افغانستان اور نیا پاکستان

ایس پی طاہر داوڑ کی شہادت ایک انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے اسے افتخار درانی اور شہر یار آفریدی جیسے صاحبان پر نہیں چھوڑا جا سکتا ۔ اہل اقتدار میں اگر کوئی صاحب مطالعہ اور معاملہ فہم آدمی موجود ہے تو اسے بروئے کار آنا ہو گا ۔

کس اعتماد سے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے افتخار درانی نے کہہ دیا طاہر داوڑ پشاور میں ہیں اور خیریت سے ہیں ۔ ایک ایک لفظ سے غیر سنجیدگی اور ناتجربہ کاری چھلک رہی تھی ۔ کیا حکومت کی ترجمانی اس انداز سے کی جا سکتی ہے؟ کیا عمران خان کی ٹیم نے طے کر لیا ہے کہ جس روز اتفاق سے کوئی بحران نہیں ہو گا کپتان کے لیے ہم خود ایک بحران پیدا کر دیا کریں گے ؟ افغانستان جس وقت ریاست پاکستان کو گہرا گھاؤ لگا رہا تھا ہمارے وزیر داخلہ معاملے کو حساس قرار دیتے ہوئے بات کرنے میں بھی متامل تھے ۔ وزیر داخلہ اگر حساس معاملے پر بات نہیں کرے گا تو کیا رات نو بجے کے خبرنامے میں موسم کا حال بتایا کرے گا ؟

دارالحکومت سے ایک پولیس افسر کیسے اغوا ہوا ؟ اسلام آباد کے تو کیمرے خراب نکلے، کیا وزیر مملکت برائے داخلہ کے پاس اس سوال کا کوئی جواب ہے کہ اغوا کاروں نے اسے ساتھ لے کر سینکڑوں کلومیٹر کا سفر کیسے طے کر لیا اور اسے افغانستان کیسے پہنچایا ؟ کیا ان سوالوں کے جواب میں بھی وہی اقوال زریں سنائے جائیں گے کہ اپوزیشن چور ہے اور ہم نے اسے این آر او نہیں دینا ؟ سوالی کی طرح ہمارے عمائدین ریاست سرحد پر کھڑے تھے اور افغان حکومت ہمارے سپاہی کا جسد خاکی ہمیں دینے سے انکاری تھی ۔ یہی حرکت کسی اور ملک کے ساتھ کی گئی ہوتی تو سفارتی دنیا میں ایک طوفان کھڑا ہو جاتا لیکن ہمارے ہاں شام ڈھلے حکومت کی سب سے بڑی پریشانی یہ تھی کہ چیئر مین نے فواد چودھری کے سینیٹ داخلے پر پابندی کیوں لگائی ۔ اس عزم مصمم کا ابلاغ پورے اہتمام سے ہوا کہ وزراء کی تضحیک برداشت نہیں کی جائے گی ۔

یہ پہلی بار نہیں کہ افغان حکومت نے پاکستان کے ساتھ ایسا سلوک کیا ہو۔ اس کی ایک تاریخ ہے ۔ پاکستان کے خلاف عملی اور فکری ہر محاذ پر یلغار کی جا چکی ہے ۔ این جی اوز کے پیادے اس محاذ پر عرصے سے کام کر رہے ہیں ۔ ’ مطالعہ پاکستان‘ کی طنزیہ اصطلاح ایجاد کرنے والوں نے اس نئی تاریخ کا شدت سے ابلاغ کیا ہے ۔ سوشل میڈیا کے محاذ پر لکھی گئی اس تاریخ کا آغاز افغان جہاد سے ہوتا ہے اور ’ مورخین‘ کے نزدیک اس خطے کے آدھے مسائل کا ذمہ دار ضیاء الحق اور پاکستان کی ریاست ہے اور نصف کا ذمہ دار مذہبی طبقہ ہے۔ اس لیے اٹھتے بیٹھتے انہی کو سینگوں پر لیے رکھنا صاحب علم ہونے اور روشن خیال ہونے کی اسناد قرار پا چکی ہیں ۔ افغانستان نے یہاں کیا کچھ کیا ، قوم پرست کیسے بروئے کار آئے اور بھارت کا کیا کردار رہا اس کا نومولود مورخین کی تاریخ میں کہیں کوئی ذکر نہیں ۔ چنانچہ اس تاریخ کے طالب آخری تجزیے میں ملامتی مورخ بن جاتے ہیں ۔

تاریخ کو درست تناظر میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ افغان جہاد کے دورانیے کے علاوہ ہر دور میں پاکستان کو افغان حکومتوں کی سازشوں کا سامنا رہا اور ہمارے بعض قوم پرست افغان حکومتوں کے آلہ کار رہے۔ انہیں متحدہ ہندوستان میں رہنے پر تو کوئی اعتراض نہ تھا اور انہوں نے آخری دم تک اس کی کوشش کی کہ صوبہ سرحد بھارت کے ساتھ رہے اور تقسیم نہ ہونے پائے ۔ اس عرصے میں انہیں پشتونستان یاد آیا نہ ’ لر او بر یو افغان‘ کا نعرہ بلند کیا گیا لیکن جیسے ہی قیام پاکستان نوشتہ دیوار کی صورت ان کے سامنے آیا انہوں نے پشتونستان کی بات بھی شروع کر دی اور افغان قوم کی وحدت کا نعرہ بھی بلند کر دیا ۔ پہلے کہا ہم رائے شماری میں حصہ نہیں لے سکتے کیونکہ ہم آزاد پشتونستان چاہتے ہیں اور پھر جب پاکستان قائم ہو گیا تو کہا ہم پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں اس شرط پر بیٹھ سکتے ہیں کہ ہمارا کسی بھی وقت پاکستان سے الگ ہونے کا حق تسلیم کیا جائے۔

درست کہ افغانستان ایک برادر اسلامی ملک ہے اور ہمارے اس کے بارے نیک جذبات ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ افغانستان پہلے دن سے پاکستان کی سلامتی کے درپے رہا ۔ قیام پاکستان کو حقیقت بنتے دیکھا تو تب کے وزیر اعظم ہاشم خان کی سرپرستی میں پشتون زلمے قائم کر دی گئی اور طے کیا گیا پاکستان بنتے ہی یہ زلمے گڑ بڑ پھیلائے اور افغان فوج پاکستان پر حملہ کر دے ۔ پشتون تحریک کے سید جمال شاہ کے مطابق اس خفیہ میٹنگ میں افغان چیف آف سٹاف سردار داؤد ، ان کے چچا وزیر دفاع سردار شاہ محمود اور ایک پاکستانی سیاسی رہنما شریک تھے ۔افغان بادشاہ ظاہر شاہ نے لوئی جرگہ میں پاکستان کے خلاف تقریر کی ۔ بھارت میں افغانستان کے سفیر سردار نجیب اللہ نے کہا بس آج کل میں قبائلی عوام اٹھ کھڑے ہوں گے اور اپنی مرکزی اسمبلی کا انتخاب کر کے حکومت قائم کر لیں گے ۔ کیمبل جانسن کی ڈائری کا مطالعہ بتاتاہے کہ پشتونستان کے تصور کے پیچھے اولف کیرو اور گاندھی دونوں تھے ۔

چودھری محمد علی نے بھی بعد میں یہی انکشاف کیا کہ یہ نعرہ ہی گاندھی نے دیا تھا اور اس کا مقصد نئی ریاست پاکستان کو ناکام کرنا تھا ۔وزیر اعظم داؤد خان نے تو پاکستان میں بغاوت کے لیے باقاعدہ ایک وزارت قائم کی اور اس کا قلمدان خود سنبھالا ۔ پاکستان کے سفارت خانوں پر افغانستان میں حملے کیے گئے اور وہاں لہراتے پاکستان کے پرچم اتار کر پشتونستان کے پرچم لگا دیے گئے ۔

افغان جہاد کے دور میں یہ سازشیں تھم گئیں اور اب وقت نے تھوڑی سی کروٹ بدلی ہے تو تمام سازشیں ایک بار پھر سر اٹھا رہی ہیں ۔ بھارت کی سرپرستی میں افغانستان پاکستان کے خلاف بہت جلد آبی جارحیت بھی کرنے والا ہے ۔ اس تناظر میں دیکھا جائے توافغان حکام کا طاہر داوڑ شہید کا جسد خاکی ریاست پاکستان کی بجائے کچھ اور افراد کے حوالے کرنے پر اصرار قابل فہم ہے ۔ بھارت اور امریکہ بھی افغانستان کے ساتھ کھڑے ہیں اور قوم کے فکری بیانیے کو کنفیوز کرنے کے لیے این جی اوز کے کارندے بھی اہل دانش بن کر میدان میں ہیں ۔ قتل افغانستان میں ہوا ، افغان بارڈر پر افغان فوجی بھی ہیں اور اتحادی افواج بھی بے پناہ وسائل کے ساتھ وہاں تعینات ہیں لیکن اس سے کوئی سوال نہیں پوچھا جا رہا کہ اغوا کار تمہاری سرحد میں کیسے گھسے، وہ کون تھے اور قتل کہاں کب کیسے ہوا اور کس نے کیا ؟ تنقید اور بغض کے ترکش صرف پاکستان پر خالی کیے جا رہے ہیں ۔ کیا یہ محض اتفاق ہے ؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے