ریاست، معاشرہ اور مذہبی طبقات:پاکستان کے تناظر میں اہم سوالات کے حوالے سے معروف اسکالر اور محقق عمار خان ناصر کا تفصیلی انٹرویو

(عمار خان ناصر صاحب پر مذہبی حلقے اور خصوصا دینی مدارس سے وابستہ احباب اکثر تنقید کرتے رہتے ہیں ۔ اس انٹرویو میں عمار صاحب سادہ اور عام فہم انداز میں اپنا موقف پیش کیا ہے ۔ عمار خان ناصر صاحب کے دادا مولانا سرفراز خان صفدر علیہ الرحمہ جامعہ نصرة العلوم گوجرانوالہ کے بانی تھے ۔ ان کے والد مولانا زاہدالراشدی معروف مذہبی اسکالر ہیں ۔ اس پس منظر کے ساتھ ان کا انٹرویو پڑھنا دلچسبی سے خالی نہیں ہوگا ۔ )

ایڈیٹر آئی بی سی اردو

(پاکستانی ریاست کے ساتھ مذہب کے تعلق، مذہبی طبقات کے کردار اور مذہبی نظام تعلیم کے حوالے سے اہم سوالات پر مبنی تفصیلی انٹرویو جو ساوتھ کیرولائینا ، امریکہ کی کلیمسن یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر آف ریلیجن، ڈاکٹر مشعل سیف نے کیا۔)

[highlight txtcolor=”#dd3333″]مشعل سیف: [/highlight]میرا نام مشعل سیف ہے۔ میں ڈیوک یونیورسٹی امریکا سے پی ایچ ڈی کر رہی ہوں۔ آپ ویسے تو ماشاءاللہ بہت مشہور ہیں، لیکن اگر اپنا مختصر تعارف کرا دیں اور اپنی تعلیم کے بارے میں بتا دیں کہ آپ نے کہاں کہاں سے سندیں حاصل کی ہیں تو مناسب ہوگا۔

[highlight txtcolor=”#dd3333″]عمار ناصر:[/highlight] ہمارا جو خاندانی پس منظر ہے، وہ ایک مذہبی گھرانے کا ہے۔ میرے دادا اور میرے والد کے حوالے سے ہمارے خاندان کو ایک معروف مذہبی گھرانے کے طور پر جانا جاتاہے۔ اپنی خاندانی روایت کے مطابق، میں نے بچپن میں حفظ قرآن کی تعلیم مکمل کی۔ اس کے بعد درس نظامی کا ایک آٹھ سالہ کورس ہوتا ہے جس میں ہمارے روایتی علوم قرآن، حدیث، فقہ وغیرہ پڑھائے جاتے ہیں۔ اس کے ابتدائی درجات کی تعلیم میںنے مدرسہ انوار العلوم گوجرانوالہ میں حاصل کی، جبکہ اس کی تکمیل مدرسہ نصرة العلوم گوجرانوالہ میں کی جو ملک کے بڑے مدارس میں شمار ہوتا ہے۔ اس وقت ہمارے دادا مولانا محمد سرفراز خان صفدر حیات تھے اور پڑھاتے تھے۔ دورئہ حدیث جس میں حدیث کی کتابیں صحاح ستہ وغیرہ پڑھائی جاتی ہیں، وہ میں نے وہاں پڑھا ہے۔ بس یہ مختصراً میری دینی تعلیم کا پس منظر ہے۔ اس کے بعد میں دس گیارہ سال تک اسی مدرسے میں پڑھاتا بھی رہا ہوں۔

[highlight txtcolor=”#dd3333″]مشعل سیف:[/highlight] آپ مدرسے میں کون سے مضامین پڑھاتے تھے؟

[highlight txtcolor=”#dd3333″]عمار ناصر:[/highlight] مختلف مضامین ہوتے تھے۔ مدارس میں جو تعلیم کا نصاب ہے، اس میں عربی زبان بنیادی چیز ہوتی ہے۔ کلاسیکی عربی لٹریچر ہوتا ہے۔ قرآن کی تفسیر، حدیث، فقہ اور پھر ان کے ساتھ اصول فقہ اور اصول حدیث، یہ سارے مضامین ہوتے ہیں اور میں تقریباً یہ ساری چیزیں پڑھاتا رہا ہوں۔ ۶۰۰۲ءکے بعد سے میں باقاعدہ کسی مدرسے میں نہیں پڑھا رہا۔ اس سے کچھ پہلے اور اس کے بعد سے میری زیادہ توجہ تحریر وتصنیف پر مرکوز ہے۔ بہت سے ایشوز ہیں جن پر میں لکھتا رہتا ہوں۔

 [highlight txtcolor=”#dd3333″]مشعل سیف:[/highlight] آپ کی کچھ کتابوں کا مطالعہ میں نے کیا ہے۔ ”براہین“ آپ نے لکھی ہے اور کونسل آف اسلامک آئیڈیالوجی نے بھی ایک کتاب ”حدود وتعزیرات“ پر آپ کی چھاپی ہوئی ہے۔ ایک سوال جو بہت زیادہ اٹھتا ہے، وہ یہ ہے کہ آپ کا کون سے مسلک سے تعلق ہے؟ شاید آپ جانتے ہوں گے کہ یہ ایک controversy بھی ہے۔ بعض علما کہتے ہیں کہ آپ کہا تو کرتے ہیں کہ آپ دیوبندی ہیں، لیکن آپ کے جو افکار ہیں، وہ عموماً جو دیوبندیوں کے افکار ہوتے ہیں، ان سے ہٹ کر ہیں۔

[highlight txtcolor=”#dd3333″]عمار ناصر:[/highlight] میرا جو فیملی بیک گراونڈ ہے، وہ تو بالکل typical دیوبندی بیک گراونڈ ہے اور ظاہر ہے کہ جب آدمی نے ایک خاص ماحول میں تعلیم اور پرورش پائی ہو تو وہ اس کے اثرات سے بالکل باہر شاید نہیں جا سکتا۔ اس لیے آپ بڑی حد تک کہہ سکتے ہیں کہ جو دیوبندی مزاج ہے، چیزوں کو دیکھنے کا جو زاویہ ہے، اس کے اثرات یقینا مجھ پر ہوں گے، لیکن جن معنوں میں دیوبندی اہل علم define کرتے ہیں کہ دیوبندی وہ ہے جو دینی مسائل کی تحقیق میں دیوبندی علماءاور دیوبندی اکابر کی مجموعی فکر سے باہر نہ جائے اور ان سے ہٹ کر کوئی بات نہ کہے تو اس معنی میں شاید آپ مجھے دیوبندی نہیں کہہ سکتے۔ میرے اپنے سوچنے کے انداز میں اور غور فکر کے طریقے میں جو developmentہوئی ہے، اس کے بعد میں نہیں سمجھتا کہ کسی ایک خاص اسکول آف تھاٹ کا پابند ہو کر رہنا، یہ علمی طور پر کوئی مثبت چیز ہے۔ میں نے مختلف فکری دھاروں سے چیزیں سیکھی ہیں۔ مولانا موددی سے بھی بہت کچھ سیکھا ہے۔ جاوید احمد غامدی صاحب میرے استاذ بھی ہیں، ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ علم جو ہے، اسلام اس میں تو کسی تعصب کی تعلیم نہیں دیتا۔ علم کی بات آپ کو جہاں سے بھی ملے، غیر مسلم سے بھی ملے، وہ لے لینی چاہیے۔ تو میرے خیال میں یہ جھگڑا ایسے ہی چلتا رہے گا۔ کچھ لوگ کہیں گے کہ یہ دیوبندی ہے، کچھ کہیں گے کہ نہیں ہے۔

[highlight txtcolor=”#dd3333″]مشعل سیف: [/highlight]آپ اپنے آپ کو کیسے تسلیم کرتے ہیں؟

[highlight txtcolor=”#dd3333″]عمار ناصر:[/highlight] میں دیوبندی تعبیر دین کو بڑا متوازن اور عوام کی سطح پر دینی ضروریات کے لیے بہت مفید سمجھتا ہوں۔ ان کے مزاج میں، ان کے فکر میں ، دوسرے اسکولز آف تھاٹ کی بہ نسبت خاصا توسع ہے، وسعت نظر ہے۔ چیزوں کو دیکھنے کا جو زاویہ نظر ہے، وہ خاصا positive ہے، لیکن یہ پابندی کہ جو دیوبندی علما ہیں، جو دیوبندی اکابر ہیں، ان کی رائے ہی ہر معاملے میں یقینا درست ہوگی اور ان سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا، اس کو میں نہیں مانتا۔

[highlight txtcolor=”#dd3333″]مشعل سیف:[/highlight] میں پڑھ رہی تھی، آپ نے اپنے ماہنامہ ’الشریعہ‘ میں ۹۰۰۲ءمیں ایک مضمون میں یہ واضح کیا تھا کہ آپ دیوبندیت کو کس طرح تصور کرتے ہیں۔ آپ نے لکھا تھا کہ یہ بہت وسیع مکتب فکر ہے۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ کون ہے جو اکابر کے طریقے پر چل رہا ہے اور کون اکابر کی باتوں کو تسلیم نہیں کر رہا، کیونکہ دیوبندیت میں بہت diversity ہے۔

[highlight txtcolor=”#dd3333″]عمار ناصر: [/highlight]جی، میں ایسے ہی تصور کرتا ہوں کہ دیوبندی اکابر کی جو آرا ہیں، ان سے اگر آپ اختلاف رکھتے ہیں تو میرے خیال میں آپ کے دیوبندی ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ یہ میرا اپنا نقطہ نظر ہے۔ لیکن بہرحال دیوبندی کون ہے اور کون نہیں ہے، یہ طے کرنے میں، میں کوئی اتھارٹی نہیں۔ یہ تو جو دیوبندی سمجھے جانے والے لوگ ہیں، مدارس ہیں، ادارے ہیں، وہی یہ حق رکھتے ہیں کہ اس کو متعین کریں۔ ان کے زاویہ نظر سے دیکھنا چاہیے۔ وہ اگر سمجھتے ہیں کہ فلاں آدمی ہمارے فریم ورک سے باہر جا رہا ہے اور وہ اسے دیوبندی تسلیم نہیں کرتے تو یہ ان کا حق ہے۔ یہ میرے لیے کوئی ایسا اہم مسئلہ نہیں ہے۔

[highlight txtcolor=”#dd3333″]مشعل سیف:[/highlight] لیکن آپ اپنے آپ کو دیوبندی کہیں گے، کسی حد تک؟

[highlight txtcolor=”#dd3333″]عمار ناصر:[/highlight] اگر آپ مجھے دیوبندی کہنا چاہیں تو میں انکار نہیں کروں گا۔ آپ نفی کرنا چاہیں تو میں اصرار بھی نہیں کروں گا۔

[highlight txtcolor=”#dd3333″]مشعل سیف: [/highlight]آپ نے جاوید احمد غامدی صاحب کا ذکر کیا۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ ان کے مسلک سے یا ان کے افکار سے کافی اتفاق کرتے ہیں۔ اس کے بارے میں کچھ بتانا چاہیں گے کہ آپ کا کب سے ان سے رابطہ ہے او ر کس طرح آپ ان کے اسٹوڈنٹ رہے ہیں؟

[highlight txtcolor=”#dd3333″]عمار ناصر: [/highlight]میرا ان سے تعارف تو غالباً ۰۹۹۱ءمیں ان کے رسالے کے ذریعے سے ہوا تھا۔ ان کا رسالہ ہمارے پا س آتا تھا۔ میں ان کی لکھی ہوئی چیزیں پڑھتا رہا، لیکن ۱۰۰۲ءیا ۲۰۰۲ءتک زیادہ ملاقاتیں نہیں ہوئیں۔ اس دوران میں کوئی پانچ سات ملاقاتیں ہوئی ہوں گی۔ البتہ میں ان کے نتائج فکر پر خاصا غور کرتا رہا اور بہت سی باتوں نے مجھے اپیل بھی کیا۔ ۲۰۰۲ءکے بعد میں باقاعدہ ان کے ادارے کے ساتھ وابستہ ہوا اور ان کی جو علمی مجالس ہیں، ان میں شرکت کرتا رہا۔ ان کے ساتھ اور ان کے ادارے ’المورد‘ کے رفقا کے ساتھ میرا بہت اچھا اور بڑی محبت کا تعلق ہے۔ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ میرے فکر ونظر کی تربیت میں اور دین کو سمجھنے کا ایک زاویہ دینے میں جیسے میرے اپنے خاندانی ماحول کا اثر ہے اور جہاں عمومی مطالعے کے بہت سے اثرات ہیں، اسی طرح میں نے غامدی صاحب سے بھی بہت سیکھا ہے۔ باقی، آرا کا اختلاف یا اتفاق، یہ میری نظر میں زیادہ اہم چیز نہیں ہوتی۔ جاوید غامدی صاحب کی بہت سی آرا سے مجھے اتفاق بھی ہے اور بہت سی آرا سے اختلاف بھی ہے۔ آپ نے میری تحریروں میں دیکھا ہوگا، میں نے بہت سے اختلافات بیان بھی کیے ہیں۔ اصل میں آدمی کے سوچنے کا جو انداز ہے، وہ ساری زندگی develop ہوتا رہتا ہے۔ میں ان کو اپنے نہایت قابل احترام استاذ او راپنے معلم کا درجہ دیتا ہوں، لیکن کلی اتفاق کسی سے بھی ضروری نہیں۔ ان کی آرا سے بھی اختلاف ہو سکتا ہے، بلکہ میں نے اپنے اساتذہ میں علمی اختلاف کو جتنا encourage کرنے والا اور اپنے نقطہ نظر پر علمی تنقید کی دعوت دینے والا ان کو پایا ہے، کسی دوسرے کو نہیں پایا۔

[highlight txtcolor=”#dd3333″]مشعل سیف: [/highlight]آپ دیوبندیت کو اور طرح سے تصور کرتے ہیں۔ آپ کے خیال میں اس کے اندر لچک ہے اور آپ مختلف خیالات رکھتے ہوئے بھی دیوبندی ہو سکتے ہیں۔ آپ نے کہا کہ آپ کے خیال میں دیوبندی ہوتے ہوئے بھی آپ دیوبندی اکابر سے اختلاف کر سکتے ہیں، لیکن ساتھ ہی آپ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ آپ کسی کو دیوبندی کہنے یا نہ کہنے کا حق ان کو دیتے ہیں جو ان کے زیادہ ماننے والے ہیں؟

[highlight txtcolor=”#dd3333″]عمار ناصر:[/highlight] دیکھیں، سوسائٹی میں کوئی کمیونٹی ہوتی ہے تو اس کی ترجمانی کرنے والی جو شخصیات ہوتی ہیں یا ادارے ہوتے ہیں، فطری طور پر انھی کو یہ حق ہونا چاہیے۔ مثلاً دیکھیں، احمدی یہ کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور محمد رسول اللہ پر ایمان رکھتے ہیں۔ لیکن مسلمانوں یہ سمجھتے ہیں کہ احمدی ہم میں سے نہیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ مسلمانوں کی جو پہلے سے ایک کمیونٹی موجود ہے، اس کو یہ حق ہے کہ وہ یہ طے کرے کہ وہ کس گروہ کو اپنے اندر میں سے شمار کرتے ہیں۔ سو احمدیوں کو خود سے الگ شمار کرنا یہ مسلمانوں کاحق ہے۔ اسی طرح دیوبندیت کی بطور مذہبی گروہ کے ایک Identity ہے۔ اس کی ترجمانی کرنے والی کمیونٹی موجود ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ فلاں نقطہ نظر یا فلاں رائے ہمارا جو انٹلکچول فریم ورک ہے، اس سے میل نہیں کھاتی اور اس سے باہر ہے تو اس کو یہ حق ہے کہ وہ یہ طے کرے کہ یہ ہم سے مختلف ہے۔ یہ ان کا حق ہے اور یہ جمہوریت کا تقاضا ہے۔ مجھے یا کسی بھی آدمی کو یہ نہیں کرنا چاہیے کہ ہم کسی حلقہ فکر کے فکری پیرا ڈائم یا اس کے مسلمات سے اختلاف بھی کریں اور پھر یہ خواہش بھی رکھیں کہ ہمیں ضرور اس کے اندر شمار کیا جائے۔ یہ رویہ تو اخلاقی جرات کے فقدان سے پیدا ہوتا ہے۔

[highlight txtcolor=”#dd3333″]مشعل سیف:[/highlight] مگر آپ کی سوچ مجھے interesting لگی کہ آپ خود کو اس طرح دیوبندی تصور کرتے ہیں کہ آپ کی پرورش ایک دیوبندی گھرانے میں ہوئی اور آپ کے افکار پر اس کا کافی حد تک Impact رہا ہے۔
عمار ناصر: ہاں، یہ ظاہر ہے۔ میں ’المورد‘ کے دوستوں میں اٹھتا بیٹھتا ہوں تو ان کا تاثر یہ ہے کہ میرے فکر یا زاویہ نظر پر دیوبندی اثرات زیادہ ہیں، سو وہ مجھے دیوبندی کہتے ہیں۔ یوں میں دو گھروں کا مہمان ہوں۔ دیوبندی میرے بارے میں یہ سمجھتے ہیں کہ یہ غامدی ہے اور المورد والے کہتے ہیں کہ یہ دیوبندی ہے۔

[highlight txtcolor=”#dd3333″]مشعل سیف:[/highlight] میں اپنے مقالے میں پاکستان کے علما پر تحقیق کر رہی ہوں۔ خاص طور پر یہ دیکھنا چاہ رہی ہوں کہ یہ لوگ کس طرح تصور کر رہے ہیں کہ آیا پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے یا نہیں۔ پاکستان کا آئین اس کو اسلامی جمہوریہ قرار دیتا ہے۔ اس موضوع پر آپ کا youtubeپر ایک لیکچر ہے جو آپ نے گجرات یونیورسٹی میں اقبال پر ہونے والے سیمینار میں دیا تھا۔ اس میں آپ نے اسلامی ریاست کے بارے میں بات کی تھی۔ اسی طرح آپ کی حدود وتعزیرات پرجو کتاب ہے، اس میں بھی آپ نے اس موضوع پر لکھا ہے۔ آپ نے بہت مختلف چیزیں کہی ہوئی ہیں۔ میں چاہ رہی تھی کہ آپ ان کو elaborate کر دیں۔ مجھے خاص طور سے جو سمجھ میں آیا ہے، وہ یہ ہے کہ آپ پاکستان کے بارے میں بات کرتے ہیں تو آپ اس کو اسلامی ریاست کا درجہ دے کر بات کرتے ہیں۔ آپ نے اپنی کتاب ”حدود وتعزیرات“ میں بھی جو لکھا ہے تو اسلامی ریاست کہہ کر ہی اس کے بارے میں بات کی ہے۔ میں اور بھی بہت سے علما سے مل چکی ہوں۔ ان میں سے کافی ایسے ہیں جو پاکستان کو اسلامی ریاست تصور نہیں کرتے۔ تو آپ اس کی کچھ وضاحت کر دیجیے کہ آپ کے خیال میں اسلامی ریاست کیا ہے اور آیا پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے یا نہیں؟

[highlight txtcolor=”#dd3333″]عمار ناصر:[/highlight] اسلامی ریاست اور مسلم ریاست، یہ کافی کنفیوزنگ چیزیں ہیں۔ یہ جو dichotomy ہے کہ ایک اسلامی ریاست ہے اور ایک مسلم ریاست ہے، یہ بہت بعد میں پیدا ہوئی ہے۔ اگر آپ شروع میں چلے جائیں تو ابتدائی دور میں اس طرح کا کوئی فرق فقہا کے ہاں نہیں ملتا۔ وہ یہی کہتے ہیں کہ وہ علاقہ جہاں مسلمانوں کی حکومت قائم ہو اور مسلمان اپنے قوانین کو نافذ کر سکتے ہوں تو وہ علاقہ دار الاسلام ہے، چاہے مسلمان عملاً کتنے ہی بدکردار ہوں، ان کے حکمران کتنے ہی بگڑے ہوئے ہوں، عملاً قانون شریعت کے مطابق فیصلے ہو رہے ہوں یا نہ ہو رہے ہوں۔ اگر کسی علاقے میں مسلمان رہتے ہیں ہیں اور وہ اسلام سے اپنی وابستگی کو قائم رکھتے ہیں اور ان کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ شریعت کونافذ کر سکتے ہیں تو ہماری کلاسیکی فقہی اصطلاح میں وہ علاقہ دار الاسلام ہے۔ یہ جو فرق ہے مسلم ریاست کا اور اسلامی ریاست کا، یہ اب دور جدید میں آکر اس تناظر میں پیدا ہوا ہے کہ ریاست کا ایک تصور مغرب سے ہمارے پاس آیا ہے جس میں آئیڈیل یہ ہے کہ مذہب کے معاملات سے ریاست کو کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ یہ مغربی تصور جمہوریت میں بنیادی چیز ہے۔ اب یہ تصور جب ہمارے ہاں آیا ہے تو مختلف مسلمان ملکوں میں اس تصور کو کچھ اسی طرح یا کچھ modify کر کے اختیار کرنے کی کوشش کی گئی، بلکہ ترکی میں تو مغرب سے بھی ایک ہاتھ آگے بڑھ کر اس کو اختیار کر لیا گیا۔ اس سے لوگوں کے دل میں یہ احساس پیدا ہوا کہ اسلام تو یہ چاہتا ہے کہ جو ریاست ہے، وہ مذہب کے معاملات میں بھی اپنی ذمہ داریاں قبول کرے اور اپنے فرائض کو ادا کرے، اس لیے جو جدید تصور ریاست ہے، وہ اسلامی ریاست کے تصور کے ساتھ compatible نہیں ہے۔ اس لیے ہمیں فرق کرنا پڑے گا کہ کون سی ریاست ایک مسلم ریاست ہے او رکون سی ریاست اسلامی ریاست ہے۔

اس لحاظ سے لوگوں نے یہ سوال پیدا کیا ہے اور آپ دیکھیں کہ اس فرق کی ضرورت کا احساس پیدا ہونا، قابل فہم ہے۔ ایک ایسا عنصر شامل ہو گیا ہے کہ لوگ یہ فرق کرنا چاہتے ہیں اور اس کی ایک نظری بنیاد بھی موجود ہے کہ یہ فرق ہونا چاہیے۔ یعنی جب تک ریاست فی الواقع ان بنیادوں پر قائم نہ ہو جو ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن میں بیان ہوئی ہیں، حدیث میں بیان ہوئی ہیں تو اس وقت تک اس کو اسلامی ریاست نہیں کہنا چاہیے۔ بہت سے لوگ ایسا ہی سمجھتے ہیں اور ایک حد تک ان کی بات قابل فہم ہے۔ لیکن اس تصور کے حامل بہت سے لوگ اس سے آگے بڑھ کر یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ چونکہ یہ اسلامی ریاستیں نہیں ہیں، اس لیے ان ریاستوں میں جو نظام اطاعت قائم ہے، اس کی پابندی بھی مسلمانوں پر لازم نہیں جیسا کہ اسلامی ریاست کے قوانین کی پابندی لازم ہوتی ہے۔ چنانچہ اس طرح سوچنے والے بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ انقلاب کے ذریعے سے ہم نظام کو بدلیں۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ چونکہ یہ ایک اسلامی ریاست نہیں ہے، اس لیے یہاں پر جو ایک نظم قائم ہے اور جو بھی نظام بنا ہوا ہے حکومت کا، اس کی پابندی ہم پر لازم نہیں۔

یہ ایک قابل بحث بات ہے اور میرے خیال میں یہ نتیجہ درست نہیں۔ قرآن سے، سنت سے اور ہمارے فقہا کی جو تصریحات ہیں، ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ریاست یا حکومت کا نظام کتنا ہی بگڑا ہوا کیوں نہ ہو، قرآن وسنت سے عملاً ہٹا ہوا ہی کیوں نہ ہو، اگر وہ اس علاقے کے مسلمانوں کی رضامندی سے اور ان کے اپنے اختیار سے قائم کیا گیا ہے تو اس کو ایک عملی جواز حاصل ہوتا ہے اور اس میں اگر آپ رہ رہے ہیں تو اس پر چاہے آپ تنقید کریں، اس سے اختلاف کریں، اصلاح کی کوشش کریں، لیکن آپ کا ریاست کے ساتھ ایک معاہدہ ہے جس کی رو سے آپ اس نظام کی پابندی کرنے کے مکلف ہیں۔ شریعت پر قائم ہونا میرے خیال میں کسی نظام کی اطاعت کرنے یا نہ کرنے کا اور اس کے قوانین کی پابندی قبول کرنے یا کرنے کا معیار نہیں ہے۔ آپ ایک خالص غیر مسلم ریاست میں رہ رہے ہیں جس کو ہماری کلاسیکی اصطلاح میں دار الحرب کہتے ہیں، یعنی ایسے کفار ہیں جو مسلمانوں کے ساتھ برسر جنگ ہیں، وہاں بھی اگر مستقل طو رپر رہ رہے ہیں تو قوانین کی پابندی لازم ہوگی۔ اسی طرح اگر آپ ایک معاہدے کے تحت گئے ہیں کہ آپ وہاں امن وامان کو نہیں چھیڑیں ہیں، وہاں کے قوانین کی پابندی کریں گے تو اس کی اطاعت بھی واجب ہے۔ اس معاہدے کی خلاف ورزی آپ نہیں کر سکتے۔ پر امن ممالک کے مقامی قوانین کی پابندی کرنا مزید اہم ہو جاتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید نے حضرت یوسف کے واقعے میں بیان کیا ہے کہ ان کے چھوٹے بھائی کو ان کے پاس مصر میں روکنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک خاص تدبیر فرمائی، کیونکہ وہ ملکی قانون (دین الملک) کے مطابق اسے اپنے پاس نہیں روک سکتے تھے۔
اسی اصول پر یہ دیکھنا چاہیے کہ اس وقت جو مسلم ریاستیں ہیں، ان کی شریعت سے وابستگی جتنی بھی ہو، جیسی بھی ہو، اس میں جو بھی نظری یا عملی مسائل ہوں، لیکن جب آپ وہاں رہ رہے ہیں تو وہاں کے قانون اور نظام کے پابند ہیں اور اس معاہدے کے تحت رہ رہے ہیں کہ ہم اس کی پابندی کرتے ہوئے یہاں رہیں گے۔ معاہدے کو توڑنا جیسے ایک غیر مسلم ریاست میں جائز نہیں ہے، اسی طرح ایک مسلمان ریاست میں بھی جائز نہیں ہے۔ مثال کے طو رپر پاکستان ہے۔ یہاں آپ کو اسلامی شریعت کے مطابق ریاست قائم کرنی ہے تو اس کا طریقہ یہ ہرگز نہیں ہے کہ ایک گروہ اٹھے یا چند لوگ اٹھیں اور وہ کہیں کہ ہمارے ذہن میں اسلامی ریاست کا جو ماڈل ہے، وہ یہ ہے، اس لیے اس کو ہم بالجبر نافذ کرنے کی کوشش کریںگے۔ اس کی اسلام میں اجازت نہیں ہے۔ یہاںپر حکومت کا نظام یہاں کے لوگوں نے جو اختیار کیا ہے، وہی ہوگا۔ لوگوں کی مرضی کے بغیر ہم ان پر کوئی نظام مسلط نہیں کر سکتے۔ ہاں، لوگوں کو اس پر قائل کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں کہ جو نظام آپ نے اختیار کیا ہوا ہے، اس میں یہ خرابیاں ہیں، اس میں یہ خامیاں ہیں اور اس کا متبادل یہ ہے۔ آپ یہاں کی سیاسی جماعتوں کو آمادہ کریں کہ و ہ بہتر ماڈل کو اختیار کریں۔ آپ اپنی کوئی پولیٹیکل پارٹی بنائیں، لیکن اس نظام کے دائرے میں آپ کو جدوجہد کرنی ہے۔ اس سے باہر آپ جائیں گے تو اس سے بہت سے اصول شریعت کے بھی پامال ہوں گے اور اخلاقیات کے بھی پامال ہوں گے۔

میں اس معاملے کو ایسے دیکھتا ہوں۔ نظری سطح پر بحث رہے گی کہ اسلامی ریاست اور مسلم ریاست میں فرق ہے یا نہیں، لیکن عملاً ہمیں اس نظام کی پابندی کرنی ہے۔ اسلامی ریاست ہے، تب اس کی پابندی کرنی ہے اور اگر محض ایک مسلم ریاست ہے تو بھی ایک نظام بنا ہوا ہے، ہم یہاں کے شہری ہیں اور یہاں کے آئین کی پابندی ہم پر لازم ہے۔ ہمیں جو بھی جدوجہد کرنی ہے، اس کے دائرے میں کرنی ہے۔

[highlight txtcolor=”#dd3333″]مشعل سیف: [/highlight]آپ کے خیال میں ایک اسلامی ریاست کیا ہے؟ کس طرح تصور کریں گے اسلامی ریاست کو؟

[highlight txtcolor=”#dd3333″]عمارناصر[/highlight] ۔ سادہ بات ہے۔ مسلمان فرد کے دو درجے ہیں۔ ایک ہے جس کو ہم قانونی درجہ کہتے ہیں کہ قانون کی نظر میں یہ آدمی مسلمان ہے۔ اس کے لیے تو اتنا کافی ہے کہ آدمی اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہو اور in principle یہ قبول کرتا ہو کہ میں اللہ کی دی ہوئی ہدایات کا پابند ہوں۔ یہ آدمی مسلمان ہو گیا۔ اب وہ عملاً جتنا بھی بدکردار ہے، عملاً وہ چاہے دین کے فرائض بھی پورے نہ کرتا ہو، وہ مسلمان ہے۔ البتہ جو ایک معیاری مسلمان کا درجہ ہے، وہ ظاہر ہے کہ یہ نہیں ہے۔ یہی معاملہ ریاست کا ہے۔ پاکستان کی ریاست اپنے عقیدے اور اپنے نظریے کو آئین میں واضح کر چکی ہے کہ یہ ایک اسلامی ریاست ہے جو شریعت کی پابندی کو قبول کرتی ہے۔ اس میں مختلف قسم کی gurantees دی گئی ہیں کہ قوانین کو اسلام کے مطابق بنایا جائے گا اور فلاں اور فلاں اقدامات کیے جائیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست قانونی درجے میں مسلمان ہو گئی ہے۔ لیکن عملاً اس کے پورے اسٹرکچر کو بدل کر اس معیار پر لانا کہ یہ اسلامی ریاست کی جو ذمہ داریاں ہیں، ان کو پورا کرے، خدا کے لحاظ سے بھی، مسلمانوں کے لحاظ سے بھی اور دنیا میں غیر مسلموں کو دعوت پہنچانے کے لحاظ سے بھی، تو یقینا یہ اس وقت اس حالت میں نہیں ہے اور اس میں بہت اصلاح کی ضرورت ہے۔

تو فرد کی مثال سے ریاست کا معاملہ سمجھنا چاہیے۔ جیسے ہم ایک فرد کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ مسلمان ہے، لیکن بدعمل ہے، اسی طرح ہماری جو اس وقت مسلمانوں کی ریاستیں ہیں، وہ اگر شریعت کی پابندی کو اصولی طو رپر قبول کرتی ہیں تو وہ مسلمان ریاستیں ہیں اور قانونی طور پر اسلامی ریاستیں بھی ہیں۔ اب ان کو اپنے آپ کو اس معیار پر لانا ہے کہ وہ ایک صحیح اسلامی ریاست کی ذمہ داریاں انجام دے سکیں۔ یہ ظاہر ہے کہ صرف حکومتوں کا کام نہیں ہے۔ اس میں پوری سوسائٹی کو اس نہج پر ڈھالنا ہوگا۔ جمہوری دور میں تو خاص طور پر حکومت کا عمل دخل بہت کم ہو جاتا ہے۔ سوسائٹی کے جو دوسرے ادارے ہیں، مختلف طبقات ہیں، ان کی ذمہ داری زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ وہ سوسائٹی کو اس رخ پر لے کر جائیں کہ صحیح اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے راہ ہموار ہو۔

[highlight txtcolor=”#dd3333″]مشعل سیف:[/highlight] آپ نے اپنے گجرات یونیورسٹی کے لیکچر میں ایک اور بڑی اہم بات کہی ہے کہ آج کے دور میں ہم اسلامی ریاست کا جو تصور رکھتے ہیں، وہ کافی مختلف ہے اس سے جو قدیم دور میں اسلامی ریاست ہوتی تھی۔ آپ نے اس کے مختلف پہلو بیان کیے ہیں کہ مثلاً حکمران کافی دیر تک حکومت کرتا رہتا تھا اور اس کو ہٹانے کا کوئی طریقہ نہیں تھا، جبکہ آج ہمارا ایک الیکشن سسٹم ہوتا ہے۔ پھر دار الحرب اور دار الاسلام میں دنیا تقسیم ہوتی تھی، جبکہ آج ایک بہت مختلف بین الاقوامی نظام ہے۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ جب یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان اصولی طور پر ایک اسلامی ریاست ہے تو پھر اس کو ہم اسلامی ریاست کے قدیم تصور کے مطابق کیسے اسلامی ریاست سمجھیں گے؟ جبکہ آپ نے خود بہت سے ایسے پہلو بیان کیے ہیں جو اسلامی ریاست کے قدیم اور جدید تصور میں باہم مختلف ہیں۔ اس نکتے کی کچھ وضاحت کر دیں۔

[highlight txtcolor=”#dd3333″]عمار ناصر:[/highlight] دو الگ الگ باتیں ہیں۔ اسلامی ریاست وہ ہے جو شریعت کے نفاذ کو اور خدا کے دیے ہوئے قانون کی پابندی کو اصولی طو رپر قبول کر لے۔ اس کے بعد دو چیزیں آتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ شریعت کے جو مختلف احکام ہیں، ان کی تعبیر وتشریح میں یقینا فرق موجود ہے۔ ہماری جو کلاسیکی فقہ ہے، وہ بہت سی چیزوں کو اور طرح سے دیکھتی ہے۔ اب ہم آج اس وقت دنیا میں بیٹھے ہیں تو آج کے اہل علم اور فقہا ان چیزوں کو اور طرح سے دیکھتے ہیں۔ اب ایسا نہیں ہے کہ اگر ہماری interpretation پرانے فقہا سے بدل گئی ہے تو ہم شریعت کی بالادستی کے منکر ہو گئے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ یہ شریعت کی تعبیر کا اختلاف ہے نہ کہ شریعت کی بالادستی کے اصول کا۔ میں نے جتنی چیزیں بھی اپنے لیکچر میں گنوائی ہیں کہ یہاں یہاں فرق ہے، قدیم ریاست کا اسٹرکچر اور ہے، جدید ریاست کا اور ہے، ان میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اسلامی ریاست کا جو بنیادی تصور ہے، اس کے ساتھ Incompatible ہو۔ یہ وہ تبدیلیاں ہیں جن کا تعلق حالات کے ساتھ ہے۔ یہ جو فرق آیا ہے، میں اس کو اسلامی ریاست کے تصو رکے خلاف نہیں سمجھتا۔ مثلاً آج اگر ہم غیر مسلموں کو مسلمانوں کے برابر سیاسی حقوق دیتے ہیں تو یہ اسلام کے کسی غیر متبدل اصول کے خلاف نہیں، اگرچہ ہمارے کلاسیکی فقہا نے اس معاملے کو اور طرح سے دیکھا ہے۔ یا آج اگر ہم خواتین کو معاشرتی وسیاسی زندگی میں اس سے زیادہ حقوق اور مواقع دیتے ہیں جو پہلے زمانے میں ان کو حاصل تھے تو اس میں اسلام کے ساتھ کوئی ٹکرا¶ نہیں ہے، اگرچہ کلاسیکی دور کے فقہا کا زاویہ نظر مختلف ہے۔

تو اس بات کو بالکل واضح کرنا چاہیے کہ ہم جدید دور میں اسلامی قانون کے بہت سے مسائل کو بالکل نئے زاویے سے اور اگر میں فقہی اصطلاح استعمال کروں تو یہ کہنا چاہیے کہ اجتہاد مطلق کی سطح سے دیکھ رہے ہیں۔ ریاست کا اسٹرکچر کیا ہونا چاہیے، اس کو ہم قدیم دور کے فقہا سے بے حد مختلف طریقے سے دیکھ رہے ہیں، لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس لیے کہ تعبیر کے اختلافات پہلے دور میں بھی رہے ہیں جو اس دور کے علماءکے مابین تھے۔ آج ہم یہی اختلاف دور اور زمانے کے فرق کے تناظر میں کر رہے ہیں۔ تو ایک بات تو یہ ہے کہ بعض چیزوں کی تعبیر وتشریح میں اگر اختلاف ہے تو اس سے شریعت کی بالادستی کے اصول کی نفی نہیں ہوتی۔

دوسری چیز یہ ہے کہ آپ کے سامنے اچھے اسلامی معاشرے کا ایک آئیڈیل ہے۔ اس آئیڈیل تک پہنچنے کے لیے سوسائٹی کو تیار کرنا ہوگا اور اس میں وقت لگے گا، بلکہ ہم اس کی کوئی ضمانت بھی نہیں دے سکتے کہ وہ جو آئیڈیل ہے، وہ کبھی achieve بھی ہو سکے گا۔ اس معاملے میں ہمیں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو حکمت عملی نظر آتی ہے اور بعد کے ادوار میں بھی مسلمان جہاں جہاں گئے ہیں، وہاں اسی حکمت عملی کو اختیار کیا گیا ہے، ویہ ہے کہ آپ کے سامنے جو آئیڈیل ہے، جو قرآن وسنت میں ہمیں ایک معیاری مسلم معاشرے کا نقشہ دیا گیا ہے اور جس کا نمونہ ہمیں خلفائے راشدین کے دور میںملتا ہے، اس کا ہر جگہ قابل حصول ہونا عملاً ممکن نہیں اور شاید مطلوب بھی نہیں۔ ہمیں کوشش کرنی ہے۔ جیسے فرد کی سطح پر ایک مسلمان کے سامنے نمونہ تو ہے کہ ایک بہترین مسلمان ایسا ہوتا ہے، لیکن یہ ضروری نہیں بلکہ ممکن بھی نہیں کہ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی اکثریت ساری زندگی کی محنت کے باوجود اس مقام پر آ جائے۔ ہم سب گنہ گار ہیں اور جب لوگ دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو اللہ سے یہی دعا مانگتے ہیں کہ وہ ہمارے گناہوں کو بخش دے اور جیسے کیسے بھی اعمال ہیں، انھیں قبول کر لے۔ اسی پر معاشرے کو بھی قیاس کرنا چاہیے۔ ایک فرد جب ایک معیاری جگہ پر نہیں پہنچ سکتا، بڑا مشکل ہے اور ہم اللہ سے رحمت ہی کی امید رکھتے ہیں تو معاشرے تو کہیں زیادہ پیچیدہ ہوتے ہیں۔ ان میں زیادہ complexities ہوتی ہیں، اس لیے ان کے متعلق یہ تصور کرنا کہ لازماً کوئی معاشرہ اس مطلوبہ معیار پر پہنچ جائے، تبھی ہم اس کو ایک اسلامی معاشرے کا سرٹیفکیٹ دیں گے، یا ریاست جب اس معیار پر پہنچ جائے گی جس کا نمونہ خلافت راشدہ کے دور میں دکھائی دیتا ہے، تبھی ہم اسے اسلامی ریاست قرار دیں گے، یہ ایک بہت تصوراتی سی بات ہے۔ ہمیں کوشش کرنی ہے، اپنے آپ کو بھی اچھا مسلمان بنانے کی اور معاشرے کو بھی اچھا مسلمان بنانے کی۔ کوشش ہم کرتے رہیں گے۔ جتنا ہو جائے گا، ہو جائے گا۔ جو نہیں ہو سکے گا، اللہ سے امید رکھتے ہیں کہ وہ ہماری کوتاہیوں کو معاف فرمائے گا۔

[highlight txtcolor=”#dd3333″]مشعل سیف:[/highlight] آپ نے کہا کہ کلاسیکی فقہا کا جس طرح کا اسلامی ریاست کا تصور ہے، آج کے زمانے میں ہم اس سے کافی ہٹ کر تصور رکھتے ہیں، کیونکہ ہم ایک بہت مختلف دور میں ہیں۔ آپ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ کلاسیکی فقہا سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اور کلاسیکی فقہا کی اپنی ایک سوچ تھی، ان کا اپنا ایک زمانہ تھا۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا اور آج ہم اس سے ہٹ کر سوچ سکتے ہیں۔ لیکن بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اختلاف کرنے کو پسند نہیں کرتے اور کلاسیکی فقہا کے تصور کے مطابق ہی اسلامی ریاست کو دیکھتے ہیں۔ اب جب وہ پاکستان کا جائزہ لیتے ہیں تو اسی سانچے میں لیتے ہیں جو انھوں نے کتابوں میں پڑھا ہوتا ہے۔ آپ نے بھی اپنے لیکچر میں یہ کہا تھا جو بالکل اہم اور صحیح ہے۔ میں جب بہت سے علماءسے ملتی ہوں یا اس موضوع پر ان کے فتاویٰ دیکھتی ہوں تو حوالہ انھی چیزوں کا دیا جاتا ہے جو انھوں نے کتابوں میں پڑھی ہیں۔ ان کا ایک بالکل مختلف تصور ہوتا ہے اسلامی ریاست کا۔
عمار ناصر: بالکل درست ہے۔ فکر کی یہ دونوں رَویں موجودہیں۔ دیکھیں، جو مسلم معاشرے سعودی عرب یا ایران کی طرز کے ہیں، جہاں تعبیر شریعت کی حتمی اتھارٹی علماءکو دے دی گئی ہے، وہاں سردست اس طرح کے مسائل سطح پر نمایاں نہیں، لیکن ایسے مسلم معاشرے جہاں ہم نے اسلام کو اپنی بنیاد قرار دیتے ہوئے اس کے ساتھ جمہوریت کو بھی قبول کیا ہے، وہاں کشمکش بہت نمایاں ہے۔ اسلامی ریاست جو ہے، وہ دنیا میں ایک مجرد اور تصوراتی شکل میں نہیں رہی۔ اس کی اپنی ایک tradition ہے۔ مسلمانوں کے ریاستی نظام اور مسلم معاشرے کے جو مختلف ادارے ہیں، ان کی ذمہ داریوں کے حوالے سے پورا لٹریچر موجود ہے۔ اسلامی فقہ ہے جو آپ کو ایک پورا ماڈل دیتی ہے۔ جدید مسلم ریاستوں میں اس کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ریاست کے ان دو مختلف ماڈلوں کا ایک synthesis وجود میں لایا جائے۔ پاکستان اس کی بڑی اچھی مثال ہے۔ ہماری جو اوپر کی سطح کی مذہبی قیادت ہے، وہ بہت سمجھ دار بھی ہے اور معاملہ فہم اور حقیقت پسند بھی۔ اس نے اس کو قابل عمل سمجھتے ہوئے اس کی تائید بھی کی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہوا کہ نظری سطح پر synthesis تو بنا لیا گیا اور آئین کی سطح پر اس کو اختیار بھی کر لیا گیا، لیکن اس سارے اجتہادی عمل کا analysis نہیں ہوا کہ ہم نے یہ کیا کیا ہے اور کس بنیاد پر کیا ہے۔ اس پر کوئی intellectual debates نہیں ہوئیں۔ اس وجہ سے من حیث المجموع جو مذہبی طبقہ ہے، وہ کوئی بھی ہو، اس میں کسی مکتب فکر کا کوئی فرق نہیں رہ جاتا، اس کا جو بحیثیت مجموعی mindset ہے، وہ اصل میں یہی ہے کہ ہم نے یہ مجبوری کی حالت میں کیا ہے۔ اصل میں تو ہمیں کوشش یہی کرنی ہے کہ اس کو بدل کر اس پرانے ماڈل کے مطابق بنائیں۔

تو یہ کنفیوژن موجود ہے اور جب تک اس پر باقاعدہ گفتگو نہیں ہوگی، ایک intellectual debate نہیں ہوگی اور یہ بتایا نہیں جائے گا کہ صورت حال میں اتنا فرق واقع ہو چکا ہے اور ایک اجتہادی زاویہ نظر اختیار کرتے ہوئے ہم نے چیزوں کو نئے سرے سے دیکھنا ہے، اس وقت تک یہ کنفیوژن موجود رہے گا۔ یہاں علامہ اقبال نے جو بحث کی ہے، وہ ساری relevant ہو جاتی ہے۔ اقبال نے یہی بتایا ہے کہ ریاست، مذہب سے لاتعلق نہیں ہو سکتی۔ یہ اسلام کی جو nature ہے، اس کے خلاف ہے۔ لیکن ہمیں اسلام کے اجتماعی نظام کے حوالے سے پرانے دور میں جو ایک تعبیر ملتی ہے، اس پر بہت سے معاشروں کے اور تاریخی حالات وتجربات کے بڑے گہرے اثرات ہیں۔ ملوکیت نے بڑے گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ آپ کے ہاں خلافت بھی ابتدائی کچھ سالوں کو چھوڑ کر ملوکیت ہی تھی۔ اس کے بڑے اثرات ہیں۔ فقہ نے ایک خاص دور میں آ کر بالکل جمود کی شکل اختیار کر لی تھی۔ اس کے زیر اثر کچھ attitudes اور کچھ فکری مقدمات پیدا ہوئے ہیں۔ تو ہمیں تاریخی طور پر جو ایک tradition ملی ہے، اس کا ایک burden ہے جو آپ کو آسانی سے اپنے نیچے سے ہلنے نہیں دیتا۔ یہاں پر اجتہاد کی ضرورت ہے اور اجتہاد محدود اور جزوی معنوں میں نہیں، بلکہ اپنے اصل اور حقیقی معنوں میں۔ علماءاصل میں کہتے ہیں کہ اجتہاد تو ہم کر رہے ہیں۔ جو بھی مسئلہ سامنے آتا ہے جو کتابوں میں نہیں ملتا، ہم اس کا حل پیش کر دیتے ہیں۔ ٹھیک ہے، یہ بھی اجتہاد ہے، لیکن بہت جزوی سطح کا اجتہاد ہے۔ اجتہاد ایک بہت بڑے canvas پر مطلوب ہے، کیونکہ پوری دنیا کا نقشہ بدل گیا ہے۔ دنیا میں مسلمانوں کا رول کیا ہونا چاہیے، مسلمان ریاست کا نقشہ کیا ہونا چاہیے، اس میں جو مختلف طبقات ہیں جن کے interests مختلف ہیں، جن کے رجحانات مختلف ہیں، ان کوہم کیسے آپس میں harmonize کریں تاکہ یہ مل جل کر قوم کی اجتماعی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالیں اور اپنی توانائیاں باہمی کھینچا تانی میں صرف نہ کرتے رہیں۔ یہ سارے سوالات بڑی گہری اور بنیادی سطح پر اجتہادی زاویہ نظر کا تقاضا کرتے ہیں۔

دیکھیں، اس وقت کیا ہو رہا ہے؟ ہر مسلم معاشرے میں قدیم اور جدید کی ایک کشمکش ہے جو آگے نہیں بڑھنے دے رہی۔ سب کوشش کر رہے ہیں کہ معاشرے کو کھینچ کر اپنے رخ پر لے جائیں۔ فکر کا ایک سانچہ ہمیں ورثے میں ملا ہے۔ فکر کا دوسرا سانچہ وہ ہے جو ہمیںمغرب سے ملا ہے اور یہ دونوں سانچے قوم کو اپنی اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چونکہ دونوں powerful ہیں، اس لیے قوم دونوں کے درمیان پھنسی ہوئی ہے۔ نہ ادھر جا رہی ہے اور نہ ادھر جا رہی ہے۔ یہ کھینچا تانی ختم ہونی چاہیے اور وہ سیاسی انداز سے ختم نہیں ہو سکتی۔ اس کا کوئی امکان نہیں کہ کبھی وہ وقت آئے گا کہ قدیم مذہبی عنصر اتنا حاوی ہو جائے کہ وہ اپنی سیاسی طاقت کے ذریعے سے نظام ریاست کو اپنے تصور کے مطابق ڈھال لے۔ اسی طرح جو سیکولر فکر ہے، وہ بھی کبھی اتنی طاقت ور نہیں ہو سکتی کہ مذہب سے بالکل لاتعلق ہو کر ایک سیکولر ریاست بنانے میں کامیاب ہو جائے۔ یہ نہیں ہو سکتا۔ لازماً اس کا حل یہ ہے کہ یہ طبقات آپس میں dialogue کریں اور چیزوں کو intellectual debate کے ساتھ حل کریں۔ اس کے سوا کوئی حل نہیں کہ درمیان کی راہ اختیار کی جائے اور ہم بحیثیت قوم اعتدال کے ساتھ، روایت سے بھی وابستہ رہیں اور جو مغرب کے پیش کردہ مفید تصورات وتجربات ہیں جو اسلام کے ساتھ ہم آہنگ ہیں، ان سے بھی استفادہ کریں اور ایک اعتدال پسندی کی راہ سامنے آئے جس کو سوسائٹی کا عمومی اعتماد حاصل ہو جائے۔ اس وقت تو دو انتہا پسندوں کے مابین سوسائٹی پھنسی ہوئی ہے۔

تو میرے خیال میں سارے مسئلے کی جڑ یہ ہے کہ ہم نے یہاں پاکستان میں جو اجتہاد کیا ہے اسلام اور جمہوریت کو ملا کر ایک مرکب بنانے کا، اس کے بارے میں کسی بھی سطح پر، کسی بھی طبقے میں جو مکالمہ اور ڈائیلاگ ہونا چاہیے تھا، وہ نہیں ہوا۔ لوگوں کو سمجھانا چاہیے تھا کہ بھئی، پرانا اسٹرکچر یہ تھا، اس کی bases یہ تھیں۔ اب یہ تبدیلیاں آ چکی ہیں، اب ہمارے پاس یہ بنیادیں ہیں فیصلہ کرنے کی۔ اب ہم فقہ اور شریعت کے بہت سے مسائل کو نئے سرے سے دیکھ رہے ہیں۔ اب ہم نئے سرے سے نصوص کو دیکھ رہے ہیں اور ایک نئی interpretation کر رہے ہیں۔ جب تک بالکل واضح طریقے سے آپ یہ بات لوگوں کو نہیں بتائیں گے، اس وقت تک یہ کنفیوژن دور نہیں ہوگا اور معاملات یونہی چلتے رہیں گے۔ جدید ریاستی نظام کے حوالے سے ہماری اعلیٰ سطحی مذہبی قیادت نے جن چیزوں پر صاد کیا ہے، وہ کسی بھی طرح اجتہاد مطلق سے کم نہیں ہے۔ نہایت بنیادی ایشوز پر کلاسیکی تصور ریاست سے اختلاف کیا گیا ہے جو ایک مثبت طرز فکرہے، لیکن تضاد یہاں سے پیدا ہوتا ہے کہ سب کچھ کرنے کے باوجود علماءبطور ایک طبقے کے جو اپنا فکری مقدمہ پیش کرتے ہیں، وہ کلاسیکی فقہ ہی کو Idealize کرتا ہے۔ وہ یہ کہنے کی جرات نہیں رکھتے کہ ہاں، اجتہاد مطلق ہو سکتا ہے اور ہم نے عملاً کیا ہے۔ اس سے شاید انھیں خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ پھر معاملہ ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا۔

[highlight txtcolor=”#dd3333″]مشعل سیف:[/highlight] آپ نے جو حل بتایا ہے کہ ہمیں نئے سرے سے اجتہاد کرنا چاہیے تو کیا آپ کے خیال میں اس سلسلے میں مدارس میں جو تعلیمی نظام ہے، اس میں بھی کچھ تبدیلیاں لانی چاہییں؟

[highlight txtcolor=”#dd3333″]عمار ناصر:[/highlight] وہ تو بنیادی چیزہے، اس لیے کہ آپ کا جو قدیم تصور ریاست ہے، وہ اس وقت آپ کو بتا کون رہا ہے؟ وہ تو دنیا میں کہیں پڑھایا نہیں جا رہا اور نہ کہیں موجود ہے۔ وہ یہ مدارس ہی ہیں جو قدیم فقہ کو پڑھاتے ہیں اور وہی لوگوں کو اس کے متعلق بتاتے ہیں، لیکن ساتھ یہ نہیں بتاتے کہ اب حالات بدل گئے ہیں۔ چنانچہ لوگ وہیں سے فکری طور پر ایک ماڈل اخذ کرتے ہیں اور پھر جب وہ اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں تو انھیں پورا معاشرہ ایسے لگتا ہے جیسے یہ کوئی اجنبی معاشرہ ہے۔ ان کے اور لوگوں کے مابین ایک اجنبیت کی دیوار کھڑی ہو جاتی ہے۔ رفتہ رفتہ وہ پورے سسٹم کے بارے میں نظریاتی بنیادوں پر تحفظات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد جب کچھ ا س طرح کی پالیسیاں سامنے آتی ہیں جیسے افغانستان کے معاملے میں پاکستان نے اپنائیں اور امریکی جنگ کا حصہ بن گیا تو اس سے ایک ری ایکشن پیدا ہوا۔ اس میں ہماری اپنی غلط قسم کی سیاسی پالیسیاں کا بھی پورا پورا کردار ہے۔ جب ہم لوگوں کو ہتھیار پکڑا دیں گے تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا، بلکہ نکل چکا ہے کہ پورا ایک علاقہ اس تصور کی بنیاد پر ہتھیار لے کر اٹھ کھڑا ہوا کہ یہ سرے سے ایک اسلامی ریاست ہی نہیں اور جمہوریت کا یہ سارا نظام کفر ہے اور ہمیں یہاں اس کی جگہ شریعت کو نافذ کرنا ہے۔ تو کچھ مذہبی آئیڈیالوجی، کچھ قدیم تصور ریاست اور کچھ آپ کی غلط پالیسیوں پر غصہ اور رد عمل، یہ ساری چیزیںمل کر ان کو اس جگہ پر لے آئی ہیں کہ انھوں نے ہتھیار اٹھا لیے ہیں۔

[highlight txtcolor=”#dd3333″]مشعل سیف:[/highlight] تو کیا آپ کے خیال میں کلاسیکی فقہ کو پڑھاناہی نہیں چاہیے؟ کیا کرنا چاہیے؟

[highlight txtcolor=”#dd3333″]عمار ناصر:[/highlight] نہیں، یہ مطلب ہرگز نہیں ہے۔ کلاسیکی فقہ کو پڑھائیں، لازماً پڑھائیں، لیکن وسیع تر فکری اور عملی تناظر میں پڑھائیں۔ ہمارے ہاں تو مدارس میں مسئلہ یہ ہے کہ جو کلاسیکی فقہ ہے، اس کی جس طرح سے development ہوئی ہے، وہ بھی نہیں پڑھائی جاتی۔ مثلاً برصغیر کے مدارس میں فقہ کی جو سب سے مفصل کتاب پڑھائی جاتی ہے، وہ ہدایہ ہے جو پانچویں صدی کے حنفی عالم مرغینانی نے لکھی تھی۔ پانچویں صدی تک فقہ حنفی جس حد تک develop ہو چکی تھی، وہ آپ کو اس میں نظر آئے گی۔ وہ آپ کو پڑھا دی جاتی ہے۔ اس کے بعد کیا کچھ ہوا، نہ وہ پڑھایا جاتا ہے اور وہاں تک فقہ کیسے پہنچی، پہلے پانچ سو سال کا ارتقا بھی نہیں پڑھایا جاتا۔ گویا آپ طالب علم کو فقہ کا ایک بالکل Static View دے رہے ہیں۔ اس کے لیے وہی حرف آخر ہے جو اس نے اس میں پڑھ لیا ہے۔ اس تصور کے ساتھ آپ کیا توقع رکھتے ہیں کہ وہ اتنی بڑی تبدیلی کو سمجھ سکے گا جو اب ہر سطح پر دنیا میں رونما ہو چکی ہے؟ تو مدارس کے بنیادی نظام، تعلیم کے بنیادی تصورات اور نصاب تعلیم کی اصلاح، یہ پوری اسکیم ہے اور یہ بنیادی چیز ہے۔ وہاں اگر آپ اصلاح نہیں کریں گے تو باقی جتنی چاہیں discussions کر لیں، ٹاک شوز کر لیں، اخبارات میں لکھ لیں، جب تک وہ مائنڈ سیٹ produce ہوتا رہے گا اور اس کی اصلاح کے لیے آپ جڑ سے نہیں پکڑیں گے، معاملہ حل نہیں ہوگا۔

[highlight txtcolor=”#dd3333″]مشعل سیف:[/highlight] اس پر کچھ مزید روشنی ڈالیے کہ کس طرح کی تبدیلیاں لے کر آنی چاہییں تعلیمی نصاب میں۔ کیونکہ آپ یہ نہیں کہہ رہے کہ ہمیں کلاسیکی فقہ نہیں پڑھانی چاہیے۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں اس کو ضرور پڑھانا چاہیے، مگر ساتھ یہ بھی پڑھائیں کہ تاریخ میں کس طرح اس میں تبدیلیاں آئی ہیں اور یہ ہمیں یہ بھی بتانا چاہیے کہ آج کل دنیا میں جس طرح کا پولیٹیکل اسٹرکچر ہے، وہ بہت مختلف ہے اور اس کی بھی تعلیم دینی چاہیے۔ تو سوال یہ ہے کہ پھر کلاسیکی فقہ پڑھانے کا آخر فائدہ کیا ہوا؟ کیا یہ اس لیے ہے کہ یہ تاریخی طور پر ہمارا ورثہ ہے، اگرچہ آج کل کے حالات میں یہ ہماری زیادہ مدد نہیں کرتی؟

[highlight txtcolor=”#dd3333″]عمار ناصر: [/highlight]دیکھیں، ہم اپنی علمی Tradition کو تو نظر انداز نہیں کر سکتے، نہ دست بردار ہو سکتے ہیں۔ آپ مغرب کو دیکھیں۔ وہ اپنے ہاں جو بھی علوم پڑھاتے ہیں، ان میں افلاطون اور ارسطو سے لے کر اب تک کی جو بھی روایت ہے، وہ آپ کو پڑھائیں گے تاکہ آپ کو معلوم ہو کہ وہ کہاں کہاں سے گزر کر اور کون کون سے مراحل طے کر کے آج یہاں پہنچے ہیں۔ تو اپنی روایت سے ہم کیسے دست بردار ہو سکتے ہیں؟ ہمیں اس سے راہ نمائی لینی ہے۔ مذہب اور شریعت کو اپنا بنیادی سرچشمہ مان کر چیزوں کو دیکھنے کا جو زاویہ نظر ہے، ہمیں وہ اسی سے ملے گا۔ کلاسیکی فقہ کے جو applied نتائج ہیں، ان سے آج ہم یقینا اختلاف کریں گے، لیکن جو ایک Thinking Process ہے، قرآن وسنت سے چیزیں اخذ کرنے کا جو منہج ہے، اس کے اچھے نمونے اور نظائر تو ہمیں وہیں سے ملیں گے۔ وہ تو آپ کو Anglo-Saxon Law نہیں دے گا۔ کلاسیکی فقہ ہمارا ایک غیر معمولی ورثہ ہے۔ ہمیں اس کو پڑھنا ہے، اس کو گہرائی میں جا کر سمجھنا ہے۔ اس سے ہمیں دست بردار نہیں ہونا، اس کو لینا ہے، اس سے سیکھنا ہے اور اس کو حاصل کرنا ہے۔ اس پراسس کو سمجھ کر پھر ہم نے آج نئے سرے سے اسے apply کرنا ہے۔ اس کو لازماً پڑھانا چاہیے۔اس کے بغیر تو ہم اپنی روایت سے بالکل کٹ جائیں گے۔

ہماری جو Tradition ہے، جو پوری روایت ہے، اس میںاصول فقہ ہے، اصول تفسیر ہے، اصول حدیث ہے، دوسرے دینی علوم ہیں، ان کو وسیع تناظر میں دینی علوم کے طلبہ کو پڑھانا چاہیے اور اس کے ساتھ میںسمجھتا ہوں کہ ہمیں آج کے مغربی فلسفے اور سماجی علوم کو بھی اپنے نصاب میں شامل کرنا چاہیے۔ یہ بھی ہماری روایت کا حصہ ہی ہوگا، کیونکہ ہم نے قدیم دور میں جو اس وقت کی Greek Philosophy تھی، اس کو اپنے تعلیمی نصاب میںشامل کیا تھا، بلکہ لوگ کہتے ہیں کہ اس کو ہم نے Islamize بھی کر لیا اور اس میں ہمارے مفکرین نے اپنے اضافے کیے۔ تو علم میں کوئی تعصب نہیں ہے۔ جیسے ہم نے یونانی فلسفے میں بعض غلط تصورات کی اصلاح کی، آج ہم مغرب کے علوم کے ساتھ بھی یہ کر سکتے ہیں۔ ان سے ان کا فلسفہ سمجھیں، ان کے نتائج فکر پڑھیں، ان کے تجربات لیں اور اس میں جہاں بھی محسوس کرتے ہیں کہ یہاں اسلام سے ہٹی ہوئی کوئی بات ہے، اس میں اپنا Contribution دیں کہ یہ اس حوالے سے ایک متبادل زاویہ نظر ہے۔ ہمارے ہاں بہت سے لوگ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ مغربی فلسفے کے ساتھ شاید یہ نہیں کیا جا سکتا کہ اس کے حاصلات کو مغرب کے لادینی رجحانات سے الگ کر کے ایک دوسرے نظری اور اسلامی فریم ورک میں ڈھال لیا جائے۔ میرے خیال میں اس نقطہ نظر میں زیادہ گہرائی نہیں ہے اور یہ زیادہ تر تاثراتی ہے جس میں مغرب کی لادینیت کے خلاف رد عمل زیادہ جھلکتا ہے۔

[highlight txtcolor=”#dd3333″]مشعل سیف:[/highlight] آپ نے مائنڈ سیٹ کی بات کی کہ مدارس میں ایک خاص طرح کا مائنڈ سیٹ بنا دیا جاتا ہے جس میں کلاسیکی فقہ کا اس طرح احترام کرنا ہوتا ہے کہ آپ اسی کو حتمی اور حرف آخر تسلیم کر لیں۔ مگر آپ کی خود بھی جو پرورش ہوئی اور آپ نے جو دینی تعلیم حاصل کی، وہ انھی مدارس سے کی ہے۔ تو آپ کے اندر یہ جو مختلف رجحان اور فکر آئی، یہ کہاں سے آئی؟

[highlight txtcolor=”#dd3333″]عمار ناصر: [/highlight]دیکھیں، مدارس کے سسٹم میں اس کا پورا اہتمام ہوتا ہے کہ آپ کا ذہن ایک خاص سوچ کے دائرے میں محدود ہو جائے، لیکن ایسا تو نہیں ہے کہ آپ کسی بند کنویں میں رہتے ہیں۔ رہتے تو آپ دنیا میں ہی ہیں اور دیکھتے سنتے ہیں کہ ارد گرد کیا ہو رہا ہے۔ ذاتی طور پر مجھے یہ خیال ہوتا ہے کہ میرے اپنے گھر کا جو ماحول ہے، وہ تھوڑا مختلف ہے۔ میرے والد کا جو انداز نظر ہے اور ان میں جو ایک وسعت فکر ہے، اس کا اس میں بڑا کردار ہے۔ انھوں نے جمعیة علماءاسلام میں مفتی محمود صاحب کے ساتھ سیاسی کام کیا ہے۔ اس دائرے میں کام کرنے کی وجہ سے ان کے اپنے زاویہ نظر میںبڑی وسعت آئی۔ ہر طرح کے اور ہر طبقہ خیال سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ساتھ ان کو میل جول کا موقع ملا، بلکہ ان کے اپنے نہایت گہرے ذاتی دوستوں میں ایسے لوگ شامل رہے ہیں جنھیں عام طور پر مذہب دشمن اور Leftist سمجھا جاتا ہے۔ تو والد صاحب کا اپنا زاویہ نظر بڑا وسیع ہے اور انھوں نے ہمارے یعنی بچوں کے معاملے میں بھی کبھی فکری جبر کی یا کوئی خاص نقطہ نظر ٹھونسنے کی کوشش نہیں کی۔

میںنے اپنے تعلیمی دور کا زیادہ تر حصہ اپنے والد کے پاس اور اپنے گھر سے متصل مدرسہ انوار العلوم میں گزارا ہے۔ عام طور پر کسی بھی مذہبی طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ اس کا اہتمام کرتے ہیں کہ اپنے بچوں کو ایک خاص نوعیت کے مسلکی رنگ میں رنگنے کی کوشش کریں، لیکن میرے ساتھ یہ نہیں ہوا۔ مجھے بچپن سے ہر طرح کی چیزیںپڑھنے کی آزادی حاصل تھی، حتیٰ کہ میںنے ابھی قرآن مجید حفظ مکمل نہیں کیا تھا کہ مجھے بائبل کا مطالعہ کرنے کی بھی آزادی تھی۔ مجھے اس زمانے میں یہ معلوم کرنے میںدلچسپی پیدا ہوئی کہ یہودیت او رمسیحیت، یہ کیسے مذاہب ہیں اور بائبل میں کیا لکھا ہوا ہے۔ میںمسیحی لٹریچر منگوا کر پڑھتا تھا اور انار کلی لاہور میں مسیحی اشاعت خانہ جا کر وہاں سے کتابیں لے کر آتا تھا۔ اس میںمجھ پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی۔ اسی طرح ہمارے ہاں ہر طرح کی مذہبی اور سیاسی سوچ رکھنے والے لوگ اور مختلف مکاتب فکر کے رسائل وجرائد آتے تھے۔ اس طرح مجھے بچپن سے ہی اس کا موقع ملا کہ میں مختلف قسم کی چیزیں پڑھوں۔ میرے خیال میں اس ماحول کا کافی اثر ہوا۔

[highlight txtcolor=”#dd3333″]مشعل سیف:[/highlight] بہت سے علماءکا یہ کہنا ہے کہ نائن الیون کے بعد پاکستان اسلامی ریاست نہیں رہا، کیونکہ اس واقعے کے بعد جو فیصلہ کیا گیا، اس سے واضح ہو گیا ہے کہ ہماری حکومتی پالیسیاں پوری طرح امریکہ کے کنٹرول میں ہیں۔ آپ اس پر کچھ تبصرہ کریں گے؟

[highlight txtcolor=”#dd3333″]عمار ناصر:[/highlight] نائن الیون کا واقعہ خاصا اہم تھا، سیاسی لحاظ سے بھی اور تہذیبی اعتبار سے بھی۔ اس نے دو تہذیبوں کے باہمی تعلق کو ایک خاص شکل دے دی ہے۔ اس واقعے کے تناظر میں پاکستان نے جو فیصلہ کیا، ا س کو القاعدہ کے لوگ تو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ پاکستان نے ریاست کی سطح پر مسلمانوں کے خلاف امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا جو ایک اسلامی ریاست نہیں کر سکتی۔ میرے خیال میں یہ استدلال کافی سادہ ہے اور ہمیں صورت میں جو بہت سی پیچیدگیاں ہیں، ان کو بھی سامنے رکھنا پڑے گا۔ مثلاً ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ کسی ریاست کی جو نظریاتی حیثیت ہے، وہ ہم اس کے آئین اور اس کے دستور سے اخذ کریں گے یا ہماری حکومت یا فوج نے ایک مخصوص صورت حال میں جو پالیسی اختیار کی، اس سے طے کریں گے؟ یہ ایک بنیادی سوال ہے۔ میں تو پہلی بات کو ہی صحیح سمجھتا ہوں۔ ہم نے آئین کی صورت میں جو ایک قومی میثاق کیا ہے، جس پر پوری قوم نے اتفاق کیا ہے، وہ اصل معیار ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک مسلمان کلمہ پڑھ لیتا ہے اور کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں۔ اس کے بعد وہ کام ایسے کرتا ہے جو اسلام کے خلاف ہیں تو اس کو ہم کافر نہیں کہتے۔ یہی اصول میرے نزدیک ریاست پر بھی لاگو ہوگا۔ اگر ہمارا آئین یہ کہتا ہے اور ہماری قوم کا اجتماعی ضمیر بھی یہی کہتا ہے کہ جو فیصلہ کیا گیا، وہ غلط تھا تو اس کا ذمہ دار پالیسی ساز اداروں کو تصور کرنا چاہیے، نہ کہ ریاست کی نظریاتی حیثیت کی نفی کر دینی چاہیے۔

پھر ایک اور پہلو بھی بڑا اہم ہے۔ یہ جو مقدمہ پیش کیا جاتا ہے کہ فوج نے مسلمانوں کے خلاف امریکہ کا ساتھ دے کر ارتداد کا ارتکاب کیا ہے، یہ بالکل یک طرفہ اور یک رخی بات ہے۔ یہ دیکھنا چاہیے کہ فوج نے کن حالات میں یہ فیصلہ کیا اور اس میں بنیادی ذمہ داری میرے نزدیک پاکستانی فوج پر نہیں ، بلکہ خود القاعدہ پر عائد ہوتی ہے، اس لیے کہ وہ سچویشن جس میں یہ فیصلہ کیا گیا، وہ القاعدہ نے پیدا کی تھی۔ القاعدہ نے افغانستان میں بھی اسلامی شریعت کے اصولوں کو violate کیا۔ اسلامی شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی کہ آپ مسلمانوں کے کسی ملک میں مہمان کے طو رپر رہ رہے ہوں اور وہاں کی حکومت اور لوگوں کے ہاتھ میں ہو، لیکن فیصلے آپ کرنے لگیں کہ ہم نے یہاں بیٹھ کر فلاں ملک پر حملہ کرنا ہے۔ ملا عمر اگر یہ فیصلہ کرتے کہ ہم نے امریکہ کے ساتھ جنگ چھیڑنی ہے تو چلیں، نتیجہ کیسا بھی ہوتا، کم سے کم وہ اس لحاظ سے تو justified ہوتا کہ ایک ملک کی ایک با اختیار اتھارٹی نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ لیکن یہ کیا بات ہوئی کہ امیر تو وہاں کے ملا عمر ہیں اور جنگ کرنے کا فیصلہ بن لادن کر رہے ہیں؟ اسلام کی نظر میں یہ بالکل جائز نہیں ہے۔ پھر یہ لوگ وہاں سے بھاگ کر پاکستان میں آ جاتے ہیں، جبکہ پاکستان یہ طے کر چکا تھا کہ ہم اس جنگ میں طالبان کے ساتھ نہیں ہیں۔ اسی سے قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں اور فوجی آپریشن جیسے مخمصوں نے جنم لیا۔ تو یہ دراصل القاعدہ کی غلط سوچ اور غلط حکمت عملی ہے جس کا خمیازہ افغانستان کو اور پاکستان کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اس جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ غلط ہونے کے باوجود اس کی بنیادی ذمہ داری پاکستانی فوج پر نہیں، بلکہ القاعدہ پر عائد ہوتی ہے۔

[highlight txtcolor=”#dd3333″]مشعل سیف:[/highlight] آپ نے پاکستان کے بارے میں کہا کہ یہ اصولی طور پر اسلامی ریاست ہے۔ اس کے علاوہ عملی طور پر بھی کچھ اقدامات کیے گئے ہیں۔ مثلاً اسلامی نظریاتی کونسل ہے اور وفاقی شرعی عدالت ہے۔ اس حوالے سے کچھ بتائیں کہ ان اداروں سے کس حد تک مدد مل سکتی ہے پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے میں؟

[highlight txtcolor=”#dd3333″]عمار ناصر: [/highlight]آپ کو معلوم ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کو آئین میں کوئی اتھارٹی حاصل نہیں ہے۔ وہ ایک مشاورتی ادارہ ہے۔ وہ ریاست نے اپنی سہولت کے لیے بنایا ہے کہ اگر اس نے اسلامی قانون سازی کرنی ہے تو ظاہر بات ہے کہ اس کے لیے کافی کام کرنا پڑے گا۔ ہر عالم سے آپ رائے تو لے سکتے ہیں، لیکن آپ کو قانون کو ایک Codified شکل دینی ہے تو اس کے لیے ایک خاص طرح کی سمجھ بوجھ اور Expertise چاہیے۔ ایسے لوگ چاہییں جو قانون کو، اس کی زبان کو، اس کے مسائل کو سمجھتے ہوں۔ نظریاتی کونسل اس مقصد کے لیے بنائی گئی ہے کہ قانون کی drafting میں وہ مدد کرے۔ ظاہر ہے کہ اس کے لیے انھوں نے ایک Criterion بھی بنایا ہے کہ ایسے لوگ اس میںشامل ہوں گے جن کا عمومی قانون کا یا اسلامی قانون کا پس منظر ہو۔ اس کا ایک بہت محدود، limited دائرہ ہے۔ اس کے باوجود جو کام اس ادارے نے اب تک کیا ہے، وہ میرے خیال میں مفید ہی ہے۔ اس نے مروجہ قوانین کا جائزہ لے کر اسلامی قانون کی روشنی میں اس میں تبدیلیاں تجویز کر دی ہیں اور بیشتر قوانین کے متبادل مسودات بھی تیار کر دیے ہیں۔ اس کے بعد ان کی تنفیذ حکومت کا کام ہے۔

[highlight txtcolor=”#dd3333″]مشعل سیف:[/highlight] بہت سے لوگ اسلامی نظریاتی کونسل پر یہ تنقید کرتے ہیں کہ اس میں حکومت اپنی پسند کے علماءکو مقرر کرتی ہے تاکہ وہ ان کی ترجیحات کے مطابق رائے دیں۔ آپ کیا سمجھتے ہیں؟

[highlight txtcolor=”#dd3333″]عمار ناصر:[/highlight] اصل جو مسئلہ ہے، اس کو اس کی اصل جگہ سے پکڑنا چاہیے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس طرح کے جو ادارے بنائے جاتے ہیں، ان کی Composition کے بارے میں وقتاً فوقتاً سوالات اٹھتے رہتے ہیں کہ آیا اس میں Genuine اہل علم کو مقرر کیا گیا ہے یا یہ جانب دارانہ تقرریاں ہیں۔ وہ مسئلہ کیا ہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ مسلمان معاشروں میں بہت سے جدید تغیرات آ چکے ہیں، ریاست کی سطح پر بھی اورمعاشرت کی سطح پر بھی اور یوں سمجھیں کہ ہم اس وقت دنیا میں مغرب کے بنائے ہوئے سیاسی نظام اور معاشرتی اقدار کے تحت رہ رہے ہیں۔ اب ہمارا جو قدیم اسٹرکچر ہے فکر کا، وہ اس سے بہت زیادہ ٹکراتا ہے۔ اس تضاد کو ہم دانش کی سطح (Intellectural Level) پر حل کرنے کی کوشش نہیں کر رہے۔ جب نہیں کر رہے تو ظاہر ہے کہ تضادات تو موجود ہیں۔ ایک پورا طبقہ ہے جو یہ چاہتا ہے کہ جیسے قدیم دور میں تھا، آج بھی علماءہی دین وشریعت کی تعبیر میں حرف آخر سمجھے جائیں۔ اگرچہ اسلام میں تھیا کریسی نہیں ہے، لیکن بہرحال یہ تو ہے کہ دین کی تشریح کسی اہلیت رکھنے والے صاحب علم کو ہی کرنی چاہیے۔ اس لحاظ سے جو اپنے وقت کے علماءہوتے تھے، انھی کو عام طور پر مرجع مانا جاتا تھا۔ اب یہ Ideally بڑی اچھی بات ہے کہ دین کی تعبیر وتشریح اسی کو کرنی چاہیے جس کے پاس دین کا گہرا علم ہو، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس اس وقت جو طبقہ ہے دین کو سمجھنے والا یا دین کی تعبیر کرنے والا، اس کو حرف آخر ماننے کے لیے جدید ذہن تیار نہیں جو خود دور جدید کے تغیرات کا تو ادراک رکھتا ہے، لیکن اس کے پاس دین کا علم نہیں ہے۔ وہ اس پر مطمئن نہیں ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ آج کے دور کے جو مسائل ہیں اور جو تبدیلیاں آئی ہیں، علماءکے فہم دین میں ان کو صحیح جگہ نہیں دی جا رہی۔ گویا علماءبحیثیت طبقے کے دور جدید کے تغیرات کا ادراک نہیں کر رہے،جبکہ یہ دوسرا جو طبقہ ہے جس کا ریاست کے معاملات پر زیادہ کنٹرول ہے، وہ علماءکو یہ مقام دینے کے لیے تیار نہیں کہ ان کی بات حرف آخر ہو، اس لیے کہ وہ ان کے فہم پر مطمئن نہیں ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ علماءبالکل قدیم دور میں کھڑے ہیں، اجتہاد کا زاویہ نظر ان کے ہاں نہیں ہے اور یہ جو تعبیرات پیش کر رہے ہیں، وہ ہمارے آج کے حالات کے لحاظ سے قابل عمل نہیں ہیں۔

یہ جو ایک بد اعتمادی ہے مسلمانوں کے ان دو بڑے طبقات کے مابین، یہ اصل میں دانش ورانہ مکالمہ کے ذریعے سے دور ہونی چاہیے۔ علماءکو چاہیے کہ اپنے زاویہ نظر میں اتنی وسعت پیدا کریں، اتنا اجتہادی زاویہ نگاہ پیدا کریں کہ آج کے حالات کے تناظر میں مسائل کا ایسا حل پیش کریں کہ وہ آج کی دانش کو appeal کرے اور آج کا ذہن اس پر مطمئن ہو۔ اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے تو تعبیر دین میں ان کی بات کا وزن خود بخود تسلیم کر لیا جائے گا۔ یہ اختیار کسی فرد یا طبقے کو استحقاقی دعوے کی بنیاد پر نہیں ملا کرتا۔ جو چیزیں فکر سے متعلق ہوتی ہیں، دانش سے متعلق ہوتی ہیں، ان میں اصل میں آپ کا جو استدلال ہوتا ہے اور آپ کے نقطہ نظر کی جو علمی وعقلی مضبوطی ہوتی ہے ، وہی آپ کو ایک اتھارٹی کی جگہ دے دیتی ہے۔ قدیم دور میں بھی دیکھیں، ایسا تو نہیں ہوتا تھاکہ علماءکو یہ کہہ کر اس منصب پر appoint کیا جائے کہ آپ اتھارٹی ہیں۔ نہیں، بلکہ علماءاپنے طور پر دین پر غور کرتے تھے، اس میںمحنت کرتے تھے، اس کا فہم پیدا کرتے تھے۔ اس سے ان کو لوگوں کی نظر میں اتھارٹی مل جاتی تھی کہ حکمران بھی ان کی رائے کے خلاف کوئی اقدام نہیں کر سکتے تھے۔ آج بھی یہ ہے کہ جن مسائل میں علماءکی رائے میں وزن محسوس کیا جاتا ہے اور سوسائٹی ان پر اعتماد کرتی ہے، حکومت سارا زور لگانے کے باوجود اس کے برخلاف کچھ نہیں کر سکتی۔

میری نظر میں جب تک ہم اس مخمصے سے نہیں نکلتے، یہی ہوتا رہے گا کہ اسلامی نظریاتی کونسل جیسے ادارے بنیں گے اور اس میں پرویز مشرف صاحب اقتدار میں آئیں گے تو وہ جدید ذہن کے نمائندوں کو لے آئیں گے اور ضیاءالحق صاحب آئیں گے تو وہ قدیم فکر کے نمائندوں کو اس میںمقرر کر دیں گے۔ اس طرح کے ادارے جو اس مقصد کے لیے بنائے گئے ہیں کہ وہاں قوم اپنے اجتماعی قانونی فہم کو بروئے کار لائے، جب وہ بھی بد اعتمادی کا شکار ہو جائیں تو اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ پیچھے اصل مسائل کیا ہیں۔ اصل مسئلہ قدیم اور جدید فکر کا تضاد اور ان کی کشمکش ہے۔ ان کے مابین کوئی مکالمہ نہیں ہے۔ قدیم فکر کے لوگ اپنے زاویہ نظر کو وسیع کرنے کے لیے تیار نہیں اور جدید ذہن کے بھی بعض مسائل ہیں۔ یہ ہماری جو روایت ہے، بعض دفعہ اس سے بالکل ہٹ کر ایسی باتیں کرتا ہے جو ہمارے فکری سانچے سے بالکل میل نہیں کھاتی۔ یہ دو الگ الگ دھارے ہیں جو الگ الگ سمتوں میں معاشرے کو لے جانا چاہتے ہیں۔ ایک Conflict ہے جس کا کوئی Intellectual حل نہیں نکالا جا رہا۔ اس کی وجہ سے بہت سے مصنوعی اقدامات کر کے ہم کام چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

میرے خیال میں یہاں بھی مسئلہ وہی ہے اور اس کے حل کا راستہ بھی وہی ہے۔ ہمارے جو ایشوز ہیں، ہم اپنی تاریخ کو، اپنی فقہ کو، آج کے جو تغیرات ہیں، ان کو ایک سنجیدہ علمی مکالمے کا موضوع بنائیں اور ابہامات کو واضح کرنے کی کوشش کریں۔ تب یکسوئی پیدا ہوگی، ورنہ ایسے ہی سلسلہ چلتا رہے گا۔

[highlight txtcolor=”#dd3333″]مشعل سیف:[/highlight] اسلامی نظریاتی کونسل نے آپ کی ایک کتاب چھاپی ہے۔ آپ کا اس ادارے سے کوئی رابطہ رہتا ہے؟

عمار ناصر: میرا ادارے کی سطح پر تو کوئی رابطہ نہیں ہے۔ میں صرف ایک موقع پر ایک علمی نشست میں شرکت کے لیے وہاں گیا تھا۔ کتاب کی اشاعت کا پس منظر یہ تھاکہ ۷۰۰۲ءمیں اسلامی نظریاتی کونسل نے حدود وتعزیرات سے متعلق چند سفارشات پیش کی تھیں جن میں کوئی اہم پہلوؤں سے متعلق کلاسیکی فقہی موقف سے مختلف نقطہ نظر پیش کیا گیا تھا۔ یہ سفارشات سامنے آنے سے اس ضرورت کا احساس ہوا کہ ان پر ایک تبصرہ لکھ کر واضح کیا جائے کہ ان آرا کی علمی بنیاد کیا ہے تاکہ ان مسائل پر غور وفکر کے لیے اور علمی مباحثہ کے لیے کچھ پیش رفت ہو سکے۔ میں نے اپنا تبصرہ اس پہلو سے لکھا تھا اور سفارشات پر ناقدانہ نظر ڈالتے ہوئے اپنے فہم کے مطابق بعض چیزوں کی تائید کی اور بعض سے اختلاف کیا تھا۔ اصلاً یہ کونسل کے کہنے پر یا اس کے اہتمام میں نہیں لکھا گیا تھا، لیکن جب میں نے لکھ دیا تو کونسل نے اس کو مفید سمجھتے ہوئے شائع کر دیا۔

[highlight txtcolor=”#dd3333″]مشعل سیف:[/highlight] وفاقی شرعی عدالت کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

[highlight txtcolor=”#dd3333″]عمار ناصر:[/highlight] میں چونکہ شرعی عدالت کے فیصلوں کو باقاعدہ follow نہیں کرتا، اس لیے میں اس کے متعلق کچھ کہہ نہیں سکتا کہ دور جدید میں اسلامی قانون کی تعبیر میں یا ایک اجتہادی زاویہ نظر سے مسائل کو دیکھنے میں اس کا اب تک کیا کردار رہا ہے۔ البتہ یہ ادارہ ایک لحاظ سے اہم ہے اور اگر اس کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا جائے تو وہ بڑا useful ثابت ہو سکتا ہے۔ وہ یہ کہ اسلامی قانون کے اصولوں کی re-application کا جو معاملہ ہے اور ان کو دور جدید کے حالات ومسائل کے تناظر میں اور بدلتے ہوئی معاشرتی ضروریات کے لحاظ سے reinterpret کرنے کی جو ضرورت ہے، وہ اس عدالت کے فیصلوں کے ذریعے سے پوری کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ یقینا اس نوعیت کا کام ہوا ہوگا، لیکن میں فیصلوں پر نظر نہ ہونے کے سبب کچھ کہہ نہیں سکتا۔ اصل میں تو جو ہمارے دینی اداروں کے دار الافتاءاور مفتی صاحبان ہیں، ان کو بھی یہی کرنا چاہیے، لیکن وہاں جمود کی گرفت بہت مضبوط ہے۔ وہاں بنیادی فقہی اصولوں کی روشنی میں نئے اجتہاد کا تو کیا سوال، قدیم فقہی ذخیرے سے استفادے کے لیے بھی کڑی تکنیکی شرائط کی پابندی کو زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے بہ نسبت معروضی صورت حال کی رعایت کے۔ اس لیے وہاں سے تو اطلاق وانطباق کی سطح پر فقہ اسلامی کی تجدید کی کوئی توقع نہیں۔ البتہ شرعی عدالت کے ادارے کو میں اس پہلو سے ایک مفید ادارہ سمجھتا ہوں کہ اس کے ذریعے سے یہ مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔

میرے خیال میں شرعی عدالت کے فیصلوں سے استفادہ کا دائرہ اب تک بہت محدود رہا ہے، کیونکہ صرف عدالتی جرنل میں چھپتے ہیں۔ اس کا زیادہ فائدہ ہو سکتا ہے اگر اس ادارے میں پچھلے پچیس تیس سال میں جو اجتہادی عمل ہوا ہے، اس کا تجزیہ کیا جائے اور دیکھا جائے کہ ان میں کن ایشوز کو موضوع بنایا گیا ہے اور کس نوعیت کا اجتہادی زاویہ نظر اختیار کیا گیا ہے۔ ایسے فیصلوں کو عمومی علمی حلقوں کے سامنے لانا چاہیے۔ خاص طور پر جو روایتی علماءکا طبقہ ہے، ان تک انھیں پہنچایا جائے تاکہ انھیں اندازہ ہو کہ حقیقی فقہی فہم اصل میں نظری طور پر کتابی بحثیں پڑھنے سے حاصل نہیں ہوتا۔ عملی صورت حال میں کئی پیچیدگیاں involve ہوتی ہیں۔ عدالت کو ایک طرف شرعی نصوص کو دیکھنا ہوتا ہے اور دوسری طرف عملی مسائل کو بھی دیکھنا ہوتا ہے۔ اسے مقدمے کے فریقین اور ان کے پس منظر پر بھی نظر رکھنی ہوتی ہے۔ اس طریقے سے میرا خیال ہے کہ مذہبی لوگوں میں جو کسی مسئلے کو صرف فقہ کی پرانی کتابوں سے دیکھ کر اس کا حل ڈھونڈنے کا رجحان ہے، اس میں کچھ بہتری آ سکے گی اور انھیں اندازہ ہوگا کہ معاملے کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ کتاب میں لکھی ہوئی تشریح بھی ہوتی ہے اور وہ situation بھی ہوتی ہے جس میں بندہ کھڑا ہے۔ ان دونوں پہلو¶ں کو آپ نے کیسے ملحوظ رکھ کر حل نکالنا ہے، اس کی تربیت ہوگی، اگر شرعی عدالت کے فیصلوں پر کچھ اس طرح کا کام کر لیا جائے۔

[highlight txtcolor=”#dd3333″]مشعل سیف:[/highlight] یہ بتائیے کہ آئین کو اور بہت سے قوانین کو Islamize کر لینے اور نظریاتی کونسل اور شرعی عدالت جیسے ادارے بنا لینے کے بعد پاکستان کو عملی طور پر اسلامی ریاست بنانے کے لیے اب مزید کن چیزوں کی ضرورت ہے اور آگے کس بات کی کوشش کرنی چاہیے؟

[highlight txtcolor=”#dd3333″]عمار ناصر:[/highlight] یہ بھی ایک بڑا اہم سوال ہے کہ عملی طور پر کیا ہو سکتاہے۔ میرے خیال میں جب بھی ہم اسلام کے نفاذ کی بات کرتے ہیں تو ہمارا سارا دھیان ریاست اور حکومت کے فیصلوں اور اقدامات پر مرکوز ہو جاتا ہے۔ میرے فہم کے مطابق قرآن وسنت میں جو مسلم معاشرے کا تصور ملتا ہے، اس میں ریاست اور حکومت کے معاملات بہت ثانوی چیز ہیں۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ مسلمانوں کا پورا معاشرہ عملاً مسلمان ہو۔ ریاست بھی مسلمان ہو، یہ اس کا ایک بہت محدود حصہ ہے۔ ریاست تو معاشرے ہی کا ایک حصہ ہے۔ جتنا معاشرہ مسلمان ہو چکا ہوگا، اتنی ہی ریاست بھی خودبخود ہو جائے گی۔ تو نفاذ اسلام کے تصور کی اصلاح ضروری ہے۔ آپ دیکھیں کہ معاشرے میں افراد کی اخلاقیات بگڑی ہوئی ہے، افرادکی وابستگی مذہب کے ساتھ صرف جذباتی ہے، عمل کا کوئی داعیہ ان کے اندر نہیں ہے۔ افراد بگڑے ہوئے ہیں، معاشرتی رسوم بگڑی ہوئی ہیں اور بری قدروں نے اسلام کی معاشرتی قدروں کو Replace کر دیا ہے۔ معاشرے میں ہم ہر جگہ لوگوں کو مادیت سکھا رہے ہیں اوران میں صرف اپنی دنیا کو بہتر بنانے کے جذبات بیدار کر رہے اور اس کے طریقے سکھا رہے ہیں۔ جو مذہب کے مطالبات ہیں، خدا کے ساتھ تعلق ہے، آخرت کے لیے تیاری ہے، اپنی اخلاقیات کو اللہ کی نظر میں بہتر بنانے کا معاملہ ہے، یہ احساس ہے کہ میرے کسی قول یا فعل سے کسی کی دل آزاری یا حق تلفی نہ ہو، کسی کو دکھ نہ پہنچے، کوئی نا انصافی نہ ہو، اصل میںیہ افراد تیار ہونے چاہییں۔ صحیح اسلامی معاشرہ وہ ہوگا جس میں افراد اور معاشرے میں رہنے انسان بحیثیت مجموعی اسلام کی قدروں کو اپنا لیں۔ اس کے بعد ریاست کا کردار تو بہت محدود ہوتا ہے۔ ریاست کیا کرتی ہے؟ وہ کچھ قوانین نافذ کر دے گی۔ چور کو پکڑے گی اور اسے سزا دے دے گی۔ اصل میں دین پر عمل نوے پچانوے فی صد معاشرے نے خود کرنا ہے۔ معاشرہ اگر تیار نہیں ہے، اس کے اندر اتنی جان نہیں ہے کہ وہ شریعت کی پابندیوں کو قبول کر لے تو ریاست وہاں کیا کرے گی؟

اس وقت یہی ہو رہا ہے۔ ہم نے پہیہ الٹا گھما دیا ہے۔ ہم نے سمجھا کہ اگر ریاست کو کلمہ پڑھا دیں گے اور کچھ قوانین منظور کر لیں گے اور کچھ اسلامی قسم کے ادارے بنا دیں گے تو اس کا اثر معاشرے پر پڑ جائے گا۔ یہ الٹ بات ہے۔ ایسا نہیں ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یا کسی بھی پیغمبر نے پہلے دن حکومت اور اقتدار کی سطح پر بات نہیں کی تھی۔ پہلے دن لوگوں کو مخاطب بنایا تھا، ان کو ایمان سکھایا تھا، لوگوں کو اخلاق بتائے تھے۔ پھر جب لوگوں میں قبولیت کی استعداد پیدا ہو گئی، تب یہ ہوا کہ ایک دن آپ نے اعلان کیا کہ شراب حرام ہے تو لوگوں نے ساری شراب اٹھا کر باہرپھینک دی۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ اگر پہلے دن آپ لوگوں سے یہ کہتے کہ شراب ممنوع ہے اور زنا حرام ہے تو کوئی بھی نہ مانتا۔ تو یہ الٹ ترتیب ہے جو ہم نے اختیار کی ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے جو مذہبی لوگ ہیں، جن کی یہ خواہش ہے کہ معاشرہ تبدیل ہو، انھیں اپنی ترجیحات درست کرنی چاہییں۔ اب تک ہم نے سارا زور ریاست پر لگایا ہے اور وہاں جتنا ہو سکتا تھا، اس میں ہم نے کامیابی حاصل کرلی ہے۔ آئین مسلمان ہو گیا ہے، ضمانتیں دے دی گئی ہیں اور کافی قوانین بھی بن گئے ہیں۔ اس سے زیادہ سردست وہاں کچھ نہیں ہو سکتا۔ اب ہمیں اپنی ترجیحات بدلنی چاہییں۔ ہمیں اپنے اخلاق بہتر بنانے ہیں۔ خود مذہبی لوگوں میں بڑے اخلاقی مسائل ہیں۔ ہم خود اسلام کا جتنا اچھا نمونہ پیش کرتے ہیں، اس کو دیکھیں تو سوسائٹی سے ہم کیا توقع رکھتے ہیں؟ اب ہم لوگوں کو مسلمان بنائیں، ان کے اخلاق کو بدلیں، لوگوں کو اس کے لیے تیار کریں۔ جتنا یہ معاشرہ بہتر ہو جائے گا، اتنا اسلام خود بخود آ جائے گا اور اس کے بعد وہ وقت بھی آئے گا کہ ہم حکومتوں سے توقع کریں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں۔
یہ بات سمجھنے کی ہے کہ اسلام کی نظر میں قانون اور ریاست کا اور معاشرے کی جو اخلاقی صورت حال ہے، اس کا باہمی Relation کیا ہے۔ ہم ان چیزوں کو الگ الگ کر کے کسی ایک پر ذمہ داری نہیں ڈال سکتے کہ حکومت اور حکمران اگر ٹھیک ہو جائیں تو باقی سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ حکمران اگر تو آسمان سے اتر کر آئے ہیں تو پھر اور بات ہے۔ اگر حکمران ہم میں سے ہی کچھ لوگ ہیں اور وہ بھی انھی معاشرتی اقدار کے سانچے میںڈھلے ہیں جن کی چھاپ پورے معاشرے پر ہے تو ہم ان سے کیا توقع کر سکتے ہیں؟

[highlight txtcolor=”#dd3333″]مشعل سیف:[/highlight] آپ bottom-up اپروچ کی بات کر رہے ہیں کہ اگرہم نچلی سطح پر تبدیلیاں لے کر آئیں تو بات eventually ریاست تک پہنچے گی، جبکہ دوسری اپروچ جس کا آپ ذکر کر رہے ہیں، یہ ہے کہ ہم top سے تبدیلی لے کر آئیں۔ یہ بتائیے کہ نیچے سے تبدیلی لانے کے لیے علماءکو معاشرے کے اندر، عام لوگوں میں اور سوسائٹی کے اندر لوگوں کا رجحان اسلام کی طرف کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ کیا تصانیف سے یا لیکچرز سے ایسا ہوگا یا کسی اور طریقے سے؟

[highlight txtcolor=”#dd3333″]عمار ناصر:[/highlight] یہ تو سب ابلاغ کے طریقے ہیں۔ آپ نے بات پہنچانی ہے، لوگوں کو نصیحت کرنی ہے تو یہ اس کے طریقے ہیں۔ آپ اس طریقے سے بھی کر سکتے ہیں اور جمعے کے خطبے اور لیکچر اور درس سے بھی کر سکتے ہیں۔ سب سے زیادہ موثر جو چیز ہے، جو ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سارے انبیاءکے طریقے میں ملتی ہے، وہ کردار کا نمونہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ لیکچر نہیں دیا کرتے تھے۔ ہمارے ہاں تو ہر نماز کے بعد کوئی نہ کوئی درس، کوئی نہ کوئی وعظ ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہ تھا کہ جمعے کے علاوہ آپ عام طور پر پبلک اجتماع کا اہتمام نہیں کرتے تھے۔ ہفتے میں ایک دن رکھا ہوتا تھا جس میں لوگوں کو جمع کرتے اور وعظ ونصیحت کا اہتمام فرماتے تھے۔ اکابر صحابہ کا بھی یہی معمول رہا ہے۔ عبد اللہ بن مسعودؓ سے لوگوں نے کہا کہ آپ ہمیں کچھ زیادہ وقت دیا کریں۔ انھوں نے کہا کہ نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات ناپسند تھی کہ لوگوں کو باتیں سنا سنا کر اکتاہٹ میںڈال دیا جائے۔ اصل میںانسان نمونے سے سیکھتا ہے۔ ہماری سوسائٹی کی بدقسمتی یہ ہے کہ اچھی سے اچھی تقریریں کرنے والے آپ کو بے شمار لوگ مل جائیں گے، کوئی اچھا نمونہ دکھانے والا نہیںملے گا کہ یہ اسلام ہے، یہ اسلامی اخلاقیات ہے۔ آپ کو علماءمیں، لیڈر شپ میں، اپنے ارد گرد کے لوگوں میں نمونہ نظر آئے گا تو آپ اس سے سیکھیں گے نا! تقریریں تو ہم سب کر لیتے ہیں۔

تو جو لوگ معاشرے کی اصلاح کے علم بردارہیں اور تبدیلی چاہتے ہیں، سب سے پہلے ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ عالم کی حیثیت سے، مذہب کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے ہماری جو اپنی اخلاقیات ہے اور فرد کی حیثیت سے سماج میں ہماری جو اخلاقیات ہے، اس کو بہتر بنائیں۔ ہماری ترجیحات کیا ہیں، ان سے نظر آئے کہ ایک مسلمان کو کیسا ہونا چاہیے۔ نمونے سے لوگ سیکھتے ہیں۔ پچھلے دور میں ہمارا ایک ادارہ ہوتا تھا تصوف کا، وہ تربیت کا ایک بڑا ا چھا مرکز تھا۔ اب وہ بدقسمتی سے بالکل برباد ہو گیا ہے۔ اب وہ ادارہ بھی ایک کاروباری ادارہ بن گیا ہے۔ اب ہمیں اچھے خدا والے، اچھے خدا پرست لوگ جن کے پاس بیٹھ کر ہم محسوس کریں کہ یہ دنیا کچھ نہیں ہے، وہ نہیںملتے۔ یہ ہماری بڑی بدقسمتی ہے کہ ہمیں نمونہ نہیںملتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی بتایا تھا کہ امت سے جب اللہ تعالیٰ اپنے دین کو اور اپنے دین کے علم کو اٹھانے کا فیصلہ کریں گے تو ایسا نہیں ہوگا کہ کتابیں ناپید ہو جائیں یا کتابوں کو پڑھنے والے لوگ ختم ہو جائیں۔ اصل میں وہ لوگ جو اس کا ایک عمدہ نمونہ ہوں گے، ان کو اللہ تعالیٰ اٹھا لیں گے۔ پھر لوگوں کو جیسے بھی لوگ ملیں گے، وہ انھی کے پیچھے چلیں گے۔ تو اصل چیز یہ ہے کہ ایسے نمونے ہمارے سامنے ہوں جو لوگوں کو زندہ اور چلتے پھرتے نظر آئیں۔ اسی سے لوگ سیکھیں گے۔

[highlight txtcolor=”#dd3333″]مشعل سیف: [/highlight]آپ کی بات سمجھ میں آ گئی، لیکن جو دوسری Top-down اپروچ ہے، جس کے متعلق کافی علما نے لکھا ہوا ہے، اس کے بارے میں کچھ اور بات کرنا چاہتی ہوں۔ آپ نے کہا کہ جو حکومت ہوتی ہے، وہ قوانین اور پالیسیاں وغیرہ بناتی ہے۔ حکومتی پالیسیوں کا ایک بہت اہم حصہ تعلیمی نظام ہوتا ہے۔ مثلاً ہمارے پبلک اسکولوں میں جو تعلیمی نصاب ہے، وہ ایک بہت اہم چیز ہے جس کے ذریعے سے معاشرے میں تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں۔ Top-down اپروچ یہ ہے کہ حکومت سے کہا جائے کہ آپ نظام تعلیم میں تبدیلیاں لے کر آئیں۔ علماءیہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں جو تعلیمی اداروں میں اسلام کے بارے میں پڑھایا جاتا ہے، اس میں تبدیلیاں لانی چاہییں۔ بہت سے علماءنے اس کے متعلق تجاویز دی ہیں۔ تو اس اپروچ کے متعلق کچھ بتائیے کہ اس کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟

[highlight txtcolor=”#dd3333″]عمار ناصر:[/highlight] یہ بات بنیادی طور پر غلط نہیں ہے، لیکن ہم تھوڑی سی جگہ بدل کر بات کر رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ریاست کے پاس جو اختیار ہوتا ہے اور اس کے لیے کردار ادا کرنے کے جو مواقع ہوتے ہیں، ان کی اہمیت نہیں ہے۔ بہت سے کام ہیں جو وہی کر سکتی ہے۔ مثلاً اس وقت تعلیم کے دائرے میں ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پوری قوم کے اندر کوئی فکری یکسوئی نہیںہے۔ درجن بھر تعلیمی نظام کام کر رہے ہیں۔ اگر آپ کو قوم میں بنیادی ایشوز کے حوالے سے فکری یکسوئی پیدا کرنی ہے تو آپ کو نظام تعلیم کو اس کا ذریعہ بنانا پڑے گا۔ اب یہ کون کر سکتا ہے؟ ظاہرہے کہ ریاست ہی کر سکتی ہے۔ میں اس وقت اس سے اختلاف نہیں کر رہا کہ ریاست کا معاشرے کی اصلاح میں ایک بنیادی اور غیر معمولی کردار ہے۔ میں جو بات عرض کر رہا ہوں، وہ یہ ہے کہ اس وقت ریاست میں اقتدار واختیار رکھنے والے وہ طبقات جنھوں نے یہ کردار ادا کرنا ہے، وہ اس کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ آپ ان کو محض suggest کر کے کہ یہ طریقہ ہے اور یہ طریقہ ہے، فلاں اقدام کریں تو یہ ہوگا اور یہ فیصلہ کریں تو وہ ہوگا، کچھ حاصل نہیں کر سکتے۔ یہ بے فائدہ ہے۔ ان کے اندر نہ اس کا داعیہ ہے، نہ جذبہ ہے، نہ کمٹ منٹ ہے اور نہ وژن ہے۔ کوئی شبہ نہیں کہ ریاست کو اپنا کردار ادا کرنا ہے، لیکن اس وقت مقتدر طبقات اس کے لیے تیار نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس وقت آپ کو کیا کرنا ہے؟ اور اگر ان طبقات کو آپ اس سطح پر لانا چاہتے ہیں اور انھیں اس کردار کے لیے تیار کرنا چاہتے ہیں تو اس کی حکمت عملی کیا ہے؟

ہم حکمران طبقہ کوئی آسمان سے اتار کر تو لا نہیں سکتے۔ اصل میں ہم یہ فرق نہیں سمجھتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جو اسلامی ریاست قائم ہوئی، اس میں جن لوگوں کو اقتدار واختیار سونپا گیا، ان کے انتخاب کی اصل بنیاد ہمارے ہاں کے جمہوری طریقے کے مطابق لوگوں کی طرف سے اعتماد کاووٹ نہیں تھا۔ وہ تو براہ راست خدا کی نگرانی میں ایک ریاست قائم ہوئی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک خاص گروہ کو تربیت دی تھی اور ان کو اس معیار پر لے کر آئے تھے کہ جب وہ اس ریاست میں زمام اقتدار سنبھالیں تو ایک مثالی حکمران کا نمونہ پیش کر سکیں۔ ان کو اللہ نے امتحانوں اور آزمائشوں کی بھٹی سے گزار کر انعام کے طور پر اقتدار دیا تھا۔ وہاں تو یہ بات بالکل سمجھ میں آتی ہے کہ جو حکمران ہیں، ان کا اپنا ذاتی فعل، کردار، ان کا وژن اور ان کی ترجیحات اس جگہ پر ہیں جہاں انھیں ہونا چاہیے اور جب انھیں اقتدار ملا تو انھوں نے اس کو implement کر کے دکھا دیا۔ آج ہم تو اس صورت حال میں کھڑے نہیں ہیں۔
تو بات یہ نہیں کہ ریاست کو اختیار حاصل نہیں ہوتا یا اس کی کوئی ذمہ داری نہیں بنتی یا اس کا کردار غیر اہم ہوتا ہے۔ نہیں، ایسا نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جو طبقہ اوپر بیٹھا ہوا ہے، وہ ہم میں سے ہی نکل کر گیا ہے۔ اخلاقی لحاظ سے جو پورے معاشرے کی ترجیحات ہیں، انھی کا اثر ان پر بھی ہے اور اقتدار واختیار کے حوالے سے وہ اسی نفسیات کا نمونہ پیش کرتے ہیں جو عمومی طور پر ہم سب کی ہے۔ ہمارے مذہبی معلمین اور مبلغین اور مصلحین کو چاہیے کہ اس حکمران طبقے کو Target کریں۔ ان کو مخاطب بنائیں اور کافی عرصے تک ان کو تیار کرنے کی کوشش کریں تاکہ ان کے اندر اسلام کا جذبہ اور اسلام کے نفاذ اور سوسائٹی کی اصلاح کا داعیہ پیدا ہو جائے۔ آپ عام لوگوں کو بھی مخاطب بنائیں تاکہ ان کے اندر ایمانی جذبہ اور قبولیت پیدا ہو اور آپ حکمرا ن طبقات اور مقتدر طبقات کو بھی اپنی دعوت وتبلیغ کا اور اصلاح کا ہدف بنائیں تاکہ وہ لوگ اپنی ذات میں ایک اچھا نمونہ بن سکیں، ان کے اندر یہ داعیہ پیدا ہو کہ ہمیں سوسائٹی میں جو مقام اور جو اثر ورسوخ حاصل ہے، اس کوہم نے اچھے مقصد کے لیے استعمال کرنا ہے۔ یہ وہ بات ہے جو میں عرض کر رہا ہوں۔ریاست کو جو اختیار یا طاقت حاصل ہوتی ہے یا اس کی جو ذمہ داریاں بنتی ہیں، ان کی نفی نہیں کر رہا۔

[highlight txtcolor=”#dd3333″]مشعل سیف:[/highlight] کچھ لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ علماءکو حکمران ہونا چاہیے، کیونکہ وہ اسلام کو بہتر سمجھتے ہیں اور وہی صحیح اسلامی ریاست قائم کر سکتے ہیں۔ کیا آپ کے خیال میں علما کو ہی حکمران طبقہ ہونا چاہیے؟

[highlight txtcolor=”#dd3333″]عمار ناصر: [/highlight]دیکھیں، جب آپ ”طبقہ علما“ کہتی ہیں تو اس کا مطلب بالکل اور بنتا ہے۔ اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ ہمارے ہاں جو علماءکے عنوان سے ایک خاص Class موجود ہے، اس کو حکمرانی کی ذمہ داریاں دے دی جائیں۔ اگر آپ کی یہ مراد ہے تو میں ہرگز یہ نہیںسمجھتا کہ حکومت اس طبقے کے سپرد کرنی چاہیے۔ ہاں، ایک دوسری بات ہے اور وہ یہ کہ جو حکمران ہے، وہ اسلام کا اتنا علم رکھتا ہو کہ وہ ایک عالم دین کے ہم پلہ ہو تو یہ بات درست ہے۔ Ideally مسلمانوں کے حکمران کو عالم ہونا چاہیے، بلکہ میں تو کہوں گاکہ وہ اتنا گہرا علم رکھتا ہو کہ خود اس کی اپنی ایک رائے ہو۔ یہ تو ہمارا خواب ہے کہ کبھی ایسا ہو جائے۔ لیکن آپ طبقہ علماءکو جو اس وقت ہمارے ہاں موجود ہے، اقتدار دینے کی بات کر رہی ہیں تو میرے خیال میں یہ اس کی بالکل اہلیت نہیں رکھتے۔ ان کے پاس وژن بھی نہیں ہے، ان کو معاشرے کے مسائل کا ادراک نہیں ہے اور عملاً ہم متحدہ مجلس عمل کو صوبہ سرحد میں ایک موقع دے کر دیکھ چکے ہیں کہ وہ اپنے دائرئہ اختیار میں بھی کچھ نہیں کر سکے۔ معاشرہ بہت پیچیدہ ہے۔ اس کے مسائل کو کیسے handle کرنا ہے، ہمارا موجودہ طبقہ علما اس سے بالکل نابلد ہے۔

 

[highlight txtcolor=”#dd3333″]مشعل سیف:[/highlight] یعنی آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ علماءکو حکمرانوں کو نصیحت کرنی چاہیے، انھیں خود حکمران بننے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے؟

[highlight txtcolor=”#dd3333″]عمار ناصر:[/highlight] بالکل کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ اور نصیحت بھی اس پہلو سے نہیں کرنی چاہیے کہ وہ حکومت کے معاملات کو کیسے چلائیں۔ یہ وہی بہتر سمجھتے ہیں۔ نصیحت اس پہلو سے کرنی چاہیے کہ ان کے اندر ایمانی جذبہ بیدار ہو جائے، ان کا اپنا اخلاق وکردار بہتر ہو جائے اور ایک مسلمان حکمران کے اندر جو احساس ذمہ داری ہونا چاہیے، وہ پیدا ہو جائے کہ مجھے اپنے اختیار کا غلط استعمال نہیں کرنا، کیونکہ یہ میرے پا س امانت ہے۔ اسی کو تذکیر کہتے ہیں۔علماءکا کام تذکیر ہے،یعنی کسی بھی آدمی کو اس بات کی یاد دہانی کرانا کہ وہ اللہ کے سامنے جواب دہی کے احساس سے اپنے کردار کا، اپنے قول وفعل کا جائزہ لے اور یہ تصور کرے کہ مجھے دنیا میں کچھ دنوں کا اقتدار مل گیا ہے تو میں فرعون نہ بن جا¶ں۔ یہ جو ایمان کا جذبہ پیدا کرنا ہے، یہ ایک عام آدمی میں بھی کرنا ہے اور ایک حکمران میںبھی کرنا ہے تاکہ جس آدمی کو اللہ نے جہاں place کیا ہے، وہاں وہ اللہ کی مرضی اور اس کی منشا کے مطابق عمل کرے۔

یہاں میں یہ بات Stress کے ساتھ کہوں گا کہ علماءسے مراد صرف دین کا علم رکھنے والے لوگ نہیں۔ دین کی باتیں بتانے والے بہت ہیں، آپ کتابوں میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔ وہ لوگ مراد ہیں جو اپنے کردار سے اور اپنی سیرت کے حسن سے آپ کو Inspire کر سکیں، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے دوست وہ ہیں جن کو تم دیکھو تو تمھیں خدا یاد آ جائے۔ ایسی کیفیات پیدا کرنے والے لوگ ہم میں ہونے چاہییں جو ہمیں اپنی اصلاح پر آمادہ کریں۔ تقریریں تو ہم روز سنتے رہتے ہیں، بلکہ میرے خیال میں یہ جو بہت زیادہ تقریریں سننا ہے، یہ بھی ہماری عمل کی حس کو بڑی حد تک دبا دیتا ہے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہفتے میں ایک ہی دن وعظ ونصیحت کرتے تھے۔ جب ہم ہر وقت باتیں سنتے اور کرتے رہتے ہیں تو ہماری حس مردہ ہو جاتی ہے اور ہم بے پروا ہو جاتے ہیں کہ یہ باتیں تو ہر وقت سنتے ہی رہتے ہیں۔ تو دعوت وتبلیغ سے مراد مذہبی تقریریں کرنا یا مذہبی اجتماعات منعقد کرنا نہیں۔ مقصد یہ ہے کہ انسان میں تبدیلی کیسے آئے اور نفس کے بندے کیسے خدا کے بندے بن جائیں۔ میرے اندر کیسے تبدیلی آئے، مخاطب کے اندر کیسے آئے اور ہم خدا کے صحیح مسلمان بندے بن جائیں، یہ مطلوب ہونا چاہیے۔

[highlight txtcolor=”#dd3333″]مشعل سیف:[/highlight] آپ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ معاشرے میں تبدیلی لانے کے لیے ہمیں نچلی سطح پر توجہ دینی چاہیے۔ یقینا ریاست ایک قوت اور طاقت ہوتی ہے اور وہ بھی معاشرے میں تبدیلی لا سکتی ہے اور نظام تعلیم بھی اس میں کردار ادا کرتا ہے، مگر آپ کے خیال میں پاکستان کے حالات میں زیادہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ علماءمعاشرے میں تبدیلی لانے کے لیے محنت کریں۔ آپ بتائیں کہ کیا آپ نے یہ کام کیا ہے یا اگر موقع ملے تو آپ کن خطوط پر محنت کریں گے؟

[highlight txtcolor=”#dd3333″]عمار ناصر:[/highlight] دیکھیں، اس وقت جو کوشش ہونی چاہیے، وہ یہ ہے کہ جن طبقات کا اس وقت ریاست کا نظام چلانے میں بنیادی کردار ہے، اس میں آپ کے سیاست دان ہیں، افواج ہیں، عدلیہ ہے، بیورو کریسی ہے، میڈیا کے لوگ ہیں، سرمایہ دار طبقات ہیں۔ یہی ہیں جو اس وقت الٹا سیدھا جو بھی کر سکتے ہیں، کر رہے ہیں! سو طبقہ علماءکو یا معاشرے کی اصلاح چاہنے والے لوگوں کو چاہیے کہ ان افراد کو اپنی تعلیمی اور تبلیغی واصلاحی کوششوں کا خاص طور پر ہدف بنائیں۔ مثلاً میڈیا کی بہت بڑی طاقت ہے اور وہ لوگوں کے رجحان بنانے اور بگاڑنے میں بڑا اہم کردار ادا کرتا ہے، لیکن وہاں جو افراد بیٹھے ہوئے ہیں، ان کا جو وژن ہے اور وہ میڈیا کو جیسے دیکھ رہے ہیں، ان کے سامنے سوسائٹی کا جو تصور ہے، وہ اسی کے لحاظ سے اپنا کام کریں گے۔ ان کے سامنے اگر کوئی وژن ہی نہیں ہے اور بس آزادی ہی آزادی کا تصور ہے یا سنسنی پھیلا کر ہر وقت لوگوں کو ٹی وی کے سامنے بٹھائے رکھنا ان کا ہدف ہے یا کمرشلائزیشن کا محرک کام کررہا ہے تو وہ اسی کے لحاظ سے اپنی پالیسیاں اور ترجیحات متعین کریں گے، اسی کے لحاظ سے اپنا content تیار کریں گے۔ اگر اس طرح کے لوگوں کو ہدف بنایا جا سکے تو اس کے کافی اثرات ہوں گے۔ تبلیغی جماعت ایک حد تک یہ کام کرنے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن اس کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ بہت زیادہ Other-worldly ہو جاتی ہے اور ہماری سوسائٹی کے جو مسئلے ہیں، وہ اس کی دعوت کا موضوع نہیں۔ لیکن حکمت عملی ان کی درست ہے۔ آپ افراد تک، وہ جہاں بھی معاشرے میںپھیلے ہوئے ہیں، رسائی حاصل کریں۔ ان کے زاویہ نظر کو یا ان کے عمل کو، ان کے کردار کو بہتر بنانے کی کوشش کریں تاکہ جہاں بھی ان کو کام کرنے کا موقع ملے، وہ وہاں کام کریں۔

یہ اسٹریٹجی بنیادی طور پر ٹھیک ہے۔ اس کو اگر ذرا وسیع کر لیا جائے اور جو طبقے آپ کے مخاطب ہیں، ان کی نفسیات کے لحاظ سے ذرا tailor کرلیا جائے، ان کے مزاج سے ہم آہنگ کر لیا جائے تو میرے خیال میں یہ کام کرنے کا ہے۔ یہ مجدد الف ثانی او ران کے مرشد خواجہ باقی باللہ کا طریقہ ہے۔ انھوں نے عوام میں کوئی شور مچانے کے بجائے اور کوئی موومنٹ شروع کرنے کے بجائے اکبر کے بہت قریبی امرا کے ساتھ شخصی روابط قائم کیے۔ ان کے ہاں جو فکری کجی تھی، اس کو درست کیا اور اس سے ایک نتیجہ انھوں نے حاصل کیا۔ جب اکبر کو دین الٰہی کی تبلیغ کے لیے دست وبازو ہی نہ ملے تو بس وہ دربار تک محدود ہو کر رہ گیا۔ میرے خیال میںآج بھی علماءکو یہی کام کرنا چاہیے، لیکن یہ کام بالکل بے لوث ہو کر کیا جائے، تبھی ثمرات دے گا۔ اس وقت ہمارے مذہبی لوگ اہل اقتدار اور بارسوخ طبقات کے ساتھ تعلقات بناتے ہیں، لیکن وہ دعوت کے جذبے سے نہیں ہوتا۔ وہ زیادہ تر اپنا قد اونچا کرنے یا کچھ مفادات حاصل کرنے کے لیے ہوتا ہے۔

[highlight txtcolor=”#dd3333″]مشعل سیف:[/highlight] آپ بھی تعلقات بناتے ہیں ایسے لوگوں کے ساتھ؟

[highlight txtcolor=”#dd3333″]عمار ناصر: [/highlight]میں تو بالکل گوشہ نشین آدمی ہوں۔ اپنے محلے کے بھی سارے افراد کو نہیں جانتا۔

[highlight txtcolor=”#dd3333″]مشعل سیف:[/highlight] آپ نے کہا کہ ہمارے مدارس میں کلاسیکی فقہ تو پڑھائی جا رہی ہے، لیکن جدید مغربی علوم نہیںپڑھائے جا رہے اور اس کی وجہ سے وہاں قدامت پسند سوچ اور مائنڈ سیٹ پیدا ہو رہا ہے۔ آپ کے علم میں ہوگا کہ اتحاد تنظیمات مدارس نے کچھ عرصہ قبل حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا، لیکن اس میں یہ طے کیا گیا تھا کہ مدارس میں جدید علوم بھی پڑھائے جائیں گے۔ کیا اس طرح کے کسی معاہدے پر اگر عمل ہو تو آپ کے خیال میں یہ جو قدیم اور جدید فکر کے درمیان دوری کی صورت حال ہے، اس کے حل میں مدد ملے گی؟

[highlight txtcolor=”#dd3333″]عمار ناصر:[/highlight] دیکھیں، اس طرح کے جو معاہدے ہیں، یہ سب Political معاہدے ہیں۔ ان کے پیچھے نہ تو کوئی ایسا جذبہ ہے کہ ہمیں مدارس کے طلبہ کے وژن کو وسیع کرنا ہے اور نہ حقیقی ارادہ (Will) کار فرما ہے۔ یہ سیاسی معاہدے ہیں۔ مدارس پر بہت دباو ہے کہ یہ انتہا پسندی کو فر وغ دے رہے ہیں، یہ تنگ نظری پیدا کر رہے ہیں، یہ جدید علوم نہیں پڑھا رہے۔ تو اس دباو کو face کرنے کے لیے مدارس کچھ ایسے اقدامات کرنے کے لیے تیار ہیں جو دکھائے جا سکیں کہ دیکھیں، ہم نے یہ باتیں مان لی ہیں تاکہ دباو کچھ کم ہو سکے۔ یہ صرف اس حد تک ہے۔ اس کے پیچھے کوئی حقیقی عزم نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ جو جدید علوم آپ کے وژن کو وسیع کر سکتے ہیں، وہ ریاضی اور سائنس تو نہیں ہیں۔ وہ تو سوشل سائنسز ہوتی ہیں۔ سوشل سائنسز ہیں جو آپ کے انداز نظر کو بدلتی اور وسیع کرتی ہیں۔ ان کا تو یہاںکوئی ذکر ہی نہیں۔ آپ مدارس کے طلبہ کو اگر دسویں یا بارھویں جماعت تک انگریزی اور ریاضی پڑھا دیں گے تو اس سے ان کے وژن میں کیا وسعت آ جائے گی؟

اصل چیز بنیادی ذہنی رویہ ہے۔ مدارس کی قیادت اپنے ذہنی رویے میں محصور ہے۔ انھیں نہ خود اپنے محدود طبقاتی مفاد سے اوپر اٹھ کر سوچنا قبول ہے اور نہ اپنے طلبہ میں وہ یہ رجحان پیدا ہونے دینا چاہتے ہیں۔ اسی طرح ہماری جو حکومتیں ہیں، ان کا مفاد بھی اسی میں ہے کہ مدارس کے لوگ اور مذہبی لوگ سوسائٹی میںایک محدود دائرے میں ہی اپنا کردار ادا کریں۔ آپ اس کا تجزیہ کیجیے گا۔ میری یہ سوچی سمجھی رائے ہے کہ مدارس کے لوگوں کو تعلیمی لحاظ سے اور اپنے فکری اثرات کے لحاظ سے ایک محدود دائرے میں رکھنا یہ مدارس کی جو قیادت ہے، اس کے بھی مفاد میں ہے، یہ حکومتوں کے مفاد میں بھی ہے اور یہ سیکولر طبقوں کے بھی مفاد میں ہے۔ وہ بھی یہی چاہتے ہیں کہ یہ اسی دائرے میں رہیں، اس لیے کہ ان کو اگر جدید علوم بھی حاصل ہوں گے تو لازمی طور پر ان میں سوسائٹی میں Peneteration کی زیادہ استعداد پیدا ہوگی اور اس سے ظاہر ہے کہ سیکولر لوگوںکا مقدمہ خراب ہو جائے گا۔ یہ سارے Stake holder کے اشتراک سے، مل جل کر ایک کام ہو رہا ہے۔ البتہ سوسائٹی کو مطمئن کرنے کے لیے یا باہر سے جو دباو آتا ہے، اس کو face کرنے کے لیے کچھ اس طرح کے کام وقتاً فوقتاً کر لیے جاتے ہیں۔ ان سے کسی حقیقی تبدیلی کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔

جنرل پرویز مشرف کے دور سے لے کر اس وقت تک جتنی بھی کوشش ہوئی ہے، اس کا محرک بنیادی طور پر تعلیمی اصلاح نہیں ہے۔ نہ حکومت کا اور نہ مدارس کے کارپردازان کا یہ مقصد ہے کہ ہم اپنے مدارس کے نظام تعلیم کو بہتر بنائیں تاکہ یہاں سے زیادہ باصلاحیت اور زیادہ اونچے calibre کے لوگ پیدا ہوں۔ یہ سارا سلسلہ بیرونی دنیا کے دباو کو faceکرنے کے لیے شروع کیا گیا ہے۔ اس سے مدارس کو سیاسی طور پر فائدہ ہوا۔ انھوں نے اپنی ایک متحدہ تنظیم بنا لی، دباو کا سامنا کرنے میں ان کو مدد مل گئی اور حکومت کو بھی بیرونی دنیا کے سامنے کچھ کہنے کے لیے مل گیا کہ دیکھیں، ہم یہ تبدیلیاں کروا رہے ہیں۔ اس حد تک تو اس کا فائدہ نظر آتا ہے، لیکن آپ یہ سمجھیں کہ اس سے کوئی بنیادی تبدیلی آئے گی تو ایسا بالکل نہیں ہے۔ اس کے لیے پہلے رویے بنتے ہیں، آپ کے اندر آمادگی پیدا ہوتی ہے کہ واقعی ہم نے اپنے ہاں سے بہتر لوگ پیدا کرنے ہیں۔ یہ آمادگی یا داعیہ ابھی تک پیدا نہیں ہوا۔ شاید آپ اس کو بدگمانی کہیں، لیکن میںپھر یہ کہوں گا کہ مدارس کی قیادت سمیت اس وقت جتنے بھی فریق ہیں، ان سب کا مفاد اسی میں ہے کہ یہ طبقہ ایک خاص سطح پر ہی رہے اور ایک محدود دائرے میں ہی اپنا کردار ادا کرتا رہے۔ کچھ طبقے شعوری طور پر ایسا چاہتے ہیں اور کچھ غیر شعوری طور پر، لیکن مفاد سب کا اسی میں ہے۔

[highlight txtcolor=”#dd3333″]مشعل سیف:[/highlight] کچھ عرصہ قبل مختلف وفاقوں کے سربراہوں پر مشتمل ایک وفد کو پاکستان کے وزیر تعلیم کے ہمراہ مصر اور ترکی میں مذہبی تعلیم کا نظام دیکھنے کے لیے ایک مطالعاتی دورہ کروایا گیا تھا۔ آپ کے خیال میں اس سے کچھ فائدہ ہو سکتا ہے؟

[highlight txtcolor=”#dd3333″]عمار ناصر:[/highlight] دیکھیں، اگر تومدارس کی قیادت میں یہ will موجود ہے کہ ہمیں مثبت تبدیلیاں لانی ہیں تو پھر اس طرح کے جتنے بھی تعلیمی ماڈل دیکھے جا سکیں، وہ مفید ہوں گے اور مختلف ممالک میں کیے جانے والے تجربات سے راہنمائی ملے گی، لیکن مجھے معلوم ہے کہ ایسی کوئی will موجود نہیں۔ میں نے اس دورے کے منتظمین سے کہا تھا کہ یہ حضرات دوسرے ملکوں میں جا کر اچھی اچھی باتیں دیکھیں گے اور سنیں گے، لیکن واپس آ کر اگر آپ ان سے یہ کہیں گے کہ آپ بھی اپنے ہاں ا س طرح کی اصلاحات introduce کروائیں تو وہ کہیں گے کہ بھئی، یہ ہم نہیں کر سکتے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ان میں یہ will ہی نہیں ہے اور will کے علاوہ یہ مسئلہ بھی ہے کہ پورے مذہبی طبقے کا جو مائنڈ سیٹ ہے، اس میں تبدیلی کی خواہش مستحکم بنیادوں پر اور وسیع پیمانے پر پیدا کیے بغیر کوئی عملی اقدام ممکن ہی نہیں۔ کیا آپ کے خیال میں وفاق المدارس العربیہ یا تنظیم المدارس کے جو سیکرٹری جنرل ہیں، ان کو یہ مینڈیٹ ملا ہوا ہے کہ وہ جیسی اصلاحات مناسب سمجھیں، قبول کر لیں؟ بالکل نہیں۔ یہ حضرات تو اپنے اپنے حلقے کی سوچ کی نمائندگی کرنے کے لیے ان مناصب پر مقرر کیے گئے ہیں۔ جو تبدیلیاں اور اصلاحات ان سے منوانے کی کوشش کی جا رہی ہے، وہ اگر مان بھی لیں تو نیچے کا طبقہ قبول نہیں کرے گا۔

[highlight txtcolor=”#dd3333″]مشعل سیف:[/highlight] آپ نے مذہبی لوگوں کو ایک دائرے میںمحدود رکھنے کی جو بات کی، اس سے مجھے یاد آیا کہ Malika Zeghal ایک اسکالر ہیں جو پی ایچ ڈی ہیں اور مصر کے حالات پر تحقیق کرتی ہیں۔ انھوں نے لکھا ہے کہ مصر کی حکومت کی علماءکے متعلق یہ پالیسی ہے کہ ان کے دائرئہ اثرکو محدود رکھتے ہوئے انھیں ایک حد تک حکومتی معاملات میں شریک رکھا جائے، اس لیے الازہر کے کچھ علماءکو ہمیشہ حکومتی مناصب میںحصہ دیا جاتا ہے۔ انھوں نے ا س کو مذہبی علماءکی domestication کا نام دیا ہے۔ کیا پاکستان میں بھی اسی طرح کی صورت حال نظر نہیں آتی؟ حکومت جانتی ہے کہ پاکستان میں بڑی تعداد میں لوگ ہیں جو اسلام سے تعلق رکھتے ہیں، اس لیے حکومت ان کو مطمئن کرنے کے لیے کچھ علماءکو اسلامی نظریاتی کونسل میں لے لیتی ہے تاکہ یہ بتایا جا سکے کہ ہم نے اسلام کے لیے بھی کچھ کام کیا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ علماءکو ایک دائرے میں محدود بھی رکھا جاتا ہے تاکہ وہ پالیسیوں پر زیادہ حاوی نہ ہونے پائیں؟

[highlight txtcolor=”#dd3333″]عمار ناصر:[/highlight] بالکل ایسے ہی ہے۔ پالیسی یہ ہے کہ علماءکے طبقے کی، جو مذہب کی نمائندگی کرتا ہے، اس پہلو سے تسکین ہوتی رہے کہ ہمارے لیے بھی اس نظام میں جگہ ہے۔ کوئی نظریاتی کونسل بنا دی جائے گی، کوئی رویت ہلال کمیٹی بن جائے گی، کوئی قرآن بورڈ تشکیل دے دیا جائے گا، سرکاری اہتمام میں کچھ علماءومشائخ کانفرنسیں منعقد کر لی جائیں گی تاکہ طبقہ علماءکو مطمئن رکھا جائے کہ ایسا نہیں ہے کہ آپ کی کوئی قدر نہیں ہے، تاکہ اس کے بعد جو ایک عمومی نظام بنا ہوا ہے، اس کے لیے کوئی مسئلہ نہ کھڑا کریں۔ اگر علماءکو engage نہیں کریں گے تو اس طبقے میں نظام سے بہت زیادہ alienation پیدا ہو جائے گی۔ مذہب تو موجود ہے سوسائٹی کی نفسیات میں اور اس کی ایک سماجی اور سیاسی طاقت بھی ہے۔ سو اس طبقے کو نظام پر حاوی کیے بغیر اسے ایک حد تک نمائندگی دے دی جائے، اس انڈرسٹینڈنگ کے ساتھ کہ بھئی، جو جگہ آپ کو دی گئی ہے، اس پر خوش رہیں اور اس سے آگے خواہ مخواہ باقی معاملات میںٹانگ نہ اڑائیں۔ یہی اس وقت مصر اور پاکستان جیسے معاشروں میں حکومتی پالیسی ہے کہ طبقہ علماءکو اس طرح engage کیا جائے کہ ان کو اس بات کا زیادہ احساس نہ ہو کہ ہمیں sideline کر دیا گیا ہے۔

میں اس تجزیے سے ایک سو ایک فی صد اتفاق کرتا ہوں، لیکن میرے نزدیک اس میں دوش ارباب اقتدار کو نہیں، بلکہ خود مذہبی لیڈر شپ کو دینا چاہیے۔ ارباب اقتدار کو تو فطری طور پر ایسے ہی سوچنا چاہیے۔ یہ ان کی سیاست کا بھی تقاضا ہے اور مفاد کا بھی اور ایک لحاظ سے دیکھیں تو حکمت کا بھی۔ اصل میں تو سوال مذہبی لیڈر شپ پراٹھتا ہے کہ وہ کچھ perks and privileges پر راضی ہو کر اپنے طبقاتی مفاد اور وہ بھی اوپر کی سطح کی قیادت کے مفاد کا تحفظ کرنے پر قناعت کر چکی ہے، جبکہ خدا کے دین کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے ہماری جو ذمہ داری بنتی ہے، وہ بالکل پس پشت ڈال دی گئی ہے۔ مذہب تو اپنی اصل روح کے اعتبار سے لوگوں کی زندگیاں بدلنے اور انسان کو اخلاقی خرابیوں سے پاک کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ ہم یہ نہیں کر رہے۔ سماجی کردار کے لحاظ سے دیکھیں تو ظلم وجبر اور استحصال پر مبنی ایک نظام میں مذہبی طبقے کا رویہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ وہ ایک Stake holder کی طرح بس اپنے مخصوص طبقاتی مفادات کے تحفظ کو مطمح نظر بنا لے، جبکہ ہم بعینہ یہی کر رہے ہیں۔

[highlight txtcolor=”#dd3333″]مشعل سیف: [/highlight]آپ کے حوالے سے ایک مسئلہ جو بہت Controversial رہا ہے، وہ ہے توہین رسالت پر سزا کا قانون۔ آپ کے افکار بہت سے علماءسے مختلف ہیں اور آپ پر اس حوالے سے کافی تنقید بھی کی گئی ہے۔

[highlight txtcolor=”#dd3333″]عمار ناصر:[/highlight] نہیں، میرے افکار کوئی اتنے مختلف نہیں ہے۔ جب آپ کسی معاملے کو politicize کر دیں تو پھر ایسا لگتا ہے۔ میرا نقطہ نظر زیادہ مختلف نہیں ہے۔ دیکھیں، مجھے اس سے پورا اتفاق ہے کہ توہین رسالت ایک جرم ہے۔ مجھے اس سے بھی اتفاق ہے کہ مسلمانوں کے ملک میں اس مسئلے کو قانون کا موضوع بننا چاہیے۔ جہاں مسلمانوں کی ریاست دوسرے جرائم کی روک تھام کے لیے قانون بناتی ہے، یہ بھی اس کی ذمہ داری ہے کہ اپنے پیغمبر کی عزت وناموس کی حفاظت کے لیے بھی قانون سازی کرے۔ اس معاملے سے ریاست لا تعلق نہیں رہ سکتی۔ مجھے اس سے بھی اتفاق ہے کہ اس جرم پر مجرم کے لیے موت کی سزا بھی قانون میں شامل کر لی جائے تو وہ بالکل درست ہے۔ اختلاف کس بات پر ہے؟ اختلاف صرف اتنی بات پر ہے کہ جرم کی نوعیت اور سوسائٹی میں مجرم کی حیثیت کیا ہے یا اس نے جو جرم کیا ہے، اس کا کتنا اثر سوسائٹی میں پھیلا ہے، کیا سزا دیتے ہوئے ان چیزوں کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے یا نہیں رکھنا چاہیے؟ میں نے جتنا بھی اسلامی شریعت کو، فقہ کو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور صحابہ کے فیصلوں کو پڑھا ہے، یہی واضح ہوتا ہے کہ آپ کو یہ سارے پہلو ملحوظ رکھ کر ہی مجرم کے خلاف اقدام کرنا چاہیے۔ ایسا نہیں ہے کہ ایک آدمی نے، چاہے وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو، کسی بھی کیفیت میں، کسی بھی سچویشن میں، ارادةً یا بلا ارادہ اپنے منہ سے کوئی ایسا کلمہ نکال دیا جو توہین کو مستلزم ہے تو بس ہم اس کی گردن اڑانے کے ہی پابند ہیں۔ یہ اسلام نے نہیں کہا۔ آپ کو ملحوظ رکھنا ہوگا کہ اگر اس نے بلا ارادہ ایسا کیا ہے تو اسے توبہ کا موقع ملنا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ مسلمان تو ارادةً ایسا نہیں کر سکتا۔ غیر مسلم نے اگر ارادةً کیا ہے تو دیکھا جائے کہ کس سچویشن میں کیا ہے؟ کیا بات ہو رہی تھی؟ کیا گفتگو چل رہی تھی؟ عین ممکن ہے کہ مسلمان اور غیر مسلم آپس میں کوئی بحث کر رہے ہوں اور اس میں مسلمانوں نے کوئی سخت بات غیر مسلموں کے مذہب کے بارے میں کہہ دی ہو اور اس کے رد عمل میں غیر مسلم کے منہ سے بھی ایسی کوئی بات نکل جائے اور پھر وہ اس پر نادم ہو اور معذرت پیش کرنے کے لیے آمادہ ہو۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان ہر طرح کے حالات میں شریعت ہمیں پابند کرتی ہے کہ ہم ضرور اس کی گردن ہی اڑائیں؟ یہ ہرگز شریعت کا منشا نہیں ہے۔

میرا اختلاف صرف اتنا ہے کہ مجرم کے حالات کے لحاظ سے قانون میں موت سے کم تر سزا کی گنجائش بھی ہونی چاہیے اور خاص طور پر اگر مجرم اپنے جرم پر نادم ہو ، شرمندہ ہو اور معذرت پیش کر رہا ہو تو ا س کو توبہ کا موقع دینا چاہیے۔ یہی شریعت کا منشا ہے۔ اور یہ بات میں نے کوئی پہلی مرتبہ نہیں کہی۔ ہمیشہ سے فقہا میں یہ دونوں نقطہ نظر رہے ہیں۔ امام ابوحنیفہ اور ان کے تلامذہ خاص طور پر اس کے قائل ہیں کہ آپ اس معاملے میں آخری حد تک مجرم کو توبہ ہی کا موقع دیں گے۔ ہاں، جب کوئی مجرم اس سطح پر آ جائے کہ وہ بار بار جرم کا ارتکاب کرتا ہے اور علانیہ کرتا ہے اور باز نہیں آتا، تب اس کے فساد سے بچنے کے لیے آپ اس کو موت کی سزا دے سکتے ہیں۔ میں کوئی نئی بات نہیں کہہ رہا۔

ہمارے ہاں یہ مسئلہ دراصل politicize ہو چکا ہے۔ جو سیکولر لابی ہے، اس کی کوشش یہ ہے کہ سرے سے یہ قانون ہی ختم ہو جائے۔ اس کے رد عمل میں جو مذہبی لوگ ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ قانون جیسا ہے اور جیسا بھی بن گیا ہے، ا س کو بالکل نہ چھیڑا جائے۔ یہ ایک سیاسی کشمکش ہے اور میں اس میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ ا س جرم پر سزا کا قانون ہونا چاہیے، یہ لازم ہے۔ یہ اسلامی ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے۔ لیکن قانون میں اتنی لچک ہونی چاہیے جتنی لچک شریعت نے رکھی ہوئی ہے۔ تو یہ نقطہ نظر کا اتنا اختلاف نہیں ہے جتنا اس معاملے کے politicize ہو جانے کی وجہ سے دکھائی دیتا ہے۔

[highlight txtcolor=”#dd3333″]مشعل سیف:[/highlight] لیکن کافی علماءہیں جو ا س معاملے میں لچک پر یقین نہیں رکھتے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ لچک نہیں ہونی چاہیے۔

[highlight txtcolor=”#dd3333″]عمار ناصر: [/highlight]نقطہ نظر کا اختلاف تو موجود ہے۔ وہ اپنا نقطہ نظر رکھتے ہیں، لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ لچک کا ہونا یہ شریعت کے منشا کے زیادہ قریب ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ نہیں ہے تو ٹھیک ہے۔ میں نے اپنا نقطہ نظر پیش کیا ہے، وہ بھی اپنا نقطہ نظر پیش کر رہے ہیں۔ زبردستی اپنا موقف نہ میں enforce کر رہا ہوں نہ ان کو حق ہے کہ وہ enforce کریں۔

[highlight txtcolor=”#dd3333″]مشعل سیف:[/highlight] آپ کے اور دوسرے علماءکے درمیان ایک اور جو اختلاف ہے، وہ یہ کہ دوسرے علماءکافی حد تک یہ کہتے ہیں کہ جیسے ہی ایک شخص توہین رسالت کرتا ہے، وہ مباح الدم ہو جاتا ہے اور کوئی بھی اس کو قتل کر سکتا ہے، جبکہ آپ اس کے متعلق مختلف بات کہتے ہیں۔

[highlight txtcolor=”#dd3333″]عمار ناصر: [/highlight]بالکل نہیں۔ مباح الدم ہونے کا فیصلہ تبھی ہوگا جب کوئی با اختیار قانونی اتھارٹی یہ قرار دے گی کہ اس شخص کے جرم کی نوعیت فی الواقع ایسی ہے کہ اس کے بعد یہ کسی رعایت کا اور توبہ کا موقع دیے جانے کا مستحق نہیں رہا۔ مباح الد م ہونے کا یہ جو تصور ہے کہ جو بھی آدمی چاہے، اس کو اٹھ کر مار دے تو یہ کسی بھی طرح درست نہیں۔ مثلاً آپ دیکھیں کہ ایک آدمی نے کسی کو قتل کر دیا ہے۔اس کی سزا تو definitely یہ ہے کہ اس سے قصاص لیا جائے، لیکن کیا شریعت نے یہ کہا ہے کہ جو چاہے، اٹھ کر قاتل کو قتل کر دے؟ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔ مقدمہ عدالت میں جائے گا، عدالت سارا کیس دیکھے گی اور وہی سزا دے گی۔ تو مباح الدم کا یہ جو تصور ہے کہ اس کے بعد وہ آدمی جس کے ہاتھ لگ جائے، وہ اسے مار دے، یہ بالکل کسی بھی لحاظ سے درست نہیں۔

[highlight txtcolor=”#dd3333″]مشعل سیف:[/highlight] اگر حکومت کچھ نہ کر رہی ہو، مثلاً ایک شخص نے توہین رسالت کردی ، مگر حکومت اس پر مقدمہ نہیں چلا رہی تو پھر کیا کیا جائے؟

[highlight txtcolor=”#dd3333″]عمار ناصر: [/highlight]اس کی ذمہ داری ہم پر نہیں ہے۔ ایک چیز ہمارے دائرئہ اختیار میں ہی نہیں ہے تو اس میں ہم مسﺅل بھی نہیں ہیں۔ بنیادی بات یہ دیکھنے کی ہے کہ ہمیں کوئی اقدام آیا اس لیے کرنا ہے کہ اس سے ہمارے جذبات کی تسکین ہوتی ہے یا اس لیے کرنا ہے کہ اس سے خدا راضی ہوتا ہے اور ہم نے خدا کے سامنے اس کا جواب دینا ہے؟ اس وقت ہم فیصلے پہلی بنیاد پر کر رہے ہیں کہ اگر ہم اس بندے کو نہیں ماریں گے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہماری دینی غیرت مر گئی ہے۔ آپ مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھیں۔ مکہ کی ساری زندگی میں رسول اللہ کو گالیاںہی دی جاتی رہیں۔ کیا وہاں مسلمانوں کو غصہ نہیں آتا تھا یا ان کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچتی تھی؟ لیکن شریعت نے روکا ہوا تھا کہ اس وقت اقدام کی اجازت نہیں ہے۔ اس وقت ان ساری خرافات کو گوارا کرنا اور سن کر اعراض کر لینا ہی دین وایمان کا تقاضا ہے۔ تو ہمیں اپنے جذبات کو بھی دین وشریعت کے تابع بنانا چاہیے۔

[highlight txtcolor=”#dd3333″]مشعل سیف:[/highlight] آپ اس جرم کو Crime against the state تصور کرتے ہیں اور آپ نے اپنی کتاب میں بھی یہ لکھا ہوا ہے، جبکہ دوسرے علماءاس کو ایسا تصور نہیں کرتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس نے ہر ہر مسلمان کے خلاف جرم کیا ہے اور وہ مباح الدم ہو چکا ہے تو اب کوئی بھی اسے مار سکتا ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ حکومت ہی اقدام کرے۔

[highlight txtcolor=”#dd3333″]عمار ناصر:[/highlight] یہ بات تو ہماری جو کلاسیکی فقہ ہے، اس کے بھی بالکل خلاف ہے۔ فقہ میں کوئی امام بھی اس کا قائل نہیں ہے۔ جو بھی جرائم اسٹیٹ کے خلاف ہوتے ہیں، وہ اصل میں سوسائٹی کے خلاف ہوتے ہیں جس کی نمائندگی اسٹیٹ کر رہی ہوتی ہے۔ اس کا مطلب تو یہ بنے گا کہ اس نوعیت کے ہر جرم میں آپ ہر شخص کو سزا دینے کا اختیار دے رہے ہیں۔ پھر تو قانون ختم ہو جائے گا۔ اسلامی فقہ میں ہرگز توہین رسالت کے مجرم کو سزا دینے کا یہ طریقہ suggest نہیں کیا گیا اور نہ اس کو پسندیدہ کہا گیا ہے۔ فقہ میں صرف اتنی بات کہی گئی ہے کہ اگر کسی شخص نے گستاخی کی ہے اور کسی مسلمان نے مشتعل ہو کر، جذبات میں آ کر اسے قتل کر دیا اور پھر عدالت نے تحقیق کے بعد یہ دیکھاکہ مقتول نے واقعی یہ جرم کیا تھا اور مارنے والے نے واقعتا جذبات میں آ کر ایسا کیا ہے، کوئی اور motive نہیں تھا تو عدالت اس کو extenuating circumstances کی رعایت دے گی۔ صرف یہ بات کہی گئی ہے۔ یہ نہیں کہ positively یہ تجویز کیا گیا ہے کہ جو شخص چاہے، اس کا قصہ پاک کر دے۔

[highlight txtcolor=”#dd3333″]مشعل سیف:[/highlight] آپ نے توہین رسالت کے بارے میں جو کچھ لکھا، وہ ممتاز قادری کے کیس کے پس منظر میں لکھا۔ کیا یہ بات درست ہے؟

[highlight txtcolor=”#dd3333″]عمار ناصر:[/highlight] اصل میں کسی خاص واقعے کے نتیجے میں مسئلہ highlight ہو جاتا ہے، لوگوں کی توجہ اس کی طرف مبذول ہو جاتی ہے اور لوگ اپنی اپنی آرا بھی پیش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یوں ایک موقع بن جاتا ہے جس میں آپ کو اپنی بات کہنی پڑتی ہے، ورنہ ممتاز قادری کے کیس کی فی نفسہ میری نظر میں اتنی اہمیت نہیںہے۔ اس نے ایک ایسا موقع بنا دیا کہ توہین رسالت کے قانون کے بارے میں بحث کھڑی ہو گئی اور اس کے حوالے سے مجھے بھی لکھنا پڑا۔

[highlight txtcolor=”#dd3333″]مشعل سیف:[/highlight] اگر آپ کے نقطہ نظر سے اس کیس کو دیکھا جائے تو پھر ممتاز قادری ایک مجرم ہے، کیونکہ اسے سزا دینے کا حق نہیں تھا۔ یہ توحکومت کا کام تھا۔

[highlight txtcolor=”#dd3333″]عمار ناصر:[/highlight] میرے خیال میں اس سے بھی پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ آیا سلمان تاثیر فی الواقع توہین رسالت کا مرتکب ہوا تھا؟ یہ بنیادی سوال ہے۔ یہ جو دعویٰ ہے، یہ بنیادی طور پر اس کے بیان کی ایکinterpretation پر مبنی ہے۔ اس طرح کی جو بات ہو، اس کے متعلق تو ویسے ہی یہ مسلمہ اصول ہے کہ آدمی کو اپنی بات کی وضاحت خود کرنے کا حق ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ سلمان تاثیر نے یہ کہا تھا کہ میں توہین رسالت کی حمایت نہیں کر رہا، بلکہ یہ کہہ رہا ہوں کہ ہمارے ہاں اس قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔ اگر ایک شخص اپنی بات کی وضاحت کر رہا ہے کہ وہ قانون کے غلط استعمال پر تنقید کر رہا ہے تو کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اس نے توہین رسالت کی ہے؟

فر ض کر لیں کہ اس نے واقعی توہین رسالت کی تھی تو اس پر بھی ایک عام آدمی کو کیسے یہ اختیار دیا جا سکتا ہے کہ وہ اٹھے اور ازخود اس کے خلاف اقدام کر ڈالے؟ لیکن یہاں شاید ممتاز قادری کا اتنا قصور نہیں، اس لیے کہ وہ ایک سادہ ذہن کا مسلمان ہے۔ اصل میں تو پکڑنا چاہیے ان لوگوں کو، ان شعلہ بیان مقرروں کو جنھوں نے سلمان تاثیر کے بیان کی ایک interpretation کر کے لوگوں کو بھڑکایا اور لوگوں کو ترغیب دی کہ اس کو مار دینا عشق رسالت کا تقاضا ہے۔ سو یہ جو بھی ہوا، وہ دونوںحوالوں سے غلط تھا۔ اسے اپنی بات کی وضاحت کا حق بھی دینا چاہیے تھا اور فرض کریں کہ اس کی نیت واقعی توہین رسالت کی تھی تو سزا عدالت کے ذریعے سے ملنی چاہیے تھی۔
اچھا، دوسری طرف خود سلمان تاثیر کے طرز عمل کو بھی آپ نظر انداز نہیں کر سکتے۔ اس نے ایک ذمہ دار حکومتی منصب پر فائز ہوتے ہوئے عدالت کے زیر سماعت مقدمے میں جس طرح مداخلت کی، وہ کسی بھی طرح مناسب نہیں تھا۔ غالباً اسی سے وہ اشتعال پیدا ہوا جو آخر کار اس کے قتل پر منتج ہوا۔

[highlight txtcolor=”#dd3333″]مشعل سیف:[/highlight] اس معاملے میں آپ کی رائے پر خاصی تنقید کی گئی ہے۔ میں نے سنا ہے کہ آپ کو اس پر threats بھی آئیں؟

[highlight txtcolor=”#dd3333″]عمار ناصر: [/highlight]جی نہیں، کوئی threat نہیں آئی۔ میں نے بہت سے sensitive issues پر لکھا ہے اور بعض دفعہ یہ خیال بھی ہوتا ہے کہ کیا میں نے ہی ٹھیکہ لیا ہوا ہے ہر ایسے مسئلے پر لکھنے کا، لیکن بہرحال کوئی ایشو سامنے آتا ہے تو اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے لیے لکھنا پڑتا ہے۔ اس کے باوجود مجھے اب تک کوئی براہ راست threat کسی بھی ایشو کے حوالے سے نہیں آیا۔

[highlight txtcolor=”#dd3333″]مشعل سیف:[/highlight] آپ ’الشریعہ‘ کے مدیر ہیں۔ اس ماہنامے کے متعلق کچھ بتائیے۔
عمار ناصر: الشریعہ کا اجرا والد گرامی نے ۹۸۹۱ءمیں کیا تھا۔ اب اس کی ۴۲ ویں جلد چل رہی ہے۔ ہمارا خاندانی پس منظر اگرچہ وہی ہے جو میں نے آپ کو بتایا، لیکن والد گرامی کے اپنے فکر اور ذہنی ترجیحات میں مسلکی مسائل اور مذہبی اختلافات جگہ نہیں بنا سکے۔ شروع سے ہی ان کی دلچسپی کا اور غور وفکر کا دائرہ یہی رہا ہے کہ امت کا جو اجتماعی مفاد ہے اور جدید معاشرے کی جو فکری ضروریات ہیں، ان کے لحاظ سے آج کے دور میں کون سے مسائل ہماری توجہ کے طلب گارہیں۔ چونکہ ان کے اپنے وژن میں وسعت تھی تو الشریعہ بھی شروع سے اسی دائرے کے موضوعات کو زیر بحث لاتا رہا ہے۔ کبھی اس میں روایتی مسلکی بحثیں نہیں چھپیں۔

میں پہلے دن سے اس رسالے کی ترتیب میں معاون کی حیثیت سے ان کے ساتھ شریک رہا ہوں اور تربیت لیتا رہا ہوں، لیکن ۱۰۰۲ءکے بعد اس کی ادارت باقاعدہ میرے سپرد ہو گئی اور اس کے بعد سے میں ہی اس کومرتب کرتا ہوں۔ اس کے لیے موضوعات اور مضامین کا انتخاب میں ہی کرتا ہوں، بلکہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس کو ایک خاص trend دینے میں بھی بڑی حد تک میرا ہی کردار ہے۔ اگرچہ والد گرامی کی پوری سرپرستی اور تائید مجھے حاصل ہے، لیکن ظاہر ہے کہ عملاً جو آدمی کام کرتا ہے، اس کی اپنی دلچسپیوں اور ترجیحات کا، کام کی عملی صورت اور نقشے پر خاصا اثر پڑتا ہے۔ میں ذاتی طور پر یہ چیز بڑی شدت سے محسوس کرتا ہوں کہ پوری قوم مختلف فکری compartments میں تقسیم ہے، ہر گروہ اپنے ہی خول میں بند کچھ باتیں سوچ کر بیٹھا ہوا ہے او راس سے باہر سوچنے کے لیے تیار نہیں۔ ڈائیلاگ بالکل نہیں، ایک دوسرے سے سیکھنے کا معاملہ بالکل نہیں ہے۔ ایک دوسرا آدمی کیسے کسی مسئلے کو دیکھتا ہے، اس کے پوائنٹ آف ویو کو سمجھنے کی بالکل کوئی کوشش نہیں۔ یہ صورت حال ہمارے بہت سے مسائل کی جڑ ہے۔ سو ہم نے ’الشریعہ‘ میں پچھلے دس بارہ سال سے اس کی کوشش کی ہے کہ یہ جو مختلف الخیال لوگ ہیں، ان کے مابین مکالمے کے لیے ایک فورم مہیا کیا جائے۔

اس کوشش میں ہم نے بے شمار sensitive ایشوز پر اور بڑے اہم مسائل پر کھلے مباحثے کا اہتمام کیا ہے اور اس پر ہمیں بڑی گالیاں بھی کھانی پڑی ہیں۔ والد صاحب کا جو اپنا حلقہ فکر ہے، وہ بالکل typical دیوبندی حلقہ فکر ہے۔ اس کی طرف سے انھیں سخت دباوکا سامنا کرنا پڑا کہ آپ کیوں ایسی چیزیں اس رسالے میں چھاپتے ہیں جو دیوبندی نقطہ نظر سے مختلف ہیں یا جو بحیثیت مجموعی مذہبی طبقے کی جو سوچ ہے، اس سے میل نہیں کھاتیں۔ لیکن ہم نے بحمد اللہ اس پالیسی کو بڑی استقامت سے continue رکھا ہے اور آئندہ بھی ان شاءاللہ عزم یہی ہے۔ جب تک ہم اس فضا کو نہیں بدلیں گے کہ ہم ایک دوسرے کی بات نہ سن سکتے ہیں، نہ اس پر غور کر سکتے ہیں، جب تک یہ فضا ہے، ہم اسی جمود کی کیفیت میں رہیں گے۔ یہ جو فکری barriers ہیں، ان کو توڑنا سب سے پہلے ضروری ہے۔ اس کے لیے ہم کوشش کر رہے ہیں اور اللہ کی مدد شامل رہی تو کرتے رہیں گے۔

[highlight txtcolor=”#dd3333″]مشعل سیف:[/highlight] آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے تفصیلی گفتگو کے لیے اتنا وقت نکالا۔

[highlight txtcolor=”#dd3333″]عمار ناصر:[/highlight] آپ کا بھی بے حد شکریہ!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے