فی الحال ’’نیویں نیویں‘‘ ہو کروقت گزاریں

سعودی خاندان کی قبائلی غیرت کو یقینا اس وقت بہت دھچکہ لگاہوگا جب صدر ٹرمپ نے اپنے حامیوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے بہت رعونت سے اصرار کیا کہ اگر امریکی فوج نہ ہو تو یہ خاندان دو ہفتوں سے زیادہ اپنی بادشاہت قائم نہیں رکھ سکتا۔ شاہ سلمان اور ان کے ولی عہد نے مگر درگزر سے کام لیا۔ جوابی بیان دینے سے اجتناب برتا۔

اس صدی کا آغاز ہوتے ہی امریکہ نے دریافت کیا کہ جنوبی ایشیاء میں اس کا اصل دوست تو بھارت ہے۔ اس ملک سے طویل المدتی تعلقات استوار کرنے کی خاطر سابق صدر کلنٹن محض 5گھنٹوں کو پاکستان آیا۔ جنرل پرویز مشرف اقتدار پر قابض ہوچکے تھے۔ ان سے کیمروں کے سامنے ہاتھ ملانا بھی گوارہ نہ کیا۔ پاکستان ٹیلی وژن کے ذریعے پاکستانی عوام سے خطاب کیا اور انہیں ’’بندے کے پتر‘‘ بن جانے کی تلقین کی۔ اس تقریر کے بعد وہ 5روزہ قیام کے لئے بھارت پرواز کرگیا۔

کلنٹن کے بعد بش اور اس کے بعد اوبامہ بھارت-امریکہ تعلقات کو مزید گہرائی اور گیرائی مہیا کرنے میں لگے رہے۔ امریکہ میں ٹرمپ اور بھارت میں مودی کی آمد کے بعد سے یہ دونوں ایک دوسرے کے ’’جگری‘‘ ہونے کے دعوے دار بھی ہیں۔ چند ہی ماہ قبل بھارت کیساتھ مگر تجارتی عدم توازن کا شکوہ کرتے ہوئے ٹرمپ نے مود ی کی گلابی انگریزی کی نقل اتارتے ہوئے اُس کا مذاق اُڑایا۔ مودی کی مگر ’’غیرت‘‘ نہ جاگی۔ دڑوٹ گیا۔

ہمارا دوست چین بھی ٹرمپ کے طفلانہ ٹویٹس کی مسلسل زد میں رہتا ہے۔ چینی مستقل صبر کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ایساہی عالم جرمنی سمیت مختلف یورپی ممالک کے سربراہوں کے رویے پر حاوی ہوا نظر آتا ہے۔

ایمان داری کی بات مگر یہ بھی ہے کہ ہمارے وزیر اعظم عمران خان صاحب دیگر ممالک کے رہ نمائوں کی طرح ٹرمپ کی پاکستان کے بارے میں حالیہ ہرزہ سرائی کے بارے میں درگزر سے کام لیتے تو ان کے حامی بھی ناراض ہوجاتے۔ قومی غیرت وحمیت کا سیاپا خاں صاحب گزشتہ کئی برسوں سے کئے چلے جارہے ہیں۔ امریکی ڈرونز کے خلاف انہوں نے جلوس نکالے ہیں۔ افغانستان میں مقیم امریکی افواج کو جانے والی رسد ان کے چاہنے والوں نے کئی بار روکنے کی کوشش کی۔ ان کے لئے ٹرمپ کی ہرزہ سرائی کا جواب دینے کے علاوہ کوئی آپشن موجود نہ تھا۔

پیر کے روز لہذا ٹویٹس کے ذریعے انہوں نے بقول ہمارے میڈیا کے ٹرمپ کو ’’کرارا‘‘ جواب دے کر قوم کو مطمئن کردیا۔ان کے حامیوں کا اصرار ہے کہ ٹرمپ ہی نہیں پورے امریکہ کو بھی اب سمجھ آگئی ہوگی کہ پاکستان بالآخر غیرت مند قیادت کی پناہ میں ہے۔ اس ملک کے بارے میں ہرزہ سرائی ہوگی تو منہ توڑ جواب ملے گا۔

عمران خان سے منہ توڑ جواب کی ٹھوس وجوہات کی بناء پر موجود توقعات کو خوب جانتے ہوئے بھی لیکن میری خواہش تھی کہ وزیر اعظم ترنت جواب دینے سے گریز کرتے۔

منگل کی صبح جو ’’برملا‘‘ چھپا ہے اس کے ذریعے مجھ کم عقل نے یہ عرض گزارنے کی جسارت کی ہے کہ جمال خشوگی کے قتل کی وجہ سے اٹھے سوالات کی بدولت امریکی صدر کو تو جہ کہیں اور مبذول کرنے والی Diversionدرکار ہے۔

شام اور ایران میں کوئی بڑی ’’کارروائی‘‘ Diversionفراہم کرسکتی تھی۔ان دونوں ممالک سے بڑا پنگاہ لینے کے مگر سنگین مضمرات بھی ہیں۔روس کا صدرپیوٹن شام کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا ہے۔ ایران کو ایک حد سے زیادہ تنگ کیا گیا تو حزب اللہ لبنان سے اسرائیل پر راکٹ برسانا شروع ہوجائے گی۔یمن کے حوثی سعودی عرب پر میزائل گرانا شروع ہوجائیں گے۔ عراق میں بھی ایران کے حامی متحرک ہوجائیں گے۔

ٹرمپ کو Diversionکی تلاش میں Safe-Safeکھیلنا تھا۔ افغانستان کا بہانہ پاکستان کو نشانہ بنانے میں بہت مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ اسامہ بن لادن کا ذکر ہو تو امریکی اپنے باہمی اختلافات بھلاکر نائن الیون کو یاد کرتے ہوئے سینہ کوبی میں مصروف ہوجاتے ہیں۔لاہور کی گلیوں میں مستعمل زبان کے مطابق ٹرمپ دیوانہ تو ہے مگر اتنا بھی نہیں۔ ’’گھر کا پکا‘‘ ہے۔ اس نے بہت مکاری سے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کے لئے اسامہ بن لادن کی یاد دلائی۔ ایبٹ آباد کا ذکر کیا۔

ٹرمپ کے بدترین امریکی مخالفین بھی اسامہ اور ایبٹ آباد کا ذکر سننے کے بعد وہی سوچتے ہیں جس کا اظہار ٹرمپ نے سفارتی حوالوں سے ناقابل قبول الفاظ میں کیا ہے۔مجھے قوی یقین ہے کہ ٹرمپ کا مستقل مذاق اُڑاتے ہوئے Ratingsکی دوڑ میں نمایاں رہتے Late Night Showsمیں ٹرمپ کے پاکستان کے خلاف بیان،ٹویٹس اور ان کے جواب میں پاکستانی وزیر اعظم کے لکھے ٹویٹس کا ذکر شروع ہوچکا ہوگا۔رواں ہفتے کے نیوز سائیکل میں اسامہ بن لادن کے حوالے سے پاکستان کا ذکر تواتر کے ساتھ ہوگا۔ اس ذکر کے بعد سوالات اٹھائے جائیں گے کہ مبینہ طورپر نائن الیون کے ماسٹر مائنڈ-اسامہ بن لادن- کو ’’پناہ دینے والے‘‘ پاکستان کو ’’سبق‘‘ کیوں نہیں سکھایا گیا۔

’’سبق سکھانے‘‘ والی باتوں کے ہوتے ہوئے پاکستان کو IMFسے اپنی مشکلات کے مداوے کے لئے کوئی بھاری Bail Out Packageکی اُمید پرازسرنوغورکرنا ہوگا۔

ہمارے ہاں’’ سب اچھے‘‘ کی داستانیں گھڑنے والے ’’دانشور‘‘ ایک ڈھونڈنے نکلوتو ہزار مل جاتے ہیں۔ وہ یا ددلاتے رہتے ہیں کہ امریکہ IMFکے فیصلوں پر حتمی اہمیت کا حامل نہیں۔ ایک ’’بین الاقوامی ادارہ‘‘ ہے۔ چین بھی اس کا ایک اہم رکن ہے۔

ہمیں ’’سب اچھے‘‘ کی گولی سے مطمئن کرنے کی کوششوں میں مصروف یہ ’’دانشور‘‘انتہائی بددیانتی سے یہ بھول جاتے ہیں کہ FATFبھی ایک ’’بین الاقوامی‘‘ ادارہ ہے۔ وہاں پاکستان کو ’’گرے لسٹ‘‘ میں پھینکنے کا سوال اٹھا تو سعودی عرب اور چین نے بھی اس فیصلے کی حمایت میں ووٹ دیا تھا۔ صرف ترکی نے مزاحمت دکھائی۔

صرف امریکہ ہی نہیں برطانیہ اور فرانس نے بھی FATFکے ہاں ہمارے خلاف رپٹ لکھوائی تھی۔فرانس کے صدر کا ہمارے وزیر اعظم نے وہ فون نہیںلیا جو موصوف کو وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کی مبارک باد دینے کے لئے آیا تھا۔عمران خان صاحب اس وقت صحافی دوستوں سے گپ شپ میں مصروف تھے۔ اسے ’’بعد میں‘‘ فون کرنے کا پیغا م دیا گیا۔برطانیہ کی وزیر اعظم Brexitکی وجہ سے بذاتِ خود مصیبت کا شکارہے۔IMFکا پاکستان کے بارے میں رویہ وہی ہوگا جو امریکہ چاہے گا۔اس کے علاوہ جو بھی کہا جائے جھوٹ ہے۔ قوم کو گمراہ کرنے والا جھوٹ ۔

بہتر یہی ہے کہ فی الوقت ’’نیویں نیویں‘‘ رہ کر وقت گزارہ جائے۔ ٹرمپ زلمے خلیل زاد کے ذریعے افغانستان میں جو گیم لگانے کے چکر میں ہے وہ کامیاب نہیں ہوپائے گی۔ ہمیں اس وقت افغانستان کے حوالے سے اپنی اہمیت اور قربانیاں یاد دلانے کی ضرورت نہیں۔ ا مریکہ جانے اور افغانستان ۔زلمے خلیل زاد ناکام ہوگیا تو پاکستان سے ٹرمپ انتظامیہ کسی نہ کسی صورت ایک بار پھر رجوع کرنے کو مجبور ہوجائے گی۔ اس وقت کا انتظار کریں اور ٹرمپ کو اسامہ بن لادن سے جڑا کارڈ کھیلنے نہ دیں۔ دیوانگی کا جواب ’’غیرت‘ ‘ نہیں فراست وحکمت ہوا کرتی ہے۔

پاکستان یقینا اس وقت سنگین معاشی مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔’’بحران‘‘ کی شکل مگر موجود نہیں۔ اتاولے ہونے کی لہذا ضرورت نہیں۔ہم درگزرسے کام لیں تو ٹرمپ جلد ہی کوئی اور Diversionڈھونڈنے کو مجبور ہوجائے گا۔ اس کی بنائی پچ پر کھیلنے سے گریز کریں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے