مکالمے کی عملداری میں اندھیرا

یہ گفتگو میں نے سنی۔ ایک صاحب اپنے کسی دوست کی شکایت کررہے تھے کہ وہ کتنا مشکل آدمی ہے۔ جو بات کہہ دیتا ہے، اسی پر اڑا رہتا ہے، کسی دوسرے کی سنتا ہی نہیں۔ ان سے پوچھا کہ یہ ضد تم نے کس سے سیکھی ہے تو جواب ملا کہ عمران خان سے…! دوسرے صاحب نے کہا کہ میرا بھی ایک دوست ہے جو کسی بات پر ٹکتا ہی نہیں۔

اکثر تو کہتا کچھ ہے اور کرتا کچھ اور ہے اور اس نے بھی یہ ادا عمران خان سے سیکھی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ دوسرے صاحب نے اپنا سیاسی چھکا لگانے کیلئے اسی وقت یہ قصہ گھڑ لیا ہو لیکن یہ بات چیت کہ جسے میں اپنے لفظوں میں بیان کررہا ہوں، میں نے واقعی سنی۔ اسی ہفتے کراچی کے ایک بڑے ہوٹل میں ایک کانفرنس کے چائے کے وقفے میں کہ جب لوگ کندھے سے کندھا ملائے کھڑے ہوتے ہیں اور جہاں شناسا چہروں سے علیک سلیک ہوجاتی ہے۔ بہرحال اس گپ شپ نے مجھے سوچنے پر مجبور کردیا۔

کتنی عجیب بات ہے کہ دونوں بنیادی طور پر متضاد تبصرے اپنی اپنی جگہ بالکل جائز تھے۔ عمران خان کی ثابت قدمی اور ایک خاص مقصد کیلئے اتنی طویل جدوجہد، اپنی مثال آپ ہے اور پھر یہ بھی تو سچ ہے کہ اقتدار کے حصول کے آخری مرحلے میں اور اس کے بعد انہوں نے تقریباً ہر وہ کام کیا ہے جس کی وہ پہلے مذمت کرتے تھے اور اس کی گواہی پرانے ’’لوٹے‘‘ مسلسل دیتے رہتے ہیں۔ حیرت ہوتی ہےکہ یہ نیوز چینلز والے کیسے پرانی کہی ہوئی باتوں کے انبار میں سے وہ سوئی ڈھونڈ لاتے ہیں کہ جس سے کسی سیاستدان کے تازہ بیان یا اقدام کے غبارے کی ہوا نکالی جاسکے۔ بس مشکل یہ ہے کہ اس نوک جھونک سے کچھ حاصل نہیں ہوتا، کسی کی رائے نہیں بدلتی، کسی کی معلومات میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی ٹاک شو سن کر یا کسی گفتگو میں دی جانے والی دلیل سے متاثر ہوکر سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہو اور اسے کسی کتاب کے پڑھنے کی یا کسی واقعہ یا مسئلے کو نئے سرے سے دیکھنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہو۔

موجودہ حکومت کے ابتدائی ایک سو دنوں کی کارکردگی کے حوالے سے عمران خان کی حمایت کرنے والے اور اس کی مخالفت کر نیوالے کیا کچھ کہہ رہے ہیں، یہ ایک الگ بات ہے۔ میں اسکی طرف محض ایک اشارہ کرکے آگے بڑھنا چاہتا ہوں۔ میری تشویش یہ ہے کہ ان دنوں ہمارے ملک میں مکالمے کا معیار اتنا گر گیا ہے کہ سچ تو یہ ہے کہ نہ کوئی بات کہی جارہی ہے اور نہ کوئی بات سنی جارہی ہے اور یہ صورتحال اس وقت ہے کہ جب اتنے بہت سے لوگ مسلسل بول رہے ہیں۔ بلند آواز میں اپنی بات کہتے ہیں، آستینیں چڑھا کر اور منہ سے جھاگ نکال کر کہتے ہیں۔ ٹاک شوز کی یہ روش تو اب پختہ ہوچکی ہے لیکن پارلیمنٹ کی مقدس فضا بھی تو باربار بازار کے شور سے مکدر ہوتی رہتی ہے۔

اس ہفتے سینیٹ کے اجلاسوں میں ہم نے جو شور شرابا دیکھا، اس نے ضرور اس ملک کے سنجیدہ حلقوں کو ہراساں کیا ہوگا۔ میرا کہنا ہے کہ یہ بھی ایک نشانی ہے کہ ہماری اجتماعی ذہنی کیفیت کیا ہے اور کیسے مکالمے کی پستی اور عامیانہ پن نے مسائل کو سمجھنے اور ان کو حل کرنے کی قومی صلاحیت کو مجروح کیا ہے۔ غضب خدا کا پولیس کے ایک اعلیٰ افسر طاہر داوڑ کے اسلام آباد سے اغواکی خبر دو ہفتوں تک کوئی خاص توجہ حاصل نہ کرسکی اور پھر جب یہ دل دہلا دینے والا انکشاف ہوا کہ طاہر داوڑ کو افغانستان کے کسی مقام پر قتل کردیا گیا ہے، تب بھی ماردھاڑ سے بھرپور فلم پردے پر چلتی رہی جس کے ہیرو ہم کہہ سکتے ہیں کہ فواد چوہدری تھے۔ اب یہ ہم کس سے پوچھیں کہ اس فلم کا اسکرپٹ آخر کس نے تحریر کیا ہے اور حکومت کے اپنے وزیر مرکزی کردار ادا کرنے کیلئے کیونکر ایک دوسرے کا مقابلہ کررہے ہیں۔

ذمہ داری تو آخر عمران خان کی ہی ہے۔ وہ خود کس کے بس میں ہیں، یہ نہیں معلوم لیکن پارٹی کی ساری ڈوریاں تو انہی کے ہاتھوں میں ہیں جبھی تو کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ ہنگامہ آرائی اور حزب اختلاف پر چڑھائی ایک سوچی سمجھی پالیسی کا نتیجہ ہے۔ اگر ایسا ہے تو سماجی علوم کے کسی ماہر سے یہ بھی پوچھ لینا چاہئے کہ افراتفری اور انتشار کی کیفیت کا معاشرے کی نفسیات پر کیا اثر پڑتا ہے اور ایک نیا پاکستان بنانے کے عمل میں اس خلفشار سے کوئی مدد ملتی ہے یا اس سے کوئی نقصان ہوتا ہے۔

جب ہم مکالمے کے معیار اور اس کی اہمیت کی بات کرتے ہیں تو پھر میڈیا کے کردار اور اس کی ذمہ داری کو سمجھنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ ہمارا میڈیا اس وقت کس حال میں ہے، اس کا تذکرہ میرے بس میں نہیں۔ پردہ نشینوں کا ذکر نہ بھی کریں، تب بھی صورتحال کی وضاحت آسان نہیں ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ میڈیا شائستہ اور معقول قومی مکالمے کو فروغ نہیں دے پا رہا جبکہ یہی اس کا بنیادی فریضہ ہے۔ اگر اس مکالمے کے راستے میں انتہا پسندی اور عدم برداشت کی دیوار بھی کھڑی ہے تو اس دیوار کو گرانا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن ابھی دو ہفتے قبل ہم نے دیکھا کہ اس دیوار پر اقتدار کا پرچم بھی لہرا رہا تھا۔

مکالمے کی عملداری میں میڈیا کے علاوہ ایک اور علاقہ بھی ہے اور ہمارے ملک میں وہاں بھی دھول اڑ رہی ہے۔ میرا مطلب ہے اعلیٰ تعلیم کے ادارے، ترقی یافتہ ملکوں میں یونیورسٹی کا کیمپس ایک ایسی جگہ ہوتی ہے کہ جہاں سوچنے اور تحقیق کرنے کی مکمل آزادی ہوتی ہے۔ نئے خیالات، نئی ایجادات بلکہ ایک نئی دنیا کیمپس کی فضا میں پروان چڑھتی ہے۔ گزشتہ سال ایک کیمپس پر مشال خان کو جس طرح اس کے ساتھی طالب علموں نے قتل کردیا، اس سے اندازہ لگا لیں کہ ہم کس دنیا میں رہتے ہیں۔

اب تو بہت سال ہوگئے کہ جب میں ایک نئے انگریزی اخبار کا ایڈیٹر تھا تو میں ایک امریکی سیاستدان کے اس مقولے کا بہت ذکر کیا کرتا تھا کہ ایک اخبار دراصل قوم کا اپنے آپ سے مکالمہ ہوتا ہے۔ ہماری قوم اپنے آپ سے کوئی مکالمہ کرتی دکھائی نہیں دے رہی۔ یہ الگ بات کہ شور بہت مچ رہا ہے، بول سب رہے ہیں۔ ایک کم پڑھے لکھے معاشرے میں نیوز چینلز کے بیشتر ٹاک شوز اُودھم مچا رہے ہیں اور عام لوگوں کے ذہنوں میں جانبدارانہ سیاست کا زہر انڈیل رہے ہیں۔ ہمارے اپنے کتنے ہی اہم مسائل اس گفتگو میں شامل نہیں ہیں۔ نہ ہی ہمیں یہ پتا ہے کہ دنیا میں کیا ہورہا ہے اور یہ بھی کہ جب دنیا ہماری طرف دیکھتی ہے تو اسے کیا دکھائی دیتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے