پہلے یہ تو بتاؤ کہ کونسی صحافت اور کون سا نظریہ؟

شہریار خان

دنیا بھر میں کچھ بھی بنئے بس صحافی بننے کی جستجو نہ کیجئے گا، تمام پرائیویٹ اور سرکاری ملازمتوں میں تجربہ بڑھنے پر ترقی ملتی ہے یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے، یہاں تجربہ آپ کا دشمن بن جاتا ہے، عدم تحفظ کا شکار لوگ آپ کی ٹانگ کھینچنا شروع کر دیتے ہیں۔

آپ سے آدھی تنخواہ پر کام کرنے کے لیے آپ ہی کے دوست تیار ہو جاتے ہیں۔آج آپ کو نوکری سے فارغ کیا جائے تو کل آپ کی جگہ پچاس لوگ اپنا سی وی لے کر پہنچ جائیں گے، یہ ہے ہمارا کل اثاثہ۔ پیسے کمائے نہیں عزت کمائی تھی جو سر بازار نیلام ہوتی ہے جب چپراسی آ کر آپ کو برخاستگی کا نوٹس پکڑا کے کہتا ہے کل سے دفتر نہیں آنا۔

جس دفتر میں آپ نے تین عشروں سے زیادہ ملازمت کی ہو، وہاں کی دیواروں سے بھی آپ کو انسیت ہو جاتی ہے لیکن کمال ہے آپ کے ساتھ بیٹھے لوگوں کو فرق ہی نہیں پڑتا اگر آپ کو ملازمت سے نکال دیا جائے وہ اپنی ملازمت کی فکر میں سر جھکا کے کام کرتے رہیں گے۔
ایک اخبار جس کے بارے میں یہی سنتے تھے کہ یہ تحریک پاکستان کے دنوں میں مشن کے طور پر شروع کیا گیا۔ میرے والد نے چالیس سال سے زیادہ اس ادارہ میں کام کیا، اس کے بانی حمید نظامی مرحوم تھے۔ ابو جی کہا کرتے یہ اخبار نہیں ایک مشن ہے۔

ایک مرتبہ بتانے لگے مجھے رپورٹنگ سے ہٹا کر میگزین میں ٹرانسفر کیا گیا،کسی کام سے مجھے کراچی جانا پڑا، ائیرپورٹ پر جنگ کے بانی میر خلیل الرحمن مرحوم مل گئے تو انہوں نے کہا انوار فیروز صاحب، آپ ہمارے یہاں رپورٹنگ پہ آ جائیں تو میں نے شکریہ کے ساتھ انکار کر دیا۔

میں نے پوچھا کیوں؟۔ تو کہنے لگے بیٹے یہ صرف اخبار نہیں ایک نظریہ ہے۔ پھر ہم نے دیکھا یہاں اس نظریہ کے نام پر پورے ملک میں بڑے بڑے دفاتر بنائے گئے لیکن ملازمین کی حالت کبھی نہ سدھری، مجید نظامی مرحوم جنہوں نے اپنے بھائی کے اخبار کو اعلیٰ اخلاقی اقدار کے ساتھ چلایا۔

اپنے بڑھاپے میں انہوں نے اخبار اپنے بھتیجے اور حمید نظامی مرحوم کے صاحبزادے عارف نظامی کے حوالہ کرنے کے بجائے اپنی لے پالک اولاد رمیزہ نظامی کے حوالہ کر دیا۔ عارف نظامی نے اپنا اخبار شروع کر دیا۔ رمیزہ کے حوالہ سے سب نے سوچا نوجوان ہے اچھے انداز میں ادارہ چلائے گی۔

سب سے پہلے رمیزہ نے مجید نظامی دور کے سینئر افراد کو ملازمتوں سے فارغ کیا، پھر اخلاقی اقدار فارغ ہوئیں اور اس کے بعد باری آتی ہے شناخت کی۔ انہوں نے بے قدری کے ساتھ اس مشن کو بند کرنے کی ٹھان لی۔
مجید نظامی صاحب کے دور میں بھی برے حالات سے گزرنے کے باوجود کبھی تنخواہوں میں تاخیر نہیں ہوئی تھی لیکن یہاں نہ صرف تنخواہیں روکی گئیں بلکہ وقت ٹی وی کو عملاً بند کر دیا گیا۔ نوائے وقت نیشن سے ورکرز کو نکالا جا رہا ہے۔

ویسے تو حالات تمام میڈیا دفاتر میں ایسے ہی آ گئے ہیں اور پی ٹی آئی حکومت کے پہلے سو روز مکمل ہونے سے پہلے ہی یوں لگتا ہے جیسے مالکان اخبارات و ٹی وی چینل کنگال ہو گئے ہیں۔ گزشتہ پانچ سالہ دور حکومت میں اکاون ارب روپے کھا جانے والے صرف دو ماہ میں ہی گھبرا گئے۔

یوں محسوس ہوتا ہے جیسے صحافت ایک غیر منافع بخش کاروبار ہے حالانکہ یہ تمام میڈیا ہاﺅسز دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہے تھے صرف دو ماہ میں کیوں انہیں محسوس ہونے لگا کہ یہ ٹائی ٹینک ڈوبنے والا ہے، اس سے چھلانگیں لگنا شروع ہو گئیں۔

چند روز قبل ایسے بزرگ اور سینئر صحافیوں کو ریٹائر کیا گیا ہے جن کے تجربہ سے استفادہ کیا جا سکتا تھا، ریٹائرمنٹ پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا لیکن اعتراض طریق کار پر ہے، ان سینئر صحافیوں کو دفتر کے نائب قاصد نے آ کر بتایا کہ آپ کی عمر پوری ہو چکی ہے کل سے دفتر تشریف لانے کی زحمت نہیں کیجئے گا۔

بعد میں چیف رپورٹر دفتر پہنچے تو انہوں نے بھی یہی خوشخبری سنائی اور سب سے آخر میں انہیں ریذیڈنٹ ایڈیٹر صاحب نے یہ نوید دی۔ یہ ہے ہمارے تجربہ کی اوقات، بہرحال تجربہ کی یہاں ضرورت ہوتی تو بڑے سے بڑے چینل پر اینکرز صحافی ہوتے ۔

یہاں صورتحال یہ ہے کہ اپنے اپنے شعبہ میں ناکامی کے بعد کوئی دندان ساز، کوئی ڈاکٹر، کوئی فیشن ڈیزائنر، کوئی فلم پروڈیوسر، کوئی ناکام وکیل یا پھر سیاستدان اینکرز کی جگہ لے کر بیٹھے ہیں۔ یہ افراد لاکھوں روپے تنخواہ لیتے ہیں اور صرف چند گھنٹے میں ایجنڈا پورے کر کے چلتے بنتے ہیں۔

صحافت کی ڈگری لے کر کئی سال تجربہ کی بھٹی میں جلنے کے بعد بھی گھر کی چھت نہ ڈال سکنے والا صحافی یا پھر ایک غریب میڈیا ورکر۔۔ تمام زندگی کی کمائی جوڑے بھی تو ایک سیکنڈ ہینڈ گاڑی ہی بچتی ہے وہ بھی دفتر کی ڈیوٹی میں ٹوٹ پھوٹ چکی ہوتی ہے۔
ایک سینئر صحافی کو روز ڈرایا جاتا رہا کہ تمہیں نکال دیں گے، طبیعت خرابی کے باوجود دفتر آﺅ،ایسی حالت میں وہ اسمبلی کی کوریج کے لیے جاتے جاتے اچانک ہارٹ اٹیک کا شکار ہوتا ہے، نوکری بچا لیتا ہے لیکن جان نہیں بچ پائی، عبد الرﺅف چوہدری جان سے چلا گیا۔
آج جان بوجھ کر ہمارے شعبہ میں یہ خوف پھیلایا جا رہا ہے کہ میڈیا انڈسٹری کی حالت خراب ہے، اس لیے چھانٹیاں ہو رہی ہیں، کہیں پر تنخواہوں میں تیس فیصد کمی کی جا رہی ہے۔ کوئی پوچھے تو سہی ان سے کہ پچھلے پانچ سال میں نجی شعبہ سے اربوں روپے کمانے کے باوجود حکومت سے بھی اکاون ارب روپے لیے تھے، اس کا کیا ہوا؟۔

لیکن کون پوچھے، یہاں ارب پتی غریب مالکان کی تنظیمیں اور تمام مالکان کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیںجبکہ صحافیوں اور میڈیا ورکرز کی تنظیمیں تقسیم در تقسیم کا شکار ہیں، کوئی بھی اپنی دکان بند کرنے پر تیار نہیں۔

ایسے میں مزدور کے حق کی آواز کہاں سے آئے گی؟۔ بس کوئی غریب ورکر خود کشی کرے گا تو سب تنظیمیں مظاہرہ کریں گی، شمعیں جلائی جائیں گی، زندہ ہیں صحافی زندہ ہیں، کے نعرے لگیں گے، پھر سب گھر وں کو چلے جائیں گے۔

کہاں ہیں زندہ صحافی؟۔ جو چند بچے ہیں وہ بھی اپنے بچوں کو دیکھ دیکھ کر روز مرتے ہیں۔ خدا کے لیے اپنی اپنی دکانیں بندکر کے ورکر کا سوچیں۔

سیاست ورکرز کے ساتھ جڑی ہے کل کوئی آپ کو قائد صحافت، امام صحافت کہنے والا ہی نہیں رہے گا، پھر کس کے سر پہ سیاست کریں گے؟۔

اب بھی وقت ہے سنبھل جائیں اور اپنے ورکرز کو بھی سنبھالیں، ورنہ تاریخ میں لکھا جائے گا ایک تھا ملک جہاں نعرہ زندہ صحافی کا لگتا رہا اور ایک ایک کر کے تمام مرتے رہے، کچھ نے خود کشی کی، کچھ مالکان کی معاشی دہشت گردی کا شکار ہوئے اور کچھ کی جان سچ جاننے میں چلی گئی، لیکن صحافی زندہ ہیں، کیا واقعی صحافی زندہ ہیں؟۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے