کے بارے میں کچھ نہیں کہتا‘ہاں مجھ کو ایک کیفیت‘ قیام میں حاصل ہوتی ہے‘‘…وہ مزید لکھتے ہیں: ”اگر کسی عمل میںغیر مشروع عوارض(خارجی امور)لاحق ہوں ‘ تو اُن عوارض کو دور کرنا چاہیے‘نہ یہ کہ اصل عمل سے انکار کردیا جائے‘ایسے امور سے انکار کرنا خیر کثیر سے بازرکھنا ہے‘ جیسے قیام ِمولِد شریف‘اگر بوجہ آنے نام آنحضرت کے کوئی شخص تعظیماً قیام کرے تو اس میں کیا خرابی ہے؟‘جب کوئی آتاہے تولوگ اس کی تعظیم کے واسطے کھڑے ہوجاتے ہیں‘اگر سردارِ عالَم وعالمیاں(رُوحی فداہُ)کے اسمِ گرامی کی تعظیم کی گئی تو کیا گناہ ہوا‘‘(شمائمِ امدادیہ:47,50,68)۔

علمائے دیوبند کے مُسَلمَّہ پیشوا علامہ اشرف علی تھانوی نے اس آخری جملے پر حاشیے میں لکھا ہے: ” البتہ اصرار کرنا کہ تارکین سے نفرت کرنازیادتی ہے‘‘(امدادالمشتاق:68)۔اس عبارت سے ہمیں اتفاق ہے ‘ کیونکہ کسی مستحب یا پسندیدہ امر کو ترک کرنے پر ملامت کرنا اسے واجب قرار دینا ہے اور یہ درست نہیں ہے ۔ اس حاشیے پر علامہ غلام رسول سعیدی نے یہ اضافہ کیاہے : ”اور میں کہتا ہوں کہ اس سے بھی بڑی زیادتی یہ ہے کہ محفلِ میلاد کو ”بدعتِ سَیِّئَہ‘‘ قرار دیا جائے اور میلاد شریف کرنے والوں سے نفرت کی جائے اور انہیں اہلِ بدعت کے نام سے پکارا جائے‘‘۔
ہمارا مَوقِف بھی یہی ہے کہ فی نفسہٖ میلادالنبیؐؐ جائز‘بلکہ مستحسن ہے ‘ لیکن میلادالنبی کے عنوان سے قائم مجالس اور جلوسوں کو ہر قسم کی بدعات‘ مُنکَرات اور خرافات سے پاک ہوناچاہیے‘ تاکہ چند لوگوں کی بے اعتدالیوں کی بنا پر ایک مستحسن امر کے خلاف منفی پروپیگنڈے کا جواز نہ مل سکے۔

مشہور اہلحدیث عالِم علامہ وحیدالزمان لکھتے ہیں: ”اس حدیث(یعنی رسول اللہ کے پیرکا روزہ رکھنے) سے ایک جماعتِ علماء نے آپ کی ولادت کی خوشی ‘یعنی مجلسِ میلاد کرنے کا جوازثابت کیاہے اورحق یہ ہے کہ اگراس مجلس میں آپ ﷺکی ولادت کے مقاصداوردنیاکی رہنمائی کے لیے آپ کی ضرورت اورامورِرسالت کی حقیقت کوبالکل صحیح طریقہ پر اس لیے بیان کیاجائے کہ لوگوں میں اس حقیقت کاچرچا ہواورسننے والے یہ ارادہ کرکے سُنیں کہ ہم کو اپنی زندگیاں اُسوۂ رسول کے مطابق گزارنا ہیںاور ایسی مجالس میں کوئی بدعت نہ ہو‘تومبارک ہیں ایسی مجلسیں اور حق کے طالب ہیں ان میں حصہ لینے والے‘ بہرحال یہ ضرور ہے کہ یہ مجلسیں عہدِ صحابہ میں نہ تھیں‘‘(لغات الحدیث‘ جلد:3ص:119)۔

یہ بات درست ہے کہ موجودہ ہیئت پر جو مجالسِ میلادالنبی ؐ منعقد ہوتی ہیں یا جلوس کا شعار ہے ‘ یہ جدید دور کی معروف اَقدار ہیں اور دین کے بہت سے شعبوں میں ہم نے دورِ جدید کے شِعار اور اَقدار کو اپنایا ہے‘ مثلاً : مُصحفِ مبارک میں سورتوں کے نام‘ آیات کی علامات‘ اِعراب لگاناوغیرہ۔ کتبِ احادیث بھی دوسری صدی ہجری میں یااس کے بعد مرتب ہوئیں ۔ قرآن وحدیث کو سمجھنے کے لیے تمام معاون علوم بعد میں ایجاد اور مُدَوَّن ہوئے ‘عالی شان مساجدا ور مدارس قائم ہوئے ‘ دینی لٹریچر کی جدید اندازمیں نشرواشاعت کا انتظام ہوااورکسی نظریے سے وابستگی کے اظہار کے لیے یا کسی غلط بات کے ردّ اوراس پر احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے جلوس نکالنے کی روش قائم ہوئی۔

قریباً تمام مکاتبِ فکر نے دینی مقاصد کے لیے جلوس نکالے‘ مثلاً: شوکتِ اسلام ‘ نفاذِ شریعت ‘ ناموسِ رسالت اور عظمتِ صحابہ وغیرہ کے نام پر جلوس نکالے جاتے رہے ہیں اور یہ تمام سرگرمیاں دین اور مقاصدِدین سے تعلق رکھتی ہیں اور انہیں اس دورمیں قبولِ عام مل چکا ‘ اسی طرح دینی جماعتوں کاقیام‘ تبلیغی اجتماعات کاانعقاد‘ افتتاحِ بخاری یا ختم ِبخاری کی تقریبات ‘ مدارس کے سالانہ جلسے یا پچاس سالہ اورڈیڑھ سوسالہ جشن‘ سیرت النبی ﷺکے جلسوںکاانعقاد‘ انٹرنیٹ پردرسِ قرآن اورالیکٹرانک وسوشل میڈیا کا دین کے ابلاغ کے لیے استعمال وغیرہ ۔ مقامِ حیرت ہے کہ اس طرح کی تمام سرگرمیوں پر کبھی کسی نے کوئی فتویٰ صادر نہیں کیا‘ توصرف محافل وجلوسِ میلادالنبی ؐ کو ہدفِ تنقید بنانا یا بدعت قرار دینا انتہائی زیادتی ہے۔

میلادالنبیﷺکو بدعت قرار دینے والوں کا کام آسان ہے کہ وہ فتویٰ دے کر اپنے فرض سے سبکدوش ہوجاتے ہیں ‘ لیکن میرا درد اِس سے سوا ہے۔میری خواہش ہے کہ ان مجالس کو دینی تعلیم وتربیت کا مؤثر ذریعہ بنانا چاہیے اور محبت ِ رسولﷺکاثمر اطاعت واتباعِ نبوی کی صورت میں ظاہر ہوناچاہیے۔پیشہ وَر واعظین‘ موضوع روایات بیان کرکے لوگوں کی عقیدت کو اپنی دنیاسنوارنے کے لیے ابھارتے ہیں اوراِسے ذہنی سرور کا ذریعہ بنالیاگیا ہے۔خیر کاکام اس انداز سے ہوناچاہیے کہ اُس کے مثبت نتائج برآمد ہوں‘ لاؤڈ سپیکر کا استعمال بقدرِضرورت اور مناسب وقت تک ہو‘یہ نہ ہو کہ لاؤڈ سپیکر کے شور سے لوگوں میں بیزاری اور نفرت پیداکی جائے‘کسی اور کی غلط رَوِش کو اپنے لیے جواز نہ بنایاجائے۔

چراغاں کے لیے بجلی کا استعمال قانون کے دائرے میں ہونا چاہیے ‘ناجائز طریقے اختیار کرکے اُسے سعادت یا باعثِ اجرسمجھنا غیر شرعی فعل ہے‘اﷲفرماتاہے : ”اے ایمان والو ! (اللہ کی راہ میں ) اپنی پاکیزہ کمائی میں سے او ر اُن چیزوں میں سے خرچ کروجوہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالی ہیں‘اور ناقص چیزیں خرچ کرنے کا اِرادہ نہ کرو ‘ جن کو تم خود بھی چشم پوشی کیے بغیر(خوشدلی سے کبھی) نہ لو‘‘(بقرہ:267)۔مالِ حرام کوحرام سمجھتے ہوئے اﷲکی راہ میں صدقہ کرنااوراس پراجرکی امیدکرناروحِ ایمان کے منافی ہے‘اسی طرح رسول اکرمؐ کی بارگاہ میں صلوٰۃ وسلام عرض کرنے کے لیے کھڑا ہونا آداب میں سے ہے ‘ پس جو خوشی سے کھڑا ہو ‘ الحمد للہ یہ سعادت ہے ‘ لیکن جو کسی عذر کے سبب یا بلاعذر کھڑا نہ ہو ‘ اُسے ملامت کرنا درست نہیں اور اسی طرح کھڑے ہونے والوں کو ملامت کرنا بھی نامناسب طرزِ عمل ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے