سردارخالد ابراہیم منفرد کیوں تھے؟

’’جناب سپیکر!
مسلم کانفرنس کی حکومت نے پچھلے چار ماہ میں دو سو سے زیادہ افراد کو تمام ضابطہ قانون پبلک سروس کمیشن میرٹ ٹیسٹ اور انٹرویو کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بھرتی کیا ، جس کا اعتراف مسلم کانفرنس کے چیف آرگنائزر سردار عتیق احمد خان نے 24دسمبر(1992) کے نوائے وقت میں دیے گئے انٹرویو میں کیا”

سردار خالد ابراہیم کا درج بالا پیرا 31جنوری 1993کی ایک تقریر کا ہے ، جس میں انہوں نے مسلم کانفرنس کی حکومت کی طرف سے 486 گزٹیڈ آسامیوں پر بدوں پی ایس سی اور ٹیسٹ انٹرویونظریہ ضرورت کے تحت چٹوں پر اتنی بڑی تعداد میں آفیسران کی بھرتی کے خلاف آواز بلند کی۔1993 میں بھرتی کیے گئے ان آفیسران ست متعلق کیس کو بعد ازاں ”عتیق کمیشن” کا نام دیا گیا، اس وقت سردار عبدالقیوم خان وزیراعظم تھے ، عددی برتری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلم کانفرنس کی حکومت نے اپنی جماعت سے 486سیاسی کارکنوں کو جریدہ عہدے دیے جس نے آنے والے وقت میں آزادکشمیر کے اداروں کو تباہ کر کے رکھ دیا.

واقفان حال کہتے ہیں کہ یہ بھرتیاں اس وقت کے چیف آرگنائزر، بعد ازاں وزیراعظم آزادکشمیر اور آج کل سابق وزیراعظم سردار عتیق احمد خان کی خواہش پر ہوئیں۔ اس غیر قانونی اقدام پر خالد ابراہیم نے احتجاجاً اسمبلی اجلاسوں میں شرکت نہ کی ، مسلسل 30 غیر حاضریوں پر وہ اسمبلی کی رکنیت سے نا اہل ہو گئے۔

سردار خالد ابراہیم نے دووسری مرتبہ بھی اسمبلی رکنیت سے استعفیٰ سردار عتیق کی وجہ سے دیا۔ 2006کے انتخابات میں مسلم کانفرنس بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی ، خالد ابراہیم کی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی اتحادی تھی ، جب سردار عتیق کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو خالد ابراہیم نے 6 جنوری 2009 کو اسمبلی تقریر کرتے ہوئے جو کچھ کہا اور اپنے عمل سے جو ثابت کیا وہ آزادکشمیر کے سیاستدانوں کے لیے مشعل راہ تھا ۔

خالد ابراہیم کے الفاظ یہ تھے:

”جناب سپیکر! میں آپ کا تہہ دل سے مشکور ہوں کہ آپ نے مجھے وقت دیا، میں مختصر بات کرنے کی کوشش کروں گا۔ یہاں دوستوں نے میری جماعت کا بھی ذکر کیا اور شکریہ بھی ادا کیا، میں بنیادی طور پر اس بات پرآپ کومبارک باد پیش کرتا ہوں دونوں طرف سے اتنی تلخی ہونے کے باوجود اس کو چلایا۔ کیونکہ یہ جمہوری Process ہے۔ یہ ہم سب کا حق ہے چاہے ہم اس طرف بیٹھیں یا اس طرف اور ووٹ کے ذریعہ اپنی بات منوانا۔ یہ حق ہے میں اپنی جماعت اور اپنا ذاتی نقطہ نظر آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں کہ میں جو فیصلے پچھلے تین چار دن میں کیے گئے میں اُس وجہ سے آج ووٹ دینے نہیں آیا، جب سردار عتیق احمد خان آزاد کشمیر کے وزیراعظم بنے اور پاکستان کی مداخلت کے ذریعے بنے ، خود ان کی الیکشن سے پہلے جو تصاویر چھپیں جنرل پرویز مشرف کے ساتھ وہ اسی زمرے میں تھیں۔اس حوالے سے اپوزیشن کے ساتھیوں نے ہمیں کہا ان کی وجہ سے ہم احتجاجاً اس اسمبلی میں آئے ، میں نے اور بیرسٹر سلطان محمود صاحب نے تین ماہ تک حلف بھی نہیں اٹھایالیکن ہمارے اپوزیشن کے ساتھیوں نے ہمیں کہا ان کی وجہ سے ہم احتجاجاً اسمبلی میں آئے ، ہم آپ کے ساتھ چلنے کیلئے آئے جس میں پاکستان پیپلز پارٹی بھی شامل ہے. ہم نے ان کے کہنے پر جب انہوں نے فیصلہ کیا کہ ہم عدم اعتماد اسمبلی میں لائیں گے۔ میرا تعلق یا تعاون کسی فارورڈ بلاک سے نہیں ہے، میرا تعاون بنیادی طور پر آزاد کشمیر اپوزیشن کے ساتھ ہے جس کے 13 ممبران ہیں اور میں چودھواں ممبر ہوں، میں اس حوالے سے کہوں گا کہ الیکشن پاکستان پیپلز پارٹی کے تعاون سے لڑا ہوں، میں ان کا مشترکہ Candidate تھا اسمبلی میں اور میں ان کا شکر گزار ہوں کہ ان کے تعاون سے میں اپنے حلقہ میں ممبر اسمبلی بنا، میرے مخالف امیدوار بھی اس وقت یہاں بیٹھے ہوئے ہیں اور میں ساڑھے سات سو ووٹوں سے الیکشن جیتا تھا، اگر پاکستان پیپلز پارٹی میرے ساتھ نہ ہوتی تو میں آج اسمبلی میں نہ ہوتا ، اس لیے میرے پر ان کا قرض بھی ہے اور میرا فرض بھی ہے کہ جو فیصلہ یہ کرتے ہیں اس اسمبلی میں جب تک میں اس اسمبلی میں ہوں تو میں کا ساتھ دوں،ﷲ کا فضل ہے کہ سردار عتیق احمد خان سے میرے ذاتی تعلقات بھی ہیں لیکن یہ ڈھائی سال نہیں رہے ، میں نے ان کا سوشل بائیکاٹ رکھا اور سردار عبدالقیوم خان صاحب کا میں بہت احترام بھی کرتا ہوں اور یہ بات اگر کہی جائے تو غلط نہیں ہوگی کہ اس وقت پاکستان میں اور آزاد کشمیر کے سنیئر ترین رہنماء سردار عبدالقیوم خان صاحب ہیں لیکن اس کے باوجود ہم نے ان کی ڈٹ کر مخالفت کی ، جویہ کہتے ہیں ڈھائی سال میں یہ ہوا ہے ، کرپشن کے حوالے سے میں یہ ضرور کہوں گا اس کا ان کو فائدہ پہنچے یا نہیں ووٹ تو دے دیا ہے یہ فارغ ہوگے ،ان لوگوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں کہ جو کہتے ہیں کہ سردار عتیق احمد خان اور ان کی حکومت نے تحریک آزادی کشمیر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے ، وہ لوگ تو ان کی مدد سے آرہے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ جناب جو تحریک آزاد ی کشمیر ہے وہ دہشت گردی کی تحریک ہے جو یہ کہتے یں کہ ہندوستان نہ کبھی ہمارے لیے خطرہ تھا نہ کبھی رہے گا ۔ جس ہندوستان نے آدھاملک فوج کشی کے ذریعے ہم سے علیحدہ کیا ہے یہ ان کے تعاون سے آج آزادکشمیر میں حکومت بن رہی ہے میں کہہ رہا ہوں کہ یہ کوئی خیر کی خبر نہیں جو آنے والے ہیں وہ ان سے بھی زیادہ کشمیر پر Compromise کرچکے ہیں، سننے میں آیا ہے کہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ Surgical Strick اگر مظفرآباد میں ہوتی ہے تو اس کو بھی برداشت کیا جاسکتا ہے، اگر ایسے لوگوں کے آشیر باد سے ہم آزاد کشمیر حکومت بنارہے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے تو میں پھر یہ سمجھتا ہوں کہ یہ کوئی اچھی خبر نہیں ہے ، میں نے اپنا فرض پورا کیا ، میں نے اپوزیشن کا ساتھ دیا، میں آج سے آٹھ ماہ قبل جب اس اسمبلی میں ایک دن واک آئوٹ کرکے باہر گیا بائیگاٹ کیا، میں اپنی طرف سے اسمبلی کو خیر باد کہہ چکا تھا ، آج صرف میں ووٹ ڈالنے کیلئے آیا ہوں میں اپنا قرض بھی ختم کرنا چاہتا ہوں سردار عتیق احمد خان کے حوالے سے جو میں نے ووٹ ڈالنے آیا میں نے اپنا ٖفرض پورا کیا اور اپنا فرض پورا کرچکا ہوں ، جو مستقبل کے فیصلے ہیں اس میں اپوزیشن کے ساتھ نہیں ہوں، میں اس لیے اپنا استعفیٰ دیتا ہوں As Member Legislative Assembly اور مجھے اُمید ہے کہ آپ اسے جلد قبول کریں گے”
استعفیٰ سپیکر کو خود پیش کیا ۔

5نومبر 1947کو پیدا ہونے والے خالد ابراہیم 5نومبر 2018کو انتقال کر گئے، ان کی نماز جنازہ شرکاء کے اعتبار سے آزادکشمیر کی سب سے بڑی نماز جنازہ تھی، غیر جانبدار حلقوں کے قریب 50ہزار جبکہ سرکاری اعداد و شمار ایک لاکھ سے ایک لاکھ 10ہزار کا ہندسہ بتاتے ہیں ۔

خالد ابراہیم اول و آخر پاکستانی تھے، پاکستان کے آئین کے مطابق آزادکشمیر پاکستان کا حصہ نہیں لیکن خالد ابراہیم آزادکشمیر کو پا کستان سمجھتے تھے، خالد ابراہیم نے ساری زندگی معاہدہ کراچی کا دفاع کیا۔ 28اپریل 1949کو معاہدہ کراچی کے ذریعے 72971 مربع میل علاقے پر مشتمل گلگت بلتستان کو ان کے والد گرامی سردار ابراہیم اور چوہدری غلام عباس نے حکومت پاکستان کی عمل داری میں دے دیا تھا، خالد ابراہیم کی اس بارے میں یہ دلیل تھی کہ معاہدہ کراچی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ گلگت بلتستان ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے۔ اگرچہ مہاراجہ ہری سنگھ کے انتظامی احکامات ، پاکستان اور بھارت کا اقوام متحدہ میں مقدمہ اور اقوام متحدہ کے قراردادیں گلگت بلتستان کو ریاست جموں وکشمیر کا حصہ ثابت کرتی ہے تاہم خالد ابراہیم ہمیشہ معاہدہ کراچی کو ہی جوازیت بناتے تھے ۔

2008-09میں راقم نے ان سے اس معاملہ پر ان کا تفصیلی انٹرویو بھی کیا تھا ، بعد ازاں ان سے کئی ملاقاتیں ہوئیں تاہم وہ اول و آخر پاکستانی تھے۔ خالد ابراہیم جمہوریت کی بالادستی پر یقین رکھتے تھے، نظریہ ضرورت کا شکار کبھی نہیں ہوئے ، ہمیشہ اصولوں کی سیاست کی اور آئین و قانون کی سربلندی کے لیے اسمبلی کی رکنیت سے دو مرتبہ مستعفی ہونا اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔

6جنوری 2009کو جب خالد ابراہیم مستعفی ہوئے ، بطور سابق ممبر اسمبلی ان کی پنشن 15ہزار روپے ماہانہ تھی، 2009سے 2014تک 62 مہینوں کی پنشن 15ہزار کے حساب سے 9لاکھ 30ہزار بنتی تھی، 2014میں سابق ممبران اسمبلی کی پنشن 50ہزار ہو گئی، 2015میں 10فیصد سالانہ ترقی کے ساتھ 55ہزار اور 2016میں61ہزار کے قریب ان کی پنشن تھی، یوں پنشن کی مد میں خالد ابراہیم کی 25لاکھ سے زائد رقم مل سکتی تھی، اسمبلی ریکارڈ کے مطابق خالد ابراہیم نے اپنا پنشن کیس بنوایا تک نہیں ، البتہ بطور اسمبلی ممبر وہ تنخواہ وصول کرتے رہے، 2016میں انہوں نے بطور اسمبلی ممبر حلف اٹھایا، قانون کے مطابق جب بھی کوئی سابق ممبر اسمبلی دوبارہ اسمبلی ممبر بن جائے تو اسے اس عرصہ کی صرف تنخواہ ملتی ہے پنشن نہیں۔ خالد ابراہیم یہ تنخواہ وصول کرتے رہے، اسمبلی کے اکائونٹ میں ان کی تنخواہ کے ایک لاکھ 90ہزار 377روپے موجود ہیں ۔

خالد ابراہیم کی شادی اپریل 1976میں پاکستان کے سابق صدر ایوب خان کی حقیقی بھانجی سے ہوئی، 21مئی 1990کو خالد ابراہیم نے پہلا الیکشن پی پی پی کے ٹکٹ پر لڑا اور کامیاب ہوئے، 31مارچ 1991کو ممتاز حسین راٹھور جو آزادکشمیر کے وزیراعظم تھے انہوں نے اسمبلی توڑ دی ، 29جون 1991کو دوبارہ الیکشن ہوئے خالد ابراہیم پھر کامیاب ہو گئے، 1993میں انہوں نے مسلم کانفرنس کی طرف سے 486آفیسران کی بھرتیوں کے خلاف اسمبلی اجلاس میں بطور احتجاج شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا، مسلسل 30غیر حاضریوں پر اسمبلی کی رکنیت سے محروم ہو گئے، بعد ازاں ان کے بے نظیر بھٹو سے اختلافات ہو گئے، اختلافات کی وجہ سے بے نظیر بھٹو کا پونچھ ڈویژن میں استقبال کے لیے آنے والی خواتین سے ملاقات نہ کرنا بتایا جاتا ہے، جس کے بعد خالد ابراہیم نے جموں و کشمیر پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تاہم اس سے قبل سردار خالد ابراہیم کی جگہ ممتاز حسین راٹھور کو وزیراعظم بنانے پر ابراہیم خان اور بے نظیر بھٹو کے درمیان اختلافات پیدا ہو چکے تھے بلکہ ابراہیم خان نے بے نظیر بھٹو کو بد دعائیں بھی دی تھیں ، 30جون 1996کے الیکشن میں خالد ابراہیم اپنی جماعت جموں و کشمیر پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے کامیاب ہوئے ، 2001کے انتخابات میں وہ مسلم کانفرنس کے سیاب خالد کے مقابلے میں 151ووٹوں سے ہار گے، 11 جولائی 2006 کو دو حلقوں سے الیکشن لڑا ایک حلقے میں وہ آزادکشمیر کے سابق وزیراعظم سردار یعقوب سے غالباً 750ووٹوں کے فرق سے جیت نہ سکے۔

خالد ابراہیم مسلسل جدوجہد اور سیاسی عمل پر یقین رکھتے تھے، ایسی کسی بھی تعیناتی کے خلاف ان کی آواز ہمیشہ بلند ہوئی جو اعلیٰ تعلق کی وجہ سے عمل میں آئی ہو، پرویز مشرف کے ساتھ جب آزادکشمیر کے سابق صدر سردار انور ایک محفل میں آئے تو انہوں نے سردار انور کو جانتے ہوئے بھی پرویز مشرف سے پوچھا کہ آپ کے ساتھ یہ نا معلوم شخص کون ہے، خالد ابراہیم کا یہ جملہ جمہوری نظام بلڈوز کرنے والوں کے خلاف بڑی چوٹ تھی ، موجودہ صدر سردار مسعود کو انہوں نے کبھی قبول نہیں کیا ، کیونکہ یہ انٹری بھی اوپر سے تھی۔

سال 2018میں اسمبلی اجلاس میں خالد ابراہیم نے اپنی تقریر میں اعلیٰ عدلیہ کے خلاف بات کی ،چیف جسٹس سپریم کورٹ کے خلاف بات کرنے پر انہیں از خود نوٹس لیتے ہوئے طلب کیا گیا مگر وہ حاضر نہ ہوئے ، بعد ازاں انہوں نے اسمبلی سے باہر بھی عدلیہ کے سامنے حاضر ہونے سے انکار کیا اور اپنے موقف پر ڈٹے رہے، ہم نے اس وقت بھی لکھا تھا ۔ خالد ابراہیم کو بطور اسمبلی ممبر عدلیہ کے سامنے پیش ہونا چاہیے اور اگر ان کے چیف جسٹس کے خلاف کوئی تحفظات ہیں تو آئینی راستہ اختیار کریں ، گرفتار کر کے پیش کرنے کے حکم سے تین دن قبل خالد ابراہیم کا انتقال ہو گیا۔

خالد ابراہیم کے سیاسی نظریات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، ان کے والد گرامی سردار ابراہیم کی سیاسی زندگی پر بھی سوال اٹھائے جا سکتے ہیں مثلاً جب پونچھ کے عظیم لوگ مہاراجہ ہری سنگھ کی شخصی حکمرانی کے خلاف مزاحمت کر رہے تھے اس وقت ابراہیم خان نے مہاراجہ کے دربار میں عہدہ کیوں قبول کیا؟ کیا یہ عہدہ اس بیلٹ کے مزاحمت کا روں کے اجتماعی ضمیر کے خلاف نہیں تھا ، پھر معاہدہ کراچی جب 72971مربع کلو میٹر علاقے سے دست برداری اختیار کی گئی ۔

سیاسی و نظریاتی اختلافات سے بالاتر ہو کر اگر دیکھا جائے تو خالد ابراہیم آزادکشمیر کے سب سے باکردار اور اپنے قبیلے کے سب سے بڑے لیڈر تھے، آزادکشمیر کے لوگوں نے انہیں مرنے کے بعد زبردست الفاظ میں ضرور خراج تحسین پیش کیا ، لیکن عملی زندگی میں ساتھ نہیں دیا ، جموں کشمیر پیپلز پارٹی کی بنیاد سے لے کر آج تک خالد ابراہیم کے علاوہ ان کی سیاسی جماعت کا کوئی بھی ٹکٹ ہولڈر کامیاب نہیں ہو سکا،راولاکوٹ حلقہ چار اور تین کے علاوہ آزادکشمیر کے کسی بھی حلقے میں جموں و کشمیر پیپلز پارٹی کا قابل ذکر ووٹ موجود نہیں ، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ لوگ اچھے کردار اور اصولوں کی تعریف تو کرتے تھے، خراج تحسین اور خراج عقیدت بھی پیش کرتے ہیں لیکن ساتھ کھڑے نہیں ہوتے۔ یہی خالد ابراہیم کے ساتھ ہوا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے