تبلیغی جماعت کے تیسرے امیر مولانا عبد الوہاب:کچھ باتیں کچھ یادیں

تبلیغی جماعت یا تحریک دعوت و تبلیغ پاکستان کے بانی حاجی عبد الوہاب صاحب انتقال فرماگئے ۔ مرحوم ۱۹۲۲میں دہلی میں پیدا ہوئے۔جس کے بعد سہارنپور منتقل ہوئے۔سہارنپور علما و مشائخ کا مرکز رہا ہے۔

حاجی صاحب تقسیم ہند سے پہلے ڈپٹی کلکٹر کے عہدے پر فائز رہے۔ اسی دوران تحریک دعوت و تبلیغ کے بانی مبانی شخصیت مولانا الیاس کاندہلوی سے ہوئی ۔مولانا الیاس مرحوم نے ایک بیان میں مطالبہ کیا کہ مجھے دعوت دین کیلئے ایسے قربانی والے افراد کی ضرورت ہے جس کو نہ کھانا ملیگا ، نہ تنخواہ! اور پوری دنیا میں دین اسلام کی دعوت پہنچائے۔ حاجی صاحب ان اولین افراد میں سے تھے جنہوں نے مولانا الیاس مرحوم کا ساتھ دیا۔

حاجی صاحب نے ایک بار فرمایا کہ جوانی میں مجھے شاہ عبدالقادر رائپوری سے استفادے کا موقع ملا۔ اور ان سے بیعت کی۔ مگر مولانا الیاس مرحوم کی مجلس میں جب پہنچا تو انہوں نے اس قدر متاثر کیا کہ انہی کیساتھ مستقل وابستگی اختیار کی۔حاجی صاحب نے دعوت تبلیغ کے مزاج و مذاق کو بہت قریب سے دیکھا، مولانا الیاس کی سوز دوروں ان کو منتقل ہوا، اور اپنی ملازمت وغیرہ ترک کرکے دعوت و تبلیغ سے وابستہ ہوئے۔مولانا الیاس مرحوم کے وفات کے بعد ان کی تشکیل پاکستان ہوئی، اور وہ دعوت و تبلیغ کے دوسرے امیر حضرت جی مولانا یوسف کاندہلوی سے وابستہ ہوئے۔ حاجی صاحب نے مولانا یوسف کاندہلوی سے بھرپور استفادہ کیا۔ ان کے تمام ملفوظات کو اپنے ڈائریوں میں محفوظ کیا، اور وقتا فوقتا مختلف بیانات و مواعظ میں انہی ملفوظات کو من و عن بیان فرماتے۔

مولانا یوسف مرحوم کی ۱۹۶۵وفات کے بعد حضرت جی ثالث مولانا انعام الحسن کاندہلوی کیساتھ ملکر کام کیا۔ اور پاکستان میں دعوتی مشن پر گامزن رہے۔حاجی بشیر صاحب کی وفات کے بعد ۱۹۹۲میں پاکستان کے تبلیغی جماعت کے امیر منتخب ہوئے،جبکہ تمام بزرگوں نے دعوتی کام میں ان کی شخصیت پر اعتماد کیا، دنیا بھر کے دعوتی مراکز حاجی عبدالوہاب صاحب کی رائے کو اہمیت دیتے تھے،

حاجی صاحب مرحوم نے زندگی بھر انتہائی مشقت اور جہد مسلسل کیساتھ دعوتی تحریک کو آگے بڑھایا، یہ وہ وقت تھا جب پاکستان میں کوئی ان کی بات سننے کیلئے تیار نہیں تھا، بعض پیروں فقیروں نے ان کو مسجدوں سے نکال دیا۔ کئی بار ان پر حملے ہوتے رہے، نہ تو سیکیورٹی لی،نہ تشہیر، نہ حالات سے متاثر ہوئے نہ مال و زر سے،والد صاحب مرحوم اور حاجی صاحب نے سخت ترین علاقوں کا رخ کیا.

فاٹا قبائل کی سنگلاخ چٹانوں کو عبور کرکے تمام قبائل کو دعوتی کام میں جوڑ دیا، یہ وہ دور تھا جہاں روس نے سوشلسٹ تحریک پر بہت زیادہ انوسٹمنٹ کی تھی، میرے خیال سے فاٹا کے وادیوں کو پاکستان سے ملانے میں تبلیغی جماعت نے کلیدی اختیار کیا۔

بلوچستان کے وہ علاقے جہاں کسی “پنجابی” کا داخلہ ممنوع تھا حاجی صاحب وہاں جماعتیں بھیجتے رہے تاکہ دعوت و تبلیغ کیساتھ ساتھ کلچر کانفلیکٹ پر قابو پاسکے.

ایک بارتحریک طالبان پاکستان نے حاجی صاحب کا قافلہ گھیر لیا اور کہا کہ ہمیں نصیحت فرمائیں !حاجی صاحب نے جرآت مندانہ انداز میں سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، “ کہ مارنے اورمروانے سے اسلام نافذ نہیں ہوگا بلکہ اللہ تعالی سے صلح کرلو، اللہ کو راضی کرلو سارے کام ہوجائیں گے! جرآت و بہادری میں وہ اپنی مثال آپ تھے.

ایک بار جب پہلی بارمیاں نواز شریف وزیراعظم بن گئے تو ایک بارائیونڈ تبلیغی مرکز تشریف لائے، میاں صاحب حاجی صاحب کے پاس گئے اور ان کو ایک خطیر رقم بطور چندہ پیش کرنا چاہا، حاجی صاحب نے کہا میاں صاحب ! ہمیں پیسے نہیں آپ کا وقت چاہئے،اگر آپ اللہ کی راہ میں تین دن دے سکتے ہیں یا چالیس دن ؟ تو بسم اللہ!
میاں صاحب نے کہا اتنے پیسے آفر کرنیوالا آپ کو کوئی اور نہیں ملیگا، حاجی صاحب نے فرمایا ! میاں صاحب! آپ کو اتنی خطیر رقم واپس کرنیوالا بھی کوئی نہیں ملیگا!

مشرف دور حکومت میں اسلام آباد اجتماع پر پابندی لگائی گئی، اس دور کے وزیر داخلہ آفتاب شیرپاؤ تھے، پرویز مشرف نے شیخ رشید کو حاجی صاحب سے مذاکرات کیلئے بھیج دیا، حاجی صاحب نے محبت میں ایک تھپڑ رسید کیا، شیخ رشید نے پرویز مشرف سے کہا کہ حاجی صاحب سے تھپڑ کھا چکا ہوں اور وہ مان نہیں رہے! پرویز مشرف نے کہا اگرچہ مجھے ان کا تھپڑ بھی قبول ہے بشرطیکہ اجتماع نہ ہو، کیوں کہ سیکیورٹی تھریٹ ہے۔

حاجی صاحب ان کو محبت سے سمجھاتے رہے کہ اجتماع ایک پرامن تقریب ہے جس سے خوف ہراس کم ہوتا ہے، عبادت کے ذریعے اللہ خوف و دہشت کو ختم کرے گا، حکمت و بصیرت اس درجے کی تھی کہ والد مرحوم سے رابطہ کیا اور حکم دیا کہ فورا آفتاب شیر پاؤ وزیرِداخلہ کے حلقے چارسدہ سے چند اہم تبلیغی ارکان کو ساتھ لے جائیں ، اور آفتاب شیر پاؤں کو قائل کریں کہ ہم حکومت کیساتھ ہر تعاون کیلئے تیار ہیں مگر اجتماع ہر صورت میں ہوگا۔ علاقائی احباب سے مذاکرات کے بعد شیرپاؤ صاحب راضی ہوئے اور اجتماع ہوگیا۔

حاجی صاحب کی زندگی میں بہت ساری مشکلات پیش آئیں مگر انہوں نے جس تندہی اور حکمت کیساتھ اس سلسلے کو چلایا وہ اپنی مثال آپ ہے.

اپنوں کی بے وفائی اور غیروں کی بے اعتنائی کے باوجود وہ بزرگوں کے اصولوں پر قائم رہے، ان کو ڈرایا گیا، دھمکایا گیا، مگر وہ ہمت و استقلال سے کام کرتے رہے.

وہ اس صدی کے موثر ترین شخصیات میں سے ایک تھے، چھیانوے سال کی طویل عمر اور ہنگامہ خیز زندگی گزارنے کے بعد وہ آج ہمیشہ کیلئے رخصت ہوئے۔والد مرحوم کے بعد مولانا سمیع الحق کی شہادت اور اب حاجی صاحب کی وفات میرے لئے ایک بہت گہرا غم ہے.

اللہ ان کے درجات کو بلند فرمائے، اور عدم تشدد پر مبنی دعوت و تبلیغ اور اصلاح معاشرہ کی تحریک بہترین رجالِ کار عطا فرمائے۔ آمین

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے