حسین نقی کے ساتھ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے اصل میں کیا کیا تھا؟

میں حسین نقی کے بالکل ساتھ کھڑا تھااور رپورٹرز کی لاین میں سب سے آگے جہاں سے چیف جسٹس اور حسین نقی دونوں کے چہرے کے تاثرات کا باآسانی مشاہدہ کر سکتا تھا.. حسین نقی کا لہجہ سخت تھا،نہایت سخت مگر میری دانست میں یہ لہجہ انہوں نے چیف صاحب کے لہجے کے ردعمل میں اختیار کیا تھا وہ یہ سوچ کر نہ آئے تھے، ایسا لگتا تھا کہ چیف جسٹس پہلے سے سوچ کر آئے تھے کہ انہیں کیا کرنا ہے مگر حسین نقی کے لیے یہ غیر متوقع تھا..

میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ چیف جسٹس حسین نقی اور ان کے پروفائل کے بارے میں پہلے سے نہ جانتے تھے اسی لیے ان کے نزدیک جسٹس رضا معتبر و محترم شخص تھے مگر حسین نقی نہیں…

چیف صاحب نے چلا کر پوچھا کہاں ہے حسین نقی، حسین نقی ہجوم میں سے برآمد ہوتے ہی بولے، "میں ہوں حسین نقی” چیف جسٹس نے اسی لہجے میں پوچھا”تم ہو کیا چیز؟”

میرا خیال ہے یہ وہ لہجہ، انداز اور سوال تھا جس نے حسین نقی کو بھی غصہ دلا دیا وہ بھی آواز کی اسی پچ سے ترکی بہ ترکی جواب دینے لگے..تین چار جملوں کا ہی تبادلہ ہوا تھا کہ چیف نے چلا کر حکم صادر کیا کہ حسین نقی کو میری عدالت سے باہر لے جاو گویا ان کے پاس دلائل کم پڑ گئے تھے اور وہ اپنی طاقت کا استعمال کرنے لگے..

ایک پولیس والا فوراً روسٹرم تک آ پہنچا اور گھسیٹ کر باہر لے جانے کی کوشش کرنے لگا.. اس پر وہ دہائی دینے لگے آپ مجھے سنے بغیر باہر نہیں نکال سکتے، چیف جسٹس نے رحم کیا اور بلند آواز میں کہا پھر فوراً معافی مانگو، حسین نقی نے فوراً معافی مانگ لی،

بولنے لگے تو چیف نے پھر چلانا شروع کر دیا "تمہاری ہمت کیسے ہوئی جسٹس عامر رضا سے بدتمیزی کرنے کی” حسین نقی بھی شاید کہنا چاہتے ہوں کہ آپ کی ہمت کیسے ہو رہی ہے مجھ سے بد تمیزی کرنے کی، مگر انہوں نے نہیں کہا” صرف اتنا کہہ پائے کہ میں آپ سے عمر میں بیس برس بڑا ہوں.

دراصل وہ بہت کچھ کہنا چاہتے تھے مگر کچھ بھی نہ کہہ پائے، وہ بتانا چاہتے تھے کہ میری اور جسٹس عامر رضا کی تلخ کلامی ضرور ہوئی ہے مگر میں نے ان سے استعفی نہیں مانگا تھا، وہ کچھ بھی نہ کہہ پائے.. انہیں کچھ کہنے ہی نہ دیا گیا.. دوبارہ حکم صادر ہوا” take him out of my court” وہ پھر کہنے لگے مجھے سن تو لیجیے، مگر فیصلہ سنایا جا چکا تھا…

حسین نقی کا حال قتل کے اس مجرم جیسا تھا جس کے خلاف تمام عدالتوں میں پورے شواہد کے ساتھ جرم ثابت ہو چکا ہو اور اب چیف کے پاس بھی کوئی راستہ نہ ہو.. پچاسی سال کے بوڑھے حسین نقی کو تقریباً گھسیٹتے ہوئے عدالت سے باہر لے جایا گیا…

میں حیران تھا کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے منصف اعلی پچاسی سال کے کسی شخص کے خلاف اسے سنے بغیر فیصلہ کیسے سنا سکتے ہیں، نہ سنا گیا، نہ شک کا فائدہ دیا گیا اور حسین نقی کو بے عزت کر کے عدالت سے باہر نکال دیا گیا.

[pullquote]
یہ خبر میڈیا پر یوں نشر کی گئی تھی .[/pullquote]

سپریم کورٹ نے بورڈ آف کمشنر پنجاب ہیلتھ کمیشن تحلیل کر دیا۔ چیف جسٹس پاکستان نے 2 ہفتوں میں نیا بورڈ تشکیل دینے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 2 رکنی بنچ نے از خود نوٹس کی سماعت کی، عدالت طلبی پر صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد پیش ہوئیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے پوچھا کہ کہاں ہے حسین نقی جس کی وجہ سے جسٹس ریٹائرڈ عامر رضا نے استعفیٰ دیا۔

ممبر ہیلتھ کمیشن حسین نقی نے کمرہ عدالت میں کہا کہ آ رہا ہوں میں، جس پر چیف جسٹس نے حسین نقی سے استفسار کیا کہ آپ ہیں کیا ؟ حسین نقی نے کہا کہ میں اسلامیہ کالج یونین کا سیکرٹری رہا ہوں۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ تو پھر چھوڑیں بورڈ جا کر یونین چلائیں، حسین نقی نے کہا کہ کیوں جاؤں ؟ مجھے منتخب کیا گیا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ بورڈ کو ہم نے ختم کر دیا، آگے چلیں، حسین نقی کے اونچی آواز بات کرنے پر چیف جسٹس سخت برہم ہوئے اور کہا کہ آپ کی جرات کیسے ہوئی ہم آپکو توہین عدالت کا نوٹس دیں گے، حسین نقی میں آپ سے 20 سال بڑا ہوں، میری بات پوری سنیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ تم بد تمیز آدمی ہو، عدالت سے معافی مانگو، جس پر حسین نقی نے عدالت سے معافی مانگ لی۔ چیف جسٹس نے پنجاب ہیلتھ کمیشن تحلیل کر تے ہوئے 2 ہفتوں میں نیا بورڈ تشکیل دینے کا حکم دے دیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے