ٹرمپ کی جانب سے کھولا ’’ کٹاّ‘‘

ذہن میرا عقل کا بہت ہی غلام ہے۔ اسی باعث غالبؔ کو جو مضامین غیب سے آجایا کرتے تھے میرے نصیب میں نہیں۔ گزشتہ چند مہینوں سے مگر جی میں اچانک بغیر کسی منطقی ٹھوس اور فوری وجہ کے کوئی اندیشہ کوند جاتا ہے اور کچھ دن گزرنے کے بعد بُری خبر کی صورت بھگتنے اور سننے کو ملتا ہے۔

جمعہ کی سہ پہر دھوپ اور دھیرے سے تھپکتی ہوا نے میرے لگائے مالٹے اور کنو کے پودوں کو جو رونق بخش رکھی تھی اسے دیکھ کر جی بہت مطمئن ہوا۔ سگریٹ کے دھوئیںسے بھرے پھیپھڑوں کو لمبی سانس لے کر ماحول میں پھیلی خوشبو سے صاف کرنے کی کوشش کی۔ فرحت کا احساس لئے کمرے میں لوٹاتو نجانے کیوں یہ سوال ذہن میں اُمڈ آیا کہ ٹرمپ اب کیا کرے گا۔

ایک حوالے سے دیکھا جائے تو ذہن میں اُبھرا یہ سوال احمقانہ تھا۔ میں ایک عام پاکستانی ہوں اور ٹرمپ ایک سپرطاقت کا صدر۔ مجھے اس کی سوچ سے کیا لینا۔ تاہم ذہن ایسی مشق میں مصروف ہوگیا جسے پڑھے لکھے لوگ War Gamingکہا کرتے ہیں۔

اس روز خبر آئی تھی کہ امریکی سی آئی اے نے خود کو میسر معلومات کے مطابق یہ تجزیہ کیا ہے کہ باغی صحافی جمال خشوگی کی استنبول میں ہلاکت،سعودی عرب کے شہزادہ محمد بن سلمان کی براہِ راست مداخلت کے بغیر ممکن ہی نہیں تھی۔

فرض کیا یہ خبر درست ثابت ہو اور اگر سی آئی اے اپنا تجزیہ باقاعدہ طورپر اپنے صدر کے روبرورکھ دے تو ٹرمپ کے لئے سعودی عرب کے خلاف چند تعزیری اقدامات اٹھانا ضروری ہوجائے گا۔ وہ یہ اقدامات اٹھانے سے گریز کرے گا تو جنوری2019میں حلف لینے والا ہائوس جہاں حال ہی میں ہوئے انتخابات کی بدولت ڈیموکریٹس کو اکثریت ملی ہے،اپنے صدر کے لئے کئی مشکلات کھڑی کردے گا۔

جنوری کی آمد سے قبل لیکن امریکی صدر کے پاس چالیس دن ہیں۔ان دنوں میں وہ عالمی محاذ پر کوئی ایسا قدم اٹھاسکتا ہے جس کی وجہ سے دُنیا خشوگی کے معاملے کو بھول کر کسی اور سنگین معاملے کے بارے میں پریشانی سے بھرے سوالات اٹھانے پر مجبور ہوسکتی ہے۔ سوال ذہن میں یہ اٹھاکہ امریکہ سعودی تعلقات کو کچھ وقت کے لئے نظرانداز کرنے میں مدد دینے والی وہ Diversionکیا ہوسکتی ہے۔

اس سوال کی بابت بہت سوچا تو خیال آیا کہ شام کی موجودہ صورت حال ٹرمپ کو کوئی مؤثر بہانہ فراہم کرسکتی ہے۔شام کے حوالے سے اٹھے امکانات کو جانچا تو یاد آگیا کہ وہاں وکھری نوعیت کی امریکی مداخلت روس کو اشتعال دلاسکتی ہے۔ شام میں نصب ہوئے ایرانی میزائل اسرائیل کا رُخ بھی کرسکتے ہیں اور ان تمام ممالک کے ملوث ہوجانے کے سبب خشوگی کی کہانی کو بھلانے کی خاطر اٹھایا قدم بالآخر ایک خطرناک اور گھمبیر صورتحال تخلیق کرسکتا ہے۔ شام میں کسی نئے پنگے کے امکان کو لہذا رد کردیا۔

شام کو بھلادینے کے بعد توجہ منتقل ہوگئی ایران کی جانب۔ٹرمپ نے اس ملک کے ساتھ اوبامہ کے ایٹمی پروگرام پر کئے معاہدے کو مسترد کردیا۔امریکہ کی اس ملک پر لگائی اقتصادی پابندیاں دوبارہ لاگو ہوگئی ہیں۔ اپنے یورپی اتحادیوں کو ٹرمپ بارہا متنبہ کئے چلاجارہا ہے کہ اگر انہوں نے ایران کے ساتھ اپنے اقتصادی اور تجارتی روابط برقرار رکھے تو امریکہ کے ساتھ ان کے کاروباری تعلقات قائم نہ رہ پائیں گے۔

یورپی ممالک کے برعکس ٹرمپ نے اپنے دوست بھارت کو یہ رعایت دی ہے کہ وہ نہ صرف اپنی ضرورت کے لئے ایرانی تیل خرید سکتا ہے بلکہ افغانستان کی درآمدات وبرآمدات کے لئے پاکستان کی بندرگاہوں کے متبادل ابھرتی چاہ بہار کی بندرگاہ پرسرمایہ کاری بھی جاری رکھنے کا مجاز ہے۔ ایران کے خلاف اقتصادی پابندیوں سے بڑھ کر ’’کچھ‘‘کرنے کا مصمم ارادہ ہوتا تو بھارت کو یہ خصوصی رعایت فراہم نہ کی جاتی۔

شام اور ایران میں خشوگی کے قتل کی وجہ سے ابھرے سوالات کو بھلانے کی خاطر اٹھائے ممکنہ امریکی اقدامات کو رد کردینے کے بعد اچانک خیال آیا کہ افغانستان بھی تو ہے۔ ٹرمپ کا لگایا خصوصی مشیر زلمے خلیل زاد اتوار کے روز قطر میں طالبان کے وفد کے ساتھ تین دنوں تک پھیلی ملاقاتوں کے بعد کابل پہنچا ہے۔ یوں محسوس ہورہا ہے کہ افغان صدر کو اب اس امر پر آمادہ کیا جارہا ہے کہ آئندہ سال کے اپریل میں ہونے والے صدارتی انتخابات کو بھول کر فی الوقت طالبان سے سیاسی سمجھوتے کی کوئی راہ نکالی جائے۔

افغانستان کا ذکر ہو تو پاکستان کو نظرانداز کرناممکن ہی نہیں۔ دل خودبخود یہ سوچنے کو مائل ہوگیا کہ ٹرمپ اپنے دل میں پاکستان کے خلاف جمع ہوئے غصے کو جنوری 2019سے قبل مزید شدت سے ظاہر کرنے کے لئے بھی تو استعمال کرسکتا ہے۔

امریکی وقت کے مطابق اتوار کی صبح یہ واقعہ ہوچکا ہے۔

Fox on Sundayنامی پروگرام کے اینکر کو One on Oneانٹرویو دیتے ہوئے بغیرکسی معقول اور فوری وجہ کے ٹرمپ نے پاکستان کے خلاف بدزبانی شروع کردی۔بات اگرچہ اس ریٹائرڈ امریکی کمانڈر کے حوالے سے شروع ہوئی تھی جس نے اسامہ بن لادن کے خلاف ایبٹ ا ٓباد میں ہوئے آپریشن کو لیڈ کیا تھا۔

یہ کمانڈر نام جس کا Ravenہے ان دنوں ٹرمپ کے اپنے ملک کے صحافیوں کے خلاف اپنائے فسطائی رویے کی اپنے بیانات کے ذریعے مسلسل مذمت کررہا ہے۔ٹرمپ نے اس کمانڈر کو ہیلری کلنٹن کا حامی اور اوبامہ کا چمچہ کہا اور یہ کہنے کے بعد فوراََ یہ الزام لگانے میں مصروف ہوگیا کہ اسامہ بن لادن کئی برسوں سے ایبٹ آباد کے ایک محل نمامکان میں موجود تھا۔ امریکہ کے جاسوسی اداروں نے اس کا سراغ لگانے میں ضرورت سے زیادہ وقت صرف کیا۔اپنی ایجنسیوں کی ایک حوالے سے ناکامی کے اعتراف کے بعد ٹرمپ نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے مجھے چونکا دیا کہ پاکستان میں ’’ہر شخص‘‘ کو معلوم تھا کہ اسامہ بن لادن کہاں ہے۔’’پاکستان مگر ہماری ذرہ بھر پرواہ نہیں کرتا۔ہم سے رقوم بٹورتا رہا مگر عملی حوالوں سے ہمارا ساتھ کبھی نہیں دیا‘‘۔

یاد رہے کہ 2011کے ایبٹ آباد آپریشن کے بعد یہ پہلی بار ہے کہ کسی عام امریکی اہلکار نے نہیں بلکہ امریکی صدر نے بغیر لگی لپٹی رکھے پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت پر یہ الزام لگایا ہے کہ ا نہیں اسامہ کی ایبٹ آباد میں موجودگی کا علم تھا۔ اسے امریکہ کے حوالے کرنے کے ضمن میں لیکن ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت تامل سے کام لیا گیا۔

امریکی صدر کی جانب سے اتوار کی صبح براہِ راست لگایا یہ الزام بہت سنگین ہے۔ مجھے قوی یقین ہے کہ یہ پورا ہفتہ امریکہ کا نام نہاد News Cycleاس الزام کی لسی بنانے میں مصروف رہے گا۔ اپنے باہمی اختلافات بھلاکر امریکی میڈیا اور وہاں کے دفاعی مبصرین یکسوہوکر ٹرمپ کی فسطائیت اور سعودی عرب سے دوستی سے متعلق سوالات کو نظرانداز کرتے ہوئے پاکستان کی مذمت میں مصروف رہیں گے۔ اس مذمت کی بدولت سوالات یہ بھی اُٹھیں گے کہ پاکستان سے اس کی مبینہ ’’بے وفائی کا بدلہ‘‘ کیسے لیا جائے۔

یہ سوالات اٹھائے جانے کا وقت بہت اہم ہے۔ سعودی عرب، چین اور یو اے ای کے ’’کامیاب‘‘ دوروں کے باوجود ایک بھاری بھرکم Bail out Packageمانگنے پاکستان کا IMFکے پاس کشکول لے کرجانا ضروری ہے۔ ٹرمپ کی جانب سے کھولے ’’کٹے‘‘کے بعد یہ کشکول بہت بھاری ہوجائے گا۔ اس کا بوجھ کیسے کم کیا جائے اور اس سب سے بڑھ کر یہ سوال بھی کہ ٹرمپ کی جانب سے براہِ راست لگائے الزام کا منہ توڑ نہیں بلکہ مؤثر جواب کیسے دیا جائے۔ دیکھتے ہیں ہمارے دوست فواد چودھری صاحب کی شعلہ بیانی اس ضمن میں کیا جلوہ دکھاتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے